Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

عازمین حج کو پانی فراہم کرانے کا نایاب کارنامہ…..نہر زبیدہ

اسلامی تارےخ دنےا کےلئے مشعلِ راہ ہے۔ مسلم سائنسدانوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں بڑے شاطرانہ ڈھنگ سے سپوتاژ کرنے کےلئے منصوبے ہر دور میں بنتے رہے ہیں. وقت کا المیہ ہے بھی ہے کہ کبھی مسلم سائنسدانوں نےدنیا کےلئے مثالیں پیش کی تھی۔ ان پر آج پردہ پڑا ہوا ہے اور انہیں بنیادوں پر مغرب نے اپنے سائنسی کمالات کا پرچہ لہرا ہوا ہے۔ مسلم سائنسدان ابن سینا سے لےکر ڈاکٹر سالم علی وغیرہ تک ایک لمبی فہرست ہے۔ خلفائے راشدین سے لے کر خلفائے عباسیہ امیہ وغیرہ وغیرہ تک اسلامی طرز تعمیر وتہذیب و تحقیق وغیرہ کا ایک سنہرہ دور رہا ہے خلیفہ ہارون رشید کی بیگم زبیدہ نے حجاج کی خد مت کےلئے نہر زیبدہ بنائی وہ بھی فن تعمیر، خدمت انسانی اور حوصلہ ایمانی کی ایسی روشن تاریخ ہے جس پر اسلامی دنیا کوہی نہیں بلکہ سارے عالم کو ناز ہوسکتا ہے. کہتے ہیں جب خلیفہ ہارون رشید کی بیگم حج کے لئے مکّہ گئیں. تو وہاں پانی کی دستیابی ایک بڑا مرحلہ تھا، حج کے دنوں میں حجاج کو پانی کے لئے بڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا. چنانچہ زبیدہ نے حجاج کو راحت پھنچانے اور مکّہ میں پانی کی کمی کو دور کرنے کے لئے جو پلاننگ کی وہ آج نہر زبیدہ کے نام سے معروف ہے. عراق سے مکّہ معظمہ تک ایک طویل نہر نکالنا جوئے شیر نکالنے سے کم نہیں تھا. لیکن مسلم فن تعمیر کے ترقی یافتہ دور میں ماہرین نے نہر زبیدہ نکال کر انجینیرنگ کا کمال کر دکھایا گو کہ اس نہر کی تزئین و تجدید میں عباسی خلیفہ جعفر بن آل محتسم، تاتاری حکمراں امیر شوبان، مصر کے بادشاہ الناصر محمّد بن قلدون اور المجید کے علاوہ عثمانی خلیفہ سلطان سلمان تک نے بھی اس نہر کو تحفظ دینے اور درست کرنے میں اہم رول نبھایا تھا. بہر حال، نہر زبیدہ کو عین زبیدہ بھی کہتے ہیں. یہ نہر آج بھی انجینیرنگ اور فن تعمیر کا ایک روشن منظرنامہ ہے. میں اپنے مضمون میں اسی نہر زبیدہ کے تعلق سے اسلامی تاریخ و تعمیر کا سنہرا باب الٹ رہا ہوں جس میں 12 سو سال قبل پانی کی فراہمی کی خدمات انجام دینے کا حیرتناک واقعہ آج بھی سائنس دانوں کے آگے ایک چیلنج بن کر کھڑ ا ہے اور قدرت کے اسرا و طاقت کا مظہر بنا ہوا ہے

عین زبیدہ گزشتہ تقریباً 1200 برسوں تک مکہ معظمہ اور اطراف کے مقدس مقامات تک پانی فراہم کرنے کا منبع رہ چکا ہے۔ یہ نہ صرف انجینئر نگ کا ایک نادر نمونہ ہے بلکہ عربی ثقافت کے سنہری دور کے انجینئرنگ کی پائےدار علامت ہے۔ عین زبیدہ کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں بہت ہی کم حوالے ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دور میں ریکارڈ درج کر نے کا کوئی رواج نہیں تھا تاہم ایک اہم ریکارڈ دستیاب ہوگیا جو کہ 1928 میں سامنے آیا تھا۔ اس زمانے میں پانی کی سپلائی مکہ معظمہ میں روک دی گئی تھی کیونکہ زبردست سیلاب کی وجہ سے چینلوں (Qanatas) کے بہت سے حصوں میں نہ صرف مٹی بھر گئی تھی بلکہ روڑی اور کنکروں کے جمع ہونے سے پانی کی روانی رک گئی تھی۔ چنانچہ شاہ عبدالعزیز نے عین زبیدہ کی بحالی کےلئے مصر سے ماہرین کو مد عو کیا تھا۔ اس بحالی یا تجدید کاری کی رپورٹ تیار کرنا مصنوعی نہر Aqueduct کے تعلق سے جانکاری کا ایک اہم ذریعہ تھا۔ اس رپورٹ میں وقف عین زبیدہ کا ذکر کیا گیا تھا۔ لہذا مکہ معظمہ میں پانی سپلائی اور مصنوعی نہر کی دیکھ بھا ل کرنے کےلئے ایک ٹرسٹ تشکیل دیا گیا۔

1950 کی دہائی تک زمین کی آبی سطح اس حد تک نیچے چلی گئی کہ عین زبیدہ کوپانی سپلائی کرنے والے کنویں خشک ہوگئے تھے۔ ایک پاکستانی آرکیٹیکٹ اور پلانر جس کا نام سلیم بخاری تھا، نے تقریباً 30 سال قبل سعودی عرب میں” مدنیہ ماسٹر پلاننگ ٹیم "کے ایک رکن کی حیثیت سے کام شروع کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے حج ریسرچ سینٹر میں کام کیا تھا۔ یہ اکائی اس لئے قائم کی گئی تھی تاکہ عازمین حج کو پیش آنے والی پریشانیوں کی تحقیق کی جائے اور مناسب طریقہ سے ان کا ازالہ کیا جائے۔ وہ مدینہ منورہ میں سلائڈنگ گنبد اور سلائڈنگ چھتری کی ڈیزائن تیار کرنے والی اور تعمیراتی ٹیم کا بھی حصہ رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ہی منیٰ میں انہوں نے فائر پروف خیمے نصب کرانے میں بھی اپنا تعاون دیا تھا۔ ابھی حالیہ دنوں میں انہوں نے حکومت کی ایما پر عین زبیدہ کے تعلق سے ایک مختصر ڈاکیو منٹری بنائی تھی۔ عام طور پر ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ ملکہ زبیدہ نے بغداد کے نزدیک تگرس (Tigris) دریا سے مکہ معظمہ تک پانی لانے کےلئے ایک مصنوعی نہر کی بنیاد ڈالی تھی۔ حالانکہ ملکہ کے ذریعہ کرائے گئے دوبڑے کاموں کے بارے میں جو کہانی بتائی جاتی ہے، اس سے مغالطہ پیدا ہوجاتا ہے۔ تاہم انہوں نے کوفہ سے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ تک عازمین کے راستے کو درست کرایا تھا۔ اس راستہ پر جو کہ 1500 کلو میٹر سے زیادہ طویل ہے انہوں نے وہاں پر نہ صرف پانی کا انتظام کرایا بلکہ محفوظ پناہ گاہیں قائم کرائیں۔ جنانچہ یہ راستہ ” دارب زبیدہ ” (Darb zubaydah) کے نام سے معروف ہوگیا تھا۔ مکہ معظمہ تک پانی کی سپلائی یقینی بنانے کےلئے انہوں نے پانی فراہم کرانے والے دو چینل قائم کئے تھے۔ ان میں سے ایک وادی حنین سے اور دوسرا عرفات کے مشرق میں واقع وادی نعمان سے نکالے گئے تھے۔ عرفات کے نزدیک ہونے کی وجہ سے یہ چینل کبھی کبھی عین عرفات کے طور پر جانا جاتا ہے جبکہ یہ عام طورپر عین زبیدہ کے طورپر زیادہ معروف ہے۔ سلیم بخاری نے بھی عین زبیدہ کے تعلق سے تاریخی حقائق کا انکشاف عرب نیوز اخبار میں کیا تھا۔

سلیم بخاری میں رقم طراز ہیں کہ طویل عرصے تک حجاز میں چونکہ تسلط قائم رہا تھا اور بے شمار تاریخی عمارتوں اور مقامات سے اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے۔ ان ہی تاریخی کا رناموں میں عین زبیدہ کا شمار ہوتا ہے جو کہ اسلامی وراثت اور انجینئرنگ کے شاہکار کے طور پر ایک اہم اور نادر مثال ہے۔ مکہ معظمہ کے باشندوں اور عازمین حج کو پانی کی مستقل سپلائی فراہم کرنے کےلئے چینل (Qanat) کی تعمیر آٹھویں صدری میں شروع ہوئی تھی اور ٹھیک بعد مسیح 801 عیسوی میں مکمل ہوگئی تھی۔ خلیفہ ہارون رشید کی بیگم کے نام پر اسے عین زبیدہ سے منسو ب کیا گیا تھا۔ بیگم زبیدہ نے ہی اس کے تعمیراتی اخراجات ادا کئے تھے۔ اس پر وجیکٹ کو مکمل ہونے میں 10 برسوں کا وقت لگا تھا وادی نعمان سے لے کر موجودہ وقت میں مکہ معظمہ کے پڑوس میں واقع ال عزیزیہ تک کا یہ چینل 38 کلو میٹر طویل تھا۔ 1950 تک عین زبیدہ استعمال میں رہا تھا۔ اسی طرح یہ چینل (Qanat) عباسی دور کی شاندار وراثت کے طور پر قائم ہے۔

ماڈرن پمپنگ اور پانی کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے آخرکار کنویں کے ذرائع خشک ہوگئے تھے۔ چونکہ زمین میں پانی کی آبی سطح کا فی حد تک نیچے چلی گئی تھی۔ اس لئے قنات کے توسط سے پانی کا بہاؤ برقرار رکھنا مشکل ہوگیاتھا لہذا عین زبیدہ خشک ہوگیا تھا۔ آج اس کے ایک بڑے حصہ کو نہ صرف بچا لیا گیا ہے بلکہ اصل حالت میں ہی اس کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ عین زبیدہ کے تحفظ اور دیکھ بھال کے تعلق سے آپسی تعاون کو فروغ دینے کےلئے سعودی کمیشن برائے سیاحت اور آثار قدیمہ نے مکہ معظمہ کے میئر کے ساتھ ایک میمورنڈیم پر دستحظ کر دئے ہیں جن میں مکہ معظمہ کے نزدیک جبل نور، جبل ثور، دیگر تاریخی مقامات اور تاریخی کنویں بھی شامل ہیں۔

نہر زبیدہ کی پلاننگ کے پیچھے ہارون رشید کی بیگم زبیدہ ہی کا دل و دماغ ہے. کہتے ہیں عباسی خلیفہ ہارون رشید کی وفات کے بعد انکی بیگم زبیدہ حج کرنے کے لئے مکہ معظمہ کا سفر کیا تھا۔ یہ بات بالکل واضح ہوگئی تھی کہ ملکہ زبیدہ اس حقیقت سے واقف ہوگئی تھیں کہ مکہ معظمہ پانی کی کمی کے دور سے گزر رہاتھا۔ چنانچہ جب وہ بغداد واپس آئیں تو انہوں نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے مقصد سے اس وقت کے ماہر معماروں اور انجینئر وں کو طلب کرلیاتھا۔ متعلقہ علاقہ کا سروے کرانے کے بعد جو ابتدائی رپورٹ آئی اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ چینل (Qanat) تعمیر کرانے کا کام مشکل ترین ثابت ہوگا۔ تاریخ میں درج ہے کہ یہ بات سن کر ملکہ نے یہ جواب دیا تھا کہ” کسی بھی قیمت پر چینل (Qatat) کی تعمیر کرائی جائے چاہے پھاوڑے کے ہر ایک وار کے عوض میں مجھے ایک دینار ہی کیوں نہ دینا پڑے۔”

اس کے بعد انجینئروں نے اسی علاقہ کا تفصیلی سروے کرنا شروع کر دیا تھا اور اسی وقت یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وادی حنین اور وادی نعمان دونوں سے مکہ معظمہ تک پانی لایا جائے گا۔ ان دونوں وادیوں میں اکثر زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے زمین کی آبی سطح اونچی رہتی تھی۔ سب سے پہلے کنویں کھود کر وادی حنین سے پانی لا یا گیا تھا۔ علاوہ ازیں پانی کا ذخیر ہ کرنے کےلئے بڑے بڑے تالاب بنوائے گئے تھے۔ جن کو وادی حنین کی قنات کے توسط سے بھرا جاتا تھا۔ ان تالابوں کے باقیات آج بھی موجود ہیں کچھ ایسے ریکارڈ بھی دستیاب ہوئے ہیں، جن سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ اس علاقہ میں درختوں کو کاٹ کر چھوٹے چھوٹے باندھ (Dam) بھی تعمیر کرائے گئے تھے۔ ان باندھوں کو بارش کا پانی جمع کرنے کےلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ جو کہ کاشت کاری کےلئے بھی کافی ہوتا تھا۔ کچھ مدت کے بعد وادی حنین کی آبی سطح نہایت کم ہو گئی لیکن اس وقت بھی وادی نعمان سے پانی کی سپلائی بدستور قائم رہی۔ یہ وادی طائف کی جانب عرفات کے جنوب مشرق سے 10 کلو میٹر کے فاصلہ پر جبل کارا کے دامن میں واقع ہے۔ اس علاقہ میں اکثر اچھی بارش ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے زمین کی آبی سطح میں اچھا خاصہ اضافہ ہوجاتا ہے اس لئے چینل کی تعمیر کےلئے وادی نعمان میں چار پانچ کنویں اسی وجہ سے کھودے گئے تھے۔

ان تاریخی کنوئوں کی گہرائی 34 میٹر تک ہوتی تھی اور یہیں سے عین زبیدہ کا آغاز ہوا تھا، تمام کنوئوں سے پانی یکجا کرنے کےلئے سرنگیں بنوائی گئی تھیں۔ واضح رہے کہ مرکزی کنواں "Motherwell” یا "امیہ” کے نام سے معروف ہے۔ عرفات سے مکہ معظمہ تک پانی پہنچانے کو یقینی بنانے کےلئے معمولی ڈھلان کے ساتھ پتھر اور چونے کے مسالہ سے چینل (Qanat) تعمیر کرایا گیا تھا تاکہ فطری بہائوں کے ساتھ پانی کی روانی برقرار رہے۔ علاوہ ازیں پانی کی یکساں سطح برقرار رکھنے کےلئے کچھ جگہوں پر قنات زمین سے اوپر اور کسی دوسری جگہ پر زیر زمین ہوتی تھی، مثال کے طور پر مزدلفہ کی پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ کئی کلو مٹر تک قنات زمین سے اوپر بنائی گئی تھی اور سیلا ب سے محفوظ رکھنے کےلئے پشتہ بنا دیا گیا تھا۔ پانی کی شفافیت برقرار رکھنے کےلئے ہر 50 میٹر کے فاصلہ پر قابل دسترس اضافی کنویں کھدوائے گئے تھے جوکہ "kharazah” کے طور پر معروف تھے حالانکہ عین زبیدہ کی صفائی کرنے کا کام آسان نہیں تھا تاہم خرازہ کا فائدہ یہ تھا کہ قنات کی مسلسل دیکھ بھال آسانی سے ہوتی رہتی تھی۔ اس زمانہ میں صرف پتلے دبلے اور مخصوص قد و قامت کے لوگوں کو ہی ان کے اندر بھیجا جاتا تھا۔ خرازہ اور قنات دونوں کو ہی پتھر اور چونے کے مسالے سے مضبوط کیا جاتا تھا تاکہ پانی جذب نہ ہو سکے۔ چنانچہ عین زبیدہ کا مکمل اسٹرکچر چاہے وہ زمین کے اوپر ہو یا زیر زمین ہو اسے چونے کے مسالے اور پتھروں سے ہی تعمیر کیا جاتا تھا۔ بہرکیف چونے کے اس مسالے کے ذرائع کے بارے میں ابھی تک کچھ پتہ نہیں لگا ہے کیونکہ مکہ معظمہ کے نزدیک یہ بہت ہی کم دکھائی دیتا ہے۔

وادی نعمان سے مکہ معظمہ کے نزدیک یہ قنات تعمیر کرائی گئی تھی جو کہ مزدلفہ کی پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ عرفات کے میدان سے گزرتی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عین زبیدہ اپنے منزل مقصود کی جانب ہموار راستہ سے نہیں گزرتی تھی بلکہ پہاڑیوں کے درمیان وہ گھمائو دار ہو جاتی تھی۔ اس کی اونچائی، ساخت اور راستہ اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا تھا تاکہ پانی کی سطح اور روانی ہمیشہ برقرار رہے۔ وادی نعمان سے جب قنات شروع ہوتی تھی تو وہ سب سے پہلے عرفات کی جانب رواں ہوتی تھی۔ جبل رحمت کے نزدیک یہ قنات زمین سے 10فٹ اوپر ہوتی تھی۔ قنات کی راہ کی برابر میں چینل کے ذریعہ پانی کاایک ٹینک بنایا گیا تھا جو کہ سبیل کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور وہیں پر پینے کے پانی کا ایک فوارہ بھی ہوتا تھا۔ ان کے باقیات آج بھی جبل رحمت کے دامن میں موجود ہیں۔ تکمیل شدہ چینل کی سادگی اور شان وشوکت یہ ہے کہ اسے نہایت چابک دستی سے تیار کیا گیا تھا تاکہ اس میں پانی کی سطح برقرار رکھنے کے لئے خود بخود پانی بھر جائے، جس سے کہ باشندوں اور عازمین کو تازہ پانی دستیاب ہو جائے۔ عرفات سے مزدلفہ کی جانب یہ سیدھے۔سیدھے نہیں بہتی ہے کیونکہ اسے وادی ارنیا سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے جو کہ عرفات اور مزدلفہ کے درمیان واقع ہے۔۔۔۔۔۔(جاری )

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close