Khabar Mantra
محاسبہ

انصاف ہو کس طرح کہ دل صاف نہیں ہے

محاسبہ...........................سید فیصل علی

یہ سال جاتے جاتے کتنے جھٹکے دے گا یہ اوپر والا ہی جانتا ہے۔ تازہ ترین دو خبریں ہر ذی شعور کو جھٹکا دینے والی ہیں۔ میرے دل میں بھی ایک پل کے لئے سہرن سی پیدا ہوئی، ذہن میں ہلچل سی مچی۔ اول تو یہ کہ جب یہ پتہ چلے کہ اب ہر شخص نگرانی کے رڈار پر ہو گا کیونکہ حکومت نے ملک کی 10 ایجنسیوں کے اختیارات میں اتنا اضافہ کر دیا ہے کہ اب وہ کسی بھی وقت آپ کے کمپیوٹر ڈیٹا کو کھنگال سکتی ہیں۔ آپ کے اکائونٹ، آپ کے فون، آپ کے وہاٹس ایپ، آپ کے فیس بک غرض کہ آپ کی نجی زندگی سے جڑے ہر سربستہ راز کا بخیہ ادھیڑ سکتی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر آپ ہر پل سرویلانس پر رہیں گے۔ آپ کی حکومت مخالف فکر، آپ کی آزادیٔ رائے کا اظہار کیا گُل کھلائے گا اس پر ہر ذی شعور فکر مند ہے۔ حکومت کے ذریعہ عوام کی جاسوسی پر اپوزیشن چراغ پا ہے۔ اسے غیر اعلانیہ ایمرجنسی قرار دے رہا ہے۔ راہل گاندھی نے دو ٹوک کہا ہے کہ ملک پولیس اسٹیٹ میں بدل رہا ہے لیکن ایک ہندوستانی مسلمان کے نزدیک یہ عمل زیادہ پریشان کن نہیں ہے وہ تو ازل سے ہی احتساب کے کٹہرے میں کھڑا رہا ہے۔ ہر دور میں امتحان سے گزرا ہے۔ملک پولیس اسٹیٹ بنے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہندوستانی مسلمان کو ملک کے آئین اور عدلیہ پر بھروسہ ہے۔ لیکن جب اقتدار و سیاست کے شکنجہ میں پھنسی عدلیہ کی بے بسی کا منظر ابھرتا ہے تو ایک بے اطمینانی ضرور ہو جاتی ہے اور بد دلی کا ماحول بھی پیدا ہوجاتا ہے۔

کل معروف زمانہ سہراب الدین فرضی انکائونٹر کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔ عدم ثبوت کے تحت تمام 22ملزمین بری ہو چکے ہیں۔ عدالت کو یہ کہنا پڑا ہے کہ یہ انکائونٹر فرضی نہیں تھے، اس میں کوئی سازش نہیں تھی۔ یہ دوسری خبر اتنی دل سوز ہے کہ جس نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اقتدار و سیاست، اثرو رسوخ، اور نئی فکر کے دباؤ کے آگے عدل و قانون کتنا بے بس ہو گیا ہے۔ خاص کر نچلی عدالتیں تو پورے طور پر سیاسی دباؤ میں ہیں۔ یہ عدلیہ کی بے بسی کا ہی منظر نامہ ہے کہ سہراب الدین فرضی انکائونٹر معاملہ میں فیصلہ سناتے وقت عدالت بھی ایک اندرونی کرب سے دو چار ہو گئی تھی اور اس نے بڑے دکھ کے ساتھ کہا تھا کہ ہم بے بس ہیں، گواہ ہی منحرف ہو جائیں تو ہم کیا کریں؟ عدالت کا اظہار و افسوس خود اس بات کا اقرار ہے کہ آج کے دور میں عدل و قانون کتنے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ حالانکہ ابھی عدل و قانون اتنا بے بس نہیں ہوا ہے کہ وہ سیاہ کو سفید بنانے والے معاملات پر مہر لگا دے۔ ملک کی تہذیب و آئین کی بقا کے لئے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ایک محافظ کی طرح کھڑے ہیں۔ 1984کے سکھ مخالف فسادات کا تاریخ ساز فیصلہ اس کا گواہ ہے۔ 34 سال کے بعد ہی سہی ملزمین کو سزا ملی ہے۔ مظلومین کے زخموں پر مرہم رکھا گیا ہے اور اب یہ امید بھی پیدا ہو چکی ہے کہ 2002 کے گجرات فساد کے ملزمین بھی کیفر کردار تک پہنچیں گے لیکن سہراب الدین معاملہ میں جس طرح اقتدار و سیاست کی قوت نے اپنے اثرات دکھائے ہیں کہ سہراب الدین فرضی انکائونٹر معاملہ اصلی انکائونٹر قرار دیا گیا ہے۔

غور طلب ہے کہ سہراب الدین شیخ اور تلسی پرجاپتی انکائونٹر معاملہ میں تیرہ سال بعد عدالت کا فیصلہ آیا ہے، جس میں سی بی آئی کی اسپیشل کورٹ نے ثبوت کی عدم موجودگی کی وجہ سے کل 22ملزمین کو بری کر دیا ہے۔ ملزمین میں 21پولیس اہلکار ہیں حالانکہ اس معاملہ میں38 افراد ملزم بنائے گئے تھے، جس میں کئی آئی پی ایس افسران کے علاوہ امت شاہ، راجستھان کے وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریا گجرات پولیس کے سابق سربراہ وی سی پانڈے، پولیس کے سابق سینئر افسر ڈی جی ونجارا شامل تھے، مگرمقدمہ شروع ہو نے سے قبل ہی یہ بڑے سیاسی لیڈران اور آئی پی ایس افسران کے نام ایف آئی آر سے نکالے گئے اور بالا ٓخر تیرہ سال بعد اس معاملہ کا فیصلہ آیا ہے، جو دنیا کی نظروں میں ایک فرضی انکائونٹر ہے لیکن قانون کی نظروں میں ثبوت کی عدم موجودگی میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔ مجھے اس بات پر زیادہ حیرت نہیں ہے کہ ایسا فیصلہ کیوں آیا؟ کیونکہ یہ معاملہ اتنا ہائی پروفائل اور سیاست زدہ ہو گیا تھا کہ اس کا یہی حشر ہونا تھا۔ کل ملزمین بری ہو گئے ہیں لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ سہراب الدین انکائونٹر معاملہ میں کورٹ کیوں دُکھی ہو گیا؟ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے تلسی پرجا پتی کی ماں سے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ گواہ اپنی بات سے مکر گئے ہم بے بس ہیں۔ ہمیں 22 ملزمین کو بری کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ ان کو مجرم ٹھہرانے کے لئے کوئی ثبوت نہیں ہے۔

سیاست کی خود سری کہیں یا بازی گری کہیں کہ سی بی آئی کورٹ کے سامنے 210 گواہوں کی فہرست پیش کی گئی، جن میں 92 سے جرح کی گئی اور وہ سبھی گواہ عدالت میں بیان سے منحرف ہو گئے۔ حالانکہ کورٹ کے باہر انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں دھمکایا گیا تھا، ان کی گواہی دوبارہ ہونی چائیے، مگر نقار خانہ میں طوطی کی سنتا کون ہے؟ عجیب بات تو یہ بھی ہے کہ اس معاملہ کے جانچ افسر رجنیش رائے آئی پی ایس تھے، انہیں معطل کر دیا گیا ہے۔ شاید رجنیش رائے کے ضمیر پر کوئی بوجھ تھا کہ وہ پولیس کی نوکری سے قبل از وقت ریٹائر ہونا چاہتے تھے لیکن انہیں وی آر ایس نہیں ملا۔ اس معاملہ میں کئی منظر نامے بھی ابھرے۔ جج جے پی اُتپت، بی ایچ لویا، مدن گوساوی اور ایس جے شرما تک یہ معاملہ پہنچا، جنہوں نے ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل فیصلہ سنایا جو حیرت ناک نہیں ہے، لیکن اپنے اس فیصلہ پر جج بھی دُکھی ہوا۔ جب سہراب الدین معاملہ میں ایک جج افسوس کا اظہار کر سکتا ہے تو مدعی کے ورثاء کے دلوں پر کیا گزر رہی ہو گی، جو 13برس سے انصاف کے منتظر تھے۔

بلاشبہ 13سال بعد سہراب الدین معاملہ میں ملزمین کی بریت نے ملک کے نظام عدل اور نظام تفتیش کی غیر جانب داری اور بےخوفی پر کئی سوال تو کھڑے ہی کئے ہیں وہیں، آج کے ماحول اور آج کے سیاسی نظام پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ آج کا سیاسی نظام سب پر حاوی ہو چکا ہے۔ سہراب الدین اور اس کی بیوی کوثر بی ان کے ساتھی پرجاپتی کا انکائونٹر نقلی تھا یا اصلی اس کی سچائی سامنے لانے کے لئے خود سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا۔ سی بی آئی اور گجرات پولیس کے کئی افسر حقیقت کو کھنگالنے میں لگے رہے۔ اس معاملہ میں گجرات کے وزیر داخلہ امت شاہ، راجستھان کے وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریا، گجرات کے سینئر پولیس افسر ونجارا ملزم تھے، لیکن 2014 میں ہی انہیں ایف آئی آر سے الگ کر دیا گیا۔ نظام عدل و قانون پر سیاست کی ایسی دبش جسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود پولیس اور جانچ ایجنسیاں کس طرح سیاسی بساط کا مہرہ بنتی ہیں، حسب منشا کام کرتی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انصاف کا رُخ مظلوم کی طرف جانے کے بجائے طاقتور کی طرف ہو جاتا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ آج کے دور میں پولیس اور جانچ ایجنسیوں کو سیاسی بساط کا مہرہ بننے سے روکے کون؟ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون؟ لیکن مایوسی کی تیرگی میں بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ امید کی کرن نظر آتے ہیں۔ آئین اور جمہوریت کی بقا کے محافظ نظر آتے ہیں۔ ملک کے یہ دو بڑے ادارے ہی جانچ ایجنسیوں اور پولیس کے ’سیاسی کَرن‘ پر قدغن لگا سکتے ہیں۔ اس قدغن سے ہی ملک میں مکمل طور پر عدل و قانون کا سورج طلوع ہو سکتا ہے۔ مظلوم کو راحت مل سکتی ہے۔ بقول مرزا دبیر

دل صاف ہو کس طرح کہ انصاف نہیں ہے
انصاف ہو کس طرح کہ دل صاف نہیں ہے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close