Khabar Mantra
محاسبہ

وہی قاتل، وہی شاہد، وہی منصف ٹھہرے

محاسبہ...........................سید فیصل علی

اجودھیامیں منعقد دھرم سبھا کے ذریعہ کیا فرمان جاری ہو گا؟ مندر نرمان کے تعلق سے کیا حکمت عملی بن رہی ہے؟ ’اے بی پی نیوز‘ نے اس کا راز بے نقاب کر دیا ہے۔ ٹی وی چینل کے اسٹنگ آپریشن سے ملک بھر میں سنسنی پھیل گئی ہے۔ ایودھیا میں ایک بار پھر 1992کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ رام کے نام پر ایودھیا میں بھیڑ جمع کی جا رہی ہے۔ خفیہ کیمروں میں عدلیہ و قانون کو بالا ئے طاق رکھ کر مسجد توڑنے والے کھل کر مندر نرمان کی بات کر رہے ہیں اور وہ اس کے لئے اسی طریق کار کی بات کر رہے ہیں، جس طرح 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کا انہدام کر دیا گیا تھا، بالکل اسی طرح چند گھنٹوں میں مندر بنانے کی بھی بات ہو رہی ہے۔ سنتوش دوبے، رام ولاس ویدانتی، مہنت میتھلی شرن اوررام جی گپتا جیسے مندر تحریک سے منسلک بڑے لیڈران یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ہمیں دہلی سے ہی فون آیا ہے کہ مندر بنانے کی پوری تیاری رکھو۔ اشارہ ملتے ہی مندر کا نرمان کر دینا۔ خفیہ کیمرے میں یہ لیڈران اعتراف کر رہے ہیں کہ مندر بنانے کی اتنی بڑی تیاری ہو چکی ہے کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس سلسلہ میں لکھنؤ میں میٹنگ بھی ہو چکی ہے، جہاں امت شاہ سے لے کر آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے لوگ بھی شامل ہوئے ہیں۔ میٹنگ کا یہی مقصدتھا کہ رام مندر کی تعمیر فوری شروع کی جائے کیونکہ ہم کورٹ کے فیصلہ کا انتطار نہیں کریں گے۔ فیصلہ ہمارے حق میں نہیں آنے والا۔ چنانچہ مندر کی تعمیر کسی حالت میں اسی سال ہو گی، اس دھرم یُدھ کے لئے لوگ ایودھیا میں جمع ہو رہے ہیں۔ ایودھیا میں 1992کی طرح حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ وہاں 2.5لاکھ لوگوں کے جمع ہونے کا امکان ہے۔ یہ بھیڑ کب طوفان ڈھائے گی کہا نہیں جا سکتا۔ اسی خدشہ کے پیش نظر سماج وادی پارٹی کے قائد اکھلیش یادو نے ایودھیا کے حالات کو دیکھتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے اپیل بھی کی ہے کہ وہ از خود نوٹس لیتے ہوئے مرکز کو ایودھیا میں فوج بھیجنے کی ہدایت دے۔

25 نومبر کو ایودھیا میں منعقدہ دھرم سبھا میں دو لاکھ پچاس ہزار لوگوں کی آمد کا امکان ہے، جس میں ایک لاکھ آر ایس ایس کے لوگ ہوں گے اور ایک لاکھ وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل و بی جے پی کے کارکنان ہوں گے۔ پچاس ہزار افراد شیو سینا کے لوگ ہوں گے۔ ڈھائی لاکھ لوگوں کی ایودھیا میں موجودگی اور دھرم یُدھ کیا تانڈو مچائے گا اس پر پورا ملک تشویش میں مبتلا ہے۔ حتیٰ کہ ایودھیا کے عوام سے لے کر سادھو سنتوں میں بھی دھرم سبھا کو لے کر دو گروپ ہو چکے ہیں۔ ایودھیاکے رام جنم بھومی کے رام للا کے مکھیہ پجاری آچاریہ ستیندر داس بھی فکر مند ہیں۔ وہ دھرم سبھا کو سیاست قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھائی مندر بنانا ہے تو پارلیمنٹ کو گھیرو۔ دہلی میں دھرم سبھا کرو، ایودھیا میں یہ سب چیزیں بے معنی ہیں۔ایودھیا میں دھرم سبھا کی مقامی سادھو سنت مخالفت کر رہے ہیں۔ وہیں، فیض آباد، ایودھیا اور اطراف کے عوام دہشت کے عالم میں ہیں۔ کہیں 1992جیسے حالات نہ ہو جائیں اسی خدشہ کے پیش نظر اضافی راشن پانی کا انتظام کر رہے ہیں۔ ایودھیا میں تاجر طبقہ بے حد پریشان ہے۔ ان سبھائوں سے کاروباری حالت پر زبردست اثر پڑا ہے۔یہاں کے ویا پار منڈل نے ایودھیا میں دھرم سبھا کی پُر زور مخالفت کی ہے۔ لیڈروں کو کالا جھنڈا دکھانے کی بھی تیاری چل رہی ہے، لیکن سیاست کے نقار خانے میں ایودھیا کے لوگوں کی سنتا کون ہے؟

آج ایودھیا کے عوام میں خوف و دہشت کا جو عالم ہے وہ 1992سے بھی زیادہ ہے۔ رام کے نام پر ایودھیا آنے والے جو تیور دکھا رہے ہیں، جس طرح نعرے لگا رہے ہیں، مسلم علاقوں سے گزر رہے ہیں، اس سے یہاں کے مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ انہوں نے صدر جمہوریہ کو دستخط شدہ مکتوب بھیج کر گزارش کی ہے کہ ایودھیا میں منعقد جلسہ کو روکا جائے تاکہ 1992 جیسے حالات نہ ہوں، جس کے تحت ان کے مکانات، مذہبی مقامات اور ہزاروں لوگ تہس نہس کر دیئے گئے تھے۔ عدم تحفظ کا ہی منظر نامہ ہے کہ آج بابری مسجد مقدمہ کے فریق اول اقبال انصاری کا گھر بھی سخت سیکورٹی کے درمیان ہے۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ ساڑھے تین ہزار سے زیادہ مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف چلے گئے ہیں۔ اگر چہ انتظامیہ دعویٰ کر رہی ہے کہ ایودھیا میں سخت ترین انتظامات کئے گئے ہیں 25 نومبر تک پی اے سی اور ریپڈ ایکشن فورس کے 70 ہزار جوان تعینات رہیں گے۔ انتظامیہ نے نصف درجن تھانوں کے پولس افسران، 5سینئر آئی پی ایس، 3 کمانڈینٹ، 121 ڈی ایس پی، 160 انسپکٹراور 1200 جونیئر پولیس اہلکار کو ایودھیا بھیج دیا ہے۔ 26 نومبر تک افسران اور سرکاری اہلکاروں، ڈاکٹروں کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ ایودھیا میں متنازع مقام کے ارد گرد علاقوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔ جگہ جگہ بیریکیڈ لگائے گئے ہیں۔ پورے علاقے میں 17جنوری تک دفعہ 144نافذ ہے۔ نگرانی کے لئے چھتوں پر کمانڈوز موجود ہیں۔ پورے خطہ کی ڈرون سے نگرانی ہو رہی ہے۔ بغیر شناختی کارڈ کے کسی باہری کا داخلہ ممکن نہیں ہے، لیکن گرائونڈ رپورٹ یہ ہے کہ قانون ہر سمت نظریں جھکائے ہوئے ہے یا نظریں بچھائے ہوئے ہے۔ تین خصوصی ٹرینوں، درجنوں بسوں سے 10 ہزار سے زائد شیو سینک ایودھیا پہنچ گئے ہیں نہ کوئی ناکہ بندی نہ کوئی تلاشی۔ ستم تو یہ ہے کہ دفعہ 144 کے باوجود وشو ہندو پریشد نے روڈ شو کیا، مسلم علاقوں سے گزرے۔ خاص بات تو یہ ہے کہ ایودھیا میں ڈیڑ ھ سو سے زائد ہورڈنگ و پوسٹر لگائے گئے ہیں، لیکن شیو سینا کے پوسٹر نصف سے زائد ہیں، جن میں ادھو ٹھاکرے اور ان کے بیٹے نظر آ رہے ہیں۔ رام مندر کے معاملہ پر شیو سینا کے تیور زیادہ خطر ناک ہیں۔ وہ اس ایشو پر بی جے پی کو آئینہ دکھا رہی ہے، اسے گھیرنا چاہتی ہے۔ رام مندر جہاں بی جے پی کے لئے سیاسی ثمرہ رہا ہے تو اب شیو سینا کے لئے بھی نعمت مرقبہ بن چکا ہے۔ چنانچہ وہ اب ہندوتو کی سیاست کو ہائی جیک کرکے مہاراشٹر سے باہر نکلنا چاہ رہی ہے۔ وہ مہاراشٹر میں دوسرے نمبر کی پارٹی نہیں، بلکہ ایک نمبر کی پارٹی بن کر رہنا چاہتی ہے۔ چنانچہ وہ بی جے پی کو رام مندر ایشو پر دھوکہ باز پارٹی قرار دے رہی ہے اور خود کو مندر نرمان کے لئے کھل کر سامنے آنے والی پارٹی قرار دے رہی ہے۔ شیو سینک لیڈربہ بانگ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ ہم نے 17 منٹ میں مسجد گرا دی تو کیا حکومت آدھے گھنٹے میں قانون نہیں بنا سکتی، جس سے مندر تعمیر ہو سکے۔ اسی ایشو کو لے کر آج ٹھاکرے بیوی بچوں کے ساتھ ایودھیا پہنچ گئے ہیں۔ سادھو سنتوں سے مل رہے ہیں۔ انہوں نے رام للا کا درشن بھی کیا ہے۔ ٹھاکرے نے ایودھیا میں کہا ہے کہ ہم یہاں مندر کی تاریخ لینے آ ئے ہیں۔

گرچہ ہماری نظرمیں آرایس ایس، شیوسینا ہو یابی جے پی یہ سب کچھ ایک ملی بھگت کے تحت ہو رہا ہے۔ عدلیہ کی ا س پر فوری طور پر مداخلت کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اسٹنگ آپریشن نہ صرف ملک کی جمہوریت اور سیکولرزم کے آ گے ایک سوال کھڑا کر رہا ہے بلکہ سپریم کورٹ، اتر پردیش و مرکزی حکومت کے سامنے بھی فریاد رساں ہے کہ کیا ایودھیا میں 6 دسمبر 1992 جیسا سیاہ منظر نامہ ابھرے گا۔ اس وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایودھیا میں کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا، لیکن یہ دعویٰ کھو کھلا ثابت ہوا۔ بابری مسجد نصف گھنٹے میں ہی شہید کر دی گئی اور ملک کا قانون بے بس کھڑا رہا۔ بابری مسجد کے فریق اول اقبال انصاری کا درد ہے کہ ہم ایودھیا میں دھرم سبھا کے انعقاد کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ڈھائی لاکھ لوگوں کی بھیڑ جمع ہونے سے خوفزدہ ہیں ۔ مندرمسجد کی بات دہلی میں کی جائے، اجودھیا کو سکون سے رہنے دو۔ بلاشبہ اقبال انصاری کی تشویش بجا ہے، ایودھیا پر خوف کا سایہ ہے۔ مقامی افراد ڈرے ہوئے ہیں اور ایودھیا میں جے شری رام کی گونج کے ساتھ ایک لشکر جرار یکے بعد دیگرے آتا جا رہا ہے۔ جگت گرو راما نند آچاریہ، مہنت نرتیہ لال داس سمیت مندر نرمان تحریک سے جڑے سنت، مہنت، بی جے پی کے کئی ایم پی، ایم ایل اے ایودھیا پہنچ چکے ہیں۔ متنازع مقام سے 2 کلومیٹر دور بھگت مال آشرم کے پاس دھرم سبھا کا انعقاد 25 کو ہے۔ آنے والا سورج کیا فرمان سنائے گا، اس پر آج ہر ذی شعور ایک تشویش میں مبتلا ہے کیونکہ دھرم سبھا کے ذریعہ فرمان سنانے والے، مندر نرمان کو لے کر جب عدل و قانون کو طاق پر رکھ رہے ہیں تو وہ ایودھیا کے لوگوں کی بھلا کہاں سنیں گے۔ اہل ایودھیا رام راج چاہتے ہیں، جہاں کسی کو کسی سے کشٹ نہ پہنچے، جہاں سب مل جل کر رہیں، جہاں امن و آشتی کا چراغ روشن ہو، جہاں انیائے نہیں نیائے کا پرچم بلند رہے، جہاں مریادا پرشوتم شری رام کا روشن کردار سب کے لئے مارگ درشک ہو، مگر ایودھیا والوں کی یہ فریاد سنتا کون ہے؟ بقول شاعر

وہی قاتل، وہی شاہد، وہی منصف ٹھہرے
اقربائ میرے کریں قتل کا دعوی کس پر

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close