Khabar Mantra
محاسبہ

لہو میں بھیگی ہوئی آستین جیت گئی

محاسبہ...........................سید فیصل علی

2019 کے پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی کی تاریخ ساز جیت کا نقّارہ بج رہا ہے۔ ایگزٹ پول کے نتائج سے سرشار ٹی وی چینلز اس جیت کو مودی لہر نہیں سونامی قرار دے رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ مودی کی مقبولیت نے 2014 کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دو دنوں سے ٹی وی چینلوں پر بحث و مباحثہ و چیخ وپکار جاری ہے۔ کہتے ہیں کہ بی جے پی کو 50فیصد سے زائد ووٹ ملے ہیں۔ مودی نے نہرو، اندرا کی مقبولیت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اس سیاسی بلندی پر پہنچ چکے ہیں، جہاں اب تک کوئی نہیں پہنچا ہے۔ مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ٹی وی کے تمام تر شور، سوشل میڈیا کی لاکھ تشہیر کے باوجود مودی کی جیت کے بجائے اپوزیشن کی ہار کا چرچا ہے۔ پورا ملک ششد رہے کہ جس پارٹی کے پاس کوئی ایشو نہیں تھا، وہ اپنے کام کے نام پر ہر محاذ پر ناکام تھی، عوام تبدیلی چاہتے تھے، انہوں نے شدت کی گرمی میں بدلاؤ کے لئے ووٹ دیا تھا۔ دلت، پسماندہ و مظلوم طبقات متحد ہوکر مہاگٹھ بندھن کے ساتھ اپنے سمّان کی جنگ لڑ رہے تھے۔ روزے دار شدید دھوپ کی پروا کئے بغیر قطار میں کھڑے تھے، ان کے ووٹوں کی طاقت کیسے دم توڑ گئی۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہندوستانی مسلمانوں نے اتحاد کا ثبوت دیا تھا اور یقیناً یہ اتحاد قومی سیاست کا رخ بدل دیتا۔ ووٹ کے تئیں زبردست بیداری اور مہاگٹھ بندھن کے باوجود تمام تر حکمت عملی کیسے فیل ہو گئی۔ مجھے یہ کہنے میں قطعی گریز نہیں کہ فسطائیت کی سیاست کے آگے جمہوریت کی طاقت ای وی ایم کے آگے ہار گئی۔ ای وی ایم جس کے معنی (Electronic Voting Machine) کے ہوتے ہیں لیکن 2019 کے پارلیمانی انتخاب کے نتائج نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب ای وی ایم کا مطلب (Every vote to Modi) ہو چکا ہے، جس نے ملک میں مودی کو ’پرچنڈ بہو مت‘ سے ہمکنار کیا ہے۔

اس الیکشن میں بی جے پی امیدوار لاکھوں ووٹوں سے جیت گیا ہے۔ حالانکہ کسی بھی حلقہ انتخاب میں آٹھ دس لاکھ سے زیادہ پولنگ نہیں ہوتی۔ یہ کیسا الیکشن ہے کہ جہاں پرگیہ ٹھاکر جیسی گوڈسے حامی امیدوار ساڑھے چار لاکھ ووٹوں سے جیتی ہے تو شرد یادو 5 لاکھ ووٹوں سے ہارگئے ہیں۔باری صدیقی لاکھوں ووٹوں سے ہار گئے ہیں۔ رگھوونش بابو بھی ہارگئے ہیں۔ اس کھیل تماشے کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ پورا ملک بدلاؤ کی راہ پر چل رہا تھا۔ ہر سمت ناراضگی کا ماحول تھا اینٹی انکمبینسی کاماحول، بے روزگاری، مہنگائی کا خاص اثر تھا لیکن تمام ایشوز پس پشت ہو گئے اور کسی ایشو کے بغیر بی جے پی نے ’پرچنڈ بہو مت‘ حاصل کر لیا ۔آج ملک یہ بھی سوچ رہا ہے کہ جمہوریت کی بقا کے لئے لڑنے والوں کی بساط الٹی نہیں ہے بلکہ پلٹی گئی۔ ملک مودی کی تاریخی جیت کے بجائے اپوزیشن کی کراری ہار پر سوچ وچار کر رہا ہے۔

میں بھی بہار کے شیوہر سے مہا گٹھ بندھن کے آر جے ڈی امیدوار کے طور پر انتخابی مہا بھارت میں تھا۔ مجھے اہل شیوہر نے جس خلوص کے ساتھ ہاتھوں ہاتھ لیا، محبتیں دیں، مجھ سے امیدیں وابستہ کیں، مجھ پر بھروسہ کیا، یہ تمام چیزیں میرے لئے سرمایہ حیات ہیں۔ میں انھیں تمام عمر سنبھال کر رکھوں گا۔ یہ مجھ پر بھروسے کا ہی نتیجہ تھا کہ شیو ہر کے عوام نے ووٹ کے تئیں زبردست بیداری دکھائی۔ خاص کر مسلمانوں نے تو روزہ کے عالم میں قطار میں کھڑے ہو کر ووٹنگ کا ریکارڈ قائم کیا مگر اہل شیوہر کے تمام تر ساتھ اور جوش کے باوجود میری ہار ہوئی لیکن میں اس ہار سے بددل نہیں ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مجھے کسی امیدوار نے نہیں ہرایا۔ نہ میں کسی پارٹی سے ہارا ہوں بلکہ میں مشین سے ہارا ہوں۔

یہ سوچنے کا مقام ہے کہ شیوہر کے ڈھاکہ میں ایک مدرسہ پولنگ مرکز پر جہاں مسلمانوں کے 714 ووٹ پڑے، جس میں صرف 14 ووٹ آر جے ڈی کو ملے کیا 700 مسلمانوں نے دھوپ میں کھڑے ہو کر روزہ کے عالم میں مودی کی مسیحائی کا خیال کرتے ہوئے بی جے پی کو ووٹ دیا، کیا کوئی ذی شعور اسے تسلیم کرے گا؟ بلاشبہ یہ ای وی ایم کا کمال ہے، جس نے نفرت کی سیاست کا اقبال بلند کر دیا اور محبت کی بات کرنے والوں کو زوال پذیر کر دیا۔ایسا لگتا ہے کہ ہر ای وی ایم کی پروگرامنگ میں دو سے ڈھائی لاکھ ووٹ پہلے سے ہی شامل تھے۔ ورنہ بی جے پی کا کوئی بھی امیدوار لاکھوں ووٹوں سے نہیں جیت سکتا۔ بہار اور یوپی میں یہ کمال عروج پر دکھائی دیا۔ مہاگٹھ بندھن کی ساری حکمت عملی مشین کے آگے زمین دوز ہو گئی اور جہاں ای وی ایم کا کمال دکھانے میں دشواری پیش آئی وہاں تشدد کا بازار گرم ہوا۔ ممتا کے بنگال میں نفرت کے بازی گروں کی بساط فکر کا موضوع ہے۔

ستم تو یہ ہے کہ بی جے پی نے اس الیکشن میں ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ الیکشن کمیشن کی دو رخی پالیسی سے بھی بی جے پی کو تقویت ملی۔ مودی اور امت شاہ کو کلین چٹ دیا جانا آج بھی الیکشن کمیشن کے سامنے ایک بڑا سوال ہے الیکشن کمشنر اشو ک لواسا نے کھل کر کہا ہے کہ کمیشن نے قانون کے مطابق کام نہیں کیا۔ ایک الیکشن کمشنر کا یہ سوال ملک کی جمہوریت، قانون، عدلیہ سب کے آگے بڑا سوال ہے کہ کیا ہندوستان سوڈان، عراق، شام، مصر، نائیجیریا و صومالیہ وغیرہ کی قطار میں کھڑا ہو رہا ہے، جہاں ملک میں ایک حکمراں کی ابروئے ہدایت سے الیکشن کا ناٹک کیا جاتا ہے، جہاں ایک آدمی طے کرتا ہے کہ اقتدار کس کا ہوگا؟ جہاں کی سرکار طے کرتی ہے کہ کون الیکشن میں کھڑا ہوگا۔ کیا ہندوستان آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے؟ آج تشویش کا یہی موضوع ہے۔

بھلے ہی بی جے پی ہیڈ کوارٹر سے لے کر ضلعی دفاتر تک جیت کے شادیانے بج رہے ہیں مگر آج ہر ذی شعور کے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بھی بج رہی ہے کہ کیا ملک میں ادھینائک واد آرہا ہے، ملک میں آمریت کا طوق پڑنے والاہے، جس میں ملک میں ایک آدمی کا اقتدار، ایک آدمی کا فیصلہ ملک پر حاوی ہوگا۔ کیا مودی اُس چرم شکھر پر پہنچ چکے ہیں، جہاں بابائے قوم بھی نہیں پہنچے۔ آج ہر ذی شعور اسی نہج پر سوچ رہا ہے کہ کیا جمہوریت کی ہار ہو چکی ہے۔ قانون، عدلیہ، نظم ونسق اور آئینی اداروں کو یرغمال بناکر الیکشن جیتنے کا دور شروع ہو چکا ہے، اگر ایسا ہے تو ملک کی جمہوریت، سیکولزم، رواداری، سنسکار خاص کر ملک کی گنگا جمنی تہذیب شدید خطرے میں ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مودی کی جیت پر شیوسینا نے بھی بی جے پی کی پیٹھ تھپتھپائی ہے کہ اب مودی کو کوئی 25 سال تک نہیں ہٹا سکتا ہے۔

اس جیت سے یہ سوال بھی ابھر رہا ہے کہ گجرات فساد کی بدولت اقتدار کا چراغ جلانے کی سیاست کیا پورے ملک میں بھی دہرائی جا رہی ہے۔ گجرات ماڈل کا تجربہ پورے ملک میں دہرایا جا رہا ہے۔ پانچ سال میں ہر محاذ پر ناکام رہنے والی حکومت نے کس طرح راشٹرواد اور ہندوتو کے نام پر زبردست اکثریت حاصل کی، یہ بڑا سوال ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ 50 فیصد عوام ہندوتو کے علمبردار ہو چکے ہیں۔ کیا گوڈسے کی فکر گاندھی واد پر حاوی ہو چکی ہے؟ ملک کا بدلتا رجحان ہندوتو کی بلندی پر پہنچ چکا ہے، جس کے آگے ملک کی جمہوریت اور سیکولرزم بونے دکھائی دیتے ہیں۔ بہرحال سوالات بہت ہیں۔ مگر یہ سوالات بھی بے معنی ہی رہے ہیں کیونکہ مودی کے ساتھ دو ’ایم‘ بھی شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔ میڈیا اور مشین دو ایسے ہتھیار ہیں، جو مودی کی شخصیت کو کرشمائی ہی نہیں دیو مالائی ثابت کرنے میں سرگرم ہیں اور ایسے میں مودی کا گجرات ماڈل بھی قومی سطح پر پاؤں پسار رہا ہے۔ حالانکہ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ دُھواں دھار پرچار نے بغیر کسی ایشو کے بی جے پی کو اقتدار تک پہنچا دیا ہے مگر وقت کا المیہ یہ بھی ہے کہ آج ملک کی تہذیب و سیاست اس نازک موڑ پر ہے، جہاں احساسات، اقدار و سنسکار سب بے بس ہو چکے ہیں۔ میڈیا اور مشین جمہوریت پر حاوی ہو چکے ہیں اور نتیجہ ظاہر ہے۔ بقول راحت اندوری ؔ:

لہو میں بھیگی ہوئی آستین جیت گئی
چناؤ ہار گئے سب مشین جیت گئی

 

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close