Khabar Mantra
محاسبہ

اٹھ کہ بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

محاسبہ...........................سید فیصل علی

25 سال کی کامیاب اور خوش حال صحافتی خدمات انجام دیتے ہوئے اچانک سیاست کے پُرخطر اور پیچیدہ میدان میں آجانا یوں تو دانش مندی نہیں کہا جاسکتا لیکن ملک جب انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہو، ہر سمت ایک بے چینی، بے سکونی کا عالم ہو، دلوں کو بانٹنے کا کھیل جاری ہو، تہذیب و ثقافت اور جمہوریت پر نام نہاد ہندوتو کی یلغار ہو، ملک کی سب سے بڑی اقلیت بے حیثیت اور بے وقعت ہونے کی کگار پر ہو، امن و آشتی، آپسی بھائی چارہ پر خطرہ ہو، نفرت کی سیاست کا دور دورہ ہو، زہریلی سیاست کے بازی گر آئین و قانون، عدلیہ اور انتظامیہ سب پر بھگوا فکر کا رنگ چڑھانے کے لئے کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہوں تو ایسی سیاست کو نابود کرنے کے لئے اور ملک کو بچانے کے لئے ہر ذی شعور کو سیاسی ذہن ہونے کی ضرورت ہے، اپنے مفاد سے اوپر اٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔

میں بھی آج ملک کے نامساعد حالات سے متاثر ہو کر بکھرتے سنسکار اور گنگا جمنی تہذیب کو بچانے کے لئے راجنیتی کے میدان میں آیا ہوں۔ میں نے قلم کے سپاہی کے طور پر ہمیشہ حق گوئی کو اپنایا ہے۔ آج ملک میں میڈیا جب مودی۔مودی کا گن گان کر رہا ہے اور اس شور شرابے میں حق کی آواز دبائی جا رہی ہے تو ایسے ماحول کو بدلنے کے لئے قلم کے حق گو سپاہیوں کو ہی سیاست کے اکھاڑے میں آنا ضروری ہے کیونکہ ملک کے سنسکار کو آلودہ کرنے، نفرت کی سیاست کرنے والوں کا جواب پارلیمانی چناؤ کے میدان میں ہی دیا جا سکتا ہے۔

میں بھی اسی سوچ کے تحت بہار کے شیوہر پارلیمانی حلقہ سے مہا گٹھ بندھن کے آر جے ڈی امیدوار کے طور پر چناوی میدان میں کھڑا ہوں۔ چونکہ پہلی بار شیوہر آیا ہوں تو علاقہ کی اقتصادی، تعلیمی بدحالی کو دیکھ کر ذہن کو جھٹکا سا لگا ہے، آنسو نکل پڑے ہیں۔ کہنے کو تو بہار کے سیمانچل کے علاقے سب سے پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ سمجھے جاتے ہیں لیکن شیوہر تو سیمانچل کے علاقوں سے بھی زیادہ بدتر نظر آ رہا ہے۔ سیمانچل میں کم از کم قومی شاہراہوں، ریاستی حکومت کی سڑکوں کا جال سا بچھا ہوا ہے، ریل لائن بھی ہے لیکن شیوہر میں آمدورفت کی صرف ایک ہی سڑک ہے جسے گڈھوں میں سڑک یا سڑک میں گڈھا کہا جا سکتا ہے۔ یہاں کے عوام اور ترقی سے بے نیازی کا حال یہ ہے کہ شیوہر میں ریل آج تک نہیں پہنچ پائی۔ کہنے کو ملک میں بلیٹ ٹرین چلانے کا منصوبہ بن رہا ہے، خلاء میں سیٹلائٹ پر سیٹلائٹ بھیجے جا رہے ہیں لیکن موتیہاری۔شیو ہر ریل سیکشن منصوبہ کی تکمیل، جسے لالو پرساد کے دور میں ہری جھنڈی دکھائی گئی تھی، اس پر آج تک دھول پڑی ہوئی ہے۔

6 اکتوبر 1994 کو شیوہر ضلع بنا لیکن 25 سال بعد بھی وہاں نہ بنیادی سہولتیں ہیں نہ ترقیاتی منصوبے نظر آ رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہاں کوئی مردہ خانہ (Mortury) بھی نہیں ہے۔ یہاں کے عوام کے صبر و تحمل کی انتہا ہے کہ بیلوا گھاٹ اور کھوڑی پاکڑ پُل کا مطالبہ کئی دہائی سے چل رہا ہے لیکن بی جے پی ایم پی کے پروگرام میں بھگوا کاریہ کرم کے سوا وکاس کا کہاں گزر۔ 10 برس سے یہاں بی جے پی رکن پارلیمان براجمان ہیں لیکن سب کا ساتھ سب کا وکاس کا شیوہر میں ستیا ناس ہو چکا ہے۔ کہنے کو شیوہر ضلع ہے مگر حالت قصبہ سے بھی بدتر ہے۔ تعلیمی خستہ حالی کا یہ عالم ہے کہ یہاں کوئی ڈگری کالج تک نہیں۔ نئے کالج، اسکول کے قیام کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ شیوہر کے عوام ہر چیز کے لئے موتیہاری، پٹنہ یا مظفر پور کا رخ کرتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں خستہ حال شیوہر بے روزگاری کے مقام پر بھی بدحال ہے۔ حالانکہ ریگا چینی مِل کے ذریعہ روزگار کی تھوڑی بہت فراہمی ہو رہی ہے مگر اس کی وجہ سے جو زہریلا پانی بہہ رہا ہے، اس سمت کوئی توجہ نہیں ہے۔ شیوہر میں تعلیمی واقتصادی مسائل حل کئے جا سکتے تھے۔ کاش یہاں کے ایم پی نے اس سمت دھیان دیا ہوتا۔ فرقہ پرست سیاست کے بجائے وکاس کی سیاست ہوئی ہوتی تو شیوہر کے لوگ بھی ریل لائن دیکھ چکے ہوتے۔ بیلوا گھاٹ، کھوڑی پاکڑ پل کا خواب پورا ہو چکا ہوتا۔ شیو ہر میں نئے دور کا آغاز ہو چکا ہوتا، اچھے دن آ چکے ہوتے مگر انشاء اللہ شیوہر کے عوام کا خواب ضرور پورا ہوگا۔ آنجہانی رگھو ناتھ جھا، مرحوم انوارالحق، ہری کشور سنگھ، سیتا رام سنگھ، مرحوم مطیع الرحمن نے شیو ہر کی ترقی کے لئے جو خواب بُنے تھے، ان خوابوں کو پایہ ٔ تکمیل تک پہنچانا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔

کتنا المناک منظر ہے کہ 6 اسمبلی حلقوں والا شیوہر ضلع ایک ایسا بےبس اور معذور نظر آتا ہے جو ہر کام کے لئے موتیہاری، مظفر پور یا پٹنہ کا سہارا لینے کے لئے مجبور ہے۔ آج شیوہر کے بچے تعلیم و روزگار کے لئے پٹنہ اور دہلی جا رہے ہیں۔ ان کی تعلیمی راہ ہموار کرنے کے لئے ایک ڈگری کالج، گرلز کالج اور ایک ہُنر سکھانے والے انسٹی ٹیوٹ کی تکمیل میرا عزم ہے۔ بیلوا گھاٹ، کھوڑی پاکڑ پل، سڑکوں کی تعمیر، شیوہر کو ریل لائن سے جوڑنا میری ترجیحات میں شامل ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ نووارد ہونے کے باوجود ہر طبقہ کا سپورٹ مل رہا ہے۔ پسماندہ طبقات انتہائی پسماندہ طبقات، کشواہا، ساہنی، نشاد، مسہر، دلت سے لے کر یادووں، مسلمانوں کے علاوہ اونچی ذات کے لوگوں کی بھی بھرپور حمایت مل رہی ہے کیونکہ انہوں نے من کی بات کرنے والوں کی چال کو سمجھ لیا ہے۔ 10برسوں کے درمیان بی جے پی ایم پی کی کارکردگی مرکز سے لے کر ریاست تک بی جے پی راج کا دور بھی انہوں نے دیکھا ہے۔ ایک دہائی میں شیوہر کو کیا ملا؟ یہاں کے عوام سب سمجھ رہے ہیں۔ نفرت کی سیاست سے وکاس کی ہر راہ مسدود کر دی گئی۔ من کی بات کرنے والے لوگ کاش شیوہر کے لوگوں کا درد سمجھتے تو شیوہر ایک خود مختار ضلع بن چکا ہوتا۔ ستم تو یہ ہے کہ عوامی نمائندہ تو ہر کوئی بن جاتا ہے مگر کام کیسے کرایا جاتا ہے، فنڈ کہاں سے آتا ہے، اس پر توجہ نہیں دی جاتی یا جانکاری نہیں ہوتی جبکہ ترقیاتی کام صرف حکومت کے بھروسے ہی نہیں ہوتے، غیرسرکاری ذرائع سے بھی پورے کرائے جاتے ہیں۔ کارپوریٹ سوشل ریسپانسیبلٹی کے تحت کارپوریٹ گھرانے بھی بڑے بڑے فلاحی کام کراتے ہیں اور یہ عوامی نمائندے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی معلومات رکھے اور ان سے کام کرائے۔

بہر حال، میں سپنے دکھانے کے بجائے عمل پر یقین رکھتا ہوں۔ علاقے کے ترقیاتی کاموں کی تکمیل کے لئے سرکاری، غیر سرکاری اور کارپوریٹ گھرانوں سے رجوع کرکے اسے پورا کرنے کی سعی کروں گا۔ میرا عزم ہے کہ کچھ ترقیاتی منصوبے دو سال کے اندر پورا کرکے دکھاؤں۔ بس یہاں کے ذی شعور حضرات اور نوجوانوں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ سوشل میڈیا، وہاٹس ایپ کے ذریعہ مجھے بتائیں کہ شیوہر کو جدید ہندوستان کی ترقیات سے جوڑنے، اسے خودمختار ضلع بنانے اور فلاحی میدان کو درست کرنے کے لئے مزید کیا کچھ کیا جا سکتا ہے مگر ترقیات کے تمام ترمنصوبوں کے باوجود ملک کی ترقی تبھی ممکن ہے، جب ہندوستان میں پرانے سنسکار، سیکو لر اقدار اور بھائی چارہ کا ماحول ہو۔ نفرت کی سیاست نے ہر وکاس کا پہیہ روک رکھا ہے۔ایسی سیاست کو ہر سطح پر روکنے کے لئے اتحاد کی ضرورت ہے کیونکہ یہ چناؤ طے کرے گا کہ وکاس کا پرچم بلند ہوگا یا نام نہاد ہندوتو کا بول بالا ہو گا۔ ملک میں یک رنگی تہذیب کا تانڈو ہوگا یا پرانے دن لوٹ آئیں گے۔ بقول اقبال:

اٹھ کہ بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close