Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

وجودِ زن سے ہے کائنات میں رنگ

کائنات کی سب سے بہترین تخلیق عورت ہے۔ وجود زن سے کائنات کا حسن قائم ہے۔ چنانچہ عورت کے تحفظ و تکریم بنی نوع انسانی کا فریضہ ہے مگر یہ مرد کی برتری اور حکمرانی کا دبدبہ ہے یا انائے مرداں ہے کہ آج عورت کو محکوم بنا کر رکھنا مردانگی تصور کیا جاتا ہے مگر اسلام وہ آفاقی مذہب ہے جس نے کائنات کی سب سے خوبصورت تخلیق کو نہ صرف تحفظ و تکریم دینے کا منظر پیش کیا ہے بلکہ اسلام واحد مذہب ہے جس نے ہر سطح پر عورت کو برابری کا درجہ دینے کا کام کیا ہے اور مغرب جو عورتوں کی آزادی اور برابری کا بھونپو بجاتا رہا ہے مگر اس آزادی کی تہہ میں جاکے دیکھا جائے تو اس آزادی اور برابری کے میزان پر عورت تکریم نہیں بلکہ تذلیل کے دور سے گزر رہی ہے۔ مغرب میں آزادی نسواں کے نام پر عورتوں کا وقار مجروح ہو رہا ہے۔ عورتوں کو وہ حقوق اور تکریم نہیں حاصل ہے جو 14 سو سال قبل اسلام نے مقرر کئے ہیں۔ بلاشبہ دنیا میں کوئی بھی دھرم، مذہب نہیں ہے جو عورتوں کے ضابطۂ حیات کو متعین کرتا ہو۔ اسلام ایک ایسا نظام حیات ہے جہاں مردوعورت کو زندگی گزارنے کا ایسا درس دیا گیا ہے جو مغرب کے آزادیٔ نسواں کو آئینہ ہی نہیں دکھاتا ہے بلکہ یہ تلقین کرتا ہے کہ اسلام عورتوں کے تحفظ و تکریم کا پیامبر ہے بلکہ خواتین کی اصل آزادی کا نقیب بھی ہے۔ زیر نظر مضمون مغربی تہذیب کے تناظر میں اسلام میں خواتین کی آزادی، اسلامی معاشرہ کے ان روشن پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے جس سے متاثر ہو کر آج بھی بڑی تعداد میں مغربی خواتین اسلام کی طرف متوجہ ہو رہی ہیں۔ اسلام نے خواتین کو جو عظمت و مساوات بخشی ہے اس سے متاثر ہوکر دیگر اقوام کی خواتین مشرف بہ اسلام ہو رہی ہیں۔ بلاشبہ یہ مضمون اہل مغرب کے لئے ایک ایسا درس آئینہ ہے، جس میں خواتین کی آزادی و مساوات کا نعرہ محض ایک نعرۂ استحصال نظر آتا ہے اور اسلام و عورت کی حیثیت اور عظمت اس نعرہ پر حاوی نظر آتی ہے:

آج حقوق نسواں اور خواتین کی آزادی کے تعلق سے پوری دنیا میں زبردست طریقہ سے تشہیر کی جا رہی ہے۔ دراصل وہ نہ تو خواتین کے حق میں ہے اور نہ ہی ان کے وقار کو بلند کرتی ہے۔ امریکہ، یوروپ اور ہندوستان سمیت دیگر بہت سے ممالک میں آج بھی خواتین کو وہ آزادی اور ان کے حقوق کی ادائیگی نہیں کی جا رہی ہے جوکہ ظہور اسلام کے بعد قرآن و حدیث کی روشنی میں خواتین کے لئے دائمی طور پر مقرر کر دیئے گئے تھے۔ دنیا میں ایک بھی مذہب اسلام کے مقابلے میں ایسا نہیں ہے جس نے ضابطۂ حیات متعین کر دیا ہو۔ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے منظم طریقہ سے انسان کو زندگی گزارنے کا آفاقی درس دیا ہے۔ آج مغربی دنیا کے بہت سے ممالک اس بات کا دعویٰ پیش کر رہے ہیں کہ انہوں نے ہی خواتین کو آزادی فراہم کرائی ہے جبکہ یہ بات قطعی طور پر لغو ہے۔ انہوں نے آزادی کے نام پر خواتین کا استحصال کیا ہے۔ آزادی کی آڑ میں انہوں نے خواتین کو آرائشی کھلونا یا پھر تشہیر کا ذریعہ ہی بنا دیا ہے۔ اسلام نے خواتین کو نہ صرف باوقار کیا ہے بلکہ ان کی آزادی کے دروازے بھی کھول دیئے ہیں۔ آج دیگر اقوام اہل اسلام پر یہ الزام عائد کرتی ہیں کہ اسلام نے خواتین کو قید میں رکھا ہے، وہ لوگ اگر اسلامی تعلیمات سے واقف ہو جائیں اور اسلامی ہدایات کا عالمانہ جائزہ لیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اسلام نے ہی خواتین کو 14 سو سال قبل آزادی کی راہ پر گامزن کر دیا تھا۔ درحقیقت آج خواتین کی جس آزادی کا شور شرابا ہے وہ مصنوعی آزادی ہے۔ حقیقی آزادی تو اسلام نے ہی خواتین کو عطا کی ہے اور اسلام ہی خواتین کی آزادی کا نقیب ہے۔

آج بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مغربی ممالک نے خواتین کو آزادی فراہم کرا دی ہے یعنی 20ویں صدی میں خواتین کی آزادی کے لئے جو تحریک چلائی گئی تھی وہ ثمر آور ثابت ہوئی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اپنی آزادی کے لئے یہ تحریک خود خواتین نے نہیں چلائی تھی بلکہ 7ویں صدی میں نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے اللہ تعالیٰ نے جب پیغمبر حضرت محمدؐ کو مبعوث کیا تھا تو آپ ؐ کے توسط سے ہی اللہ تعالیٰ کے احکامات بندوں تک پہنچائے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام پاک اور پیغمبر حضرت محمدؐ کی روایات جنہیں حدیث یا سنت بھی کہتے ہیں ان سے ہی خواتین کے حقوق اور فرائض کے تعلق سے احکامات اخذ کئے گئے تھے، جن میں کسی بھی طرح کی تحریف کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن کریم اور حدیث کے احکامات کی روشنی میں خواتین کے حقوق و فرائض اور ان کی آزادی کے تعلق سے ضابطے وضع کر دیئے گئے تھے۔

انسانی حقوق:
14 سو سال قبل اسلام نے خواتین کو بھی مساوی طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس کی حمد و ثنا بیان کرنے کے لئے پابند کیا تھا۔ اسلام نے انہیں نہ صرف یکساں طور پر خداوند قدوس کی عبادت کرنے کا درس دیا تھا بلکہ انسانیت کے اعتبار سے معاشرہ میں انہیں مردوں کی مانند مساوی حقوق بھی عطا کئے گئے تھے۔ قرآن کریم کی سورۃ النساء کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اے نوع انسان اپنے اس رب کے نزدیک فرض شناس بنو جس نے ایک روح سے تمہاری تخلیق کی اور اس سے ایک ساتھی پیدا کیا اور ان دونوں سے پوری دنیا میں کثیر تعداد میں مرد وخواتین پھیل گئے۔ اللہ کے تئیں اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے فرض شناس بنو، جس سے تم ایک دوسرے کے لئے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہو اور اس بطن کے لئے جس سے تم پیدا ہوئے۔ دیکھو اللہ تعالیٰ تم سب کی نگرانی کرنے والا ہے‘‘(4:1) چونکہ تمام مرد اور عورتیں ایک ہی جزو سے پیدا ہوتے ہیں لہذا مساوات اور انسانیت کے اعتبار سے وہ دونوں برابر ہیں۔ فطری اعتبار سے کوئی بھی عورت بری نہیں ہوتی ہے جیسا کہ دیگر مذاہب کا یقین ہے، اگر وہ بری ہیں تو مرد بھی برے ہوں گے۔ اسی طرح ان میں سے کوئی بھی برتر نہیں ہے کیونکہ ایسا ہونے پر ان میں مساوات کا ٹکراؤ پیدا ہو جائے گا۔

شہری (civil) حقوق”:
عورت کی انفرادی شخصیت کو تسلیم کرنے کی بنیاد پر انہیں اپنی آزادی اور اظہار خیال کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اسے اپنا مذہب اختیار کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ اس ضمن میں رب تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’مذہب میں کسی بھی قسم کی زبردستی نہیں ہے۔ راہ راست ہی برائیوں سے دور رکھتا ہے‘‘ (2.256) اسلام نے ہی اپنے خیالات پیش کرنے کے لئے خواتین کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کی بہت سی روایتوں میں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ کوئی بھی خاتون براہ راست آپؐ سے سوال پوچھ سکتی تھی اور مذہب کے تعلق سے یا پھر اقتصادی معاملات اور سماجی معاملات کے بارے میں اپنا اظہار خیال کر سکتی تھی۔ مسلمان عورتوں کو اپنا شوہر منتخب کرنے اور شادی کے بعد اپنا نام برقرار رکھنے کا اختیار حاصل ہے۔ مسلمان عورت کا بیان قانونی تنازعات میں معقولیت اور جواز رکھتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جن شعبوں میں خواتین زیادہ معروف ہوتی ہیں وہاں پر ان کا بیان حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔

سماجی حقوق:
پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’ہر مسلم مرد او عورت پر تعلیم حاصل کرنا فرض ہے‘‘ اس تعلیم میں قرآن کریم اور حدیث شریف کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر علوم کی تعلیمات بھی شامل ہیں۔ خواتین اور مردوں دونوں میں علم سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ چنانچہ ان دونوں کی ہی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں اچھے برتاؤ کو فروغ دیں اور برے برتاؤ کو ترک کر دیں۔ لہذا مسلم خواتین کو اپنی فطری ذہانت اور اپنی مرضی سے بہتر سے بہتر تعلیم حاصل کرنی چاہئے تاکہ وہ معاشرہ میں اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ اسلام میں گھر کی دیکھ بھال، شوہر کو ہر قسم کا تعاون، بچوں کی پیدائش وپرورش اور ان کی تعلیم و تربیت ایسی اولین ذمہ داریوں میں سے ہیں جن کے لئے خواتین کے رول کو زبردست قسم کی توقیر عطا کی گئی ہے۔

اگر اس میں ایسی ذہانت موجود ہے کہ وہ گھر سے باہر جاکر معاشرہ کے لئے کچھ بہتر کام کر سکتی ہے تو وہ اپنی گھریلو ذمہ داریاں انجام دینے کے بعد یہ کام کر سکتی ہے۔ مرد و خواتین کے مساوی حقوق و اختیارات کے علاوہ اسلام مرد و خواتین کے فطری فرق کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے اور اسے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ کچھ کام ایسے ہیں جو مرد کے لئے بہت زیادہ مناسب ہیں اور کچھ کام خواتین کے لئے زیادہ مناسب ہیں۔ ان دونوں میں سے کسی کے بھی کام نہ تو کبھی ختم ہوتے ہیں اور نہ ہی فوائد سے عاری ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرد و خواتین کو مساوی طور پر ہی اجر دے گا چاہے کسی بھی کام کی نوعیت ایک جیسی ہی کیوں نہ ہو۔ جہاں تک ماں کے روپ میں عورت کے مقام کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے‘‘۔

اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ میں کامیابی کے راستے ماں میں ہی تلاش کئے جا سکتے ہیں کیونکہ وہ پرورش کرتی ہے۔ سب سے پہلے اور سب سے زبردست تحفظ اور محبت و ہمدردی کا احساس اس ماں سے ہی ملتا ہے جوکہ اس کی پرورش کرتی ہے اور اسے تربیت دیتی ہے۔ اس لئے ایک خاتون کا تعلیم یافتہ ہونا نہایت ضروری ہے اور ایک سمجھدار والدین ہونے کے لئے بھی اسے باضمیر ہونا چاہئے۔

سیاسی حقوق:
14 سو سال قبل اللہ تعالیٰ کی جانب سے خواتین کو ایک حق دیا گیا تھا اور وہ حق ووٹ دینے کا ہے۔ کسی بھی عوامی معاملے میں ایک عورت اپنے خیالات کا اظہار کر سکتی ہے۔ قرآن کریم کی (60:12) ایک آیت میں پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ سے یہ فرمایا گیا تھا کہ جب بھی کوئی عقیدت مند عورت ان کے پاس آئے اور بیعت کرنے کا ارادہ ظاہرکرے تو انہیں اس کے عہد کو تسلیم کر لینا چاہئے۔ اس سے خواتین کو اپنے قائد کا انتخاب کرنے اور عوامی طور پر اس کا اعلان کرنے کا حق مل گیا ہے۔ اسلام میں کسی عورت کو اعلیٰ اور اہم عہدے پر فائز ہونے سے بھی نہیں روکا گیا ہے۔ حضرت عبد الرحمن ابن عوف نے حضرت عثمان بن عفانؓ کو خلیفہ مقرر کرنے کی سفارش کرنے سے قبل بہت سی خواتین سے مشورہ کیا تھا۔

اقتصادی حقوق:
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’بے شک مرد اور عورت کو پیدا کرنے کا ایک مقصد ہے۔ تم مختلف اور اقسام انواع عوامل کے لئے جدوجہد کرتے ہو‘‘ (92:34)۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے انوکھے کردار کے ساتھ مرد اور عورت کو ایک دوسرے سے مختلف پیدا کیا ہے، جس میں تمام عوامل اور مہارتیں بھی مختلف ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں پر ان کے کے لئے محنت کی درجہ بندی (تقسیم) کر دی گئی ہے اسی طرح سے گھر میں بھی ہے۔ ہر ایک اہل خانہ کی ذمہ داریاں مختلف ہیں۔ عمومی طور پر اسلام کا یہ نظریہ ہے کہ خواتین کو افزائشی، رول سونپا گیا ہے اور مرد کو ایک سر پرست ہونے کا رول عطا کیا گیا ہے۔ اسی لئے خواتین کو بھی اقتصادی معاونت کا حق دیا گیا ہے۔

اسی ضمن میں قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ’’مرد ہی خواتین کی دیکھ بھال کرنے کے لئے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کچھ کو دوسروں پر سبقت حاصل کرنے کی صلاحیت دی ہے اور چونکہ وہ اپنی دولت (خواتین کی معاونت کے لئے ) صرف کرتے ہیں‘‘ (4.34)۔ سرپرستی اور فیاضانہ اقتصادی ذمہ داری مردوں کو سونپی گئی ہے۔ علاوہ ازیں وہ خواتین کی نہ صرف معاشی معاونت کرتے ہیں بلکہ اس کا جسمانی تحفظ کرتے ہوئے ان سے مہذب برتاؤ بھی کرتے ہیں۔ مسلم خاتون کو یہ مراعات حاصل ہے کہ وہ پیسے کما سکتی ہے۔ اسے اپنی جائیداد خریدنے کا حق حاصل ہے۔ وہ کسی بھی طرح کے قانونی معاہدے کر سکتی ہے اور جیسا وہ چاہے اپنی املاک کا انتظام سنبھال سکتی ہے۔ وہ اپنی تجارت کو فروغ بھی دے سکتی ہے اور شوہر سمیت کوئی بھی شخص اس کی آمدنی پر دعویٰ نہیں کر سکتا ہے۔ اس بات کی بھی قرآن کریم میں وضاحت کر دی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ’’اور ان چیزوں کو کسی بھی طرح سے ضائع نہیں کیا گیا ہے جن میں سے دوسروں کے مقابلے تمہارے درمیان کچھ لوگوں کو فراخدلی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے تحائف عطا کئے ہیں۔ مردوں کو وہ عطا کیا گیا جو کچھ وہ کماتے ہیں اور خواتین کو وہ سب عطا کیا گیا جو کچھ وہ کماتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی کمائی میں سے صدقہ ادا کرنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تمام جانکاریاں ہیں‘‘۔ ایک خاتون اپنے رشتہ داروں کی وارث ہوتی ہے۔ اس ضمن میں قرآن کریم حکم دیتا ہے کہ ’’مردوں کو اپنے والدین یا رشتہ داروں کے ذریعہ چھوڑے گئے اثاثوں میں حصہ ہوتا ہے اور اسی طرح خواتین کا اپنے والدین یا رشتہ داروں کے ذریعہ چھوڑے گئے اثاثوں میں سے تھوڑا یا زیادہ یعنی مقرر شدہ حصہ ہوتا ہے (4:7)۔

اہلیہ کے حقوق:
قرآن کریم میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے درمیان میں سے تمہارے ساتھی (جوڑے) بنا دیئے تاکہ تم ان کے ساتھ امن وسکون کی زندگی گزارو اور اسی نے ان دونوں کے درمیان رحم دلی اور محبت کا جذبہ پیدا کیا۔بے شک یہ وہ نشانیاں ہیں جو انسانوں میں نظر آتی ہیں(30:12) چنانچہ شادی کا محض جسمانی اور جذباتی رشتہ نہیں ہے بلکہ حقیقت میں یہ خدا وند قدوس کی ایک نشانی ہے۔ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جوکہ سماوی رہنمائی کی بنیاد مشترکہ حقوق اور ذمہ داریوں پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ضابطوں کا نظام وضع کیا ہے جو مرد وخواتین کے درمیان خوش گوار رابطہ کرنے میں معاون ہوتا ہے، اسی لئے حکم ربانی کے مطابق مرد وخواتین ایک دوسرے کے لباس ہیں (2:187)۔

ملبوسات جسمانی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ وہ خوبصورتی اور جسم کے دیگر اعضاء کو چھپاتے ہیں۔ اسی لئے ایک جوڑے کو اسی نظریہ سے دیکھا جاتا ہے۔مسلم زوجات کو بہت سے حقوق حاصل ہیں۔ مہر قبول کرنا بیوی کا اولین حق ہے۔ یہ شوہر کی جانب سے شادی کے معاہدہ کے ایک حصہ کے طور پر ایک عطیہ ہے اور شادی کے جائز (قانونی) ہونے کے لئے یہ نہایت ضروری ہے۔ زوجہ کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کی کفالت اور دیکھ بھال کی جائے۔ علاوہ ازیں مرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے کھانے پینے، رہائش اور ملبوسات کا انتظام کرے۔ حالانکہ زوجہ کو مرد کی آمدنی کے حساب سے غیر ضروری مطالبات کرنے کا حق نہیں ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ مر د اپنی آمدنی کے مطابق اخراجات کریں اور ایسا مرد جس کی آمدنی کے ذرائع محدود ہیں تو اسے اسی آمدنی میں گزارہ کرنا چاہئے جوکہ اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیا ہے ‘‘(65:7)۔

اہلیہ کی ذمہ داریاں:
جہاں حقوق ہوتے ہیں وہاں پر کچھ ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ اس لئے بیویوں کی بھی اپنے شوہروں کے تئیں لازمی ذمہ داریاں ہیں۔ قرآن کریم کا فرمان ہے کہ نیک خواتین کو اپنے شوہروں کی عدم موجودگی میں ان کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہئے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ایک دوسرے کا تحفظ کرنے کے لئے ایک دوسرے سے مربوط کر دیا ہے۔ اس ضمن میں قرآن کریم کا فرمان ہے کہ ایک اہلیہ کو اپنے شوہر کی رازداری محفوظ رکھنی چاہئے اور ازدواجی پوشیدگی افشا نہیں کرنا چاہئے۔ اگر کسی مرد کی کسی سے قربت ہو جائے یا اس سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے جو کہ اس کی بدنامی کا سبب بن جائے تو اہلیہ اس کے لئے ذمہ دار نہیں ہوگی بالکل اسی طرح جیسے ایک شوہر سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کو تحفظ فراہم کرے گا۔ ایک خاتون (اہلیہ) کو اپنے شوہر کی جائیداد کا بھی تحفظ کرنا چاہئے۔ اس کے گھر، اثاثہ کو اپنی حتمی قابلیت سے چوری ہونے یا خراب ہونے سے بچانا چاہئے تاہم اس مرد کے ساتھ تعاون نہ کیا جائے جو خداوند قدوس کے احکامات سے منکر ہو گیا ہے۔ خاتون کو اس کی کوئی بھی درخواست قبول نہیں کرنی چاہئے جوکہ ناجائز کے زمرہ میں آتی ہو۔ شوہر کو بھی اپنی اہلیہ کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے بلکہ اس کو اہلیہ کی ضروریات اور اس کی خوشیوں کے بارے میں سوچنا چاہئے۔

مذکورہ بالاسطور کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ آج پوری دنیا میں خصوصی طور پر امریکہ اور یوروپ میں خواتین کے حقوق اور ان کی آزادی کے تعلق سے جس طرح کی تشہیر کی جا رہی ہے وہ محض ایک فریب ہے۔ خواتین کو اصل آزادی اور ان کے حقوق کا تعین تو اسلام نے 14 سو سال قبل ہی کر دیا تھا۔ اسلام میں خاتون مطعون نہیں بلکہ قابل احترام ہے اور ہمیشہ ہمیش اس کی تعظیم و تکریم برقرار رہے گی۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close