Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

مسجد اسلم الصلح دار….مملوک طرز تعمیر کی اعلیٰ ترین مثال

مساجد اسلامی تہذیب وتشخص کا آئینہ بھی ہیں دین کے فروغ میں مسجدوں کا تاریخ ساز رول رہا ہے ۔مسجدیں اپنے دور کی حکومت کی کارکردگی اور روا داری کی گواہ بھی ہیں۔مسجدیں کبھی اسلامی سلطنت و سیاست کا اہم مرکز ہوا کرتی تھیں۔مسجدیں صرف خدا کی عبادت کے لئے ہی مخصوص نہیں تھیں بلکہ اشاعت دین کی راہیں بھی ان اللہ کے گھروں سے نکلتی تھیں۔لیکن مسجدوں کی تعمیر کا ایک دور وہ بھی گزرا جب مسجدیںاسلامک آرکیٹیکٹ کا مظہر بن کر ابھریں۔حضور اکرم ؐ کے دور سے لے کر تا حال مسجدوں کی طرز تعمیر سے اسلامک تہذیب وتشخص کی جھلکیاں ملتی ہیں لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہر دور میں طرز تعمیر مختلف ہوتی رہی ہے ۔لیکن جب دنیا میں اسلام کا سورج چڑھنا شروع ہوا تو اس دور میں مسجدوں کی طرز تعمیر کے حسن میں بھی اضافہ ہونے لگا اور مسجدوں کی کشش سیاحوں کو اپنی سمت کھینچنے لگی۔ آج بھی دنیا میں بیشتر مساجد ایسی ہیںجو آرکیٹیکٹ کی دنیا میں بہترین مثال رکھتی ہیں،جنہیں دیکھنے کے لئے سیاح آتے رہتے ہیں۔ 650سالہ پرانی مسجد ال اسلم ال صلحدار قاہرہ کی وہ عظیم مسجد ہے جو اپنے دور کی طرز تعمیر کی ایسی داستان سناتی ہے ،جس پر آج کے معروف و مشہور آرکیٹیکٹ بھی حیران ہیں۔اب اس مسجد کو سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے بھی خصوصی منصوبہ چل رہا ہے ۔زیر نظر مضمون کی خوبی یہ ہے کہ اس مسجد کی طرز تعمیر کا جس تفصیلی انداز اور محققانہ نظر کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے وہ اسلامک تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے طلبائ خاص طو رسے آرکیٹیکٹ کے شعبہ سے منسلک افراد کے لئے بھی ایک دلچسپ معلومات فراہم کرتا ہے:

حالیہ دنوں تک قاہرہ کے الدارب الاحمر ضلع میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے معمولی طور پر ترغیب دی گئی تھی اور زیادہ تر غیر ملکی سیاحوں نے گیزا اہرام جو کہ دنیا کے سات قدیم عجائبات میں سے ایک ہے کو ترجیح دیتے ہوئے اسے نظرا نداز کر دیا تھا۔ ابھی حال ہی میں مصر کی حکومت نے بڑے پیمانے پر مسجدوں کی تجدید کاری شروع کردی اور اسلامک مقامات پر سیاحت کو فروغ دینے کے لئے مختص رقم میں اضافہ کر دیا تھا۔ اے پی کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلم الصلح دار مسجد ریتیلے تنگ راستہ والی گنجان آبادی کے درمیان واقع ہے۔ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق Canadian Development Agency(سی ڈی اے ) جو کہ اس آبادی میں کام انجام دیتی ہے، اس کا کہنا ہے کہ یہاں پر رہنے والے 92000 باشندے مصر میں سب سے زیادہ غریب ہیں۔ اس کے اطراف میں آثار قدیمہ کی بھی بھر مار ہے۔ قاہرہ کے قدیم ایام سے لے کر 11ویں صدی تک اور اب جدید ترین دور تک یہاں تقریباً ہر 20میٹر کے فاصلے پر اسلامک یاد گاریں موجود ہیں۔ آغا خان ٹرسٹ فار کلچر (اے کے ٹی سی) کے جنرل منیجر لوئس مونیرئیل جن کے زیر ہدایت اسلم مسجد کی تجدید کاری ہوئی تھی، کا کہنا ہے کہ عجائبات کے ضمن میں اس علاقہ کا موازنہ روم سے کیا جا سکتا ہے۔ مصر میں واقع امریکن ریسرچ سینٹر سمیت امریکہ کے عطیہ دہندگان اور امریکی سفیر کے فنڈ سے اس کے تحفظ کے لئے امداددی گئی تھی۔ اسلامی طرز کی اسلم مسجد جب دوبارہ تعمیر کرائی گئی تو اس میں کچھ ردوبدل بھی کئے گئے تھے۔ چکنے فرش والے محرابی راستوں میں لٹکنے والے لیمپ نصب کئے گئے تھے، جن سے وہاں پر روشنی رہتی تھی۔ اس مسجد کے باہری جانب گنبد کو سبز اور کالی عربی خطاطی سے شان دار طریقہ سے آراستہ کیا گیا تھا۔ مسجد سے ملحق ایک مربع نما خطہ کی بھی تجدید کاری کی گئی تھی۔ اس ضلع میں بہت سی ایسی مساجد، مقبرے اور اسلامک اسکول ہیں جو کہ یا تو مخدوش ہیں یا خستہ ہو گئے ہیں۔

اے کے ٹی ایس کی مصری برانچ کے حفاظتی پروگراموں کے منیجر دینا بخوم کا کہنا ہے کہ ’’الدارب الاحمر میں وہ خصوصیات موجود ہیں جو کہ قاہرہ میں دلکشی کی بڑی اہمیت کی حامل ہوسکتی ہیں۔ اب الدارب الاحمر میں شہری پروجیکٹ کے تحت ایجنسی تجدید کاری کے کام انجام دے رہی ہے۔ گزشتہ ریکارڈ کے مطابق 3مارچ 2006میں جب لورا اسکندر نے مصر کا دورہ کیا تھا تو یہ بات سامنے آئی تھی کہ اسلم الصلح دار مسجد 1344-45 عیسوی (744-745) ہجری کے درمیان اسلم البہائی نے تعمیر کرائی تھی جو کہ سلطان الناصر محمد ،جن کو مملوک دور کا ایک سرپرست ہونے کا شرف حاصل ہے جنہوں نے قابل قدر عمارتیں تعمیر کرانے کی جانب توجہ دی تھی، کے دور حکمرانی میں ایک رئیس تھے اور ترقی کرتے ہوئے و’ہ شمشیر بردار‘کے عہدے تک پہنچ گئے تھے۔ تاریخ داں اور ماہرین نے الصلحدار کا ذکر ال مقریزی کے طور پر کیا ہے، جس کا مطلب ایک نیک اور ہمدرد انسان ہوتا ہے۔

اس مسجد کا آس پڑوس بھی اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ ایک جانب یہاں صدیوں قدیم عمارت ہے تو دوسری جانب یہ مسجد جس جگہ پر قائم ہے وہ بھی کسی زمانے میں اہمیت کی حامل رہی ہوگی۔ یہ مسجد جو کہ ساخت کے اعتبار سے کشادہ مربع شکل میں دکھائی دیتی ہے وہ مشرقی ایوبی شہر کی دیواروں کے درمیان واقع ہے اور وہاں سے الازہر پارک کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ یہ مسجد مشرق کی جانب تین سو میٹر کے فاصلہ پر ابو حربیہ اسٹریٹ کے نزدیک ہے۔ حالانکہ اس مسجد سے اس بات کا ثبوت ملتےہیںکہ اس کی تعمیر مربوط طور پر مرحلہ وار ہوئی تھی۔ نتیجتاًسلسلہ وار نئے موجودہ حصے اسی طرز پر بنائے گئے تھے۔

مسجد کے ساتھ ہی مدرسہ اور الاحمد مہمان دار کا کمپلیکس ہے جو کہ ایک صلیب نما عمارت کی مثل ہے۔حالانکہ روایتی منصوبوں میں بہت سی جدید تبدیلیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان میں سے ایک تبدیلی یہ ہے کہ دروازہ کا ڈیزائن اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ جو براہ راست مسجد کے ایوان کی طرف جاتا ہے، اس میں عارضی اور روایتی داخلہ کے لئے جگہ نہیں رکھی گئی ہے، جسے عربی زبان میں MAGAZ کہا جاتا تھا۔ دوسرا دروازہ راست طورپر خم دار راستہ سے صحن میں جاتا ہے۔ شاید دوسرے دروازے کو ثانوی دروازہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہوگا۔ جنوب کی جانب عمارت کے سامنے والے حصہ میں جو صدر دروازہ بنایا گیا تھا وہ وہاں کے امیر کے ذریعہ استعمال کیا جاتا تھا ۔مسجد کے روایتی چار ایوان صلیبی شکل کے پلان سے تضادات نظر آتے ہیں۔ مشرقی مغرب اور شمالی جنوب کے ایوانوں کی اونچائیاں مختلف ہیں، جن میں افقی اور عمودی طور پر یہ غیر ملکی طرز نمایاں طور پر نظرآتاہے۔شمال اور جنوبی ایوان کے چھت دار راستے دو ستونوں پر مبنی ہیں۔ جبکہ مشرقی اور مغربی ایوان محراب دار ہیں۔ علاوہ ازیںاس مسجد کے قبلہ والے ایوان میں ایک غیر معروف محراب اور ایک چھوٹا سا ممبر ہے۔ اطراف کی دیواروں پر نہایت دلکش انداز میں مسالہ کے گول دائرے نقش کئے گئے ہیں۔ قبلہ کے ایوان کی اہم محراب میںسرخ اورنیلے رنگ کے شیشوں سے دائرہ نما آرائش کی گئی ہے، جن میں پتیوں کا انداز عربی گل کاری کا ہے۔

شمالی اور جنوبی ایوانوں کا راستہ جو کہ سہہ جزوی گزرگاہ سے جاتا ہے اس کی چھت ہموار ہے، جس کے اوپر وہ کمرے بنے ہوئے تھے جنہیں کمپلیکس کے مکیںرہائش گاہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ جنوبی ایوان کے اوپر جو کمرہ تعمیر کرایا گیا تھا وہ ممکنہ طور پر رئوسا کے استقبال کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ ان میں مدارس کے مشائخ بھی شامل تھے۔ شاید اسی لئے اسی عمارت کے سامنے والے حصہ کے صدر دروازے پر تعمیر کرایا گیا تھا اور یہ بھی خیال کیا جاتا ہے اس کمرے کے مقابل کتب خانہ بنایا گیا تھا، جس کی سیڑھیاں الگ سے تعمیر کرائی گئیں تھیں۔ سامنے والے حصہ میں تعمیر کرائے گئے کمروں اور اندرونی حصوں میں کھڑکیاں بنائی گئیں تھیں، جو کہ دلکش نقاشی دار اسکرین اور محرابی پینلوں سے آراستہ تھیں۔ مشرقی ایوان جس کا دورازہ قدرے اونچا اور محراب دار ہے، اس میں محض ایک ہی قطار میں آرائش کی گئی ہے ۔ایوان کے اوپر دوسری بالکونی تیار کرانا مملوک مساجد کی انوکھی خصوصیت ہے ۔ یہ طرز تعمیر عثمانی دور کی مساجد کی تعمیر کے دوران مشہور ہوئی تھی۔ شاید اسی کا استعمال طلبائ اور مشائخ کے ذریعہ ہوتا تھا تاکہ خواتین سے فاصلہ بنا کر علیحدہ سیڑھیوں کے ذریعہ رہائشی کمروں تک رسائی کی جا سکے۔ اندرونی حصہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے صحن پر چھت ڈالی گئی ہے۔ 1990کی دہائی میں یہ کام شروع ہوا تھا۔

اس مسجد کا سامنے والا حصہ قابل دید ہے۔ اس کی نہایت دلکش خصوصیت یہ ہے کہ اس کے جنوبی حصے کو سرخ، کالے اور سفید رنگ کے امتزاج کے ساتھ ایک بڑے مستطیل ماربل سے آراستہ کیا گیا تھا۔ اس پورے کمپلیکس میںمسلسل  Bahri مملوک طرز تعمیر کی جھلک ملتی ہے۔ یہاں طے شدہ طرز تعمیر کی روایت کو نظر انداز کیاگیا تھا۔ کیونکہ ایوانوں، پورٹلوں اور صحنوں کی نئی طرز تعمیر سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مساجد تعمیر کرنے کے لئے جو پلاٹ دستیاب ہوتے تھے ان پر غور وخوض کرنے کے بعد آرائش کے طرز میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں تھیں۔ آج بھی مقامی باشندے اس مسجد میںنماز ادا کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مسجد ایک ایسے چوراہے پر واقع ہے کہ جس کا رابطہ الدارب الاحمر علاقے سے ہوتے ہوئے قاہرہ تک ملتا ہے۔ دوسرا راستہ جنوب کی جانب سے راجدھانی تک جاتا ہے۔ اکثر یہ راستہ مصروف رہتا ہے تاہم اس کے اطراف میں کشادہ جگہ ہے۔ مصر میں واقع امریکن ریسرچ سینٹر (اے آر سی ای ) کے مطابق یہ مسجد، قاہرہ میں مملوک طرز تعمیرات کی اعلی ترین مثال ہے، لیکن گردش زمانہ نے اسے بہت نقصان بھی پہنچایا ہے۔ آثار قدیمہ کی تحفظ کرنے والی عربی کمیٹی نے بیسویں صدی کی ابتدائ میں اس مسجد کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے کام شروع کیا تھا۔ تاہم 2000 تک یہ بات قطعی طور پر محسوس کر لی گئی تھی کہ اس مسجد کا فوری طور پر تحفظ کرنا نہایت ضروری ہے اے آر سی ای کا مزید کہنا ہے کہ باب زویلہ اور ال ازہر پارک کے درمیان گنجان آبادی والے علاقے میں واقع اس مسجد کو ثقافت و سیاحت کے تحت فروغ دینے کیلئے اس کے ترقیاتی منصوبے پر عمل کیا جا نا چاہیے۔

2006میں امریکن سینٹر میں آغا خان کلچرل سروسسز کے ساتھ ادارہ جاتی شراکت کے لئے اس کے تحفظ پر ہونے والے اخراجات کے فنڈ کاجائزہ لیا تھا۔ماحولیاتی تحفظ کا یہ پروجیکٹ 2009میں مکمل ہو گیا تھا۔ اس کے بعد اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ اس تاریخی عمارت کے اسٹرکچر کو طویل مدتی استحکام بخشا جائے اور آثار قدیمہ کی اس بیش بہا یاد گار کو ان نقصانات سے بچایا جائے جو کہ صدیوں تک نظر انداز ہونے کی وجہ سے اثر انداز ہو تے رہے تھے۔ امریکی سینٹر کا یہ بھی خیال ہے کہ اس کی تجدید کاری اس لحاظ سے بھی نہایت ضروری ہے کہ مصر میں واقع دیگر آثارقدیمہ کی مانند اس مسجد کی سمت بھی سیاحوں کی توجہ ہوگی۔ واضح ہو کہ 650سال  قدیم اسلم ال صلحدار مسجد کی ٹورازم پروجیکٹ کے تحت تین برسوں میں 1.4ملین ڈالر سے تجدید کاری کی گئی تھی۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close