Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

اتحاد کی علامت جرمنی کی ‘مرکزمسجد’

مسجدوں سے کبھی ملت کی فلاح کی راہیں ہموار کی جاتی تھیں۔ مسجدوں نے مسلمانوں کی ترقی کی آواز اٹھائی ہے۔ منبر سے اٹھنے والی آواز کبھی مسلمانان عالم کے لئے مشعل راہ ہوتی تھی۔ کبھی فلسطین کی مسجد کے منبر سے اٹھنے والی صدا عالم اسلام کے لئے ہدایت نامہ بن جاتی تھی۔ جامعہ ازہر سے اٹھنے والی مسلمانوں کی آواز ان کی فکر و دانش کو نئی جہت دیتی تھی۔ مسجد حرام سے اٹھنے والی ہر آوازآج بھی مسلمانوں کے لئے قابل تقلید ہے۔ مسجد کے منبر سے جو بھی آوازاٹھی اس کی بازگشت ملت کے معاشرے میں ضرور پہنچی۔ دور کیوں جایئے ہنددوستان میں ایک زمانہ تک دہلی کی جامع مسجد سے اٹھنے والی آوز سے مسلمانان ہند کو ایک بڑا حوصلہ ملتا تھا۔ شاہی امام عبد اللہ بخاری کی آواز نے تو 1977میں ملک کی سیاست کا رُخ موڑ دیا تھا، لیکن جب سے منبر خاموش ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کا سیاسی و سماجی شعور بھی ساکت ہو چکا ہے۔ یا تو وہ کئی خانوں میں بٹ گیا ہے، جس کا خمیازہ مسلمان بھگت رہے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس یوروپ میں جو مسجدیں بن رہی ہیں یا اسلامک سینٹر قائم ہو رہے ہیں، وہاں سے اٹھنے والی آواز مسلمانوں کو ایک نئی سمت دے رہی ہے۔ مغرب میں بننے والی مسجدیں اب وہی رول ادا کر رہی ہیں، جو کسی زمانہ میں مشرق کی مسجدیں ادا کرتی تھیں۔ آج ہم جرمنی کی مسجد کا ذکر کر رہے ہیں ۔سینٹرل مسجد جرمنی کی سب سے بڑی مسجد کہلاتی ہے۔ یہ مسجد 26اکتوبر 2008 میں کھولی گئی۔ اس مسجدکے قیام کا مقصدترکوں اور جرمنی کے باشندوں کے درمیان دُوری کو ختم کرنا تھا۔ طبقاتی کشیدگی کو ختم کرکے خوشگوار ماحول دینا تھا۔ بلا شبہ جرمنی کی یہ مسجد انہیں سماجی ہم آہنگی و تقویت دینے والی ایک مرکز سمجھی جا سکتی ہے۔ جرمنی کی یہ مسجد جہاں عالم اسلام کے لئے محبت، امن و آشتی اور دلوں کو جوڑنے کا پیغام دیتی ہے۔ وہیں، یہ مسجد تعمیر و تزئین کے لحاظ سے بھی دنیا کی خوبصورت ترین مسجدوں میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ مضمون اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ شعبۂ تعمیرات کے طلبا کے لئے بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

جرمنی میں 1980کی دہائی سے عارضی اور پرانی مسجدوں کی جگہ دلکش اور پُرکشش مسجدیں تعمیر کرائی جا رہی ہیں۔ جرمنی کے شہروں میں شہری منظرنامہ کے ساتھ واضح طور پر مسلسل فروغ پانے والے اسلام نے یہاں پر استحکام حاصل کر لیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر تین ملین سے زائد مسلمان آباد ہیں، جن میں زیادہ تر ترک نژاد ہیں،یہاں پر حالیہ دنوں میں جو مسجد تعمیر کرائی گئی تھی وہ ’مرکز مسجد ‘ کے نام سے منسوب ہے جو کہ جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ نمازیوں کے لئے یہ مسجد 26اکتوبر 2008 میں کھولی گئی تھی۔ رائٹر کی رپورٹ کے مطابق سیاستدانوں اور مسلمانوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر کرانے کا مقصد ترکوں اور جرمنی کے باشندوں کے درمیان جو خلیج پیدا ہو گئی تھی اسے پُر کرنا تھا۔ چنانچہ اس کی وجہ سے نہ صرف راحت مل گئی بلکہ طبقاتی کشیدگی دور کرکے خوشگوار تعلقات قائم کرنے میں اس مسجد نے اہم رول ادا کیا ہے۔

عام طو رپر یہ بات کہی جاتی ہے کہ ڈوئس برگ (Duisburg) کے شمال مغربی انڈسٹریل شہر کے مارکسلوہ (Marxloh) شہر میں اس مسجد کی افتتاحی تقریب میں تقریباً 8000 لوگوں نے شرکت کی تھی۔ اس مسجد کا مینار 34میٹر اونچا ہے اور پنج وقتہ نماز ادا کرنے کے لئے یہاں پر 200نمازیوں کی گنجائش والا ایک بڑا ہال ہے، جس میں روشنی اور ہوا کے لئے معقول انتظام کیا گیا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ رور (Ruhr) سٹریل ایریا جہاں پرڈوئس برگ واقع ہے وہاں پر خصوصی طور پر مضبوط ترک کمیونٹی آباد ہے۔ حالانکہ اس مسجد کی افتتاحی تقریب میں کسی بھی طرح کی تصنع یا بناوٹ نہیں تھی، لیکن وہاں پر کھانے پینے کا انتظام و انصرام کیا گیا تھا۔ اس دوران مسلمانوں اور عیسائیوں نے نہ صرف ذائقہ دار کباب نوش فرمائے تھے، چائے اور کافی پی تھی بلکہ آپس میں بات چیت بھی کی تھی۔ مارکسلوہ میں واقع’ ٹرکش اسلامک یونین ‘کے سربراہ محمد عزیر، جنہوں نے اس پروجیکٹ کا آغاز کیا تھا، اس موقع پر کہا تھا کہ ’’اب ہمارے پاس چھپانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ آج ہم اس مسجد کا افتتاح کر رہے ہیں جو کہ ایک عرصہ سے کہیں چھپی ہوئی تھی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ’’میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ یہ نئی خوبصورت مسجد بالکل محفوظ ہے ۔یہ جرمنی میں سماجی درجہ بندی کی علامت نہیں ہے بلکہ یہ مذاہب، ثقافت اور سماجی ہم آہنگی کو تقویت پہنچانے کی علامت ہے۔

اس مسجد کو تعمیر کرانے میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً7.5ملین یورو خرچ ہوئے تھے، جس میں سے آدھی رقم یوروپین یونین اور شمالی رائن۔ ویسٹ فالیہ (North Rhine-Westpholia) کی ریاست نے بطور فنڈ جمع کرائی تھی۔ بقیہ رقم کا انتظام مسجد کی انتظامیہ نے خود ہی کیا تھا۔ اس مسجد کے اندرونی حصہ کی تزئین کاری سنہری، فیروزی، لال اور سفید رنگ کے پینٹ سے کی گئی تھی اور اس کی چھت سے سنہری فانوس لٹکا دیئے گئے تھے۔ ڈیوشے ویلے کی رپورٹ کے مطابق ’’اس مسجد کی ایک شاندا ر تقریب 8 ستمبر 2006 بروز جمعہ بھی منعقد کی گئی تھی۔ اس موقع پر تین سو مہمان اور دیگر افرادکو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ان لوگوں نے مرکزی مسجد کے ہال میں جمعہ کا خطبہ بھی سنا تھا، اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ شان دار تقریب اس مسجد کے تین منزلہ ہونے کی خوشی میں منائی گئی تھی”۔ عثمانیہ طرز تعمیر کے مطابق بنی ہوئی اس مسجد کی تقریب نہایت ہی شان دار طریقہ سے منعقد کی گئی تھی اور یہ تقریب ہر لحاظ سے مناسب تھی ۔اس مسجد کی تعمیر کو ایک بہت بڑی کامیابی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ حیرت انگیز طور پر اس مسجد کی رواداری کا رشتہ چرچوں، پارٹیوں، شہریوں اور مقامی اسلامی باشندوں کے ساتھ یکساں اور مساوی ہے ،جس کی پاسداری کرنے کو یقینی بنایاجا چکا ہے۔

امیگریشن کے تعلق سے جرمنی میں زبردست طریقہ سے مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ خصوصی طور پر آبادی میں اضافہ ہونے کے تعلق سے اکثر وبیشتر باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ’’میں ایسا سمجھتا ہوں کہ دانش مند اور ذی شعور افراد اس بارے میں سوچنے لگے ہیں کہ وہاں پر غیر ملکی افراد کی ایک بڑی آبادی ہے اور ہمارے لئے یہ ایک اچھی بات ہے کہ وہ یہاں پر خوشحالی کے ساتھ آباد ہیں ‘‘ا ن خیالات کا اظہار ڈیوس برگ ڈیولپمنٹ کا رپوریشن Duisburg
(Development Corporation (EGDU لیلا اوزمال (Leyla Ozmal) نے کیا تھا، جو کہ اس مسجد کی تعمیر کے عمل میں آغاز سے ہی سرگرم عمل رہے تھے۔ واضح رہے کہ اس پروجیکٹ کے تعلق سے 6سال تک گرماگرم مباحثے ہوتے رہے تھے۔ بہر کیف واربرک اسٹیسس (Warburckstasse) میں آج ایک شان دار عمارت قائم ہے، جس کی طرز تعمیر اور اس کے گنبد استنبول کی نیلی مسجد (Blue Mosque) کی یاد دلاتے ہیں۔ اس مسجد میں خواتین بھی اہم ہال کے اوپر ایک بالکونی میں نماز ادا کرسکتی ہیں، وہاں سے مردوں کا گزر نہیں ہوتا ہے اور وہ جگہ صرف خواتین کے لئے مختص ہے۔ مرکز مسجد علم حاصل کرنے اور بین ثقافتی مذاکرات کرنے کی بھی جگہ ہے۔ اس پروجیکٹ کی عجیب وغریب اور غیر معمولی خصوصیت یہ ہے کہ اس مسجد میں بیسمنٹ بھی تیار کرایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں 1000 مربع میٹر کے رقبہ میں اسلامی لائبریری کے ساتھ ساتھ میٹنگ کرنے کی جگہ ہے، جہاں پر کئی سیمنار روم بھی ہیں۔ اس میں جرمن اور ترکی زبانوں میں کلاسیں چلائی جاتی ہیں۔ عام طور پر ان کلاسوں میں ترک مسلمان، غیر مسلم اور جرمنی کے دیگر طبقات کے لوگ یا طلبا و طالبات آتے ہیں۔ چنانچہ ڈیوس برگ (Duisburg) کے میئر ایڈولف سیورلینڈ (Adolf Sauer land) جو کہ اس پروجیکٹ کے زبردست حامی تھے، انہوں نے ڈی آئی ٹی آئی بی (DITIB) کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذاکرات کرانے میں اس مرکز کی دلچسپی قابل تعریف ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ نہایت حساس طریقہ سے ڈی آئی ٹی آئی بی نے اس وقت ایک بڑی مسجد تعمیر کراکے اپنی خواہش پوری کر لی ہے، جہاں وہ اجتماعی طور پر عبادت کر سکیں۔ انہوں نے اپنا نظریہ، سیاست دانوں، نظریہ سازوں اور دیگر مذہبی گروپوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ چونکہ انہوں نے اپنے نظریہ کی وضاحت اور تشہیر کردی تھی، لہذاسب لوگ ان سے متفق ہو گئے تھے اور اس طرح سے ان کی یہ خواہش پوری ہو گئی تھی۔ سلویا برہیننین (Silvia Brehnenmann) نام کی ایک خاتون، جس کی رہائش گاہ مرکز مسجد کے بالکل نزدیک ہے، اس کی نظرمیں عبادت کی یہ نئی عمارت نہایت مثبت اور قابل ستائش ہے۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’’آخر کار یہ لوگ اپنی اس خواہش کو پوری کرنے میں کامیاب ہو گئے، جس کے وہ پہلے سے ہی حقدار تھے۔ یہ وہی لوگ ہیں، جنہوں نے طویل مدت سے اس معاشرے میں اپنی خدمات انجام دی ہیںاور یہاں پر ان کی موجودگی اہمیت کی حامل ہے اور کافی حد تک ان کے ساتھ مساوات پر مبنی برتائو کیا جار ہا ہے۔ میں اس بات کا اعتراف کرتی ہوں کہ مسجد تعمیر ہونے سے میں بہت خوش ہوں۔ میں نے پہلی مرتبہ اسے اندرآکر دیکھا ہے اور واقعی یہ بے مثال اور شان دار ہے۔‘‘

اس وقت ڈیوس برگ (Duisburg) میں تقریباً60ہزار ترک مسلمان آباد ہیں اور تقریباً 40عبادت گاہیں ہیں۔ اوزے (Ozay) مارکسلوہ (Marxloh) میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے تعلق سے افتخار محسوس کرتے ہیں۔ وہ فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ ’’اس کا قیام تعلیم حاصل کرنے کے مقصد سے کیا گیا ہے۔ یہ میٹنگ کرنے کی ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر کثیر جہتی کلچرل معاشرے اور ان کی تقریبات یا پروگراموں کے لئے ہمیشہ اس کے دروازے کھلے رہیں گے چنانچہ یہ ایک عجیب وغریب مثال ہے۔‘‘

جن لوگوں نے مسجد تعمیر کرانے میں تعاون دیا تھا انہوں نے یہ بھی سوچا تھا کہ سیاحت کو بھی فروغ دیا جائے تاکہ مارکسلوہ (Marxloh) کے اقتصادی حالات مزید بہتر ہو جائیں۔ گزشتہ چند برسوں سے رور (Ruhr) علاقہ میں ڈھانچہ جاتی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ان کے اثرات ڈوئس برگ مارکسلوہ پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے وہاں پر کان کنی بند کر دی گئی تھی اور اسٹیل کا سامان بنانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس کے بعد جرمنی کے دولت مند لوگ اور غیر ملکی افراد وہاں سے چلے گئے تھے۔ جو لوگ وہاں پر رہ گئے تھے خصوصی طور پر ان کا تعلق اس مہاجر طبقہ سے تھا جنہوں نے ترقی اوربہبود کے کارنامہ انجام دیئے تھے۔ ان میں مسلمان بھی کثیر تعداد میں شامل تھے اوزمال (Ozmal) سے جب پوچھا گیا کہ نئی مسجد کے تعلق سے ا ن کا کیا خیا ل ہے تو انہوں نے کہا تھا کہ ’’جہاں تک میں سوچتاہوں مجھے خوشی ہوئی تھی۔ اس پروجیکٹ کے تعلق سے مسلمان خود پر ایک خصوصی ذمہ داری لے رہے ہیں،جس کو عوامی تعاون بھی ملاتھا اور وہی اس کے میز بان ہوں گے اور میزبان ہونے کے ناطے مہمانوں کی میزبانی کرنا بھی ان کی ہی ذمہ داری ہو تی ہے، جس کے لئے انہیں مہارت بھی حاصل کرنی ہوگی۔‘‘ڈوئس برگ (Duisburg) رائن (Rhine) کے نشیبی علاقہ میں رائن ندی اور رور ندی کے سنگم پر اور برگیشیز لینڈ (Bergisches Land) کے نزدیک واقع ہے۔ یہ شہر دونوں ندیوں کے اطراف میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ Regierimgsberzirk Dusseldarf میں اپنی بلدیہ والا میٹروپولیٹن قصبہ ہے۔

آج کا شہر اطراف کی بہت سی کارپوریشنوں کے قصبات کو ضم کرکے وجود میں آیا ہے جو کہ جرمنی میں 12واں سب سے بڑا شہر ہے اور 31 دسمبر 2007 تک 495,668 باشندوں کے ساتھ یہ شمالی رائن ویسٹ فالیا میں پانچواں سب سے بڑا شہر ہے۔

یونیورسٹی آف ڈوئس برگ، ایسن (University of Duisberg Essan)، جس میں 33000طلبا تعلیم حاصل کرتے ہیں، وہ جرمنی کی 10بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک یونیورسٹی ہے۔ آثار قدیمہ کے حالیہ سروے سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ آج خریداری کرنے کی جو مارکیٹ موجود ہے وہ پہلے سے ہی اولین صدی میں استعمال ہوتی رہی تھی۔ یہ شہر بذات خود ہیلویگ (Helloweg) میں واقع تھا اور رائن ندی کے درمیان ایک گھاٹ تھا، جہاں سے دوسرے مقامات کے لئے تجارتی راستہ جاتا تھا۔ ڈوئس برگ ایلائڈ (Allied) افواج کا ابتدائی نشانہ تھا۔ اس لئے تاریخ کے بہت سے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں اتحادی افواج نے جرمنی کے اس شہر میں زبردست بمباری کی تھی، جس میں انہوں نے انڈسٹریل اور رہائشی علاقوں پر آتش گیر بم گرائے تھے۔

حالانکہ دوسری جنگ عظیم کے دوران یہ شہر تباہ ہو گیا تھا لیکن وہاں کے باشندوں خصوصی طور پر ترک مسلمانوں نے باز آبادکاری کے کام شروع کر دیئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ترک مسلمانوں کے بارے میں جرمنی میں یہ تصور مستحکم ہو گیا تھا کہ مسلمان ملک کی تعمیر و ترقی میں تعاون دیتے ہیں۔چنانچہ مسلمانوں کی وطن پرستی کو دیکھتے ہوئے حکومت نے مرکز مسجد تعمیر کرانے میں تعاون دیا تھا، جو کہ آج یکجہتی کی علامت بن گئی ہے اور جرمنی میں اسلامی تعلیمات کی روشنی پھیلا رہی ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close