Khabar Mantra
محاسبہ

وہ پھول کھل کے رہیں گے، جو کھلنے والے ہیں

محاسبہ...........................سید فیصل علی

آرٹیکل 370 اور جموں وکشمیر کے دو ٹکڑے ہونے کے بعد کشمیر میں سناٹا ہے، اہل کشمیر سکتے میں ہیں کہ آناً فاناً میں نہ صرف کشمیر سے اس کا خصوصی درجہ چھین لیا گیا، بلکہ جغرافیائی شبیہ بدل دی گئی اور جموں وکشمیرکو مرکز کا پابند بنا دیا گیا۔ کشمیر جیسے پیچیدہ مسئلے کو جس حکمت عملی کے تحت ختم کیا گیا، وہ حکومت کے حوصلے اور سیاست کی دلیل، انتخابی منشور کی تکمیل ضرور ہے، لیکن یہ عمل کشمیر کو چھاؤنی بناکر، چپہ چپہ پہ فوج بٹھاکر، وہاں کے رہنماؤں کو قید کرکے اور کشمیر میں کرفیو جیسے حالات پیدا کرکے پورا کیا گیا۔ آرٹیکل 370 کی آواز کا گلا اس وقت گھونٹا گیا، جب وادی میں انٹرنیٹ، فون سروس، ٹویٹر، فیس بک، ٹی وی کیبل، غرض کہ اطلاعات ونشریات کے تمام ذرائع بند تھے، احتجاج، اعتراض اور مخالفت کی ہر صدا دہشت کے سائے میں اپنے گھروں میں گم صم تھی۔ ایسے عالم میں وزیراعظم مودی کا اہل کشمیر کے نام خطاب بھی دنیا نے سنا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ جموں وکشمیر کی ترقیات میں آرٹیکل 370 ایک بڑی رکاوٹ تھا، بدعنوانی کا سبب تھا، کنبہ پروری کو فروغ ہو رہا تھا، علیحدگی پسندوں کو تقویت مل رہی تھی، دہشت گردی بڑھ رہی تھی، اب اس کے منسوخ ہو جانے سے ترقی کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، کشمیری نوجوانوں کو نئے نظام میں کام کرنے کا موقع ملے گا۔ کشمیر میں ہرسمت ترقی کی راہیں کھلیں گی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا۔ وزیراعظم نے اہل کشمیر کو عیدالاضحی کی مبارکباد دیتے ہوئے کشمیر کے عوام کو یقین دہائی کرائی کہ عید منانے میں انہیں کسی بھی طرح کی پریشانی نہیں ہوگی اور حالات آہستہ آہستہ معمول پہ آجائیں گے۔ ہر ہندوستانی کی طرح ہم بھی امید کرتے ہیں کہ وزیراعظم نے جو کہا ہے، ویسا ہی ہوگا، کشمیر کے حالات سدھر جائیں!

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جب مودی اہل کشمیر کے نام پیغام دے رہے تھے تو ان کی تقریر دنیا سن رہی تھی، لیکن کشمیر میں مواصلات واطلاعات کا ہر شعبہ بند تھا تو پھر تقریر سنانے کا مقصد کیا تھا؟ کاش کشمیر کے خصوصی درجے کو منسوخ کرنے سے قبل رائے مشورہ اور مفاہمت کے ساتھ یہ سب کرنا چاہئے تھا تو بلاشبہ قومی سطح پر ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کے خوشگوار اثرات مرتب ہوتے، مگر آناً فاناً میں اہل کشمیر کو سنگینوں کے نرغے میں رکھ کر پارلیمنٹ میں کشمیر کے خصوصی درجے کو منسوخ کر دینا ایک سوال ضرور کھڑا کرتا ہے۔

کشمیر کے دو ٹکڑے کرنے کے پانچ دنوں کے بعد کشمیر میں نماز جمعہ بھی سخت پہرے میں ادا کی گئی ہے، اسکول کھولے گئے ہیں، مگر سخت پہرے میں نماز ادا کرنے اور اسکول چلانے سے کیا فائدہ، مگر اہل اقتدار وسیاست تو بے حسی کا مزاج رکھتے ہیں۔ سیاسی بساط پر مہرے نہیں دیکھے جاتے، بلکہ چال چلی جاتی ہے، وقت کی نبض پکڑی جاتی ہے اور کشمیر کے معاملے میں اس طرح کی جلد بازی اس لئے دکھائی گئی کہ امریکہ جو افغانستان میں فیصلہ کن جنگ لڑ رہا تھا اب اس نے یوٹرن لے لیا ہے، طالبان سے مذاکرات چل رہے ہیں۔ 15 مہینے کے اندر افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء ہونا ہے۔ آئندہ 9 ماہ کے اندر 80 فیصد امریکی افواج افغانستان خالی کر دے گی، یعنی ٹرمپ کے الیکشن سے قبل فوج امریکہ واپس ہو جائے گی، الیکشن سے قبل ٹرمپ کا امریکیوں سے کیا گیا وعدہ بھی پورا ہوجائے گا، امریکی صدر ٹرمپ بھی اسی واپسی کے پیش نظر کشمیر کے معاملے میں ثالثی کی پیش کش کر رہے تھے، چنانچہ امریکی فوج کے جانے کے بعد ظاہر ہے کہ ایک مرتبہ پھر افغانستان میں اقتدار وسیاست کی باگ ڈور طالبان کے ہاتھ میں ہوگی اور طالبان ہمیشہ کشمیریوں کے ہمدرد رہے ہیں تو وہ کشمیر کا رخ کرسکتے ہیں۔ اسی خدشے کے پیش نظر جلد بازی میں یہ قدم اٹھایا گیا، اگر حکومت کو یہی سب کرنا تھا تو آپسی مشورہ، مفاہمت، خاص کرکشمیری لیڈروں کو ساتھ لے کر یہ سب ہوا ہوتا تو قومی سطح پر مخالفت میں کمی آتی اور ہر حال میں ملک کی سالمیت اور دفاع کے لئے اٹھائے گئے اس قدم کی ستائش ہوتی اور سیاسی مخالفت نہیں ہوتی۔

آرٹیکل 370 کی منسوخی سے بی جے پی خیمے میں شادیانے بج رہے ہیں، جیسے لگتا ہے کہ کوئی جنگ جیت لی گئی ہو اور تأثر یہ دیا جا رہا ہے کہ ملک گیر سطح پر اس عمل کاخیر مقدم ہو رہا ہے۔ شرمناک بات تو یہ ہے کہ اب کشمیری لڑکیوں سے شادی کرنے، کشمیر میں گھر بسانے، پلاٹ خریدنے کے خواب دیکھے جا رہے ہیں، اسی درمیان ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر نے ایک قابل افسوس بیان دیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ اب کشمیری بہو لانے کی راہ آسان ہوگئی ہے۔ منگیری لال کا یہ سپنا پورا ہو گا یا نہیں یہ ایک الگ سوال ہے، لیکن آرٹیکل 370 کے سہارے ہندوتو کے گھوڑے پر سوار ہوکر آئندہ ہونے والے چار اسمبلیوں کے چناؤ جیتنے کی بساط ضرور بچھ گئی ہے، مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا ہندی بیلٹ ہی بھارت ہے؟ جہاں کشمیر کا خصوصی درجہ چھیننے کا دھوم دھڑا کا ہے، جبکہ جنوبی ہند، نارتھ ایسٹ میں اس عمل پر فکرو تشویش اور احتجاج کی لہریں ہیں۔ بھارت یونین آف اسٹیٹ ہے۔ فیڈرل اسٹریکچر والا ملک ہے، جہاں 11 ریاستوں کو آرٹیکل 371 کے تحت خصوصی درجہ حاصل ہے۔ میگھالہ، میزورم، نانگالینڈ اور اروناچل میں بھی آپ زمین نہیں خرید سکتے، اب نارتھ ایسٹ میں بھی 370 ہٹانے کے خلاف احتجاج ومظاہرہ ہو رہے ہیں، گویا ملک میں اس معاملے میں مخالفت اور حمایت دونوں کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

واجپئی دور میں وزیرخزانہ رہے سابق بی جے پی لیڈر یشونت سنہا ’انڈین ایکسپریس‘ میں رقم طراز ہیں کہ آج کی طرح تنگ نظر پالیسی واجپئی کے دور میں نہیں تھی۔ واجپئی کی پالیسی انسانیت، کشمیریت اور جمہوریت پر منحصر تھی۔ یہی وہ پالیسی تھی، جو آرٹیکل 370 ہٹانے کی راہ میں حائل تھی۔ واجپئی کشمیریوں سے گفتگو کے حق میں تھے، وہ حریت والوں سے بھی بات چیت کے حامی تھے، مگر اس حکومت نے سب کچھ پردے میں کیا۔ سنہا سوال کرتے ہیں کہ اسی مودی حکومت نے 2015 میں نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ سے سمجھوتہ کیا اور اسے تکثیری خود مختاری دی تو کیا کشمیر کے لوگوں کے ساتھ اس طرح کی بات چیت نہیں ہو سکتی تھی؟ یہ ایک بڑی غلطی ہے۔

بہر حال کشمیر معاملے پر کس نے بڑی تاریخی غلطی کی؟ نہرو نے یا مودی نے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ہٹانے اور جموں وکشمیر کو دوحصوں میں منقسم کرنے پر ہندی بیلٹ میں ہونے والا جشن جلد بازی کا منظرنامہ ہے۔ حکومت کا یہ فیصلہ پوری طر ح سے سیاسی مفاد کے لئے اٹھایا گیا ایک قدم ہے، جس کا جموں وکشمیر کی ترقیات اور بہبود سے زیادہ لینا دینا نہیں ہے، البتہ سرکار کا یہ دعویٰ صحیح ہو سکتا ہے کہ آج جموں وکشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ بن گیا ہے، لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے، جس طرح آنا فانا میں یہ فیصلہ لیا گیا ہے، اس سے یقینی طور پر کشمیری اپنے آپ کو مزید تنہا اور الگ تھلگ محسوس کریں گے۔ راہل گاندھی کا بھی یہی درد ہے کہ ’زمین کے ٹکڑوں سے نہیں دلوں کو جوڑنے سے ملک بنتا ہے‘۔ امید ہے کہ حکومت اہل کشمیر کے دلوں کو جیتنے کی بھی کوشش کرے گی، ورنہ صرف کشمیر کا جغرافیہ تبدیل کرنے سے کشمیر مسئلے کا حل کبھی نہیں نکلے گا۔ ویسے امید تو یہی ہے، بقول شاعر:

ہزار برق گرے، لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے، جو کھلنے والے ہیں

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close