Khabar Mantra
محاسبہ

گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے

محاسبہ...........................سید فیصل علی

آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور دیگر ہندو تنظیموں کے تمام تر دباؤ اور الٹی میٹم کے باوجود رام مندر پر آرڈیننس سے پی ایم نے انکار کر دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ آرڈیننس تبھی لایا جا سکتا ہے جب اس پر قانونی عمل پورا ہو جائے، ہم عدالت کے فیصلہ کا انتظار کریں گے۔ ادھر، پی ایم نے آرڈیننس پر اپنا موقف واضح کیا تو اب سپریم کورٹ بھی ایودھیا مسئلہ کی سماعت کے لئے تیار ہے۔ مودی کے بیان کے 2دن بعد سپریم کورٹ نے ایودھیا معاملہ میں اپنی ایک منٹ کی سماعت میں یہ طے کر دیا کہ اس کی اگلی سماعت 10 جنوری کو ہوگی۔ چنانچہ اب ملک کی نظریں بابری مسجد/رام جنم بھومی قضیہ کو لے کر سپریم کورٹ کی طرف ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیۃ علماء ہند، جماعت اسلامی ہند سمیت تمام ملی و مذہبی تنظیموں اور ہر مکتبہ فکر و مسلک کے علماء کرام نے جہاں پی ایم کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے وہیں یہ بھی کہا ہے کہ بابری مسجد معاملہ میں عدالت عظمیٰ کا جو بھی فیصلہ ہوگا، اس پر مسلمانان ہند سر خم تسلیم کریں گے۔ لیکن مسلمانان ہند کے تحمل و بردبار رویہ کے برعکس آر ایس ایس و ہندو تنظیموں کے رویہ میں وہی شدت پسندی اور قانون کی نافرمانی کی جھلکیاں نظر آرہی ہیں۔ آرایس ایس نے کہا کہ مودی کچھ بھی کہیں مندر بن کر رہے گا، شیوسینا نے تحریک چلانے کی دھمکی دی ہے۔ وی ایچ پی نے مودی کے بیان کو ہندوؤں سے ’وشواس گھات‘ قرار دیا ہے۔ مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا مودی سادھو سنتوں خاص کر آر ایس ایس سے ناراضگی مول لینے کی جرأت کر سکتے ہیں جو تنظیم انہیں اقتدار اور مقبولیت کا چراغ روشن کرنے میں تیل فراہم کرتی رہی ہو کیا وہ اس کے احسان کو یکسر نظر انداز کر دیں گے، مجھے یہ بات ہضم نہیں ہوتی:

                                   کچھ تو ہے اس پردۂ زنگاری میں
مودی نے ساڑھے چار سال کے دور اقتدار میں پہلی بار ایک خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو انٹرویو دیا ہے اور یہ انٹرویو کیسا تھا اس پر الگ سے گفتگو کی ضرورت ہے، لیکن انٹرویو میں مودی نے کئی ایشوز پر اپنا موقف واضح کیا ہے، جن کی وجہ سے ملک کی تہذیب و آئین و قانون پر حرف آنے کا خدشہ ہے۔ رام مندر پر آرڈیننس سے انکار کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ وہ اس کے لئے قانونی عمل کا انتظار کریں گے۔ رام مندر کی تعمیر بی جے پی کے لئے جذباتی مسئلہ ہے لیکن اس پر آرڈیننس تبھی لایاجا سکتا ہے جب قانونی عمل پورا ہو جائے۔ ہم قانونی عمل کا انتظار کریں گے اور پھر اپنی ذمہ داری نبھائیں گے۔ گویا وزیراعظم کو اس بات کا احساس ہے کہ ایودھیا معاملہ مالکانہ حقوق کا معاملہ ہے۔ عدالت عظمیٰ ملکیت کے حقوق پر ہی فیصلہ دے گی۔ یہ بات آرایس ایس بھی سمجھ رہا ہے۔ ہندو تنظیمیں بھی جانتی ہیں، اسی لئے انہوں نے آستھا کی دہائی دے کر سپریم کورٹ کو بھی دھمکانا شروع کر دیا ہے اور بہ بانگ دہل یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ایودھیا میں مندر بن کر رہے گا۔ لیکن ملک کا عدل وقانون بہرحال سب پر مقدم ہے اور اسی قانونی بالا دستی کا نتیجہ ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی پی ایم عدالت کے فیصلہ کے منتظر ہیں۔

سپریم کورٹ میں ایودھیا معاملہ پر فوری سماعت کا دباؤ، حکومت کا فیصلہ کا انتظار یہ ساری بساط تو 2019 کے لئے بچھائی گئی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مارچ تک اگر فیصلہ آگیا اور آرڈیننس بھی آگیا تو بی جے پی جس نے پانچ اسمبلی انتخابات میں اپنا حشر دیکھ لیا ہے ایک بار پھر نئی توانائی کے ساتھ اٹھ کھڑی ہو گی۔ پی ایم کے اکلوتے انٹرویو سے یہ جھلک ملتی ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں تیز رفتاری سے سماعت چاہتے ہیں، اپنے انٹرویو میں انہوں نے اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ رام مندر مسئلہ کی سماعت مدھم ہو چکی ہے، وہ اس تاخیر کے لئے کانگریس کو موردالزام ٹھہرا رہے ہیں لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر سپریم کورٹ میں سماعت کا سلسلہ دراز ہو گیا، اس کا فیصلہ الیکشن سے قبل نہیں آسکا تو پھر بی جے پی کے لئے مشکل مرحلہ ہو گا۔ لہذا حکومت اس معاملہ کو مارچ تک حل کرنا چاہ رہی ہے تاکہ فیصلہ برعکس ہو تو آرڈیننس لایا جائے اور اس بات سے قطع نظر اس دوران مندر بنے یا نہ بنے لیکن آرڈیننس کو 2019 میں استعمال کیا جاسکے، لیکن آرڈیننس لانا بھی اتنا آسان نہیں، این ڈی اے کی حامی جماعتیں اس کے لئے تیار نہیں ہوں گی تو آرڈیننس کا پیچ یہاں بھی پھنسا ہوا ہے۔

2019 کے لئے بچھی سیاسی بساط اور تمام تر حرب و آلات کے باوجود تھوڑا اطمینان بھی ہے کہ آج کے دور کشاکش میں جہاں سب کچھ الٹ پلٹ چل رہا ہے وہاں سپریم کورٹ ایک شفاف ادارہ کے طور پر ملک کے سیکولر طبقات کا مضبوط محافظ بن کر ابھرا ہے۔ سپریم کورٹ نے رام جنم بھومی بابری مسجد کی اراضی کے معاملہ پر صرف ایک منٹ کی سماعت کے فیصلہ میں نئی تاریخ مقرر کرکے واضح کر دیا ہے کہ عدلیہ سیاسی بساط کا مہرہ نہیں بن سکتی۔ اب 10 جنوری کو دیکھا جائے گا کہ عدلیہ کے کیا تیور ہیں پھر یہ معاملہ کتنا وقت لیتا ہے۔ مسلمانوں کو تو سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اطمینان ہے، لیکن آستھا پر فیصلہ چاہنے والوں کو بے اطمینانی ہے۔ وہ جلد از جلد اس معاملہ میں ’یس۔نو‘ کا فیصلہ چاہتے ہیں تاکہ اسی کی روشنی میں ایودھیا ایشوز کو اٹھایا جائے، ہندوتو کی گرمی لائی جائے اور آستھا کی دہائی دے کر چناؤ کا رخ پلٹا جائے۔

بابری مسجد کا معاملہ ایک طویل سفر طے کر چکا ہے۔ 69سال سے چلنے والے ملک کے اس پیچیدہ ترین مقدمہ میں 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا تھا۔ اس فیصلہ نے ملکیت کے مقدمہ کو آستھا میں تبدیل کر دیا۔ ایک طرح سے یہ پنچایتی فیصلہ تھا جسے خود فریقین نے قبول نہیں کیا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے خود اعلان کیا ہے کہ یہ ملکیت کا معاملہ ہے، حقیت کس کی ہے؟ وہ اس بنیاد پر فیصلہ کرے گی یہی وہ قانونی نکتہ ہے جس نے سیاسی بازی گروں اور فسطائی قوتوں کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کردیا ہے۔ اس لئے وہ تیز رفتاری سے سماعت چاہتے ہیں۔ آرڈیننس کے لئے موقع تلاش کر رہے ہیں لیکن عدالت نے بھی واضح کر دیا ہے کہ سیاست یا حکومت لاکھ عجلت دکھائے، تیز رفتاری کا دباؤ ڈالے لیکن عدلیہ خود اپنی راہ متعین کرتی ہے، خود اپنی رفتار طے کرتی ہے۔

2014 میں مودی کے اقبال کا سورج اس لئے بلند ہوا تھا کہ انہوں نے ملک سے بدعنوانی ختم کرنے، ہر اکاؤنٹ میں 15 لاکھ ڈالنے اور ہر سال 2کروڑ نوکریاں دینے کا خواب دکھایا تھا اور بی جے پی کو اقتدار اس لئے بھی حاصل ہوا تھا کہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار ملتے ہی رام مندر بنائیں گے لیکن نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ نہ غریبوں کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ آئے، نہ مندر ہی بنا بلکہ گھپلوں کا ایسا بازار گرم ہوا کہ یہی گھپلے اب حکومت کے گلے کا طوق بن چکے ہیں۔ ایسے میں بس رام کے نام کا ہی سہارا ہے مودی حکومت کی مدت کو محض چند ماہ بچے ہیں۔ ان چند مہینوں میں برسوں پرانے مقدمہ کا سپریم کورٹ فیصلہ دے گا یہ بڑا سوال ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ تیز رفتاری سے بھی سماعت ہوئی تو کم از کم 8 ماہ لگ سکتے ہیں۔ایسے میں تو بی جے پی کا سارا کھیل ہی ختم ہو سکتا ہے۔ اسی کشمکش میں جو منظر نامہ ابھر رہا ہے، ا س سے آر ایس ایس بھی ناراض ہے، سادھو سنت بھی برہم ہیں اور خود پارٹی میں الگ بے چینی ہے۔ سیاسی مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ مندر نرمان کے وعدوں نے 2014 میں بی جے پی کو اقتدار میں پہنچایا اب مندر نرمان ہی بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن جائے گی اور یہ ہڈی تبھی نکل سکتی ہے کہ سپریم کورٹ تین ماہ میں فیصلہ دے دے، پھر آرڈیننس آجائے اور آرڈیننس لانے کی ڈگڈگی بجا کر 2019 کی مہابھارت کو فتح کیا جائے لیکن سوال پھر وہی ہے کہ عدالت عظمیٰ دو تین ماہ کے اندر 69 سال پرانے کیس کا فیصلہ کیسے دے سکتی ہے۔ کیا ملک کی سب سے بڑی عدالت حکومت کے دباؤ کے زیر اثر ہو سکتی ہے؟ ہر سمت اسی سوال کی بازگشت گونج رہی ہے۔ بقول فانی ؔ بدایونی:

موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانی
گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close