Khabar Mantra
محاسبہ

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشیدِ مبیں

محاسبہ...........................سید فیصل علی

2019 کے چناوی مہابھارت کی طرف دنیا بھر کی نظریں ہیں۔ ملک کا 17واں پارلیمانی انتخاب کیا رُوپ دھارے گا اس پر سیاسی مبصرین ہی نہیں ہر ذی شعور تشویش زدہ ہے کہ کیا 2019 کا الیکشن طے کرے گا کہ ملک کے سیکولر اقدار برقرار رہیں گے یا یہاں بھگوا افکار کا بول بالا ہوگا۔ کیا یہ پارلیمانی الیکشن یہ بھی طے کرے گا کہ ملک کی اکثریت ہندوتو کی علمبردار ہو گی یا اسے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے تحفظ سے سروکار ہو گا۔ حالانکہ بی جے پی کے سینئر رہنما سبرامنیم سوامی نے ایک نئی تھیوری پیش کی ہے کہ 2019 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں الیکشن ہی نہیں ہوں گے۔ بہ الفاظ دیگر ہندوستان پورے طور پر بھگوا تانا شاہی کا اسیر ہو جائے گا۔ چنانچہ ملک کی تکثیری تہذیب کی بقا اور جمہوری اقدار کے تحفظ کے لئے آج ہر ذی شعور فکر مند ہے اور بڑی امیدوں کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں کی طرف دیکھ رہا ہے کہ وہ کب اپنے آپسی نفاق اور سیاسی مفاد کو فراموش کرکے ہندوتو کے یلغار کو روکنے اور ملک کی تہذیب کو بچانے کے لئے ایک پلیٹ فارم پر آتے ہیں۔ لیکن یہاں تو اپوزیشن کی حالت یہ ہے کہ وہ ابھی تک مودی کو روکنے کے لئے گٹھ بندھن کا خاکہ ہی تیار کر رہا ہے یا سیٹوں کے جوڑ گھٹاؤ میں مصروف ہے۔ جبکہ پارلیمانی الیکشن کی تاریخوں کا اعلان بھی ہو چکا ہے اور پہلہ مرحلہ کے الیکشن کا آغاز 11 اپریل سے ہونے والا ہے۔

گو کہ اپوزیشن جماعتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ گٹھ بندھن کی بساط بچھائے بغیر مودی کو شہ مات نہیں دی جا سکتی مگر سیاست کی دُم ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہتی ہے اور اسی کج پن سے ملک خسارہ عظیم کا شکار رہا ہے اور اقتدار کی باگ ڈور منفی قوتوں کے ہاتھ میں جاتی رہی ہے۔ اترپردیش میں سماج وادی اور بہوجن کا گٹھ بندھن تو ہو گیا لیکن کانگریس کو اس گٹھ بندھن سے دُور رکھنا بی جے پی کے لئے راحت جاں بن چکا ہے۔ اگر یوپی میں کانگریس بھی گٹھ بندھن میں شامل ہوتی تو وہاں بھی بی جے پی کا صفایا ہو جاتا اور اترپردیش سے بی جے پی کے صفائے کا مطلب ہے مرکز سے بی جے پی کے اقتدار کا خاتمہ۔ مگر سیاسی سرخیلوں کے اپنے مفاد اور اغراض ہوتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ بہار کے گٹھ بندھن میں یہ اغراض و مفاد الگ تھلگ رہے اور وہاں پر مہاگٹھ بندھن نے اپنے پتّے کھول دیئے ہیں۔ ورنہ سوال اٹھنے لگا تھا کہ بہار میں سیاسی جماعتوں کا الگ الگ چناؤ لڑنے کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہی پہنچے گا مگر لالو پرساد اور احمد پٹیل کی دور اندیش سیاست سے مہا گٹھ بندھن بالا ٓخر بکھراؤ سے بچ گیا۔ لالو پرساد کا سیاسی قد بھی اس گٹھ بندھن کے بعد کافی بلند ہو چکا ہے۔ انہوں نے بہار میں مہاگٹھ بندھن کو ٹوٹنے سے بچا کر سیکولر قوتوں کی رگوں میں نئی توانائی بھر دی ہے۔ چھوٹی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر این ڈی اے کی فتح پر گہن لگا دیا ہے۔

بہار میں آرجے ڈی 20 اور کانگریس 9 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے جبکہ بقیہ 11سیٹیں گٹھ بندھن میں شامل جماعتوں کو دے دی گئی ہیں۔ لالو پرساد کی یہ دریا دلی اس بات کی غماز ہے کہ وہ ہر حال میں بہار سے مودی کے قدم اکھاڑنا چاہتے ہیں۔ کاش یہی دریا دلی یوپی میں بھی نظر آتی تو بی جے پی کی عبرتناک شکست اس کا مقدر بن جاتی۔ لالو پرساد نے بہار میں اپنی کئی سیٹوں کی قربانی دے کر مہا گٹھ بندھن کو مستحکم کیا ہے۔ وہ ان کی دوربین سیاست کا پیش خیمہ ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ مہا گٹھ بندھن بہار میں کانگریس کے علاوہ اپیندر کشواہا، جیتن رام مانجھی، مکیش ساہنی اور شرد یادو کو ساتھ لیکر این ڈی اے کو سیدھی ٹکر دینے کی پوزیشن میں آچکا ہے بی جے پی ہمیشہ سہ رُخی مقابلہ کا فائدہ اٹھاتی رہی ہے مگر بہار کے مہا گٹھ بندھن میں اب سہ رُخی مقابلہ کی گنجائش محدود ہو گئی ہے۔

حالانکہ بہار میں بھی کانگریس یوپی کی ہی طرح کمزور ہے لیکن یہ لالو پرساد کا ظرف ہے کہ انہوں نے تمام تر کمزوری کے باوجود کانگریس کی اہمیت کو سمجھا۔ یہ اسی ظرف کا انتہائی حوصلہ آمیز نتیجہ ہے کہ آرجے ڈی نے کانگریس کو خاطر خواہ 9 سیٹیں دی ہیں اور اس کے امیدواروں کو فتح یاب کرانے کا بھی بیڑہ اٹھایا ہے۔ یہ لالو پرساد کی سیاسی فیاضی کا ہی کرشمہ ہے کہ آر جے ڈی کی 3سیٹوں پر دیگر جماعتوں کے امیدوار میدان میں ہیں۔ لالو پرساد نے اپنی ایک سیٹ سی پی آئی مالے کو بھی دے دی ہے۔ بلاشبہ آرجے ڈی کی اس قربانی اور فیاضی نے ووٹوں کو منقسم ہونے سے بچا لیا ہے اور بڑی پارٹیوں کے سامنے ریجنل جماعتوں کی اہمیت بھی مسلم ہوئی ہے۔

مجھے یہ کہنے میں قطعی گریز نہیں کہ کانگریس اعلیٰ کمان نے بھی گٹھ بندھن کی اہمیت کو سمجھا ہے لیکن اس جماعت میں کچھ ایسے لیڈران بھی ہیں جو پرانی روایتوں کے مقلد ہیں اور پرانے دور میں جی رہے ہیں۔ دہلی میں شیلا دیکشت کی وجہ سے عام آدمی پارٹی اور کانگریس کا گٹھ بندھن کا پینچ پھنسا ہوا ہے اگر چہ احمد پٹیل اب بھی اس پینچ کو نکالنے میں سرگرم ہیں اور بہار کا پینچ نکالنے کے بعد احمد پٹیل اب دہلی پر زور دے رہے ہیں۔ بہار میں مہا گٹھ بندھن کی صورتحال صاف ہونے کے بعد کانگریس کی قومی سیاست کو نئی قوت ملی ہے اور اسی گٹھ بندھن کا نتیجہ ہے کہ بی جے پی کے لیڈر شتروگھن سنہا کانگریس کے امیدوار کے طور پر پٹنہ صاحب سے الیکشن لڑیں گے۔ بہاری بابو کھل کر ملک میں کانگریس کی تشہیری مہم میں حصہ لیں گے۔ یہ لالو پرساد کی سیاست کا نیا کرشمہ ہے کہ انہوں نے نتیش کمار کے ’اَتی پچھڑا (انتہائی پسماندہ)‘ کارڈ کے جواب میں مکیش ساہنی کا پتہ پھینک کر بہار کی ذات پات کی سیاست کو نیا رُخ دے دیا ہے۔

ماہی گیر طبقہ کے نوجوان لیڈر مکیش ساہنی کی نو تشکیل جماعت وکاس شیل انسان پارٹی(وی آئی پی) کو 3سیٹیں دی گئی ہیں۔ فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے بہار کے مکیش ساہنی کا ریاست کی بڑی آبادی والے ماہی گیر سماج کی زبردست حمایت حاصل ہے۔ 3سیٹیں ہندوستانی عوام مورچہ کے کھاتے میں گئی ہیں لیکن اورنگ آباد کی سیٹ کو جیتن رام مانجھی کو دے دینے سے مقامی کانگریس کارکنان میں غم وغصہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بیگو سرائے کی سیٹ کو کنہیا کمار کو نہ ملنے سے بھی تھوڑی بے چینی ہے مگر ان تمام تر کشمکش اور بے چینی کے باوجود بہار میں مہا گٹھ بندھن ایک بڑا چیلنج بن کر این ڈی اے کے سامنے تن کر کھڑا ہے۔ قومی سیاست میں لالو پرساد کی سیاسی امیج بھی مزید بلند ہو چکی ہے کیونکہ لالو پرساد کے جیل میں بند ہونے کے باوجود جس طرح بہار میں گٹھ بندھن ہوا ہے وہ ان کی سیاسی خود اعتمادی اور حوصلہ کی دلیل ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ لالو کے جیل میں بند رہنے سے بھی آر جے ڈی کو زبردست فائدہ پہنچ رہا ہے۔ لوگوں میں عام تاثر یہ جا رہا ہے کہ مودی حکومت انتقاماً لالو پرساد کو جیل میں بند رکھنا چاہتی ہے۔ یہی تاثر بہار کے عوام میں ہمدردی کی لہر بن کر دوڑ رہا ہے اور اب تو یہی لگ رہا ہے کہ لالو سے ہمدردی کی لہر کہیں مودی لہر کے پرخچے نہ اُڑا دے۔ بہار میں مہا گٹھ بندھن این ڈی اے کو بیک فُٹ پر نہ لا دے۔ لالو کی گٹھ بندھن کی سیاست یقیناً قومی سیاست کے لئے ایک آئینہ ہے۔ بقول شاعر:

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشیدِ مبیں
ورنہ اِن بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close