Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

بوئے اسلام سے معطر فلپائن

تجارت شیوہ رسول بھی ہے اور معاشرتی ترقی کا ذریعہ بھی۔ تجارت سماجی ہم آہنگی کا بھی ضامن ہے اور ملک کی ترقی میں بھی اہم رول ادا کرتی ہے۔ یہ سنت رسولؐ کی تقلید کا ہی کرشمہ ہے کہ دنیا کے گوشہ میں جانے والے مسلمانوں نے تجارت کو ہی ذریعہ معاش بنایا مگر تجارت کے ساتھ دین کے فروغ میں کارہائے نمایاں انجام دیا۔ عرب تاجر جب ساحلی علاقوں سے سفر کرتے تھے تو راستے میں پڑنے والے ممالک کے بازاروں سے بھی رابطہ کرتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جہاں تجارت کے نئے نئے رموز و نکات سے واقف ہوئے بلکہ انہوں نے ان ملکوں میں اسلام کی خوشبو بھی پھیلائی اور دنیا اس خوشبو سے متاثر ہوکر اسلام کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوئی بلکہ مشرف بہ اسلام بھی ہوتی گئی۔ اسلام کے فروغ کے لئے خلفائے راشدین کا دور کافی اہمیت کا حامل ہے۔ مسلمانوں نے جہاں اپنی عسکری اور دینی قوت سے دنیا کو فتح کرنا شروع کیا۔ وہیں معیشت ومعاشرت کے استحکام کی راہیں بھی نکالنی شروع کیں۔ تجارت و تعلیم دو بڑے ہتھیار بن کر دنیا کو مسخر کرنے کا ذریعہ بن گئے۔ بغداد سے لے کر سمر قند بخارا اور ہندوستان کے بیشتر علاقے اسلامی قوت اور منفعت کے بڑے مرکز بن گئے۔ مسلمان نہ صرف معاشی سطح پر بلند ہوئے بلکہ ان کی علمی بصیرت اور تعلیمی صلاحیت کا جلوہ بھی دنیا پر عیاں ہوگیا اور علوم و سائنس کے ذریعہ ایسی ایسی چیزیں ایجاد ہوئیں جو آج کی جدید سائنس کی اساس بنیں مگر آج سائنس کے کمال کا فن بڑی عیاری سے مغرب کے نام سے منسوب ہوگیا۔ بہرحال، اس بحث سے قطع نظر آج ہم مالے کے تاریخی پس منظر کا ذکر کریں گے، جس کے تناظر میں عرب کے تاجروں نے مالے کے تاجروں کے اشتراک سے یہاں تجارت کے ساتھ ساتھ دین کی شمع بھی روشن کی تھی۔ 15ویں صدی میں مالے میں اسلامی مبلغ کریم المخدوم کے کارہائے نمایاں نے اسلامی تعلیمات کو اس نہج پر پہنچا دیا تھا کہ آج ہم اس ملک کو فلپائن کے نام سے جانتے ہیں۔ وہاں اسلام کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔ وہاں سب سے پہلے مسجد کریم المخدوم بنائی گئی۔ اس کے بعد ملیشیا، انڈونیشیا کے تاجروں کی آمد سے بھی اس ملک میں اسلام کی ضوفشانی بڑھتی گئی اور فلپائن مقامی تہذیب کے ساتھ اسلامی تہذیب کی خوشبو نے اسلام کی افادیت اور اہمیت میں زبردست رول ادا کیا اور شمال مشرقی ایشیا میں اسلام کو فروغ دینے کا سب سے بڑا ذریعہ بنا۔ پیش ہے فلپائن میں مسلمانوں کی آمد، تجارت اور معاشرتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی خدمات کی مختصر تاریخ جو ہر مسلمان کے جذبہ ایمانی اور حمیت کو تقویت دیتی ہے اور یہ بھی تلقین کرتا ہے کہا اسلام اور مسلمان دراصل ہر دور میں جدوجہد اور حوصلہ کی علامت رہے ہیں:

سر زمین عرب میں جب اسلام کا آفتاب طلوع ہوگیا تھا تو پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کے دور میں ہی اسلام کی تبلیغ وتشہیر کا کام شروع ہوگیا تھا۔ ابتدائی دور میں عرب کے دیگر خطوں میں واقع سلطنتوں کے حکمرانوں کو مکتوب ارسال کرکے خود آنحضور محمدؐ نے انہیں حلقہ اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی اور کچھ ہی دنوں میں مکمل عرب مشرف بہ اسلام ہو گیا تھا۔ اس کے بعد حضور اکرمؐ نے خلفائے راشدین کو یہ ہدایت دی تھی کہ عجمی ممالک میں بھی اسلام کی تبلیغ کی جائے۔ چنانچہ حضور پاکؐ کی وفات کے بعد سلسلہ وار خلفائے راشدین نے غیر ممالک کے لئے بہت سے اسلامی وفود روانہ کئے، جنہوں نے وہاں کے باشندوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ حضور پاکؐ کی حیات مبارکہ سے اب تک پوری دنیا میں اسلامی تعلیمات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس نیک عمل میں خلفائے راشدین، صحابہ کرام، تبع تعبین اور اولیا کرام نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے وہ تو طلائی حروف میں تاریخ کے اوراق میں درج ہیں۔ ان کے علاوہ عرب تاجرین جوکہ غیر ممالک میں اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لئے سفر کرتے تھے، انہوں نے اپنی تجارت کے ساتھ ساتھ اسلام اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے کے فرائض بھی انجام دیئے تھے۔ جن غیر اسلامی ممالک میں اسلام ظہور پذیر ہوا وہاں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ غیر ممالک میں اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے میں عرب کے تاجروں نے بھی ایک غیر معمولی اور مثالی کردار ادا کیا تھا۔

فلیپائن میں قدیم اور منظم طریقہ سے وجود میں آنے والے مذاہب میں سے اسلام ایک منفرد اور خصوصی مذہب ہے۔ اس ملک میں اسلام کو عربی باشندوں اور مالے (Maley) کے تاجروں کی آمد کے ساتھ 15ویں صدی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ 1380 میں اولین اسلامی مبلغ کریم المخدوم سولو (Sulu) جزیرہ نما اور جولو (Jolo) میں قدم رنجا ہونے والے پہلے مبلغ (Missionary) تھے، جنہوں نے اس ملک میں اسلامی تعلیمات کو قابل قدر حد تک فروغ دیا تھا اور آج اس ملک کو ہم فلیپائن کے نام سے جانتے ہیں۔ فلیپائن میں تعمیر ہونے والی اولین شیخ کریم المخدوم مسجد جوکہ سمونل (simunul) میں واقع ہے، اسلامی طرز تعمیر کی ایک مثال ہے۔ اس کے بعد ملیشیا اور انڈونیشیا سے آنے والے عرب مبلغین کی کاوشوں سے فلیپائن میں اسلامی عقیدے کو مزید تقویت مل گئی تھی، جن کے اس وقت سب سے زیادہ اثرات نہ صرف جنوب میں مرتب ہوئے تھے بلکہ شمال میں منیلا (Manila) تک اسلامی عقیدہ اور تعلیمات کی منور کرنیں نمودار ہوگئی تھیں۔ اسی دوران ماجویندا ناؤ(Megaindnao) کی سلطنت اور سولو (Sulu) کی سلطنت پر مشتمل بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہوئی تھیں۔ جزیرہ نما کے مختلف خطوں۔ملیشیا، انڈو نیشیا اور فلیپائن وغیرہ میں پہلے آنے والے افراد جوکہ سلطانوں کے منصب پر فائز ہوتے تھے وہ عمومی طور پر عرب نژاد تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے تھے جوکہ اپنا حسب و نصب عرب کے شاہی شجرے سے ہونے کا دعوی کرتے تھے۔ شمال مشرقی ایشیا میں اسلام کو فرو غ دینے میں تجارت نے نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلم تاجران نے نہ صرف زندگی کے تجارتی پہلو پر ہی اپنی توجہ مرکوز کی تھی بلکہ اتحاد پیدا کرنے کے لئے انہوں نے روحانیت اور اسلامی جانکاری فراہم کرنے پر بھی اپنی توجہ مبذول کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے عزائم میں کامیابی عطا کی تھی۔

شمالی سماترا (Sumatra) میں ایک ایسا مقام ہے، جہاں پر ہندوستان اور مغربی ممالک سے رابطہ کرنے والی ایک تجارتی راہ داری ہے جوکہ جزیرہ نما تک جاتی ہے اور اسی لئے پہلی مرتبہ اسلام نے جنوب مشرقی ایشیا میں مضبوطی کے ساتھ قدم جمائے تھے۔ 15ویں صدی میں ملقّا (Malacca) اس خطے میں ایسا اہم تجارتی مرکز تھا، جہاں پر اسلامی عقیدہ کو زبردست تقویت ملی تھی اور یہاں سے ہی اسلامی تعلیمات کو وسیع پیمانے پر فروغ ملا تھا۔ مالے کے لیڈروں، جنہوں نے مقامی باشندوں کی سیاسی، اقتصادی اور مذہبی ترقیاتی کاموں میں معاونت کی تھی، ان کی وجہ سے سولو کی سلطنت بہت طاقتور ہوگئی تھی۔ دیگر افراد کے علاوہ سماترا کا ایک شہزادہ راجہ باگوئنڈا (Baguinda) بہت سے لو گوں کے ایک گروپ کے ساتھ 1390 میں فلیپائن آیا تھا اور وہ تمام لوگ اہل اسلام تھے اور سبھی بووانسہ (Buwansa) میں قیام پذیر ہوگئے تھے جوکہ سولو سلطنت کی اولین راجدھانی بن گئی تھی۔ یہاں پر جو پہلے مبلغین آئے تھے وہ یہاں پر مخدومین (Mukhdumin) کے نام سے معروف ہوگئے تھے۔ انہوں نے یہاں کے باشندوں کو اسلامی تعلیمات سے نہ صرف آراستہ کیا تھا بلکہ انہیں راہ راست بھی دکھائی تھی۔

مغربی ممالک کے نوآباد کاروں کی فلیپائن میں آمد سے 2 صدی قبل مسلمان مکمل طور پر اپنے عقیدہ کے مطابق زندگی گزارنے میں آزاد تھے اور ان کی سلطنت بھی اچھی طرح سے منظم اور مستحکم تھی۔ ان کے دور اقتدار میں بہت سے ترقیاتی کام ہوئے تھے اور ان کی حصولیابیاں بھی بلندی پر پہنچ گئی تھیں۔ وہاں کا سلطان جوکہ سیاسی اور مذہبی لیڈر ہوتا تھا وہ اسلام کو تحفظ فراہم کرنے کے فرائض بھی انجام دیتا تھا۔ اسپین اور امریکہ دونوں کے استعماری نظریہ کے حامل افراد کے یہاں آنے کے بعد انہوں نے یہاں کے سلطان کے اختیارات میں کمی کر دی تھی۔ حالانکہ فلیپائن کے مسلمانوں نے نہایت حوصلہ اور شجاعت کے ساتھ ان نوآبادکاروں کی مزاحمت کی تھی لیکن انہیں سماجی، اقتصادی طور پر نقصان اٹھانا پڑا تھا اور ترقیاتی کام تقریباً صفر تک محدود ہوکر گئے تھے۔ جب وسایس (Visayas) اور لوزون (Luzon) کے باشندوں پر آسانی کے ساتھ ان کا غلبہ ہوگیا تھا تو مسلمانوں نے اپنے تاؤ (Tau) ابان (Iban) اور اپنے ملک کے باشندوں اور اپنے مذہب کا دفاع کرنا جاری رکھا تھا۔ اسپین کی استعماریت سے امریکی تسلط اور حالیہ دور تک وہاں کے مسلمان اپنے اسلامی عقیدہ پر قائم رہے۔ جب کبھی بھی انہوں نے بیرونی ممالک کے لوگوں سے خطرہ یا استحصال کئے جانے کا خوف محسوس کیا اور انہیں اس بات کا احساس ہوگیا کہ خطرات کے بادل ان کے سروں پر منڈلا رہے ہیں تو ان کے پاس ایک ہی متبادل تھا کہ وہ عوام کو مذہبی (اسلامی) طور پر بیدار کریں۔ عمیق مذہبی بیداری نے اتحاد کا ایک زبردست جذبہ پیدا کر دیا تھا، جس کی وجہ سے بنگسہ تنگل(Bangsa Tunggal) کے ایک علاقہ میں مورو (Moro) قبائل کے تمام لوگوں میں اسلام کے آفاقی عقیدہ کو وسیع ترین تقویت حاصل ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں اسلامی بھائی چارہ کے بنیادی اصول کو فروغ حاصل ہوگیا تھا اور پھر سے فرزندان توحید اسلامی تبلیغ و تشہیر کرنے میں مصروف ہوگئے تھے۔

جنگ عظیم دوئم سے ہی پوری دنیا میں اسلامی اصول و ضوابط کی احیا ہونے سے فلیپائن کے مسلمانوں میں اتحاد و یکجہتی کا جذبہ بھی مضبوط ہوگیا تھا۔ 1970 کی ابتدائی دہائی سے اس ملک میں مسلم اساتذہ آنے شروع ہو گئے تھے اور فلیپائن کے مسلمان بھی بیرونی ممالک کا سفر کرنے لگے تھے چاہے ان کا مقصد حج بیت اللہ کے فرائض انجام دینے کے لئے سعودی عرب کا سفر کرنا ہو یا پھر اسکالرشپ ملنے کی وجہ سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بیرون ملک جانا ہو، اس سے قبل اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے لئے یہاں کے مسلمان بیرونی ممالک میں واقع اسلامی مراکز میں نہیں جا پاتے تھے۔ فلیپائن کے مسلمانوں میں رفتہ رفتہ درس وتدریس میں زبردست دلچسپی پیدا ہونے لگی تھی۔ اسلامی عقیدہ کی تازگی کے ساتھ جب وہ اپنے وطن واپس آتے تھے تو انٹرنیشنل اسلامک کمیو نٹی (International Islamic Community) کے توسط سے اپنے ہم وطن دیگر موروس (Moros) سے رابطے مضبوط کرتے تھے۔ اس رابطے اور بھائی چارہ کا ایک خوش آئند ثمرہ اس طرح سے سامنے آیا کہ وہاں کے مسلمانوں نے نئی نئی مسجدیں تعمیر کرانے کے علاوہ مذہبی اسکول بھی قائم کرنے شروع کر دیئے تھے، جہاں بلاتفریق جنس تمام طلبا نہ صرف تعلیم حاصل کرتے تھے بلکہ وہاں پر ان کو قرآن کریم کی تعلیم کے علاوہ اسلام کے بنیادی اصول اور روایات کی جانکاری بھی دی جاتی تھی۔ اعلی تعلیم کے بہت سے ادارے جیسے جمیعت ال فلیپائن ال اسلامیہ میں ’ایڈوانس کو رسسز‘ کے نصاب تعلیم بھی شروع کر دیئے گئے تھے۔

تقریباً تمام موور ملک کے جنوبی خطہ یعنی جنوبی اور مغربی منڈانا و(Mindanao)، جنوبی پلاون (Palawan) اور سولو جزیرہ نما میں یکجا ہو گئے تھے۔ مورو نسلی گروپ میں کم از کم 10 نسلی گروپ تھے لیکن یہ سب ما قبل تاریخ تائیوان (Taiwan) سے ہجرت کرکے یہاں آتے تھے جوکہ فلیپائن اور جنوب مشرقی بحری ایشیا میں آباد ہوئے تھے۔ ان سب کی شناخت ان کی زبان اور لب و لہجہ سے کی جا سکتی ہے۔ ان میں سے تین گروپوں سے موروس کی اکثریت میں اضافہ ہو گیا تھا جن کا تعلق شمالی کوٹاباٹو (Cotabato)، سلطان قدرت (Kudarat) اور ماجو ینڈاناؤ صوبہ سے تھا۔ لانو (Lano) کے دو صوبہ جات کے میراناؤس (Maranaos) اور توسگس (Tausugs) کا تعلق جولو (Jolo) جزیرہ نما سے تھا۔ چھوٹے گروپ ساملس (samals) با جواس (Bajuas) کا تعلق سولو جزیرہ نما سے تھا۔ اس طرح بہت سے جزائر سے تعلق رکھنے والے موروس کی یہاں پر اکثریت ہوگئی تھی۔ مورو معاشرے کا روایتی رجحان سلطان کی جانب ہوتا تھا جوکہ ان کے لئے سیکولر اور مذہبی رہنما (Leader) کی حیثیت رکھتا تھا۔ داتو (Datu) جوکہ اس طبقہ کا لیڈر ہوتا تھا وہ موور سوسائیٹی میں کلیدی کردار ادا کرتا تھا۔

1946 میں آزادی ملنے کے بعد یہاں کی حکومت نے اپنی پالیسیاں مرتب کی تھیں اور اس نے غیر عیسائی قبائل کے لئے امریکہ کے ذریعہ تشکیل دیئے گئے بیورو(Bureau) کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ فلیپائن کی حکومت نے آزادی ملنے کے کچھ دن بعد ہی یہ محسوس کر لیا تھا کہ یہاں پر خصوصی نوعیت کی ایک ایسی ایجنسی کی ضرورت ہے جو کہ مسلم اقلیت کی جانب توجہ دے سکے۔ چنانچہ 1957 میں قومی یکجہتی کمیشن (Commission for National Integration) قائم کیا گیا، جس کو بعد میں ڈپارٹمنٹ برائے اسلامی امور اور ثقافتی طبقات میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس ڈپارٹمنٹ کے وجود میں آنے کے بعد ملک میں اسلامی فضا موروس کے لئے سازگار ہو گئی تھی۔

گزشتہ روایت سے ہٹ کر ایک اہم پیش رفت 1990 میں اس وقت ہوئی تھی جب مسلم منڈنا و کو خود مختار خطہ قرار دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں کو اس خطہ کی حکومت کے محکموں، قومی سلامتی اور امور خارجہ کو چھوڑ کر، کنٹرول کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا تھا۔ موروس کا ایک کثیر لسانی نسلی گروپ ہے اور یہ نسلی گروپ فلیپائن میں سب سے بڑا ہے جوکہ اس ملک کی کل آبادی کے 5.25 فیصد ہیں۔ 2005 کی مردم شماری کے مطابق وہ اس ملک میں سب سے بڑے نسلی گروپ کے طور پر قیام پذیر تھے۔ فلیپائن میں موروں (Moros) روایتی طور پر سلطان یا پھر ایک داتو (datu) کی قیادت میں رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خود مختار منڈانا و خطہ میں وہاں کا نظام علاقائی گورنر کے ہاتھوں میں ہوتا تھا اور اس کے ساتھ ایک نائب گورنر بھی ہوتا تھا۔ یہ انتظامیہ کی ایک شاخ کے تحت پر اپنے فرا ئض انجام دیتے تھے۔ خود مختار خطہ میں مجلس واحد (Unicamera) والی ایک اسمبلی ہوتی ہے، جس کا سربراہ اسپیکر ہوتا ہے۔ مقننہ کے قوانین متعلقہ خطہ میں نافذ ہوتے تھے اور ان کا نفاذ کرانے والی کمیٹی 3اراکین پر مشتمل ہوتی تھی۔ بہرکیف تمام قوانین میں اسلامی نظریات ملحوظ خاطر رکھے جاتے تھے۔

مذکورہ بالا سطور کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اسپین اور امریکہ کی استعماریت کے دوران بے شمار نشیب و فراز کا سامنا کرتے ہوئے فلیپائن کے باشندے جن میں موروں کی کثیر تعداد تھی وہ اسلامی عقیدہ پر استحکام کے ساتھ ثابت قدم رہے تھے اور آج بھی وہ اسلامی تعلیمات، روایات نیز تہذیب و تمدن کے مطابق اپنے شب وروز گزار رہے ہیں۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close