Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

قاہرہ اسلامی نوادرات کا بڑا مرکز

آرٹ ہر دور میں پسندیدگی کا مرکز رہا ہے ہر آرٹ اپنے اپنے دور میں اور اپنے حلقوں میں ایک خاص درجہ رکھتا ہے۔ آرٹ اور مذہب کا بھی عجب غضب رشتہ رہا ہے۔ ہندو مائیتھولوجی میں آرٹ کے بیشتر نمونے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں مقبولیت بھی حاصل رہی ہے لیکن یہ مقبولیت ایک خاص دور کے لئے ہی محدود رہی ہے اور دھیرے دھیرے معدوم ہو گئی ہے لیکن اسلامی آرٹ اپنی معنویت، پسندیدیت اور مقبولیت کے کمال پر ہے۔ ہر دور میں اسلامی آرٹ کو ترجیح دی گئی ہے۔ ہر ملک میں اسلامی آرٹ ایک خاص درجہ رکھتا ہے۔ اس کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ اب مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم حضرات اسلامی آرٹ و نودارات کو دیکھنے کے لئے طویل سفر کرتے ہیں۔ امریکہ اور یوروپ سے آج بھی ہندوستان آنے والے سیاحوں میں زیادہ تر کی پسند لال قلعہ، تاج محل، قطب مینار اور جامع مسجد دیکھنے کی ہوتی ہے اور یہی سیاح جب مشرق وسطیٰ میں جاتے ہیں تو وہاں کی حیرت ناک، قابل رشک اسلامی آرٹ کے نمونوں اور نوادرات کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج اسلامی ملکوں میں بھی ٹورزم کی مناسبت سے کئی میوزیم قائم کئے جا رہے ہیں جو اسلامی ہنر، اسلامی فن کاری، اسلامی تعمیرات اور نوادرات کے حسن کو سیاحوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مصر اپنے آپ میں ایک پُر اسرار ملک رہا ہے جہاں کی ماورائی داستانیں، فرعون کی ممیاں، ابو الہول کے مقبرے اور نیل ندی کا کرشمہ آج بھی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سیاحوں کی ایک بڑی تعداد مصر جاتی ہے تو وہاں کے آرٹ قدیم زمانے کی فن کاری اور تہذیب سے وابستہ نوادرات کو دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے۔ دنیا کو متحیر کرنے والا مصر اور وہاں کا آرٹ اب باقاعدہ اسلامی آرٹ میوزیم کا ایک حصہ ہو گیا ہے۔ ایک دہائی قبل قاہرہ میں دنیا کے سب سے بڑے اسلامی آرٹ میوزیم کو عام سیاحو ں کے لئے کھولا گیا تھا۔ اس میوزیم میں نادر و نایاب نوادرات اور آرٹ کے ایسے نمونے موجود ہیں، جس پر عقل آج بھی حیران ہے کہ کیا یہ انسان کا ہی کارنامہ ہے۔ قاہرہ کے اسلامی آرٹ میوزیم میں خانہ کعبہ کی جَڑواں طلائی کلید بھی ہے اور قدیم ترین اسلامی دینار بھی یہیں موجود ہے۔ ایرانی قالین دور عثمانی کے چینی مٹی کے ظروف، قدیم ترین آلہ جات، علم فلکیات، کیمسٹری، فزکس و دیگر سائنسی امور کی اشیاء نمائش کے لئے رکھی گئی ہیں جو اس بات کی گواہ ہیں کہ ابتدائی دور میں اسلام کس بلندی پر تھا اور سائنس کی حد کہاں تک تھی، یہ میوزیم اس بات کا بھی گواہ ہے کہ جو چیزیں آج سائنس کا کمال سمجھی جا رہی ہیں، مغرب کی دین سمجھی جا رہی ہیں اس کے محرک مسلم سائنس داں تھے۔ زیر نظر مضمون میں قاہرہ میں واقع دنیا کے سب سے بڑے اسلامی آرٹ میوزیم میں موجود نودارات و آرٹ کے ذخیروں کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ مضمون اسلامی تاریخ کے طلبا کے لئے بھی سود مند ہے تو آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو بھی نئی فکر عطا کرتا ہے۔

قاہرہ میں واقع دنیا کے سب سے بڑے اسلامی آرٹ میوزیم کو ایک ملین ڈالر کے تجدیدی پروجیکٹ کے مکمل ہونے کے بعد باضابطہ طور پر کھول دیا گیا ہے.

سابق وزیر برائے ثقافت فاروق حسنی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ’’نوادرات کو دکھانے، ان کی حفاظت کرنے اور ان کو بہترین حالت میں رکھنے کے تعلق سے پروجیکٹ کے تحت زبردست تبدیلیاں کی گئی ہیں۔‘‘ یہاں پر دکھائے جانے والے ذخیرہ میں نہ صرف خانہ کعبہ کی جُڑواں طلائی کلید شامل ہے بلکہ اب تک دستیاب ہونے والا قدیم ترین اسلامی دینار بھی شامل ہے، جس کا تعلق سال 679 سے ہے۔ یہاں پر مقدس قرآن کریم کا قدیم ترین نسخہ بھی دکھایا گیا ہے۔ ان کے علاوہ ایرانی قالین، عثمانیہ دور کے چینی مٹی کے برتن اور قدیم ترین آلہ جات جو کہ علم فلکیات، کیمسٹری اور ڈھانچہ جاتی کاموں میں استعمال کئے جاتے تھے وہ بھی نمائش کے لئے رکھے گئے ہیں۔

حسنی کے مطابق میوزیم آف اسلامک آرٹ کو بحال کرنے کی نہ صرف ایک زبردست خواہش تھی بلکہ یہ ایک دشوار مرحلہ بھی تھا کیونکہ اس سے مصر کے اس عزم کی عکاسی ہوتی تھی کہ وہ اپنے اس اسلامی ادارہ کو نہ صرف محفوظ کئے ہوئے ہے بلکہ اس نے دیگر وراثتوں کو بھی محفوظ کیا ہوا ہے۔اس میوزیم کی بحالی اور تجدید کاری کے عمل میں حسنی کے ساتھ عالمی سطح کے معروف اور آثار قدیمہ کے ماہر زاہی حوّاس (Zahi Hawwas) نے تعاون دیا تھا، جنہوں نے نوادرات کی سپریم کونسل (Supreme Council of Antiquities) میں بطور سکیریٹری جنرل اپنی خدمات انجام دی تھیں۔

ہفت روزہ ’ال احرام‘ کے مطابق ایک ایسا اولین اسلامی میوزیم قائم کرنے کی منصوبہ بندی 1869 میں کی گئی تھی، جہاں پر اسلامی فنکاروں، ہنر مندوں اور کاریگروں کے ذریعہ تخلیق کئے گئے بے مثال فن پاروں کی نمائش کی جائے۔ اس سے قبل عربی نوادرات کی ایک کمیٹی تشکیل کر دی گئی تھی، جسے اسلامی آرٹ کے قومی ذخیرہ کی عمارت سے منسوب کر دیا گیا تھا۔ بہر کیف، 1881 میں پورے مصر کی مسجدوں اور مقبروں سے جمع کئے گئے نوادرات اور باقیات کو فاطمی خلیفہ ال حکیم کے دور کی ایک مسجد کی چھت دارگلیاروں میں نمائش کے لئے رکھے جانے کے ساتھ ہی اسلامک آرٹ میوزیم کھول دیا گیا تھا۔

چونکہ یہ میوزیم بہت جلد ہی مقبول ہو گیا تھا لہذا، اس میں مزید نوادرات کا اضافہ کرنے کی ضرورت محسوس ہو نے لگی تھی۔ چنانچہ جب نوادرات کا زبردست ذخیرہ ہو گیا تھا تو 1883 میں مسجد کے وسیع صحن میں ایک نئی عمارت تعمیر کرائی گئی تھی، جو کہ ایک بڑے میوزیم میں تبدیل ہو گئی تھی. 1903 میں مصر اور دیگر ممالک کے 3154 نوادرات کی نمائش کے ساتھ اس میوزیم کو کھولا گیا تھا۔ اس میوزیم کا کئی مرتبہ نام تبدیل کیا گیا تھا تاہم 1952میں میوزیم کے ٹرسٹیوں نے اتفاق رائے سے اس کو ’’میوزیم آف اسلامک آرٹ‘‘ کے نام سے منسوب کر دیا تھا۔ تب سے لے کر آج تک اسلامی فن کے قومی نوادرات جمع ہونے اور عطیات کے طور پر دکھائے جانے والے فن پاروں اور نوادرات کی وجہ سے اب اس میوزیم میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد قدیم اور نایاب اسلامی فن پارے اور نوادرات ہو گئے ہیں۔

وزارت برائے ثقافت نے 2003 میں اس میوزیم کی بحالی کے لئے ایک جامع پروجیکٹ کا آغاز کیا تھا تاکہ اس کی بنیادی کارکردگی اور شان و شوکت کو برقرار رکھا جا سکے۔ تجدید کاری کے ساتھ ساتھ نمائشی ڈیزائن کا خاکہ فرانسیسی ڈیزائنر اور عجائب گھروں کے ماہر ایڈرین گارڈیرے (Adrien Gardere) نے لُوور میوزیم ان پیرس (Louvre Museum in Paris) کے اسلامک ڈپارٹمنٹ کے تعاون سے تیار کیا تھا۔ قاہرہ میں اسلامی فن کے تاریخ داں امام عبدالفتح، جو کہ ایس سی اے میں مامور تھے، کے مطابق تجدید کاری کے ماسٹر پلان کے مطابق اس میوزیم کا صدر دروازہ پورٹ سعید (Port Said) اسٹریٹ پر تعمیر کرایا گیا تھا، جہاں پر مسلم ممالک کے فن پاروں اور نوادرات کو متعلقہ ممالک سے متعارف کرانے کے لئے ایک گیلری میں رکھا گیا تھا۔ یہاں پر اس طرح کا اہتمام بھی کیا گیا تھا کہ ناظرین تاریخی شہر قاہرہ اور ابتدائی اسلامی شہر فسطاط (Fustat) جہاں پر قدیم ترین اسلامی بستی تھی کے جغرافیہ سے بھی واقف ہو جائیں۔ تزئین کاری کے بعد اس میوزیم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ پہلے حصہ کو تاریخی قاہرہ کی یادگاروں سے لی گئیں اسلامی مصنوعات کو تاریخ وار نمائش کے لئے مختص کر دیا گیا تھا، جہاں پر عباسی، الطونی، فاطمی، ایوبی، مملوک اور عثمانیہ دور کی مصنوعات رکھی گئی تھیں جن میں موضوعاتی (Thematic) مصنوعات بھی شامل تھیں۔ ایس سی اے میں میوزیم ڈپارٹمنٹ کے سربراہ محمد عبدالفتح نے بتایا تھا کہ ’’میرے نزدیک یہ میوزیم ایک ایسی سائٹ ہے ‘‘کہ جہاں پر تاریخی قاہرہ کے اطراف میں واقع اسلامی عمارتوں کا متعارف کرایا گیا ہے۔ میوزیم کے بائیں جانب وہ حصہ ہے، جہاں پر مصر کے علاوہ دیگر ممالک کی اشیاء نمائش کے لئے رکھی گئی ہیں جن میں خطاطی کے فن پارے، دستاویزات، چینی مٹی کے برتن، پچی کاری کے ٹائل، مرقدوں کے کتبات، نقش نگاری والے لکڑی کے سامان، دھات اور شیشے کے برتن، اگردان، تابوت، مٹی کے برتن، دھات اور شیشے کے لیمپ وغیرہ رکھے گئے ہیں جن کا تعلق اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار سے ہے۔ ان سب چیزوں کی تاریخ وار موضوعاتی طور پر نمائش کی گئی ہے۔

تجدید شدہ میوزیم میں بہترین لائٹنگ نظام کا اہتمام کئے جانے کے علاوہ اعلی پیمانہ کی سیکورٹی کا نظم بھی کیا گیا ہے اور درکار سازوسامان سے آراستہ ایک لیباریٹری کے علاوہ بچوں کا میوزیم اور لائبریری بھی قائم کی گئی ہے۔ عبد الفتح کے مطابق یہاں پر جو چیزیں رکھی گئی ہیں ان میں سب سے زیادہ متاثر کرنے والا آئٹم مملوک دور کا فوارہ ہے، جسے اسپین کے ذخیرہ کار ایڈورڈ پورٹا (Eduordo Porta) نے فراہم کرایا تھا جو کہ لکسر (Luxor) کی ملکہ وادی (Valley of Queen) میں نیفرٹیٹی (Nefertiti) کے مقبرہ کی بحالی کرنے والی ٹیم کے رکن تھے۔ یہ فوارہ نیم قیمتی پتھروں جیسے اونکس (Onyx) اور پچی کاری کے ٹکڑوں سے آراستہ کیا گیا تھا۔ اسے 1910 میں میوزیم آف اسلامک آرٹ نے خرید لیا تھا اور اسے میوزیم کے باغ میں نصب کر دیا تھا۔ ہفت روزہ ’ال احرام‘ کو پورٹا نے بتایا تھا کہ ’’بیجا استعمال اور ناقص دیکھ بھال کی وجہ سے یہ فوراہ 1960 اور 1970 کی دہائی میں خستہ حال ہو گیا تھا اور اب اسے اچھی طرح سے سنوارا گیا ہے۔ یہ فوارہ پوری دنیا میں عجیب و غریب نوعیت کا ہے اور میوزیم میں یہ زبردست اہمیت کا حامل ہے۔ ہفت روزہ ال احرام سے خطاب کرتے ہوئے حوّاس نے بتایا تھا کہ اس پروجیکٹ کے تحت اس میوزیم کو بحال کرنے کے عمل سے بہر کیف تین مقاصد حل ہو گئے ہیں۔میوزیم کی کھڑکیوں کو بڑا کئے جانے سے اندرونی حصہ میں اب زیادہ روشنی آتی ہے، پرانے شوکیس بدل کر نئے طرز کے شوکیس فراہم کئے گئے ہیں تاکہ لوگ واضح طور پر نوادرات اور فن پاروں کو دیکھ سکیں اور تیسری بات یہ ہے کہ عالمی طرز کے مطابق نودارات اور فن پاروں کے مجموعہ کو اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ ان کی آسانی کے ساتھ شناخت کی جا سکے۔ علاوہ ازیں اس تجدید شدہ میوزیم میں تربیتی پروگرام بھی منعقد کئے جاتے ہیں تاکہ اس کے توسط سے عام لوگوں سے رابطہ کیا جا سکے، جس میں بچوں اور نوجوانوں کو تعلیم دینے کے پروگرام بھی شامل ہیں۔ بالغان کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا بھی اس میوزیم کی کارگزاریوں میں شامل کیا گیا ہے۔

تجدید کاری کا پروجیکٹ طویل اور صبر آزما تھا جس میں مسلسل مصروف رہنے کی ضرورت تھی۔ اس تعلق سے حوّاس نے بتایا کہ میوزیم آف اسلامک آرٹ کی بحالی کرنا ہمارے لئے ایک غیر معمولی حصولیابی کے مترادف تھا۔ اسی لئے اس کام میں تقریباً 15ماہرین، ایس سی اے کے 20ذخیرہ کاروں اور 150 کارکنان کو ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ اس میوزیم کا پورا کام عالمی معیار کے مطابق مکمل ہوا تھا۔ اب یہ میوزیم بین الاقوامی کمیٹی آف میوزیمس کے مطابق تیار ہو گیا ہے اور اب یہ یوروپ اور امریکہ میں واقع میوزیمس کے مقابل کسی بھی اعتبار سے کمتر نہیں ہے، یہ ہمارے لئے قابل فخر بات ہے۔ ’’بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ خواب پورے نہیں ہوتے ہیں، یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ آپ خواب پورے کر سکتے ہیں۔ ’’قاہرہ میں ایک معروف میوزیم ہے جسے شہزادہ عمر ابراہیم کے ذاتی محل میں قائم کیا گیا تھا یہاں پر مصر، ایران، ترکی، جنوبی اسپین اور دیگر ممالک کے برتن نمائش کے لئے رکھے ہوئے ہیں۔ ابن طولون (Ibn Tulun) مسجد سے آگے گیئر اینڈرسن (Gayer Anderson) میوزیم واقع ہے۔ کسی زمانہ میں یہ ایک ذاتی مکان ہوا کرتا تھا لہذا اس میوزیم کو اسی کے نام سے منسوب کر دیا گیا تھا۔ اس میوزیم میں مصر اور مشرقی ممالک کے فرنیچر، اسلحہ جات اور نوادرات نمائش کے لئے رکھے گئے ہیں۔ عمارت کے مالک کی وفات کے بعد یہ مصر کی حکومت کی تحویل میں آ گیا تھا جو کہ عوام کے لئے کھول دیا گیا ہے۔

جہاں تک وسطی قاہرہ میں واقع میوزیم میں مصر کی نوادرات کا تعلق ہے تو کوئی بھی شخص شاہ طوط (King Tut) کے خزینہ اور ممیوں (Mummies) کا تحیر آمیز کلکشن کو دیکھ سکتا ہے۔ یہاں پر قدیم، قرون وسطیٰ اور جدید سلطنتوں سے وابستہ نودارات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح یونان اور روم سے تعلق رکھنے والے فن پارے اور نوادرات کو بھی اس میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ حالانکہ الغردقہ اور شرم الشیخ میں بھی میوزیم واقع ہیں۔ الغردقہ میوزیم معروف نہیں ہے کیونکہ یہاں پر نوادرات کی گیلری نہیں ہے اور اسی وجہ سے سیاح یہاں پر ثقافتی مقامات یا نودرات کو دیکھنے نہیں آتے ہیں بلکہ وہ سمندری یا زیرآب اسپورٹس دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ بایولوجی میوزیم اس قصبہ کے شمالی علاقہ میں قائم ہے، جہاں پانی میں رہنے والی یا تیرنے والی مچھلیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ مچھلیوں کے علاوہ یہاں کچھوے، شارک، سانپ اور پانی میں رہنے والے دیگر حشرات بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔

الغردقہ میوزیم بحیرۂ احمر کے ساحل پر واقع ہے، اس لئے وہاں پر بہت سے عجیب و غریب چیزیں دکھائی جاتی ہیں۔ 220000مربع فٹ رقبہ پر محیط اس عمارت میں نمائش کے چار بڑے بڑے ہال ہیں جہاں پر فنکاری کا مظاہرہ کرنے کے لئے نہ صرف ایک جگہ ہے بلکہ ایک اسٹوڈیو بھی قائم کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا واحد مقام ہے جہاں پر فرعون کے دور اقتدار سے لے کر اسلامی دور تک کے مختلف ادوار میں مصر کی تاریخ سے لوگ واقف ہو جاتے ہیں۔ ثقافت کی تاریخ میں شرم الشیخ کی جڑیں نہایت گہری ہیں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ یہاں پرمیوزیم یا گیلریاں نہیں ہیں۔ جہاں تک ال عریش / سنائی وراثت میوزیم (The El-Arish/Sinai Heritage Museum) کا تعلق ہے تو یہ اعرابی دستکاری کا نہایت ہی اہم سینٹر ہے جو کہ سنائی جزیرہ پر واقع ہے۔ اس میوزیم کو اعرابی دستکاری سے منسوب کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے یہاں پر دستکاری کے فن پارے، دیگر مصنوعات اور ان کپڑوں کو دکھایا گیا ہے، جن سے ان کی ثقافتی ترجمانی ہوتی ہے۔

کسی بھی ملک میں عجائب گھروں یا میوزیم کا نہایت اہم رول ہوتا ہے کیونکہ ان کے توسط سے وہاں کے قدیم کلچر اور تہذیب و تمدن کے بارے میں جانکاری ملتی ہے۔ عرب ممالک میں تو کثیر تعداد میں ایسے تاریخی مقامات ہیں، جہاں پر آثار قدیمہ، نوادرات اور فن پاروں سے یہ اندازہ لگایا جانا نہایت آسان ہے کہ ان مسلم ممالک کی تاریخ کتنی درخشاں رہی ہوگی۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close