Khabar Mantra
محاسبہ

اگر حوصلہ ہو توہر موج میں کنارا ہے

محاسبہ........................................................................سیدفیصل علی

 

کسان اندولن کو بھلے ہی سرکار نظر انداز کررہی ہے مگر اس کی بازگشت قومی سطح پر ہی نہیں عالمی سطح پر بھی گونج رہی ہے۔ 215 کسانوں کی شہادت اور 90 دنوں سے چل رہے اندولن کے باوجود سرکار ضد پر قائم ہے اور یہی ضد کسان اندولن کوâ جن اندولنá میں ڈھالتی جارہی ہے۔ ملک کی ہمدردیاں کسانوں کے ساتھ جڑتی جارہی ہیں۔ دلی بارڈر پر اندولن کے ساتھ قومی سطح پر کسان مہا پنچایت کا سلسلہ درازہوتاجارہا ہے۔ راجستھان ، پنجاب ،ہریانہ سے لیکر اترپردیش تک مہا پنچایتوں اور کھاپوں کا بھونچال مچا ہوا ہے۔ اپوزیشن سے مایوس اور بدحالی سے دوچار عوام کی امیدوں کو نیا جنم ملا ہے ۔ کسانوںنے ثابت کردیا ہے کہ وہ سیاسی لیڈروں سے کہیں زیادہ باشعور ،کہیں زیادہ متحمل ،کہیں زیادہ دور اندیش فکر و حکمت رکھتے ۔ عوام کسی متبادل یا موقع کی تلاش میں ہیںتاکہ اقتدار کے فرعونوں کا غرور چکنا چور ہوسکے۔نفرت کی سیاست کرنے والے بازیگر وںاور دو صنعت کاروں کی نیابت کرنے والی حکومت کے چنگل سے ملک کو بچایا جاسکے۔شاید یہی غصہ تھا کہ اہل پنجاب نے لوکل باڈیز کے انتخاب میں بی جے پی کو جو سبق سکھایا ہے وہ چونکانے والا ہے۔ کسان اندولن کی آگ نے پنچاب میں بی جے پی کے قلعہ کو خاکستر کردیا ہے۔ پنجاب بلدیاتی انتخاب میں تمام سیٹوں پر جھاڑو پھر جانا نئے دور کا عندیہ ہے۔ 

لوکل باڈیز کے چنائو ہمیشہ مقامی ایشوز پر لڑے جاتے ہیں ،مقامی لیڈروں کا کردار وعمل ان کی فتح و شکست کا ضامن بنتا ہے۔ مگر پنجاب کا بلدیاتی الیکشن ہندوستانی تاریخ کا پہلا الیکشن ہے جو قومی ایشو پر لڑا گیا ۔مرکزی سرکار کی کارکردگی ،مہنگائی،خاص کر کسانوں کے ساتھ حکومت کے ناروا سلوک سے غصہ کا پیمانہ اتنا چھلکا کہ عوام نے کانگریس پر ووٹوں کی بارش کردی۔یہ کسان اندولن کا چمتکار تھا جس نے بی جے پی کو نہ صرف کراری ہار سے دوچار کیا بلکہ قومی سطح پر بھی کانگریس کو معجون شباب آور فراہم کردیا ۔ 

پنجاب کے بلدیاتی انتخاب میں کانگریس نے نہ صرف بی جے پی کا صفایا کیا بلکہ اکالی دل اور عام آدمی پارٹی بھی حاشیہ پر آگئی ہے۔ پنجاب کے 8 کارپوریشنوں میں کانگریس کا پرچم لہرارہا ہے۔ وہاں کے ووٹروں نے این ڈی اے کی حلیف جماعت رہی اکالی دل کو بھی سبق سکھایا ہے حالانکہ کسان اندولن کے دوران اکالی دل نے این ڈی اے کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ مگر بی جے پی سے شدید غصہ کا نتیجہ تھا کہ بھٹنڈہ جو بادل کا قلعہ اکالی دل کا سب سے مضبوط قلعہ تھا وہ بھی منہدم ہوگیا۔  53 برسوں کے بعد وہاں کانگریس کا پرچم لہراتا نظر آرہا ہے۔ یہی نہیں سنی دیول کے حلقہ انتخاب گرداس پور میں بھی ایک بھی سیٹ بی جے پی کو نہیں ملی۔ ہوشیار پور میں سابق وزیر تیچھڑ سود کی اہلیہ کی ضمانت ضبط ہوگئی ۔یہ علاقہ مرکزی وزیر سوم پرکاش کا حلقہ انتخاب ہے۔ پنجاب کے بلدیاتی انتخاب میں 8 کارپوریشن 109 نگر پالیکا 117 مقامی بلدیہ کیلئے 14 فروری کو ووٹنگ ہوئی تھی۔ جس میں کانگریس کی تاریخ ساز جیت ہوئی۔کانگریس جو 2015 کے اسی چنائو میں تیسرے نمبر پر تھی اس نے اتنی لمبی چھلانگ لگائی کہ حیرت ہوتی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ کسان اندولن کا کک ہے۔ جس سے پنجاب میں کانگریس کو اچھال ملا ہے۔ کسان لیڈر ٹکیت کی عوام سے یہ اپیل بھی بہت کارگر رہی کہ جب تک بی جے پی نہیں ہارے گی قانون واپسی کی راہ ہموار نہیں ہوگی۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ کسان اب ٹریکٹر سمیت بنگال میں ڈیرہ جمائیں گے اور عوامی بیداری مہم چلائیں گے۔ پنجاب کے چمتکارکا اثر بنگال، آسام ،کیرالہ ، پڈوچیری اور تمل ناڈ کے اسمبلی انتخابات پر بھی پڑ سکتا ہے۔ان ریاستوں میں بے روزگاری ،مہنگائی ، تیل قیمتوں میں اضافہ جہاں بڑے مدعے ہوں گے وہیں کسانوں کی جدو جہد بھی اپنا اثر دکھائے گی۔ 

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک معیشت کی بدحالی کے کگار پر ہے۔ پٹرول 100 کو پارکرچکا ہے۔ ڈیزل پٹرول کی بڑھتی قیمتوں سے مہنگائی روز افزوں بڑھ رہی ہے۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر سبرامنیم سوامی مودی سرکار آئینہ دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ راون کے ملک âسری لنکاáمیںپٹرول 51 روپے جبکہ رام کے ملکâایودھیا بھارتáمیں 100 کے قریب ہے۔انہوں نے فوری طور پر سرکار سے لیوی ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اداکارنصیرالدین شاہ کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں 30 روپے کے تیل پر 60 روپے ٹیکس لگتا ہے او ر اگر کسان اپنی محنت کا ایم ایس پی مانگتا ہے تو ملک دشمن کہا جاتا ہے۔ پھر یہ کیسا ستم ہے کہ جو تیل ہندوستان سے بھوٹان اور نیپال جاتا ہے وہ وہاں سستا بکتا ہے ۔بھوٹان میں تیل 50 روپے لیٹر ہے جبکہ نیپال میں 62 روپے ہے۔ نیپال سے منسلک سرحدی علاقوں کے لوگ اب نیپال سے تیل خرید رہے ہیں۔ بھاجپائی لیڈروں کا کہنا بھی کم مضحکہ خیز نہیں کہ کانگریس نے ملک کو اتنا مقروض کردیا ہے کہ مودی جی کو قرضہ چکانے کیلئے تیل کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑا ہے۔ حالانکہ مودی کے سابقہ ساڑھے چار سالہ دور میں ملک پر قرض کا بوجھ 55 لاکھ کروڑ سے بڑھ کر 82 لاکھ کروڑ ہوچکا ہے۔ نوٹ بندی ،جی ایس ٹی اور کورونا نے ملک کی معیشت کو جس بدحالی سے دوچار کیا ہے اس سے سبھی واقف ہیں۔ اوپر سے کسان اندولن سے مرکزی سرکار کو نہ صرف سیاسی بلکہ اقتصادی نقصان بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔کئی ٹول پلازوں پر کسانوں کا دھرنا جاری ہے۔ جس سے یومیہ 1.8 کروڑ کا خسارہ ہورہا ہے۔ تادم تحریر صرف ٹول پلازوں سے 160 کروڑ کا نقصان ہوچکا ہے۔ پنجاب میں تو گزشتہ سال ستمبر سے ہی کسانوں نے ریل روکو اندولن شروع کیا تھا جس کے تحت ریلوے کو 2400 کروڑ روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ ایسو چیم کی رپورٹ کے مطابق کسان اندولن سے ملک کو یومیہ ڈھائی ہزار سے لیکر تین ہزار کروڑ تک کا خسارہ ہورہا ہے۔ اگر اس مسئلے کو جلد حل نہیں کیا گیا تو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ 

بہر کیف پنجاب کے لوکل چنائو میں کانگریس کی غیر معمولی جیت کے بعد ہریانہ کی کھٹر سرکار شدید دبائو میں ہے۔بی جے پی اور جے جے پی کے لیڈروں کو ان کے علاقہ میں آمد پر پابندی لگادی گئی ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے دشینت چوٹالہ کے کئی ساتھی کسانوں کی حمایت میں آچکے ہیں۔ کھٹر سرکار کا چراغ کب گل ہوجائے کہا نہیں جاسکتا۔بی جے پی اس حقیقت کو سمجھ رہی ہے کہ ہریانہ ، راجستھان اور مغربی یوپی جسے جاٹ لینڈ کہا جاتا ہے  یہ علاقہ جو حکومت سازی میں اہم رول ادا کرتا رہا ہے۔ اب جاٹ کسان اندولن کی ریڑھ بن چکے ہیں۔زرعی قانون کے خلاف مودی سرکار سے دو دو ہاتھ کرنے کا عزم کرچکے ہیں۔ یہی عزم بی جے پی حکومتوں کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔چنانچہ پنجاب ،ہریانہ کے بعد یہ اندولن اترپردیش کے 2021 کے اسمبلی الیکشن کیلئے بھی چیلنج ہے ۔کیونکہ 403 سیٹوں میں 90 سیٹیں مغربی اترپردیش سے آتی ہیں جہاں 17 فیصدجاٹ بادشاہ گر کا رول ادا کرتے ہیںاور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسان اندولن نے 2014 کے مظفرنگر فساد کے زخموں پر بھی مرہم رکھنے کا کام کیا ہے۔ مسلمان اب جاٹوںکے شانہ بہ شانہ ہوکر مغربی یوپی کی سیاست میں اہم رول ادا کرنے کو تیار ہیں۔ اس کے علاوہ کسانوں کی جس طرح تابڑ توڑ مہا پنچایتیں ہورہی ہیں اور عوام ان سے جڑ رہے ہیں وہ بھی بی جے پی کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔اسی دوران کسان یونین نے بی جے پی لیڈروں کا حقہ پانی بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سسولی کی مہا پنچایت کے ذریعہ عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ کسی بھی شادی بیاہ یا سماجی تقاریب میں بی جے پی کے لیڈروں کا مدعو نہ کریں۔ ہریانہ کے کئی علاقوں میں تو باضابطہ پوسٹروں کے ذریعہ بھاجپائیوں کے داخلہ کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ کسان یونین کے ذریعہ بی جے پی کے سماجی بائیکاٹ کے اس فیصلے کے اثرات ملک کی 5 ریاستوں پر بھی پڑ سکتے ہیں جہاں انتخاب ہونے والے ہیں۔بھارتیہ کسان یونین کے لیڈر راکیش ٹکیت کا کہنا ہے کہ ہماری لڑائی لمبی چلے گی ۔ سرکار یہ غلط فہمی دور کرلے کہ ہم فصل کٹائی کے وقت چلے جائیں گے ہم فصل جلا دیں گے لیکن جانا پسند نہیں کریں گے۔

بہر حال اندولن کی آندھی نے پنجاب بلدیاتی چنائو میں بی جے پی کا قلعہ منہدم کردیا ہے۔ اب دوسری ریاستوں میں یہ آندھی کتنا اثر دکھائے گی یہ وقت بتائے گا ۔ مگر مہنگائی،بے روزگاری اور بدحالی کے مارے لوگوں کیلئے کسان اندولن ایک امید اور حوصلہ کی کرن بن چکا ہے جو  تلقین کررہا ہے بقول شاعر:

 

امید وقت کا سب سے بڑا سہارا ہے

اگر حوصلہ ہو توہر موج میں کنارا ہے

 

â[email protected]á

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close