Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

سب مل کے اٹھو، آواز بنو کہرام کرو

محاسبہ…………….سید فیصل علی

شہریت قانون وغیرہ کے خلاف دہلی کے شاہین باغ میں خواتین کا دھرنا اور احتجاج 30 ویں دن میں داخل ہوگیا ہے۔ 15دسمبر 2019 کو شہریت قانون کے خلاف جب جامعہ سے احتجاج کی آواز اٹھی تو اسے دبانے کے لئے دہلی پولیس نے جس بربریت کا مظاہرہ کیا، طلباء و طالبات کی ان کے ہاسٹل اورلائبریری تک پٹائی کی گئی، درجنوں زخمی ہوئے، کسی کا ہاتھ ٹوٹا، کسی کے آنکھ کو نقصان پہنچا تو ایسے بے سروسامانی اور قہر سامانی کی عالم میں جامعہ کے اطراف میں رہنے والے مکینوں نے نہ صرف طلباء وطالبات کو بچایا، ان کے آنسو پوچھے، بلکہ شہریت قانون کے خلاف طلباء جامعہ کی آواز میں آواز ملا کر ان کی ہمت کو دوبالا کر دیا۔

شاہین باغ کی خواتین کا یہ دھرنا ملک گیر شہرت حاصل کر چکا ہے۔ بلاشبہ شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین قومی سطح پر بھی عورتوں کے عزم و حوصلے کو جلا بخشنے میں تاریخ ساز رول ادا کر رہی ہیں اور ہمیں یہ کہنے میں قطعی گریز نہیں کہ جامعہ ملیہ کی آواز، شاہین باغ کی خواتین کا دھرنا ملک کی بے قیادت ملت کے لئے قدرت کا ایک عطیہ ہے اور ہمیں یہ بھی کہنے پر مجبور کر رہا ہے کہ آج جب یہ وقت ہے کہ سیاسی و مذہبی رہنما اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تو وہ بالکل غائب ہیں، قوم ان کا بھی احتساب کرے گی۔ ملت کے مذہبی قائدین کی پراسرار خاموشی کے باوجود یہ دھرنا ملک کی قیادت کر رہا ہے۔ دہلی میں ہر سو احتجاج ومظاہرے کا سلسلہ دراز ہے، جنتر منتر سے لے کر انڈیاگیٹ، جامعہ ملیہ سے لے کر جے این یو، دہلی یونیورسٹی تک شہریت قانون کے خلاف نعرے گونج رہے ہیں۔ شاہین باغ کی خواتین نے دہلی کے ٹریفک کا رخ بھی موڑ دیا ہے۔ سریتا وہار سے نوئیڈا جانے والی آمدورفت مفلوج ہے، مہینوں سے ٹریفک کے راستے تبدیل کئے جا چکے ہیں اور اب ایسا لگتا ہے کہ جامعہ کے طلباء اور شاہین باغ کی خواتین بھی نفرت کی سیاست کا رخ پلٹ سکتی ہیں۔

یوں تو شروع میں شاہین باغ کی صرف ڈیڑھ سو خواتین نے حکومت کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا تھا، مگر ہر روز تحریک زور پکڑتی گئی، ہر روز نئے جوش اور عزم کا منظرنامہ ابھرا، ہر روز خاتون تحریک کاروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، تادم تحریر ایک ہزار سے زائد عورتیں شب وروز دہلی کی شدید ٹھنڈ اور بارش میں بھی ’دھرنا استھل‘ سے ہل نہیں رہی ہیں، اب تو اس دھرنے میں 80 اور 90 سال کی درجنوں دادیاں اور نانیاں بھی شامل ہوگئیں ہیں، انہیں نہ موسم کی پرواہ ہے اور نہ اپنی عمر اور صحت کا خیال ہے۔ دھرنے میں ان ضعیف العمر خواتین کی شمولیت نے تحریک کاروں کا حوصلہ بڑھانے میں نمایاں رول ادا کیا ہے۔ اب تو چھوٹے چھوٹے بچوں والی سیکڑوں خواتین دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں، 10 بجے رات میں اپنے گھر جاکر بچوں کو کھلا پلا کر پھر دھرنے میں آکر بیٹھ جاتی ہیں، اس آنے جانے میں بھی ایک ترتیب کا خیال رکھا گیا ہے، بعض عورتیں تو اپنے شیرخوار بچے کے ساتھ دھرنے میں بیٹھی ہوئی ہیں۔

شاہین باغ کی خواتین کا یہ دھرنا کسی پارٹی، کسی سماجی تنظیم یاکسی سرمایہ دار کا مرہون منت نہیں ہے، بلکہ یہ خواتین خود اپنے دھرنے کی کمان سنبھالی ہوئی ہیں۔ بے قیادت ہونے کے باوجود یہ دھرنا نہ صرف کامیاب ہے، بلکہ ان پردہ نشینوں کے لئے بھی مشعل راہ ہے، جن کی خاموشی سے معاشرہ اور ملک کی تہذیب وثقافت کو زیاں پہنچتا رہا ہے۔ شاہین باغ کی خواتین کی سوجھ بوجھ قابل ستائش ہے کہ انہوں نے اپنے دھرنے میں کسی سیاسی جماعت کا لیبل لگنے نہیں دیا ہے۔ دھرنے کے نظم ونسق کا عالم یہ ہے کہ یہاں سیاسی گفتگو نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی کسی ناشائستہ گفتگو کی اجازت ہے، کسی شرارتی عناصر کے ذریعہ ملک دشمنی کی بات بھی یہاں نہیں ہو سکتی، کشمیر، پاکستان ومتنازع موضوع پر گفتگو ممنوع ہے۔ اسی سوجھ بوجھ کا نتیجہ ہے کہ آج شاہین باغ کی خواتین کی حوصلہ افزائی کے لئے پورے ملک کی اہم شخصیات آتی رہی ہیں۔ خاص کر دہلی کے غیر مسلم افراد تو ہرطرح سے’دامے، درمے، سخنے‘ تحریک کاروں کی حمایت کر رہے ہیں۔ کسی نے ان کے دھرنے کے آگے انڈیاگیٹ تک بناکر اپنی حمایت اور عقیدت کا اعلان کیا ہے۔

آج شاہین باغ کی خواتین کے حوصلوں کو دیکھنے کے لئے ارون دھتی رائے بھی پہنچیں، جہاں خواتین کا احتجاج نئے تیور کے ساتھ حکومت وقت کو آئینہ دکھا رہا ہے۔ دھرنے میں سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کے تعلق سے خواتین بینر اور پوسٹر بناکر لا رہی ہیں، ترنگے کے سائے میں قومی ترانہ گایا جا رہا ہے، فیض، جوش، محی الدین کی انقلابی نظمیں گنگنائی جا رہی ہیں، ان سب کے درمیان نماز بھی ادا ہو رہی ہے اور ہر جمعہ کو نفلی روزے کا اہتمام بھی ہے، جس میں شہریت قانون کی واپسی اور ملک میں امن سلامتی کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ اس دھرنے کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ اس میں بلا تفریق ومذہب وملت لوگ شامل ہو رہے ہیں، غیرمسلم افراد پھلوں، بسکٹوں اور دیگر اشیا کے ساتھ شاہین باغ کے مظاہرین کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں، کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرتا ہے کہ جب ملک کے نامی صحافی، دانشور، سیاستداں دھرنا استھل پر نہیں پہنچتے ہوں اور خواتین کے عزم و حوصلہ اور جوش وجذبہ دیکھ کر متاثر نہ ہوتے ہوں۔ میں بھی دو بار جامعہ ملیہ اور شاہین باغ کے مظاہرین کے درمیان گیا ہوں، ان سے گفتگو کی ہے اور ان کے عزم وحوصلے سے ایک امید لے کر لوٹا ہوں کہ بھلے ہی ملک بھر میں ہو رہے احتجاج اور دھرنوں کو لے کر سرکار کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی ہے، مگر لیڈران میں خوف ضرور پیدا ہو رہا ہے اور عوام خوف کے حصار سے نکل رہے ہیں۔

سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ شہریت قانون کے خلاف اٹھی آواز کو ہندو، مسلم بنانے کی تمام کوشش، تمام سازش خود بہ خود دم توڑ چکی ہے، کیونکہ شاہین باغ کے مظاہرین کو ہٹانے اور ان پر قومی املاک برباد کرنے کی عرضی بھی دہلی ہائی کورٹ نے خارج کردی ہے، فسطائیت نوازوں کو عدالت عالیہ نے بھی زبردست جھٹکا دیا ہے۔ ویسے بھی اس معاملے میں ہندو، مسلم سیاست کا دم نکلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک میں صرف سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کا ہی غصہ نہیں تھا، بلکہ گزشتہ پانچ برسوں میں جو کچھ ملک میں ہوا ہے، جی ایس ٹی، نوٹ بندی، بے روزگاری، مہنگائی اور گرتی معیشت کا غصہ تھا ہی کہ اب شہریت قانون نے اس میں ابال پیدا کر دیا ہے۔

پریشانی تو یہ ہے کہ شہریت قانون بناتے وقت یہ خوش فہمی تھی کہ مسلمانوں کے چھٹ پٹ احتجاج ہوں گے، لہٰذا طاقت کے بل پر کچل دیں گے، مگر حکومت کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کالے قانون کے خلاف برادران وطن کا اتنا سپورٹ ملے گا، اس سچائی کو امت شاہ نے بھی ایک انٹرویو میں تسلیم کیا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ جے این یو سے لے کر جامعہ اور اے ایم یو وکئی کالجوں کے طلباء کو حق بات بولنے کی پاداش میں پیٹتے ہوئے سبھی نے دیکھا ہے تو یہ فکر لازمی ہے کہ کل ان کے بچے بھی پیٹے جائیں گے۔ جے این یو میں نقاب پوشوں کے ذریعہ وہاں کے طلباء اور اساتذہ کی پٹائی، اسٹوڈنٹ یونین کی صدر آئشی گھوش پر قاتلانہ حملہ یہ سب تو ایک طرح سے خانہ جنگی کی علامت ہے، چنانچہ اس خانہ جنگی کو روکنے کے لئے حق کی لڑائی میں پورا ملک جے این یو، جامعہ اور اے ایم یو کے ساتھ آگیا اور ہمیں جامعہ ملیہ کے طلباء اور شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین کے حوصلے اور جذبے کو سلام کرنا چاہیے، جن کی جرأت، عزم اور استقلال نے فسطائیت کے پرخچے اڑا دیئے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور شاہین باغ کے دھرنے نے ملک کو یہ احساس کرا دیا ہے کہ سرکار گمراہ کر رہی ہے، اس کا ایجنڈا صرف ہندو، مسلم سیاست کے تحت اقدار پر قابض ہونا ہے اور دھیرے دھیرے مسلمانوں کو حاشئے پر رکھ کر ہندو راشٹر بنانا ہے، گرچہ سرکار کا کہنا صحیح ہے کہ اسے اقتدار کا مینڈیٹ ملا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ 61 فیصد عوام نے مخالفت بھی کی ہے اوراب 61 فیصد عوام کا حق ہے کہ وہ اقتدار کے خلاف آواز بلند کریں۔

بلاشبہ جامعہ سے اٹھی صدائے احتجاج شاہین باغ کی خواتین کا بے مثال تاریخی دھرنا ملک کو حکومت وقت کے خوف سے بے نیاز کر رہا ہے۔ باطل کے خلاف حق کی لڑائی میں متحد ہونے کی تلقین کر رہا ہے۔ بقول صبیحہ سنبل:

سب مل کے اٹھو، آواز بنو کہرام کرو
کہرام سے سارے فتنوں کو ناکام کرو

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close