Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موجِ دریا کا حریف

محاسبہ...........................سید فیصل علی

بی جے پی کی تشہیر کا کمال ہندوستان سے امریکہ تک نظر آرہا ہے۔ ہیوسٹن میں ’ہاؤڈی مودی‘ ایونٹ سے لے کر اقوام متحدہ تک بھارت کی ترقی، یہاں کا بھائی چارہ اور جمہوری اقدار کا گن گان ہوا۔ غیرملکی مندوبین نے بھی گاندھی، نہرو کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے مہان بھارت کے پردھان منتری کو سمان دیا۔

بلاشبہ مودی کا امریکہ دورہ اور ان کی عزت افزائی ہندوستان کے لئے فخر کی بات ہے، لیکن جب اپنے دل کو ٹٹولتے ہیں تو ایک ٹیس کا بھی احساس ہوتا ہے۔ امریکہ میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا، کاش ان خیالات کو نیک نیتی کے ساتھ عملی جامہ پہنانے کی سیاست کی جائے تو ملک جنت نظیر بن جائے، لیکن ماڈرن پروپیگنڈے کے اس دور میں ہر بنیادی مسائل پس پشت کر دیئے گئے ہیں۔ نام نہاد ہندوتو کے افیون سے نئی نسل کا ذہن اتنا آلودہ ہو چکا ہے کہ ہر ذی شعور خوفزدہ ہے کہ بھارت کی رواداری کی قدیم عظمت آپسی بھائی چارہ کا تقدس، امن ومحبت کب اور کہاں روند دی جائے گی؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔

یہ مودی اقتدار کا دوسرا دور ہے، جو پہلے دور سے زیادہ دھندلا نظر آ رہا ہے۔ پہلے دور میں نوٹ بندی، جی ایس ٹی وغیرہ نے قومی اقتصادیات پر ایسی ضرب لگائی تھی کہ لاکھوں چھوٹے چھوٹے تجارتی اداروں میں تالا پڑگیا، مڈل طبقے کے تاجر دیوالیہ ہوگئے اور بے روزگاری بڑھتی گئی، لیکن دوسرے دور میں تو ہندوتو کا جلوہ ہی جلوہ ہے۔ اس دور میں کئی بڑے صنعتی اداروں نے لاکھوں ملازمین کی چھٹی کر دی ہے، بے روزگاری کا عفریت منھ پھاڑے آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ این آرسی کی تلوار سر پر لٹکی ہوئی ہے اور اسے پورے ملک میں نافذ کرنے کی حکمت عملی تیار ہو رہی ہے، اس عمل سے بھی ملک کی سب سے بڑی اقلیت خوف زدہ ہے۔

مودی کے دوسرے ٹرم کے 100 دن پورے ہونے پر تشہیر کا جو کمال دکھایا گیا اور مودی کی مقبولیت کا جو گن گان ہوا، اس کی دھوم امریکہ تک پہنچی۔حالانکہ ان 100 دنوں میں ملک میں جو تجارتی مندی آئی ہے، وہ قومی معیشت کے لئے سنگین خطرہ ہے۔ خود آر بی آئی نے اس پرتشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ 70 سال میں ایسا برا دور کبھی نہیں آیا۔ اقتصادی ماہرین نے کہا ہے کہ ہندوستان کے سر پر 88 لاکھ کروڑ روپے قرض کا بوجھ آچکا ہے۔ وقت کا یہ عجب غضب تماشہ ہے کہ جس شخص کو امریکہ کا ویزا دینے سے گریز کیا جاتا تھا، اب اس کے اقتدار میں آنے کے بعد ’ہاؤڈی مودی‘ ایونٹ کے ذریعہ جو کھیل کھیلا گیا وہ بھی غضب کا ہے۔ حالانکہ یہ وہی این آر آئی ہیں، جنہوں نے کبھی مودی کی امریکی آمد کی مخالفت کی تھی اور امریکی حکومت نے مودی کو ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن اب چڑھتے سورج کو سلام کرنے کے لئے یہ لوگ ’ہاؤڈی مودی‘ ایونٹ کے تحت مودی مودی کی ’ڈفلی‘ بجا رہے تھے، ناچ گانا کر رہے تھے۔ یہ امریکی این آر آئی نہ دیش بھکت ہیں نہ مودی بھکت ہیں، بلکہ بگلا بھکت ہیں، اگر یہ دیش بھکت ہوتے تو اپنے ملک اور گھر والوں کو چھوڑ کر امریکہ کے شہری نہیں بنے ہوتے، کوٹ ٹائی اتار کر ماں، باپ کے چرنوں میں ہوتے۔ گزشتہ دنوں ممبئی میں ایک بوڑھی عورت اپنے فلیٹ میں مردہ حالت میں پائی گئی، کئی دنوں کے بعد اس کی سڑی ہوئی لاش فلیٹ سے باہر نکالی گئی، وہ باربار امریکہ میں رہنے والے اپنے بہو، بیٹے کو اپنے پاس بلاتی رہی، مگر بالآخر وہ موت کے منھ میں چلی گئی۔

یہ ہندنژاد امریکہ موقع پرست، خود پرست، مفاد پرست اور ضمیر فروش لوگ ہیں، جو اپنے والدین کو اکیلا چھوڑ کر امریکہ بھاگ جاتے ہیں۔ ’ہاؤڈی مودی‘ ایونٹ کرانے والے پیسوں کے بل پر نمائش لگانے والا گروہ ہے، ممکن ہے اس میں ان کے تجارتی مفاد شامل ہوں، یہ ہندنژاد امریکی سال دو سال میں ایک مرتبہ ہندوستان آتے ہیں اور ناک بھوں چڑھاتے ہوئے چلے جاتے ہیں کہ یہاں گندگی بہت ہے، پالیوشن ہے، صفائی نہیں ہے، سڑکیں خراب ہیں، بجلی نہیں ہے، اگر یہ سچے دیش بھکت ہیں تو بھارت آئیں کہ یہاں کے 130 کروڑ عوام جن مسائل سے دوچار ہیں، سماج کا جس طرح تانا بانا بکھر رہا ہے، قانون و انتظامیہ کے جو نئے تیور ہیں، اسے دیکھیں اور تجزیہ کریں کہ کیا یہی ’نیوانڈیا‘ ہے؟ جس کی امریکہ میں مثال دی جا رہی ہے۔ پھر انہیں ’ہاؤڈی مودی‘ کے بجائے ’ہاؤڈی انڈیا‘ سمجھ میں آئے گا۔

امریکہ، کناڈا، جرمنی، انگلینڈ میں رہنے والے این آر آئی سے ہزار درجہ بہتر وہ ہندوستانی ہیں، جو خلیجی ممالک میں مقیم ہیں، جن کا خون ابھی سفید نہیں ہوا ہے، جو سالانہ 8.5 ملین ڈالر اپنے ملک بھیجتے ہیں، الیکشن کے وقت بھی آکر جمہوریت کی بقا کے لئے آواز اٹھاتے ہیں اور اپنے بزرگوں کو تنہا چھوڑنے کے بجائے خود ان کی دیکھ بھال اور کفالت کرتے ہیں اور کئی تجارتی اداروں میں سرمایہ کاری بھی کرتے ہیں۔ خلیجی ملکوں میں رہنے والے ہندوستانیوں کی حب الوطنی کو لاکھوں سلام، مگر امریکہ، ہوسٹن، کناڈا اور انگلینڈ وغیرہ میں رہنے والوں کو ملک اور ملک کی ترقی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، انہیں بھارت میں انویسٹ کے لئے کہئے تو کان پر ہاتھ دھر لیتے ہیں، ہندوستان کی معاشی بدحالی، بجلی کی کمی، سڑکوں کی خستہ حالی اور یہاں کی بدعنوانی کے بہانے بناکر سرمایہ کاری سے کنی کاٹ جاتے ہیں۔ جبکہ دوسری کمپنیاں اسی ملک میں سرمایہ کاری کرتی ہیں۔

دراصل ہوسٹن میں ’ہاؤڈی مودی‘ ایونٹ میں جمع ہونے والے 50 ہزار لوگ ہندوستان کی نمائندگی نہیں کرتے، یہ ان لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں، جن کے پاس سب کچھ ہے، مگر کھونے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے۔ ملک کی معاشی بدحالی کا یہ عالم ہے کہ آر بی آئی سے ایک لاکھ 75 ہزار کروڑ ریزرو فنڈ نکال لیا گیا ہے، آر بی آئی کے ریزرو فنڈ سے پیسہ نکالنا بالکل ویسا ہی ہے، جیسے گھر چلانے کے لئے بچوں کی غلق سے پیسے نکالنا۔ ’ہاؤڈی مودی‘ ایونٹ سے لے کر اقوام متحدہ کی تقریر تک کی بڑی دھوم ہے کہ ٹرمپ پوری طرح مودی کے دوست بن چکے ہیں۔ حالانکہ ایک دن قبل ٹرمپ مودی کی تعریف کر رہے تھے تو دوسرے دن پاکستان کے خیرخواہ نظر آئے۔ بھکتوں کو سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی ملک کے لیڈروں کی نہیں بلکہ پالیسی سے دوستی ہوتی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کی دوستی بہت ہی مضبوط، مربوط اور اسٹریٹجک ہے، جبکہ ہندوستان سے اس کا رشتہ زیادہ تر کاروباری ہے۔ جس ٹرمپ کی دوستی کا دم بھرا جا رہا ہے، اسی دوست کے دور میں H-1 ویزا سب سے کم ہوا، ایران سے تیل خریداری پر پابندی لگی وغیرہ وغیرہ۔ مودی کو ’فادرآف انڈیا‘ اور باپو سے موازنہ کرنے سے قبل بھکتوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ مہاتما گاندھی کبھی امریکہ نہیں گئے، مگر ہندوستان کے بعد ان کے مجسمے اور میموریل سب سے زیادہ امریکہ میں ہیں، یہ گاندھی جی کی اہنسا، تیاگ، بلیدان اور ان کی شخصیت کا کرشمہ ہے۔

دراصل اندھی تقلید اور شخصیت پرستی ہمیشہ ایک بے ضمیر اور بے حس سوسائٹی پیدا کرتی ہے، جس میں آنکھیں تو سب کے پاس ہوتی ہیں، لیکن بینائی کسی کے پاس نہیں ہوتی اور ایسے دور میں جب دانشور بھی خاموش ہو جاتے ہیں تو معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔ ’’سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس کاٹجو نے اسی دور کی آمد پر اہل ہند کو وارننگ دی ہے اور کہا ہے کہ سنبھل جاؤ انڈیابرے دن آنے والے ہیں آج بھارت میں وہی سب کچھ ہو رہا ہے، جو کبھی نازی دور میں ہوا کرتا تھا۔ جنوری 1933میں اقتدار میں آنے کے بعد پورا جرمنی پاگل ہو گیا تھا، ’ہیل ہٹلر‘ کا نعرہ ہر سمت گونج رہا تھا، اس نعرے نے ایک پاگل آدمی کو مہان بنا دیا۔ ہٹلر نے یہودیوں کے خلاف زہر گھولنا شروع کر دیا، 6 ملین یہودیوں کو مرنے کے لئے گیس چمبر بھیج دیا گیا۔ آج بی جے پی اسی نقش قدم پر ہے۔ ہندوؤں کے ذہن میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھرا جا رہا ہے اور مسلمان مختلف طریقوں سے لنچنگ کا شکار ہے۔“ لیکن تمام تر خدشات کے باوجود مجھے آج بھی بھروسہ ہے کہ محبت کا خمیر ملک کی مٹی میں شامل ہے۔ برادران وطن ملک کی گنگاجمنی تہذیب کو زندہ رکھیں گے اور بھائی چارے کو مٹنے نہیں دیں گے۔ بقول علامہ وحشت کلکتوی:

کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موجِ دریا کا حریف
ورنہ میں بھی جانتا ہوں عافیت ساحل میں ہے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close