Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

اسلام غیر مسلموں کے لئے پر کشش

اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اسلام آفاقی جواز کے ساتھ ساتھ ایک واضح نظریہ کے تحت ایک جامع، مربوط اور اخلاقی اقدار پر مبنی معاشرے میں زندگی گزارنے کا تصور پیش کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اپنے دور سے اکتائی ہوئی نئی نسل خاص کر مغربی ممالک کے غیر مسلم اسلام کی آفاقی خوبیوں سے متاثر ہوکر اس سمت متوجہ ہو رہے ہیں اور اسلام قبول کرنے والے لوگوں کی تعداد میں تاریخ ساز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسلام کا دامن تھامنے والوں میں وہ ممالک شامل ہیں جن کی برتری اور ترقی اور تہذیبی چکاچوندھ کی دنیا معترف رہی ہے۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس وغیرہ تک جس تیزی کے ساتھ اسلام نے ان ممالک میں اپنی جڑیں محفوظ کی ہیں، جن کی ترقی اور تہذیبی چکاچوندھ کے آگے دنیا سرنگوں رہی ہے۔ یہ اسلام کا ہی جلوہ ہے کہ مارسیلس کلے اور گلوکار مائیکل جیکسن تک نے اسلام کا دامن تھام لیا۔ امریکہ میں بڑے پیمانے پر اسلامک سینٹر قائم کئے گئے، جس کے تحت قرآن اور حدیث کے پیغامات امریکہ و یوروپ کی نئی نسل تک پہنچ رہے ہیں اور یہ نئی نسل قرآن اور احادیث کا گہرائی سے مطالعہ کرکے اسلام کی عظمت کو قبول کر رہے ہیں۔ ہزاروں غیر مسلم افراد اس مطالعہ کے تحت مشرف بہ اسلام ہو رہے ہیں لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مغربی ممالک نے اسلام سے قریب ہونے والوں میں خواتین کی بڑی تعداد ہے۔ آزادی ٔ نسواں کی صدا لگانے والی خواتین کو اب اسلام میں جو اہمیت دی گئی ہے وہ اس سے متاثر نظر آ رہی ہیں اور اسلام قبول کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دبئی میں 72 ممالک کے سینکڑوں افراد نے اسلام قبول کیا ہے۔ ان میں زیادہ تر خواتین ہیں۔ خواتین کا کہنا ہے کہ اسلام میں خواتین کا استحصال نہیں کیا جاتا جس طرح غیر مسلم خواتین کا ہوتا ہے۔ اسلام میں ایک مسلم خاتون کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرے۔ اسلام میں زبردستی شادی کی گنجائش نہیں ہے تعلیم کے معاملہ میں بھی ایک لڑکی کو لڑکے برابر حق حاصل ہے۔ وراثت میں خاتون کا حق کسی بھی مذہب میں نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم خواتین کی بڑی تعداد اب اسلام کے سائے میں آ رہی ہے۔ درحقیقت اسلام کی مقبولیت اور عظمت کا سبب یہ ہے کہ یوروپ و امریکہ کی نئی نسل تحقیق، تفتیش اور مطالعہ کے بعد اسلام کے قریب آ رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یوروپ، امریکہ میں جس تیزی کے ساتھ مساجد، مدارس اور اسلامک سینٹر قائم ہو رہے ہیں اور جس تیزی کے ساتھ اسلام کی ترسیل، تبلیغ و اشاعت کا کام جاری ہے اس کے مطابق اٹلی کا معروف میگزین’ داجرنل‘ کا کہنا ہے کہ جلد ہی یوروپ کا مکمل معاشرہ اسلام کو اپنا مذہب تسلیم کر لے گا۔ زیر نظر مضمون امریکہ، جرمنی، فرانس وغیرہ میں اسلام کی ترسیل و تبلیغ کے کاموں پر محیط ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ مضمون ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ اسلام کی آفاقیت اور اس کی حقانیت کے تحت جس تیزی کے ساتھ مغربی دنیا اسلام کی طرف آرہی ہے وہ دراصل اسلامی پیغامات اور ہمارے رسول اکرم ؐ کے ارشادات کا نتیجہ ہیں، جو عملی زندگی کو مزین کرتے ہیں اور معاشرے کو بھی پاکیزہ رکھنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں:

جب 60 کی دہائی میں امریکہ کے عالمی شہرت یافتہ باکسر کیسئیس مارسیلس کلے (محمد علی کلے ) اور 80 کی دہائی میں معروف گلوکار، نظم نگار اور منفرد رقاص مائیکل جیکسن (میکائیل) مشرف بہ اسلام ہوئے تھے تو پوری دنیا میں سنسنی پھیل گئی تھی۔ یہ وہ شخصیات تھیں جو کہ عالمگیر سطح پر غیر معمولی طور پر معروف تھیں لیکن دس سال قبل ’’نیو مسلم سیکشن ان اسلامک افئیرز اینڈ چیری ٹیبل ایکٹی وٹیز دپارٹمنٹ (IACAD) کی سربراہ ہدیٰ خلفان الکعبی نے کہا تھا کہ ’معبودیت، رواداری، ہمدردی، سادگی اور نوع انسان کے درمیان مساوات کے نظریہ کو فروغ دینے کی وجہ سے اب ہزاروں غیر مسلم افراد اسلام کی آغوش میں آرہے ہیں ‘‘یہ عمل اس وقت بھی جاری تھا اور آج بھی جاری ہے بلکہ یہ کہنا برمحل ہوگا کہ اس تناسب میں مزید اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔

کثیر تعداد میں خواتین یہ سوچ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو رہی ہیں کہ ان کے وقار اور ان کے حقوق کو یقینی بنانے والا واحد مذہب اسلام ہے۔ اُس دور میں دبئی میں 6 ماہ میں تقریباً 1365 افراد مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ ہدیٰ نے اس بات کا مزید انکشاف کیا تھا کہ اس نے رواداری، انصاف، مساوات اور شفافیت کو ہمیشہ فروغ دیا جو کہ پوری دنیا کے ہر ادوار میں انسانوں کو فیضیاب کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 72 ممالک کے 3763 تارکین وطن نے دبئی میں ڈیڑھ سال کے اندر اسلام قبول کر لیا تھا۔ الکعبی نے بتایا تھا کہ ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق فلیپائن، روس، چین اور ہندوستان سے تھا اور ان میں زیادہ تر نو مسلم خواتین تھیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ 2008 میں جب 878 نو مسلم تھے تو ان میں سے 576 خواتین تھیں اور جب 2009 میں 1365 لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا تو ان میں بھی 984 خواتین تھیں۔ مذہب تبدیل کرنے والی کچھ خواتین کا کہنا ہے کہ اسلام میں خواتین کا اس طرح سے استحصال نہیں کیا جاتا ہے جیسے کہ غیر مسلم خواتین کا ہوتا ہے۔ اسلام میں ایک مسلم خاتون کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ وہ کس سے شادی کرے۔ چنانچہ اسلام میں زبردستی سے شادی کرنے کی قطعی گنجائش نہیں ہے اور خاتون کی رضامندی ضروری ہے۔ اسلام میں خواتین کو مردوں کی طرح ہی حقوق دیئے گئے ہیں، اسی لئے علم حاصل کرنے کا بھی اسے مساوی حق حاصل ہے۔ درحقیقت اسلام میں ہر عورت اور مرد پر علم حاصل کرنا فرض ہے اور اسلامی تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی کہ خواتین نے زندگی کے تمام شعبوں میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

اسلام نے تقریباً 1500سال قبل ہی خواتین کو حقوق دے دیئے تھے۔ ان میں سے کچھ حقوق جیسے وراثت میں خاتون کا حق ایسا ہے، جو کسی بھی مذہب میں نہیں ہے۔ اس بات کا انکشاف حیفہ عارف نے کیا تھا، جنہوں نے عیسائی مذہب ترک کرکے اسلام قبول کر لیا تھا۔ الکعبی کا کہنا تھا کہ ’’وہ محض اسلام کی ہدایتوں سے متاثر ہو گئی تھیں جو کہ اپنے مقلدین کو یہ تلقین کرتا ہے کہ مسلمان بلا تفریق مذہب، ذات پات، زبان اور نسل دوسروں کے ساتھ برتاؤ کرتے ہوئے سچائی، رحم دلی، ایمانداری اور رواداری پر قائم رہیں۔‘‘

13 سال تک ایک مشینری کے طور پر خدمات انجام دینے والی 32سالہ فلیپینا رووینا فرنانڈیز کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی کسی مسلمان کو دوسرا مذہب قبول کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے گہرائی سے اسلام کے بارے میں مطالعہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’جب میں ایگزیکیٹو سیکریٹری کی حیثیت سے دبئی میں ملازمت کرنے کے لئے آئی تھی تو اسلام کے تعلق سے میں نے کچھ کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا تھا اور پھر ان کا موازنہ ان تعلیمات سے کرنا شروع کر دیا تھا جو کہ میرے مذہب کی کتابوں میں دی گئیں تھیں لیکن یہ موازنہ مکمل طور پر اسلام کے حق میں تھا۔ لہذا میں نے دانستہ طور پر خوشی کے ساتھ اس عظیم مذہب کو قبول کر لیا تھا‘‘۔ الکعبی کا کہنا تھا کہ ’’جب ہمارا غیر مسلمانوں سے واسطہ پڑتا ہے تو اکثر ہم اسلام کے تعلق سے ان سے بات چیت نہیں کرتے ہیں اور دیگر پروگراموں یا باتوں کی جانب موضوعات کا رخ موڑ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے دیگر مذاہب کے لوگ اسلام کی آفاقیت سے واقف نہیں ہو پاتے ہیں۔ جہاں تک نو مسلموں کا تعلق ہے تو ان کے لئے ہم نے قرآن کریم اور سنت کے تعلق سے بہت سے کورسسز کا اہتمام کیا ہے، جن میں اسلام کے پانچوں لازمی ارکان (کلمہ طیبہ، نماز، روزہ، حج اور زکوۃ)، رسوم اور تعلیمات کا درس دیا جاتا ہے۔ ‘‘علاوہ ازیں یہاں پر ایک ایسا شعبہ قائم کیا گیا ہے، جہاں پر اسلام کے تعلق سے سوالات کے تسلی بخش جواب دیئے جاتے ہیں۔ الکعبی نے یہ بھی بتایا کہ اخلاقی اور سائنسی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ایک ٹیم قونصل خانوں، مختلف محکموں، اسپتالوں، شاپنگ سینٹروں اور یہاں تک قید خانوں میں اسلامی پیغامات کی ترسیل کے لئے جاتی رہتی ہے۔ اسلام قبول کرنے والی ان خواتین جن کا تعلق ہسپانوی ثقافت سے رہا تھا، ان کا کہنا یہ تھا کہ اہل خانہ کی کفالت، پاکیزگی اور اسلام میں واضح کئے گئے خواتین کے کردار کی وجہ سے لاطینی خواتین کے ذریعہ کثیر تعداد میں مشرف بہ اسلام ہونے والی خواتین میں سے ایک خاتون کا نام میلیسا ماتوس (Melissa Matos)تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد رفتہ رفتہ ہسپانوی کلچر کا غلبہ معدوم ہو گیا تھا۔ چنانچہ اس دور میں متحدہ ہائے امریکہ میں مشرف بہ اسلام ہونے والی خواتین کی تعداد 40,000 ہو گئی تھی۔ ان اعدادوشمار کا انکشاف اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ نے کیا تھا۔

میامی میں واقع امریکن مسلم ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ کے پریزیڈنٹ سوفیان عبدالعزیز نے کہا تھا کہ تبدیلیٔ مذہب کے تعلق سے ایک اشارہ یہ بھی ملتا ہے کہ ہسپانوی زبان میں قرآن کریم کی مانگ بڑھ گئی تھی اور 11ستمبر کے بعد تو مانگ میں زبردست اضافہ ہو گیا تھا۔ اس دوران اسکولوں، ثقافتی تنظیموں اور ملک بھر کی جیلوں سے ہسپانوی زبان میں قرآن کریم کے جو 12000 آرڈر دیئے گئے تھے، ان میں سے 5500 آرڈر پورے کر دیئے گئے تھے۔ ماٹوس اور دیگر نو مسلموں کا کہنا تھا کہ میڈیا کے توسط سے پہلی مرتبہ جب اسلامی عقیدہ کے بارے میں روشنی ڈالی گئی تھی تو اسی سے ہمیں مزید جانکاری حاصل کرنے کی ترغیب ملی تھی۔ انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ’’میری ایک سہیلی نے جب قرآن کریم مجھے دیا تھا تو میں نے سوچا تھا کہ اس مذہب کے تعلق سے کچھ غلط فہمی ضرور ہے لیکن جب میں نے اس کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ اس میں دنیا کے تمام موضوعات جیسے انسانی حقوق اور آفاقی بھائی چارہ کے بارے میں خدا کی جانب سے رہنمائی کی گئی ہے۔ درحقیقت یہ ایک ایسا مذہب ہے جو کہ غور و خوض کرنے کی تحریک او ر دعوت دیتا ہے۔‘‘ برطانیہ کے اس وقت کے وزیر داخلہ جیکوئی اسمتھ نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے یوروپ میں تیزی کے ساتھ فروغ پانے والے اسلام کے بارے میں کچھ دلچسپ مشاہدات کا انکشاف بھی کیا تھا۔ ان کے مطابق 2001 سے ہر سال تقریباً 50000 برطانوی باشند اسلام قبول کر رہے تھے اور اِس وقت تک 400000 برطانوی باشندے اسلام کے دائرے میں داخل ہو چکے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی 2 ملین تک ہو جائے گی اور برطانوی عیسائیوں کے بعد برطانیہ میں اسلامی عقیدت مندوں کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہو جائے گی۔ برطانیہ میں اسلامی یونیورسٹی نے بھی اس بات کی تائید کی تھی۔

ٹائم میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک میں سیکڑوں نئی نئی مسجدیں تعمیر کرائی جا رہی ہیں اور یوروپ کے زیادہ تر شہروں میں پانچ وقت اذانوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ روم میں بھی ایک جامع مسجد تعمیر کرائی جا رہی ہے جس کے لئے مقامی انتظامیہ نے اراضی عطیہ کی تھی۔یوروپین مسلم مائنارٹی بورڈ کے ڈئریکٹر ڈاکٹر محمود صدیقی سعیدی کے مطابق جب اقوام متحدہ میں یوروپ کی مسلم آبادی پر مبنی رپورٹ پیش کی گئی تھی تو اس وقت یوروپ میں مسلمانوں کی آبادی 21 ملین تھی جو کہ کسی وقت میں 50 ملین ہو سکتی ہے۔ یوروپ میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہی مسجدیں اور اسلامی سینٹروں کے قیام کا عمل بھی تیز رفتار کے ساتھ ہو رہا ہے۔ 1963 میں برطانیہ میں صرف 13 مسجدیں قائم تھیں لیکن اس کے بعد مسجدوں کی تعداد 600 ہو گئی تھی۔

فرانس میں جب مسلمانوں کی آبادی 600000 تھی تو اس وقت وہاں پر 1300مسجدیں اور اسلامی سینٹر تھے، وہاں پر 24 گھنٹہ چلنے والا ایک ریڈیو چینل بھی ہے ایک اندازے کے مطابق آئندہ 15 برسوں میں مسلمانوں کی آبادی فرانس میں تقریباً 800000 ہو جائے گی۔ اٹلی میں مسلمانوں کی آبادی ایک ملین ہے اور ان کی 450مسجدیں اور اسلامک سینٹر ہے۔ اٹلی کی معروف میگزین ’The Journal‘ کے مطابق آئندہ 200برسوں میں یوروپ کا مکمل معاشرہ اسلام کو اپنا واحد مذہب تسلیم کرے گا۔ جہاں تک جرمنی کا سوال ہے تو یہاں پر مسلمانوں کی آبادی اُس وقت 4 ملین تھی اور 1400 مسجدیں اور اسلامک سینٹر قائم تھے آبادی کے لحاظ سے جرمنی میں ان کا تناسب تقریباً 4فیصد تھا۔ کناڈا میں مذہب تبدیل کرنے کی شرح 1991 اور 2001 کے درمیان 130 فیصد رہی تھی۔ 9/11 کے بعد سوئٹزرلینڈ میں 6000 عیسائیوں نے اسلام مذہب قبول کیا تھا۔

سان ڈیگو یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر جان ویکس کے مطابق 2020 تک ہر یوروپی افراد میں سے ایک مسلمان ہو گا۔ ترکی کو چھوڑ کر پورے یوروپ میں مسلم آبادی کا تناسب البانیہ میں سب سے زیادہ ہے ترکی کو مستثنیٰ رکھنے کی بات اس لئے کہی گئی ہے کیونکہ یہ ملک یوروپ اور ایشیا کراس روڈ پر واقع ہے۔ اس دور کی مردم شماری کے مطابق البانیہ میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 2.2ملین یا ملک کی کل آبادی کی 70فیصد تھی۔ حالانکہ کمیونسٹ دور اقتدار میں البانیہ کا معاشرہ ملحد تھا اور کسی بھی مذہب کے عقیدہ کا اظہار کرنے پر پابندی عائد تھی لیکن اب البانیہ کے مسلم اپنے عقیدہ کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں اور وہاں بھی اسلامی عقیدہ ضیاء فگن ہو رہا ہے۔

البانیہ کے بعد یوروپ میں بوسینا ہرزیگوینا ایک ایسا ملک ہے، جہاں پر آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی دوسرے نمبر پر ہے۔ بوسنیا کے 40 فیصد یا 1.5ملین افراد اسلام کے مقلدین ہیں اور اسلام کی حقانیت کو سمجھتے ہوئے دیگر مذاہب کے لوگ نہ صرف اس کی جانب توجہ دینے لگے ہیں بلکہ حلقۂ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ اسلام کے تعلق سے جہاں تک مغربی یوروپ کا سوال ہے تو نیدرلینڈ کے بعد فرانس کا نمبر آتا ہے جہاں پر مسلمانوں کی آبادی 945,000 ہے جو کہ وہاں کی کل آبادی کے پانچ فیصد ہے۔ بہت سے ریسرچ اسکالروں کا نہ صرف خیال ہے بلکہ انہیں یقین ہے کہ مغربی معاشرے میں تیزی کے ساتھ مذہبی اور ثقافتی اقدار زوال پذیر ہونے کی وجہ سے زیادہ تر افراد اسلام کی جانب راغب ہو رہے ہیں کیونکہ اسلام آفاقی جواز کے ساتھ ایک زبردست نظریہ کے تحت جامع، مربوط اور اخلاقی اقدار پر مبنی ثقافتی، سماجی اور معقول زندگی گزارنے کا تصور پیش کرتا ہے۔یہی سبب ہے کہ اسلام کی آفاقی خوبیوں سے متاثر ہو کر مغربی ممالک کے غیر مسلم نہ صرف اس کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں بلکہ ماضی کے مقابلے مشرف بہ اسلام ہونے والے افراد کی تعداد میں تیزی کے ساتھ روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close