Khabar Mantra
اپنا دیش

اُردو صحافت اور مسلم قیادت کی مضبوط آواز تھے غلام سرور: نظرعالم

دربھنگہ: آج متھلانچل کی سرزمین دربھنگہ میں یومِ اُردو ”غلام سرورڈے“ کے موقع پر آل انڈیا مسلم بیداری کارواں و کل ہند مجلس اتحادالمسلمین کی جانب سے ایک تقریب کا انعقاد اقرأ گرافکس کیمپس لال باغ میں کیا گیا۔ تقریب کی صدارت مسلم بیداری کارواں کے صدرنظرعالم نے کی جب کہ نظامت کے فرائض ایم آئی ایم لیڈر عظمت اللہ ابوسعید نے انجام دیا۔تقریب کی شروعات مولانا عمادالدین کی تلاوت کلام پاک سے ہوئی۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں نے حصہ لیا اور شیربہار غلام سرور کی خدمات پرروشنی ڈالی۔ ایڈوکیٹ صفی الرحمن راعین نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج بہار میں اُردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے اس میں سب سے اہم کردار غلام سرور صاحب کا ہی ہے۔ انہوں نے 1981ء میں حکومت سے اُردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کے لئے زوردار تحریک چلائی اور کامیاب بھی ہوئے۔ وہیں ڈاکٹرراحت علی نے بھی تقریب سے خطاب میں کہا کہ غلام سرور محتاج تعارف نہیں ہیں، مسلم قیادت کو مضبوط بنانے اور اُردو صحافت کومزید تقویب بخشنے میں اہم کردار ادا کئے۔ غلام سرور ہمیشہ یاد کئے جاتے رہیں گے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نظرعالم نے کہا کہ بہار میں اُردو صحافت کا ذکر ہوتے ہی ہمارے ذہنوں میں جو سب سے معتبر نام گونجنے لگتاہے، وہ نام غلام سرورہے۔ 10/جنوری1926ء کو آپ کی پیدائش بیگوسرائے ضلع میں ہوئی۔ 79 سالہ زندگی وقار کے ساتھ گزارنے کے بعد آپ کی وفات 18اکتوبر 2004ء کو ہوگئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ غلام سرورصاحب کی زندگی کو دیکھیں گے تو ان کو سمجھنے کے لئے ہم ان کی زندگی دو حصوں میں منقسم کرسکتے ہیں۔ پہلا حصہ قبل آزادی کا ہے اور دوسرا حصہ آزادی کے بعد سے وفات تک کاہے، ظاہرہے پہلا حصہ ان کے شعور کے تربیت کارہاہے ان کے اساتذوں میں پروفیسر آل احمد سرور اور اختراورینوی اہم ہیں۔انہوں نے آگے کہا کہ 1951ء کی مردم شماری میں اختراورینوی نے مسلمانوں کو جگانے کے لئے مردم شماری میں باضابطہ حصہ لینے کے لئے ایک خاص تحریک چلائی جس کے روح رواں اختر اورینوی صاحب نے نوجوانوں میں سے غلام سرور صاحب کو بنایا۔ غلام سرور صاحب کے لئے عوام سے جڑنے کا یہ پہلا موقع تھا، بعد اس کے غلام سرور صاحب نے کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا، انہوں نے اپنی پوری زندگی عوام کے نام کردی۔مردم شماری کی تحریک کے بعد انہوں نے مسلم لیگ کو چھوڑتے ہوئے صرف مسلمانوں کے ہوگئے۔ سن 1965ء کے ادوار میں مسلم مسائل کو اٹھانے کے جرم میں اِنہیں جیل میں ڈال دیا گیا، چوں کہ اِن کا رشتہ بہار کی عوام اور خاص طور پربہاری مسلمانوں سے جڑ چکا تھا۔اس لئے بہار کی عوام نے انہیں شیربہاربنا دیا۔ مکمل طورپرتویہ پتہ نہیں چلتا کہ انہیں یہ لقب سب سے پہلے کس نے عطاکیا تھا، گمان غالب ہے کہ شاید عبدالمغنی صاحب ہی تھے۔آپ جب جیل سے باہر آئے تو آپ کی دنیا اورمنزل مانو ایک ساتھ ہی سفر کررہی تھی۔ مقامی پارٹیوں نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور آپ مسلمانوں کے بڑا چہرہ بن کر اُبھرے، آپ صحافتی دُنیا کی اہمیت اور ضرورت کو بہت پہلے ہی محسوس کرچکے تھے۔ اپنی کتاب ”پرکھ“ سال اشاعت1951ء میں ایک جگہ آپ یوں رقمطراز ہیں:۔”اخبار کی اہمیت کا اندازہ اگر ہم ذرا اوروسیع پیمانے پر لگائیں تو ہمیں ماننا ہی ہوگا کہ کسی بھی زبان، ملک یا قوم کا اخبار اس زبان، ملک، قوم بلکہ اس زمانہ کی سیاسی، ادبی، سماجی، معاشرتی اور اقتصادی حالات کا جائزہ لینے کا ایک مفید، کارآمد اور بہت ہی اہم آلہ ہے۔“مذکورہ باتوں کی تفسیرکرنا سورج کو روشنی دکھانے کے مانند ہوگا، آپ نے 1951ء میں اپنا اخبار سنگم نکالا جو کہ اس وقت ہفتہ وار ہوا کرتا تھا بعد کو اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے 1962ء میں اسے روزنامہ بنادیا گیا۔وہ دَور اور آج کا دَور ایسا لگتا ہے کہ ایک ہی جیساہے۔ اُس دور میں بھی اردو رسائل و اخبار اکثریت میں یا تو بے زبان تھے یا حکومت کے کوٹھے کی شان ہوا کرتے تھے اور شاید آج بھی حالات جوں کا توں ہے، ضرورت ہے ایک اورغلام سرورکی جس نے نہ صرف اردو صحافت کو آواز د ی، زبانیں دیں، وقار بخشا بلکہ اسے دوسری زبانوں کے اخباروں کے ہم پلہ بنایا۔آپ نے ادب، صحافت کی راہ ہوتے ہوئے سیاست میں بھی قدم رکھا اورکامیاب بھی رہے، وزیرتعلیم کے ساتھ RJDگورنمنٹ میں کئی وزارتیں بھی آپ نے سنبھالیں۔ اسپیکر بھی بنے، ادب اس راہ میں آپ سے چھوٹا مگر آپ نے اُردو صحافت کو عزت بخشی، جو وقار بخشا وہ تا عمر آپ کے ساتھ چلتا رہا، آپ کا تعلق دربھنگہ ضلع کے کیوٹی اسمبلی حلقہ سے بھی رہا۔ آپ یہاں سے ایم ایل اے بھی بنے اور آپ نے اس  حلقے میں بیش بہا خدمتیں انجام دیں۔آج ہم لوگ یہاں جمع ہوکر نہ صرف اُنہیں یاد کررہے ہیں بلکہ ہمارا مقصدغلام سرورصاحب کی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ اعتراف کرنا بھی ہے کہ ان کی کمی آج تک کوئی پُر نہیں کرسکاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے رہنما کو پہچانیں اور قیادت کو سمجھیں، کوانٹیٹی نہیں بات کوالیٹی کی ہو، تبھی سماجی سطح پر، صحافتی سطح پر، اقتصادی سطح پر ہم اس صوبہ اورملک میں بھی بہترکرسکیں گے۔غلام سرور صاحب آج ہمارے بیچ نہیں ہیں مگر ان کی خدمات، ان کی تحریریں، ان کی تقریریں آج ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہیں، بلاشبہ غلام سرور صاحب ایک پاکیزہ ذوق اور سنجیدہ و رَچا ہوا شعور کے مالک تھے۔ ضرورت اس بات کی ہے اِن کو سامنے رکھتے ہوئے ہم مستقبل کی طرف گامزن ہوں نہ کہ صرف ماضی کے حسین خوابوں کو سجائے رکھیں۔تقریب میں قاری سعیدظفر، ڈاکٹرمنصورخوشتر،ڈاکٹر راحت علی، ڈاکٹر سہیل احمد، محمد طالب، مولانا عمادالدین، ایڈوکیٹ صفی الرحمن راعین، سیف الاسلام، مولانامحمدظفرکیفی قاسمی، پھول بھائی، محمداشرف، محمدآیت اللہ، شفقت رضوان، محمدعرشی، شہزادے سردار،ضمیرخان،عاکف رضوان، محمد جیلانی، محمداکرم وغیرہ بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ تقریب کا اختتام مولانا عمادالدین کی دعاء پر کی گئی۔

اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close