Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

مملوک طرز تعمیر کا اعلی نمونہ مسجد اسلم السلہدار

مصر سیاحوں کی نظر میں آج بھی ایک پر اسرار ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ مصر کی تہذیب و تاریخ آج بھی اپنے اسرا و رموز کو لے کر اہمیت کی حامل ہے۔مصر کے فراعین اور ان کی حکومت پر آج بھی ریسرچ چل رہی ہے۔ اہرام مصر دنیا کے سات عجائبات میں شامل ہیں۔ صرف اہرام مصر کو دیکھنے کے لئے عالمی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد مصر جاتی ہے۔ مصر کی حکومت کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی قید وبند اور بادشاہت تک کا ذکر مصر سے ہی منسوب ہے۔ معروف زمانہ نیل ندی آج بھی مصر میں موجود ہے، اسی ندی میں فرعون کا لشکر غرقاب ہو گیا تھا۔ فرعون اور حضرت موسیٰ سے معرکہ آرائی اسلامی تاریخ کا ایک حصہ ہے لیکن اہل مصر جو اپنے فن میں ماہر تھے۔ اہرام کی تعمیر اور ممیوں کو محفوظ رکھنے کا جو طریقہ انہوں نے اس دور میں اپنایا تھا سائنس اس پر بھی حیران ہے۔ مصر میں تاریخ کے نادر ونایاب نمونے آج بھی کئی جگہوں پر پنہاں ہیں۔ لیکن مصر کی جو اپنی تاریخ رہی ہے وہ فراعین اور اہراموں کو لے کر رہی ہے۔ اہراموں کو دیکھنے کی دلچسپی کو لے کر سیاح مصر جاتے ہیں لیکن اب وہاں کی تعمیرات خاص کر مسجدوں کے بارے میں بھی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ اسلامی وراثت کی شاندار تاریخ آج بھی مصر میں موجود ہے۔ اسی وراثت میں اسلم سلہدار مسجد بھی ہے، جس کی طرز تعمیر میں مملوک حکومت کی طرز تعمیر کا عکس نمایاں ہے۔ گوکہ یہ ایک قدیم مسجد ہے لیکن آغا خان ٹرسٹ فار کلچر کے ذریعہ اس کی تزئین نو کے بعد یہ مسجد آج اسلامی تاریخ و تعمیر کا ایک نادر نمونہ بن گئی ہے۔ اہراموں کو دیکھنے کے لئے آنے والے سیاح اس مسجد کی تعمیر کو بھی دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ اسلم سلہدار مسجد کی حکومت کی جانب سے تجدید کاری نے اسے ایک یادگار زندگی دے دی اور آج یہ آثار قدیمہ کا ایسا عظیم سرمایہ ہے جس سے ملک میں بھی سیاحت کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ زیر نظر مضمون میں اسلم سلہدار مسجد کی طرز تعمیر، آرائش و تزئین کے ایک ایک نکات پر بحث کی گئی ہے۔ یہ مضمون اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے طلباء کے علاوہ آرکیٹیکٹ کے شعبہ سے منسلک افراد کے لئے بھی معلومات کا خزینہ رکھتا ہے:

قاہرہ کے الدارب الاحمر (Al -Darb Al -Ahmar) میں واقع 650 سال قدیم اسلم السلہدار مسجد (Aslam Al-Silahdar Mosque) کو 3 سالہ منصوبہ کے تحت سیاحت کو فروغ دینے کے لئے 1.4 ملین ڈالر کے صرفہ سے مرمت اور تجدید کاری کرکے 9 سال قبل بحال کیا گیا تھا۔ قاہرہ میں واقع یہ مسجد اسلامی تاریخ میں نہایت اہمیت کی حامل رہی ہے۔ ایک طویل مدت تک اس مسجد کے رکھ رکھاؤ کی جانب خصوصی توجہ نہیں دی گئی تھی۔ یہی سبب ہے کہ سیاح گیزا اہراموں (Giza Pyramids) کے مقابلے اس مسجد کی جانب متوجہ نہیں ہوئے تھے اور اہراموں کو دیکھنے میں ہی ان کی زیادہ دلچسپی ہوتی تھی۔ جب مصر کی حکومت نے اس صورتحال کا جائزہ لیا تو اس نے اس قدیم ترین مسجد کی تجدید کاری اور اسے بحال کرنے کا ارادہ کر لیا تھا تاکہ سیاحت کے اعتبار سے قدیم اسلامی مقامات کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائے۔ حکومت کے اس فیصلہ سے نہ صرف اسلامی ورثہ کی یہ قدیم عمارت بحال ہوگئی بلکہ سیاحوں کی تعداد میں بھی زبردست اضافہ ہوگیا۔

معروف ترین نیوز ایجنسی ’اے پی‘ (AP) کی رپورٹ کے مطابق اسلم سلہدار مسجد ایسے علاقے میں واقع تھی، جس کی کچھ گلیوں میں گنجان آبادی ہوا کرتی تھی۔ ایجنسی نے اس بات کا انکشاف بھی کیا تھا کہ غربت میں زندگی گزرنے والے 92000 باشندوں کے اس علاقہ میں کناڈا کی ڈیولپمنٹ ایجنسی (Canadian Development Agency) نے ترقیاتی کام کرائے تھے۔ اس علاقہ کے اطراف میں بے شمار آثار قدیمہ ہیں، جہاں پر ہر 20 میٹر کے فاصلے پر ایسے اسلامی مونومینٹ (Monuments) موجود ہیں جن کا تعلق قاہرہ کے ابتدائی دور سے لے کر گیارہویں صدی کے دور سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن آج بھی دور جدید میں ان کا وجود اہمیت کا حامل ہے۔

آغا خان ٹرسٹ فار کلچر (Agha Khan Trust for Culture) کے جنرل منیجر لوئس مونرئیل (Louis Monreal) نے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ ترقیاتی کام کرانے کا مشورہ انہوں نے اس لئے دیا تھا کہ اسلم مسجد جس علاقے میں واقع ہے اس کا موازنہ ’روم‘ (Rome) سے اس لئے کیا جا سکتا ہے کہ وہاں پر بھی کثیر تعداد میں یادگاریں (Monuments) واقع ہیں۔ عطیہ دینے والے کچھ امریکی باشندوں کے علاوہ مصر میں واقع امریکن ریسرچ سینٹر نے اس مسجد کا تحفظ کرنے میں تعاون دیا تھا، جس میں امریکہ کی امداد (USAID) بھی شامل تھی۔ اس کے علاوہ مصر میں امریکہ کے سفیر کے فنڈ سے بھی معاونت کی گئی تھی۔ چنانچہ اسلم مسجد کے فرش سے لے کر چھت تک کی مرمت کرائی گئی تھی اور اسلامی طرز کے محراب دار گلیاروں کو روشن کرنے والے لیمپ لٹکائے گئے تھے۔ اس مسجد کے تمام فرش چکنے پتھروں سے آراستہ کئے گئے تھے۔ علاوہ ازیں اس مسجد کے اہم گنبد کو باہر کی جانب سبز اور کالے رنگ کی عربی خطاطی سے آراستہ کیا گیا تھا۔

جب گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا گیا تھا تو یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ اس ضلع میں بہت سی مسجدیں، مقبرے اور اسلامی اسکول خستہ حال میں ہیں یا پھر وہ کھنڈروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ چنانچہ آغا خان ٹرسٹ کی مصر میں واقع کنزرویشن برانچ کے پروگرام منیجر دینا باخوم (Dina Bakhom) نے کہا تھا کہ ”الدارب الاحمر میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو قاہرہ میں زبردست دلکشی کا باعث بن سکتی ہیں، اسلئے ایجنسی الدارب الاحمر میں وسیع پیمانہ پر شہری تجدید کاری کے کام انجام دے رہی ہے۔“ ایک ابتدائی ریکارڈ کے مطابق اسلم السلہدار مسجد کی تعمیر ایک امیر (Noble) اسلم ال بہائی، جوکہ سلطان الناصر محمد کے دور اقتدار میں سلہدار یا شمشیر بردار کے عہدہ تک پہنچ گئے تھے، 744-745 ہجری میں کرائی تھی۔ وہ سلسلہ مملوک سلاطین کا نہایت اہم دور تھا۔ لہذا طرز تعمیرات میں انہوں نے زبردست دلچسپی دکھائی تھی۔ اسی لئے ماہرین تاریخ نے نیک کارناموں اور رحمدلی کے جذبہ سے سرشار السلہدار کو ”ال مقریزی“ (Al Maqrizi) کے خطاب سے سرفراز کیا تھا۔

اس علاقہ میں جہاں پر یہ مسجد واقع ہے، اس نے ایک صدی کے خاتمہ کے بعد دوسری صدی شروع ہونے پر تعمیراتی تغیرات دیکھے تھے۔ یہ مسجد نسبتاً کافی کشادہ علاقہ میں واقع ہے جوکہ مشرقی ایوبی شہر کی فصیل کے احاطہ میں ہے اور وہاں سے الا زہر پارک نظر آتا ہے۔ مشرق کی جانب ہی 300 میٹر کے فاصلہ پر ابو حربیہ اسٹریٹ بھی ہے۔ اس مسجد کا مشاہدہ کرنے پر ایسے ثبوت بھی ملتے ہیں کہ اس مسجد کو مرحلہ وار تعمیر کرایا گیا تھا۔موجودہ مربوط حصوں کی طرز سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک متحدہ اور سلسلہ وار ڈھانچہ تعمیر کرانے کے نتیجے میں یہ عمارت وجود میں آئی تھی۔

اس مسجد کے بعد الاحمد مہماندار مدرسہ۔مقبرہ کا کمپلیکس بھی نقش اول قرار دیا جاتا ہے، جس میں کلیسائی منصوبہ کی جھلک ملتی ہے تاہم یہاں پر مختلف روایتی تبدیلیاں بھی قابل ذکر ہیں، جن میں سے دروازہ کا ڈیزائن قابل غور ہے۔ جہاں سے لوگ براہ راست مسجد کے دیوان تک جاتے ہیں۔ دوسرا دروازہ راست طور پر صحن تک جاتا ہے، جس کا گھماؤ دار راستہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعد والا دروازہ ثانوی حیثیت کا رہا ہوگا جبکہ جنوب کی جانب سامنے والا دروازہ ہی اہم دروازہ کے طور پر استعمال ہوتا ہوگا، جہاں سے ’امیر‘ حضرات ہی مسجد میں داخل ہوتے ہوں گے۔ اس مسجد کے کلیسائی پلان سے دیگر مختلف پہلو بھی عیاں ہوتے ہیں جیسے کہ چار ایوانوں کا روایتی پلان۔مشرق۔مغربی اور شمال۔جنوبی ایوانوں کی اونچائیاں مختلف ہیں۔ افقی اور عمودی خصوصیات کی وجہ سے ان میں غیر ملکی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس مسجد کے شمالی اور جنوبی ایوانوں کے راستے محراب دار ہیں، جن میں سے ہر ایک کے دو ستون (Column) ہیں۔ مشرقی اور مغربی ایوان محراب دار ہیں جبکہ قبلہ ایوان میں قدر غیر معروف محراب اور ایک چھوٹا سا منبر ہے لیکن اطراف کی دیواروں پر بڑے ہی دلکش انداز میں گو لائی دار آرائشی نقش ونگاری کی گئی ہے۔ قبلہ ایوان کے اہم محراب کے اوپر ایک آرائشی تمغہ نصب کیا گیا ہے جس کی عربی انداز میں پتّوں کی طرز پر سرخ اور نیلے رنگ کے شیشوں سے تزئین کاری کی گئی ہے۔ شمالی اور جنوبی ایوان جوکہ سہ رُخی بر آمدہ سے ہوکر صحن کی جانب ہیں ان کی چھتیں ہموار ہیں جن پر کسی زمانے میں کمرے تعمیر کرائے گئے تھے، جن میں کمپلیکس کے لوگ ہی قیام کرتے تھے۔

قیاس آرائی کی جاتی ہے کہ جنوبی ایوان کے اوپر جو کمرہ تعمیر کرایا گیا تھا وہ امراء کے لئے استقبالیہ روم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہوگا جوکہ مدرسہ کے شیوخ ہی ہوتے تھے۔ اس کمرے کو عمارت کے سامنے والے حصہ میں صدر دروازہ کے اوپر تعمیر کرایا گیا تھا۔ اس کمرے کے مقابل لائبریری (Library) بنائی گئی تھی لیکن اس میں داخل ہونے کے لئے الگ سے زینہ (سیڑھیاں) تعمیر کرایا گیا تھا۔ عمارت کے سامنے والے حصہ میں تعمیر شدہ ان کمروں کے اندر تین کھڑکیوں کا اہتمام کیا گیا تھا، جنہیں پلاسٹر کی آرائشی جالیوں سے آراستہ کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں مشرقی ایوان پر محراب دار راستہ بنایا گیا تھا جسے صرف ایک میڈا لین (Medalion) پینل سے آراستہ کیا گیا تھا۔ ایوان کے اوپر جو دوسری بالکونی تعمیر کرائی گئی تھی وہ مملوک دور کی مسجدوں کی ایک انوکھی خصوصیت تصور کی جاتی تھی جو کہ عثمانی دور کی مسجدوں میں کافی مقبول ہوگئی تھیں۔ ایسا تصور کیا جاتا ہے کہ جگہ کی کمی کے سبب یہ مقام طلباء اور شیوخ کے استعمال میں رہتا ہوگا۔ خواتین کے ذریعہ اس جگہ تک رسائی کرنے کے لئے رہائشی جگہوں سے ہوتے ہوئے الگ سے ایک زینہ تعمیر کرایا گیا تھا۔

اس مسجد کے سامنے والے دو حصے ہیں۔ ان کی سب سے زیادہ دلچسپ خصوصیت یہ ہے کہ جنوب کی جانب ایک مستطیل ماربل کا پینل ہے جس میں سرخ، کالے اور سفید رنگ والے تکونے شکل کے ٹکڑے نصب کئے گئے ہیں، جوکہ ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں اور ان کی دلکشی قابل دید ہے۔ اس کمپلیکس میں واضح طور پر مملوک طرز تعمیر کی عکاسی ہوتی ہے اور کسی بھی طرح کے مستقل طرز تعمیر کو نظر انداز کیا گیا ہے یعنی ایک ہی طرح کا طرز تعمیر اختیار نہیں کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس کمپلیکس کی طرز تعمیر میں تنوع دکھائی دیتا ہے۔ اس عمارت کے ایوانوں، دروازوں اور صحنوں کی مختلف انداز میں تزئین کاری کی گئی ہے۔ اس مسجد میں آج بھی مقامی باشندے نماز ادا کرتے ہیں اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ یہ ایک ایسے چوراہے پر واقع ہے، جہاں سے الدارب الاحمر علاقہ کا قاہرہ سے رابطہ ہے اور وہاں سے جنوب کی جانب شہری قلعہ تک راستہ جاتا ہے۔

امریکن ریسرچ سینٹر جو کہ مصر میں واقع ہے، اس کے مطابق قاہرہ میں یہ مسجد مملوک طرز تعمیر کی ایک شاہکار ہے لیکن ادوار گزرنے کے ساتھ اس کی حالت خستہ ہو گئی تھی لیکن آثار قدیمہ کی دیکھ بھال اور رکھ رکھاؤ والی کمیٹی نے 20 ویں صدی میں اس کی مرمت اور تجدید کاری کرنے کے بعد اس کو بحال کر دیا تھا اور اسے کسی بھی قسم کا نقصان ہونے سے بچا لیاگیا تھا۔ امریکی ریسرچ سینٹر نے ابھی حالیہ دنوں میں باب زویلا (Bab Zuwayla) اور الازہر پارک کو سنوار دیا ہے۔ اب کلچرل ٹورزم کے توسط سے اس مسجد کے ترقیاتی کام کرائے جاتے ہیں تاکہ مسلسل طور پر اس کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ 2006 میں آغا خان کلچرل سروسز کے ساتھ ایک ادارہ جاتی شراکت کی گئی تھی تاکہ اس مسجد کو تحفظ فراہم کرانے کے لئے فنڈ کا اہتمام کیا جا سکے۔ اس مسجد کو تحفظ فراہم کرنے کا پروجیکٹ 2009 میں مکمل ہو گیا تھا، جس کا مقصد اس عمارت (مسجد) کے تعمیراتی ڈھانچہ کو طویل مدتی استحکام فراہم کرنے کو یقینی بنانا اور اس میں کی گئی تاریخی فنکاری اور ان کی خصوصیات کو برقرار رکھنا تھا۔

آج اس قدیم مسجد کی مرمت اور تجدید کاری کے ساتھ نہ صرف اسے بحال کر دیا گیا ہے بلکہ اس کی آرائش اور تزئین کاری بھی کر دی گئی ہے۔ اب سیاح جس طرح اہراموں (Pyramids) کی جانب متوجہ ہوتے تھے، اب اسلم سلہدار مسجد کی جانب بھی متوجہ ہونے لگے ہیں اور جسے دیکھ کر وہ محو حیرت رہ جاتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اس مسجد کی تجدید کاری سے نہ صرف آثار قدیمہ کی ایک بے مثال یادگار کو حیات نو مل گئی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اس ملک میں سیاحت کو بھی فروغ حاصل ہوا ہے۔ حکومت کے شعبہ سیاحت کے اعدادوشمار کے مطابق دیگر تاریخی مقامات کی مانند سیاح اس مسجد کا دیدار کرنے کے لئے ضرور جاتے ہیں۔ اس طرح سے صدیوں سے نظر انداز کئے جانے والی اسلم سلہدار مسجد آج سیاحوں کو اپنی دلکشی اور تاریخی فنکارانہ طرز تعمیر کے سبب ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہے، جہاں پر پنج وقتہ نمازوں کے پیش نظر سیاحوں کے لئے الگ سے اوقات متعین کر دیئے گئے ہیں۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close