Khabar Mantra
محاسبہ

اپنی قد آوری سے خبردار وہ نہ تھا!

محاسبہ...........................سید فیصل علی

لالو یادو کی صحت مسلسل بگڑ رہی ہے۔ ان کے بدن میں انفیکشن کے ساتھ ساتھ کریئیٹنن اور بلڈپریشر بھی بڑھ رہا ہے۔ ان کا ٹی سی 12100پر پہنچ چکا ہے۔ پائوں میں سوجن ہے, لالو پہلے سے ہی بائی پاس کرا چکے ہیں۔ وہ کڈنی ڈزیز اسٹیج تھری کے مریض ہیں۔ ایسے میں کریئیٹنن میں اضافہ اچھی علامت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان کے گُردے میں پتھر بھی پایا گیا ہے۔ وہ ہائیپر ٹینشن سے بھی پریشان ہیں۔ ان کو فوری طور پر ملک کے کسی بڑے اسپتال میں لے جانے کی ضرورت ہے، لیکن سیاست کی بازی گری کہیں یا قسمت کی ستم گری کہ لالو یادو چارہ گھوٹالہ کے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں اور ان کا رانچی کے رِمس میں علاج چل رہا ہے۔ یہ علاج کب تک چلے گا، کب لالو ٹھیک ہوں گے، یہ الگ سوال ہے، لیکن ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ ملک میں قومی سیکورٹی اور قومی معیشت سے کھلواڑ کرنے والے، ہزاروں کروڑ کا گھوٹالہ کرنے والے میہل چوکسی، نیرو مودی، وجے مالیہ وغیرہ وغیرہ تک جانے کتنے سرمایہ دار بڑی آسانی سے ملک سے فرار کرا دیئے جاتے ہیں اور ان کی واپسی کے لئے بھی کوئی قانونی کوشش نہیں ہوتی۔ ملک میں کوئلہ گھوٹالہ، این آر ایچ گھوٹالہ، 2-Gاسپیکٹرم گھوٹالہ، نیوی گھوٹالہ، تابوت گھوٹالہ، ویاپم گھوٹالہ، ٹریڈ فیئر گھوٹالہ، کامن ویلتھ گھوٹالہ، ستیم گھوٹالہ، ایکسچینج گھوٹالہ تک سیکڑوں گھوٹالوں کا انبار ہے، لیکن تمام گھوٹالوں میں کسی کو بھی جیل نہیں بھیجا گیا۔ یہ گھوٹالے آج بھی سر بستۂ راز ہیں، لیکن چارہ گھوٹالہ، جو خالص اسٹیٹ کا معاملہ ہے، جس کا قومی معیشت اور سیکورٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ آج تک نہ صرف زندہ ہے، بلکہ اس کی آڑ میں ملک کے قد آور رہنما کی قوت کو بھی سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔ لالو پرساد آج کی سیاست کی فتنہ سازی اور قانون کی دو رُخی پالیسی کا ایسا شکار ہوئے ہیں کہ وہ مسلسل جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھے جا رہے ہیں۔ متعدد بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باوجود ان کا علاج دہلی اور ممبئی کے بجائے رانچی میں چل رہا ہے۔ چلنے پھرنے سے بھی محروم لالو ایک کمرے میں رکھے گئے ہیں، جہاں رات کو کتوں کا شور ان کی نیند کو بھی خلل پہنچا رہا ہے۔ وقت کا یہ کیسا المیہ ہے کہ ملک سے مفرور گھوٹالے باز آج چین کی نیند سورہے ہیں، لیکن لالو ایک بہتر نیند، بہتر علاج کے لئے ترس رہے ہیں۔

تاریخ کبھی اس کو فراموش نہیں کرے گی کہ لالو یادو نے اس طبقہ کو زبان دی ہے، جو سیکڑوں سال سے بے زبان تھا، انہوں نے اس مظلوم ماحول کو توقیر بخشی ہے، جسے سیاست نے بے وزن کر رکھا تھا۔ لالو یادو آج بھی دلتوں، پسماندہ طبقات اور خاص کر مسلمانوں کو حوصلہ دیا ہے، جو منووادی سیاست کے آگے بے حوصلہ تھا، مگر اب دلتوں، پسماندہ طبقات اور مظلوموں کی قیادت کرنے والے لالو کی آواز کو ہی دبانے کی مسلسل کوشش ہو رہی ہے۔ چارہ گھوٹالہ اس کا محرک ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ چارہ گھوٹالے کا ملزم خاص سجل چکرورتی، جو اس معاملہ میں براہ راست ملوث تھا، جو بعد میں چیف سکیریٹری بھی بنایا گیا، حتیٰ کہ چارہ گھوٹالے میں46 افراد براہ راست ملوث تھے، ان میں بیشتر کو ترقی دی گئی، لیکن لالو یادو، جو اس معاملہ میں براہ راست شامل ہی نہیں تھے، انہیں شکنجہ میں لیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ اسی معاملہ میں ایک اور وزیراعلی ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا آزاد فضا میں ہیں اور لالو یادو سلاخوں کے پیچھے ہیں، حالانکہ چارہ گھوٹالے کے خلاف پہلی ایف آئی آر لالو یادو نے ہی درج کرائی تھی، لیکن یہ ایف آئی آر خود ہی ان کے گلے کا طوق بن گئی۔ چارہ گھوٹالے کیس میں سی بی آئی کا جس طرح بےجا استعمال ہوا وہ بھی ایک تاریخی المیہ ہے۔

سی بی آئی کے اسی بےجا استعمال نے ملک کے بڑے بڑے سیاست دانوں کی بولتی بند کر دی ہے۔ اسی دھمکی کے پیش نظر ملک کی میڈیا حکومت وقت کے آگے سر نِگوں ہو چکا ہے۔ ہر سمت نئی فکر کا نقارہ بج رہا ہے اور جمہوریت و سیکولرزم کا جنازہ نکل رہا ہے۔ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی دھجیاں اُڑ رہی ہیں۔ عدلیہ کو دھمکیاں مل رہی ہیں، لالو یادو ہمیشہ فسطائی قوتوں کے آگے سینہ سپر رہے۔ انہوں نے ہمیشہ ملک کے سیکولزم، جمہوریت، رواداری کو تقویت دینے کا کام کیا۔ دلتوں، پسماندہ طبقات اور مسلمانوں کو حق کی آواز بلند کرنے کی تحریک دی۔ وقت کا یہ بھی عجیب وغریب منظر ہے کہ جس قد آور شخص نے 23اکتوبر 1992کو بہار میں اڈوانی کے رتھ کو روک دیا تھا۔ ملک و آئین کو بچانے کی خاطر مرکز میں اپنی ہی سرکار گرانے کی قربانی دی تھی، جس نے اعلان کیا تھا کہ اگر میں وزیراعظم بنا تو ان تمام فسطائی قوتوں کا نام ونشان مٹا دوں گا۔ لالو کا یہی عزم، یہی سیاست، یہی حوصلہ اور یہی کردار فسطائی قوتوں کو راس نہیں آیا اور پھر جب ان کی حکومت بن گئی تو لالو کو ایک ہی مقدمہ میں طرح طرح سے پھانسنے کی سیاست کی گئی۔ جیل سے کسی طرح وہ باہر نہ آئیں اس کی سازش ہوتی رہی اور آج بھی یہ سازش جاری ہے کہ لالو یادو کو 2019 کے الیکشن سے قبل جیل سے باہر نہیں نکلنے دیا جائے کیونکہ فسطائی قوتیں جانتی ہیں لالو اگر پرساد باہر آگئے تو فرقہ پرست سیاست کی بساط الٹ جائے گی۔ بی جے پی کے خلاف مہا گٹھ بندھن ایک بڑی طاقت بن کر ابھرے گا اور یہ گٹھ بندھن بی جے پی کے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

لالو یادو رانچی کے رِمس کے کمرے میں زیر علاج ہیں۔ ان کی صحت زوال پذیر ہے۔ وہ چلنے پھرنے سے بھی محروم ہیں، لیکن اس حالت میں بھی ان کا دَم خَم قابل ستائش ہے۔ وہ قومی سیاست کی بساط پر بیٹھے مہروں کو مات دینے کے لئے کوشاں ہیں۔ وہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج کے شعلہ فشاں ماحول میں ان کی بے حد ضرورت ہے۔ مجھے یہ کہنے میں گریز نہیں کہ مہا گٹھ بندھن کی بات کرنے والے لیڈران پوری قوت کے ساتھ بی جے پی کے اقتدار کو اکھاڑ پھینکنے کا دم خم نہیں رکھتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں ان کی کوئی دُکھتی رگ حکومت ِوقت کے پاس ہے، جو انہیں زیادہ آگے بڑھنے سے روک رہی ہے۔ ایسے میں ان سب کی نظریں لالو یادو کی طرف ہیں، جنہوں نے جیل جانا قبول کیا لیکن فسطائی قوتوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ آج بھی ان کا یہی ظرف، یہی کردار، یہی حوصلہ فرقہ پرستوں کی راہ میں حائل ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ لالو یادو کا پورا خاندان نشانہ پر ہے۔ انہیں قانونی شکنجہ میں لے کر لالو یادو کے حوصلے کو ختم کرنے کی سیاست ہو رہی ہے۔

کیا یہ فسطائی سیاست کامیاب ہو جائے گی؟ یہ سوچ بھی پریشان کُن ہے، لیکن کہیں نہ کہیں یہ اطمینان بھی ہے کہ پسماندہ لوگوں، دلتوں، مسلمانوں اور کمزور طبقے کی وکالت کرنے والے لالو تمام ترکمزوریوں، بیماریوں اور قانونی شکنجہ کے باوجود لالو جیل سے ہی فرقہ پرست سیاست کو زیر وزبر کر سکتے ہیں۔ حالانکہ آج کی سیاست اور قانون ایک دوسرے کے ہم سایہ ہو چکے ہیں اور یہ ہم سائیگی خوب نِبھ رہی ہے، اسی ہمسائیگی کا نتیجہ ہے کہ ایوان سیاست سے لے کر ایوان جمہوریت ہر جگہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا بول بالا ہے، لیکن خدا کا شکر ہے کہ عدلیہ ابھی تک زہریلی سیاست کی زلف کی اسیر نہیں ہو سکی ہے۔ اب اسی سے امید ہے کہ لالو یادو کو ان کے ناکردہ گناہوں سے نجات ملے گی، وہ باہر آئیں گے، ان کا بہتر علاج ہو گا، قومی سیاست پر جو زہریلی دھند چھائی ہوئی ہے اس کے چھنٹنے کے امکان ہو ں گے۔ کاش لالو یادو نے آندھرا کے نائیڈو کی طرح بہار میں سی بی آئی کی نو انٹری کر دی ہوتی تو آج فرقہ پرستوں کو سی بی آئی کے استعمال کا موقع نہیں ملتا۔ انتقام اور نفرت کی سیاست کی بساط الٹ ہو چکی ہوتی۔ ملک میں ایک نیا ماحول ہوتا۔ بقول شاعر:

بالشتیوں کی چھیڑ نے چونکا دیا اُسے
اپنی قد آوری سے خبر دار وہ نہ تھا

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close