Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

بحر ہند کے ستاروں کا کمال…ماریشش کی مسجدیں

اسلام کے فروغ میں تجارت کو زبردست اہمیت حاصل رہی ہے۔ تجارت ہمارے رسولؐ کی سنت ہے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس کو مقدم جانا اور جب اسلام کی روشنی دنیا میں پھیلنے لگی تو مسلمانوں کے قدم مشرق سے مغرب، جنوب تا شمال کی طرف بڑھنے لگے اور انہوں نے جہاں جہاں اور جن ملکوں میں سکونت اختیار کی وہاں تجارت کو ذریعہ معاش بنایا اور اس ملک کی تہذیب و ثقافت کو بھی اپنایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ تہذیبی اشتراک دین کے فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا اور اسلام کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ ویسے بھی تجارت عربوں کے خمیر میں شامل رہی ہے ابتدائی دور میں ہندوستان کے ساحلی علاقوں عرب تجّار کی آمد ہوتی رہی ہے۔ خاص کر کیرل اور گجرات کے ساحلوں پر عربوں کے بحری تجارتی جہازوں کی آمد کا سلسلہ دراز رہتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان سے عربوں کی دوستی کے جو مراسم ہوئے ہیں وہ آج تک قائم ہیں۔ عربوں کے اسی تجارتی سلسلے نے ہندوستان میں اسلام کے فروغ میں بھی حصہ لیا۔ گجرات کی جو تاجرانہ ذہن وحکمت ہے وہ دراصل عربوں کی ہی دین ہے ورنہ اس سے قبل یہ ذہنیت نہیں تھی۔ عرب تاجروں کے بعد پرتگال کے ڈچ تاجروں اور پھر انگریز تاجر ہندوستان اور انہوں نے اپنی تاجرانہ حکمت عملی کے تحت پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا اور جب دنیا پر سلطنت انگلیشہ کا اقبال بلند ہوا تو برطانوی سامراجیہ نے دنیا میں اپنی کالونیاں بنانی شروع کر دیں۔ ماریشش بھی انگریزوں کے تسلط کا ایک مرکز تھا، جہاں انگریز تاجرانہ ذہنیت کے تحت اپنے مفاد کی جڑیں مضبوط کرتے رہے اور اپنا خزانہ بھرتے رہے۔ ماریشش میں انگریزوں نے بڑی تعداد میں ہندوستان سے غلاموں کو اسمگل کیا، کھیتوں میں گنے کی کاشت اور چینی بنانے کے کارخانوں میں کام کرنے کے لئے ہندوستان کے مزدور ماریشش لے جائے جانے لگے جو خاص کر بہار کے سارن ضلع کے تھے لیکن گجرات کے مسلمانوں نے اپنی تاجرانہ حکمت کے تحت ماریشش کو اپنا مرکز بنایا اور وہاں تجارت وصنعت کی نئی بنیادیں رکھیں۔ خدا کا کرشمہ دیکھئے آج ماریشش نئے ہندوستان کا روپ دھار چکا ہے، ہندوستان سے آئے مزدور آج ماریشش کے اقدارو سیاست کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔ ماریشش کا ہندوستان سے نانہالی رشتہ بن چکا ہے اور کمال قدرت تو یہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کی تعداد 18 فیصد ہے جو نہ صرف یہاں کی اقدار وسیاست کا اہم حصہ بن چکے ہیں بلکہ دین کی خدمت میں بھی اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ زیرنظر مضمون ماریشش میں وہاں کے مسلمانوں کی دینی خدمات سے عبارت ہے۔ وہاں کے مسلمانوں نے جس طرح شاندار مسجدیں تعمیر کرائی ہیں وہ ان کے حوصلے اور جدوجہد کا کرشمہ ہیں اور ہمیں درس دیتی ہیں کہ دور خواہ کتنا ہی نامساعد کیوں نہ ہو۔ اللہ پر پورا بھروسہ اور جدوجہد سے ہرمنزل کو سر کیا جا سکتا ہے:

بہت سے ملکوں کے باشندوں نے ملازمت یا تجارت کے اعتبار سے ترک وطن کیا تھا اسی طرح جن مسلمانوں نے بھی دیگر ممالک میں ہجرت کرلی تھی، اسلام کو فروغ دینے میں انہوں نے نہایت جفاکشی کے ساتھ تعاون دیا تھا۔ اس وقت ہجرت کرنے والے بہت سے افراد کو غلامی کی زندگی گزارنی پڑی تھی اور بہت سے لو گوں کو کاشتکاری کے کاموں میں ٹھیکہ کی بنیاد پر ملازموں کی حیثیت سے رکھا گیا تھا۔ ابتدائی ایام میں ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن ان کے صبر و استقلال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے حوصلے نہ صرف بلند کر دیتے تھے بلکہ ان کے عزائم میں بھی تقویت کا مزید اضافہ کر دیا تھا۔ چنانچہ اسی عزم وحوصلہ کی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام ضیاء فگن ہوگیا۔ آج مغربی ممالک میں اسلام کو بدنام کرنے یا اسے دہشت گرد مذہب قرار دینے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔ وہیں اس آفاقی مذہب کی قدر ومنزلت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے فرزندان توحید اسلام کی روشنی سے پوری دنیا کو منور کر رہے ہیں۔ انہیں لوگوں میں بحرہند کے ساحلوں پر واقع ممالک کے افراد بھی شامل ہیں، جنہیں ’بحر ہند کے ستارے‘ قرار دیا گیا ہے۔

ماریشش کے مسلمانوں کی تاریخ سے وابستہ ایک اہم دستاویز سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ مسجد تعمیر کرانے میں اس دستاویز پر وہاں کے گورنر ڈیکین (Decaen) نے دستخط کئے تھے۔ اس سے اس بات کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے کہ فرانسیسی دور اقتدار میں بھی ماریشش میں مسلمان آباد تھے۔ 1798 میں مسلمان پورٹ لوئس (Port Louis) میں آباد ہوئے تھے۔ دریں اثناء انہوں نے مسجد تعمیر کرانے کے لئے ایک پلاٹ الاٹ کئے جانے کے لئے مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ 16 اکتوبر 1802 میں گورنر ڈیکین نے مسلمانوں کی درخواست منظور کرلی تھی۔ اس رعایتی دستاویز پر دستخط کرنے کے ساتھ ہی ’کیمپ ڈیس لاسکرس‘ (Camp des Lascars) میں لاسکر پروپرٹیز (Laskar Proprietaires) کے ایک گروپ سے ایک پلاٹ خریدنے کا خیال آیا تھاکہ ایک چھوٹا سا گرجا گھر بھی تعمیر کرایا جائے تاکہ وہاں پر عیسائی طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر سکیں۔ 120 مربع میٹر رقبہ پر محیط یہ گرجا گھر آج بھی موجود ہے جو کہ ڈاکٹر حسن شاکر پیگوڈا (Pagoda) کے نام سے معروف رہا ہے۔ اس نام سے معروف ہونے کی وجہ سے فرانسیسی آباد کاروں نے مغالطہ سے مسجد کو پیگوڈا سمجھ لیا تھا۔

اصلی مسجد 1805 میں کسی وقت کے درمیان تعمیر کرائی گئی تھی اور 1818 میں ایک زبردست طوفان آنے پر وہ تباہ ہوگئی تھی، اس کے فوراً بعد اس کی تعمیر نو کرائی گئی تھی۔ 1851 میں اس مسجد کو تعمیر کرانے کے دوران امام صوبیدار نے اس (جامع مسجد) کی محراب تلاش کرلی تھی۔ ماریشش میں مسلم آبادی جوکہ ”بحرہند کے ستارے اور کلید“ (The Star and Key of Indian Ocean) کے طور پر جانے جاتے ہیں ان میں سے تقریباً 95 فیصد سنی مسلمان ہیں اور ان میں زیادہ تر تعداد مسلمانوں کی ہے جوکہ اردو بولتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ دیگر زبانوں جیسے بھوجپوری، گجراتی اور تمل میں بھی بات چیت کرتے ہیں۔

سب سے بڑی اور دوسری قدیم ترین عبادت گاہ جمعہ مسجد ہے جوکہ پورٹ لوئس (Port Louis) میں واقع ہے۔ اس کے علاوہ قصبات اور دیہی علاقوں میں بہت سی چھوٹی چھوٹی مسجدیں بھی واقع ہیں۔ بنیادی طور پر پلین ورٹے (Plaine Verte)، وارڈ (Ward IV)، ولے پیٹوٹ (Ville Pitot) اور کیمپ یولوف (Camp Yoloff) اور ان کے اطراف میں مسلمانوں کی آبادی رہی تھی لیکن مسلمانوں کی سب سے زیادہ گنجان آبادی راجدھانی پورٹ لوئس (Port Louis) میں ہے۔ 1989 کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی 1,080,000 ہے جن میں سے مسلمانوں کی آبادی 179.280 ہے۔ حالیہ اعداد وشمار ابھی تک دستیاب نہیں ہیں کیونکہ مذاہب سے تعلق رکھنے والے کالم کو ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ اس جزیرہ میں مسلمانوں کا سیاسی سیکٹر میں بھی زبردست رول رہا تھا یعنی آزادی سے قبل جو تحریک چلائی گئی تھی تو اس تحریک ”سی اے ایم“ (CAM)(Communanute d’ Action Musulmane)کی قیادت عبد الرزاق محمد نے کی تھی اور وہاں کے ہونے والے اولین وزیراعظم شیو ساگر رام غلام (Seewoosagar Ramgoolam) سے اتحاد کر لیا تھا اور اس اتحاد کی وجہ سے لیبر پارٹی اکثریت کے ساتھ جیتنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ دیگر معروف سماجی اور سیاسی شخصیتوں میں عبد الحکیم عبدالرزاق کا نام قابل ذکر ہے۔ بنیادی طور پر ان کا تعلق تری نداد سے تھا جوکہ اپنی محنت سے ایک بڑے بزنس مین بن گئے تھے۔ انہوں نے ہی امپیئرنری آئیڈیا لے (Imprinerie Ideale) کی بنیاد ڈالی تھی اور ’لی سیٹوین (Le CitoYen) کے نام سے ایک اخبار جاری کیا تھا۔ اپنے طبقہ کے دیگر ارا کین کے ہمراہ انہوں نے نہ صرف اسلامک کلچرل کالج کی بنیاد ڈالی تھی بلکہ بہت سے سماجی اور مذہبی پروجیکٹوں کی اقتصادی معاونت بھی کی تھی۔ ان ہی میں سے ایک پلین ورٹے (Plaine Verte) میں واقع ”رابطہ بلڈنگ“ بھی ہے۔

اپوزیشن ایم ایم ایم (Mouvement Militant Maurician) کے رکن قاسم اتیم (Cassam Uteem) نیو ماریشش ری پبلک (New Mauritian Republic) کے اولین صدر منتخب ہوئے تھے۔ ماریشش کے مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی کثیر تعداد ہے جوکہ تاجر، بزنس مین بھی ہیں جیسے کہ کریم جی برادر زیا ایچیاس (Atchias) وغیرہ ان کے علاوہ بہت سے پیشہ ور اور رائٹر بھی یہاں پر موجود ہیں۔ ماریشش جزائر پر مشتمل ایک ایسا ملک ہے جوکہ ایشیا کے جنوب اور افریقہ کے مشرق میں واقع ہے۔ بنیادی طور پر فرانس نے یہاں پر نو آباد کاری کی تھی لیکن نیپولین کو جنگ میں شکست دینے کے بعد یہاں پر برطانیہ کا تسلط قائم ہو گیا تھا۔ ان جزائر میں آج بھی فرانسیسی نظریہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ حکمرانوں (برطانیہ) نے یہاں کی زبان و ثقافت اور تہذیب کو پوری 19 ویں اور 20 ویں صدی تک برقرار رکھا تھا۔ نو آباد کاری کے دور سے ہی ماریشش کے لوگ یہاں آباد ہیں، جن میں افریقہ کے غلام اور ٹھیکہ پر ملازمت کرنے والے ہندوستانی مزدور بھی شامل ہیں۔

1735 کے آس پاس ماہے ڈی لیبر ڈونائس (Mahe de Labourdonnais) بعد میں کالونی کی ترقی کرنے کے لئے ہندوستان سے بہت سے ملازمین کو لایا گیا تھا، جن میں کچھ تجارت کرنے والے افراد بھی شامل تھے جوکہ پورٹ لوئس (Port Louis) میں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ یہاں کی بندرگاہ اور جہاز سازی کی گودی (Dockyard) کے ترقیاتی کاموں کے لئے کاریگروں اور ملاحوں کو مامور کر دیا گیا تھا۔ ان میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جوکہ نجاروں اور لوہاروں کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ 1758 میں ہندوستانی تاجروں کا ایک گروپ یہاں آیا تھا، جنہوں نے شاندار طریقہ سے تجارت کو فروغ دیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں مسلمان تاجر بھی شامل تھے اور آج بھی پورٹ لوئس میں وہی روایتی تاجرانہ روش اختیار کر رہے ہیں۔ کشتی بان اور ملاح کی حیثیت سے جو لوگ بندرگاہ میں کام کرتے تھے انہیں لاسکر (Laskar) کہا جاتا تھا اور یقینی طور پر یہ تمام لاسکر مسلمان تھے چنانچہ کیمپ ڈیس لاسکر مسجد (Camp Des Laskars Mosque) ماریشش میں اولین اور قدم ترین مسجد ہے۔ نمازیوں کی تعداد کے پیش نظر اس مسجد میں برسوں تک بہت سی تبدیلیاں کی گئی تھیں اور مختلف ترقیاتی کام کرائے گئے تھے۔ اس میں توسیع اور تزئین کاری بھی کرائی گئی تھی جوکہ سال در سال ہوتی رہتی تھی۔تاہم یہ مسجد اسی جگہ پر قائم رکھی گئی تھی، جہاں پر اس کی تعمیر کرائی گئی تھی۔ لہذا یہ مسجد ان لاسکروں کی روحانی اور ثقافتی بیداری کی جیتی جاگتی نشانی ہے جنہوں نے باد مخالف کا سامنا کرتے ہوئے ماریشش میں اسلام کی جڑیں جمائی تھیں اور آج تک ان کی افزائش ہو رہی ہے۔ کسی حد تک یہ مسجد اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ گورنر ڈیکن نے مسلمانوں اور مذہب اسلام کے لئے رواداری کا مظاہرہ کیا تھا۔ جب 1810 میں برطانیہ نے اس جزیرہ کو اپنے قبضہ میں لیا تھا تو فرانس کی طرح انہوں نے بھی سستے اور ہنرمند کاریگر لانے کے لئے ہندوستان کا ہی رخ کیا تھا تاکہ اس جزیرہ میں مزید ترقیاتی کام کرائے جا سکیں۔ حالانکہ برطانوی حکمرانوں نے خصوصی طور پر کاشت کاری اور ترقیاتی کاموں پر زیادہ توجہ دی تھی لیکن انہوں نے ہی زبردست پیمانہ پر ٹھیکہ پر مزدور بلانے کے کام کا آغاز کیا تھا۔ ہندوستانی مزدوروں کا ایک گروپ 1833 میں یہاں آیا تھا، جن میں مسلمانوں کی قابل قدر تعداد شامل تھی۔ انہیں گنے کے کھیتوں میں کام کرنے کے لئے ٹھیکہ پر مزدوروں کی حیثیت سے رکھا گیا تھا۔ ایک سال گزرنے کے بعد گنے کی کاشتکاری کے مالکان کے ساتھ کئے گئے ایک معاہدہ کے تحت 1160 مرد، 61 خواتین، 22 لڑکوں اور 11 لڑکیوں کو ماریشش لایا گیا تھا۔

جب 1922 میں ٹھیکہ پر رکھے جانے والے مزدوروں کی ہجرت وقفہ وقفہ سے جاری رہی تھی تو اس وقت 450000 مزدور اس کالونی میں لائے گئے تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگ ٹھیکہ کی مدت ختم ہونے پر ہندوستان واپس آگئے تھے جبکہ دیگر لو گوں نے اسی کالونی میں رہنا پسند کیا تھا اور وہیں پر ایک بستی قائم کر لی تھی۔ جو لوگ وہیں پر رہ گئے تھے انہوں نے اپنے ٹھیکہ کی مدت میں تجدید کرالی تھی اور چھوٹی موٹی تجارت شروع کر دی تھی۔مسلمانوں کی آمد سے ماریشش میں نہ صرف زبردست شاندار تبدیلی رونما ہوئی تھی بلکہ اس جزیرہ کی آبادی میں اضافہ بھی ہو گیا تھا۔ چنانچہ وہاں پر مسجدیں تعمیر کرانے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔ ماریشش میں مسلمانوں اور دیگر طبقات کی آبادی میں آج بھی تناسب برقرار ہے۔ ثقافتی اور سماجی شعبہ کے ضمن میں مسلمانوں کا ماریشش کی ترقی میں زبردست رول رہا تھا اور آج بھی اس کالونی کے چھوٹے سے گروپ میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد ہے جوکہ نہ صرف کامیابی کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں بلکہ اس جزیرہ نما ملک میں ترقیاتی کاموں میں اپنا تعاون پیش کر رہے ہیں۔

قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ ان تمام تاجروں کا تعلق ہندوستان سے ہے اور وہ سب اہل اسلام ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہی لوگ ہیں جوکہ 1835 میں یہاں پر ٹھیکہ پر رکھے گئے مزدوروں کی حیثیت سے یہاں آئے تھے لیکن آج کے منظر نامہ میں تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ اب ماریشش کے تاجران کسی بھی طرح کے کئے گئے ٹھیکہ کے معاہدہ کے پابند نہیں ہیں۔ یہاں کے مسلمانوں اور دیگر مذہبی طبقات کے درمیان رواداری کا ایک ایسا جذبہ پیدا ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی تجارت کو فروغ مل رہا ہے بلکہ اس ملک میں جو ترقیاتی کام کرائے جاتے ہیں، ان میں بھی وہ معاونت کرتے ہیں۔ دوسری جانب وہاں کی حکومت تفریق نہیں کرتی ہے۔ قدیم دور میں ہی وہاں کے گورنر ڈیکین (Decaen) نے ایک دستاویز کے توسط سے وہاں پر ایک مسجد تعمیر کرانے کی منظوری دے دی تھی جوکہ بین رواداری کا ایک ثبوت ہے۔ اس کے بعد جب وہاں کے حالات میں تبدیلی رونما ہو گئی اور اقتصادی طور پر مسلمان مضبوط ہوگئے تو انہوں نے اسلام کو فروغ دینے کی کاوشیں شروع کر دی تھیں۔

مذکورہ بالا سطور کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ اسلام سے تعلق رکھنے والے افراد نے بہت سی دشواریوں کا سامنا کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے عزائم کو تقویت عطا فرما دی تھی۔ ’بحر ہند کے ستاروں‘ سے معروف جزیروں والا یہ ملک کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ مختلف ممالک اور مختلف مذہبی طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان جاکر اسلام اور اسلامی عقائد کو فروغ دینا یا اس کی تبلیغ کرنا آسان کام نہیں تھا لیکن ان مہاجر مسلمانوں نے نہایت جفاکشی اور ثابت قدمی کے ساتھ اس کارنامہ کو انجام دیا تھا۔ چنانچہ انہیں ”بحر ہند کے ستاروں“ کے لقب سے نوازنا ہر زاویہ سے مناسب ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close