Khabar Mantra
محاسبہ

کوئی فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہیے……

محاسبہ...........................سید فیصل علی

سینئر کانگریسی لیڈرغلام نبی آزاد کا درد یہ ہے کہ اب غیر مسلم سماج میں مسلمانوں کی وقعت ختم ہو چکی ہے۔ اپنی تقریبات میں 95فیصد ہندو انہیں بلاتے تھے، لیکن اب 25 فیصد ہندو بھی انہیں اپنے یہاں مدعو نہیں کرتے۔ گزشتہ چار برسوں میں ملک کی اکثریت کا ذہن و دل بدل جانا تکلیف دہ ہے، ملک میں جو ہو رہا ہے وہ غلط ہے۔

غلام نبی آزاد کا یہ درد ایک عام مسلمان کا بھی کرب ہے کہ وہ ہندوستانی اقتدار و سیاست میں بے وقعت کیسے ہو گیا؟ چار برسوں میں یہ کایا پلٹ کیسے ہو گئی؟ وہ کون سی کامیاب بساط تھی، جس پر مسلم سیاست و قیادت کے مہرے پٹ کر رہ گئے۔ آج کے دور کا یہ المناک منظر نامہ ہے کہ مسلمانوں کے خیر خواہ سمجھے جانے والے سیکولر لیڈران بھی اب مسلمانوں کو آس پاس رکھنے میں گریزاں ہیں، ان کو ذمہ داری دینے میں پریشاں ہیں۔خاص کر باریش مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنے میں بھی وہ کوفت کا احساس کرتے ہیں۔ الیکشن کے دوران تشہیری مہم میں یہ سیکولر لیڈران مسلمانوں سے دور رہنے میں ہی اپنی اور اپنی پارٹی کی فلاح دیکھ رہے ہیں۔ گجرات کے الیکشن میں بھی یہی منظر نامہ ابھرا۔ راہل مندر مندر گھومے اورکوئی بھی مسلم لیڈر ان کے ارد گرد دکھائی نہیں دیا۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بھی یہی دل سوز منظر نامہ ابھر رہا ہے۔ ہر سیکولر لیڈر، ہر سیکولر جماعت نرم ہندوتو و والے فکر و نظر کا تاج اوڑھے بی جے پی کی گرم ہندوتو کو مات دینے کی راہ پر گامزن ہیں اور اس نرم ہندوتو اور گرم ہندوتو کی چکی میں پس رہا ہے تو صرف مسلمان۔

اگر ہم گزشتہ چار برسوں کے دوران ہوئے چناوی جلسوں، تشہیری مہم پر نظر ڈالیں تو لالو پرساد یادو کو چھوڑ کر تقریبا ً سبھی لیڈروں نے مسلمانوں کو وہ حیثیت نہ دی، جو وہ پہلے دیا کرتے تھے۔ ان کے قافلوں، منچوں، جلسوں میں مسلم لیڈران خال خال نظر آئے۔ با لخصوص داڑھی والے مسلم حضرات کی کمی شدت سے دیکھی گئی۔ ستم تو یہ ہے کہ سیکولر جماعتوں کے لیڈر تو لیڈر ہندو ورکر بھی مسلمانوں سے ایک حد فاصل بناتے دیکھے گئے۔ ملک کے اس نئے سیاسی تغیر اور نئی فکر کے اس تدبر کا نتیجہ ہے کہ مسلمان نہ گھر کا ہے نہ گھاٹ کا۔ اس فکر و سیاست نے مسلم ووٹ اور ملی قیادت کو ان کی اوقات بتا دی ہے۔

بی جے پی حکومت کو ہم لاکھ برا کہیں، لاکھ ہر محاذ پر وہ ناکام کہلائے، عوام اس کے دور میں لاکھ پریشان سمجھے جائیں، اقتصادی و تعمیری میدان میں خستہ حالی کا لاکھ ڈھنڈورا پیٹا جائے، بی جے پی کے دور میں گھوٹالوں کے لاکھ نقارے بجائے جائیں، لیکن مودی سرکار نے دیش بدل دیا ہے۔ ملک کے ذہن و افکار کو متاثر ضرور کیا ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں بی جے پی اور آر ایس ایس نے جو زہریلی بساط بچھائی ہے، اس کھیل میں ملک کی روا داری، تہذیب سب پس پشت ہو چکے ہیں اور ملک کی سب سے بڑی اقلیت بڑی حکمت عملی کے ساتھ حاشئے پر دھکیل دی گئی ہے اور بڑی دانش مندی کے ساتھ مسلمانوں کی سیاسی، تہذیبی، ثقافتی و تاریخی علامتوں پر ہندوتو کی ایسی گرد ڈالی جا رہی ہے کہ احتجاج کرنے کی جرأت بھی کسی میں نہیں ہے۔ کل تک جو قوم بادشاہ گر کے زعم میں مبتلا تھی، اور وہ سمجھتی تھی کہ مرکز میں اس کے بغیر حکومت بن نہیں سکتی مگر اب یہ زعم ٹوٹ چکا ہے۔ ملک کے بڑے صوبوں میں بھی اپنی طاقت کا بھرم سمجھنے والی اس قوم کو 2014 کے الیکشن نے زبردست پٹخنی دی ہے۔ اس کے بعد یوپی اور ملک کی دیگر ریاستوں کے اسمبلی انتخابات نے بھی یہ بتا دیا ہے کہ اس ملک کی سیاست میں مسلمان کس نہج پر ہیں اور اب تو حالات ایسے ہیں کہ ہر سیاسی جماعت مسلمانوں سے اپنا پلہ چھڑانے کے فراق میں ہے یا اپنے امیدواروں میں مسلمانوں کو کم ز کم حصہ داری دینے کی حکمت عملی اختیار کر رہی ہے۔ اور مسلمانوں کی سیاسی دانشوری کا طنطنہ یہ ہے کہ مسلم اکثریتی حلقو ں میں بھی مسلم امیدوار کا جیتنا مشکل ہے تو عام حلقوں میں مسلمانوں کے جیتنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

ایک زمانہ تھا کہ لوک سبھا میں مسلم ارکان کی تعداد 49تک جا پہنچی تھی اور اب محض 21 ہو گئی ہے اورآنے والے دور میں کتنے مسلمان ایوان میں پہنچیں گے یا نہیں پہنچیں گے یہ بھی ایک معمہ ہے۔ اگرچہ یہ بھی منظر نامہ ابھر رہا ہے کہ 2019کے مہابھارت میں مہا گٹھ بندھن اور بی جے پی میں بہت بڑی ٹکر ہو گی۔ امکان ہے کہ بی جے پی سرکار نہیں بنا پائے گی یا بہت کم اکثریت سے اس کی اقتدار میں واپسی ہو گی، لیکن بی جے پی آئے یا نہ آئے، کوئی سرکار بنے، سوال تو صرف یہ ہے کہ ایوان میں مسلمانوں کی موجودگی میں اضافہ ہو گا یا کمی ہوگی۔ آج کی سیاست، آج کا ماحول ان ملی، مذہبی و سماجی تنظیموں کے لئے بھی دور تازیانہ ہے اور انتباہ کرتا ہے کہ اب مسلمانوں کا جذباتی استحصال بھی بے سود ہے، اشتعال آمیز سیاست بھی بے معنی ہے۔ اپنے ذاتی مفاد، بغض و انا کے تناظر مین مسلم ووٹوں کا بکھرائو کرنے والوں کے لئے آج کا دور لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ وہ دور ہے، جب مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت کھان پان سب نشانے پر ہیں۔ تہذیب کی علامت اردو کو بھی ختم کرنے کی حکمت عملی بنائی جا رہی ہے۔ یوپی میں چار ہزار ٹیچروں کی تقرری منسوخ کر دی گئی ہے۔ مغل سرائے سے لے کر الہ آباد، فیض آباد، مظفر نگر وغیرہ کے مسلم نام بدلے جا رہے ہیں اور ہم چوں بھی نہیں کر سکتے۔ آج ملک میں زور زبردستی کا منظر نامہ ہے، لیکن مجھے خوشی ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ ملک کے عدل و قانون و آئین کا لحاظ کیا ہے۔ تین طلاق پر ردعمل کا جو امکان تھا وہ نہیں ہوا۔ یہ خوش آئند ہے، جبکہ دوسری طرف سبری مالا پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ مندر میں عورتوں کے داخلہ کافیصلہ بی جے پی اور آر ایس ایس و دیگر تنظیموں نے مسترد کر دیا ہے۔ ایودھیا میں مندر تعمیر کرنے کا الٹیمیٹم اس بات کا عکاس ہے کہ ملک بدل چکا ہے۔ اذہان بدل چکے ہیں، تہذیب کروٹ لے چکی ہے۔ اب یہ ملک گاندھی، نہرو، کلام کا نہیں بلکہ گوڈسے، توگڑیا اور سوامی کا ہے، جہاں ہر کوئی پُرعزم ہے کہ ملک کو ہر قیمت پر ہندو راشٹر بنائیں گے۔ تہذیبی تغیر کے اس خطرناک ماحول میں ہندوستانی مسلمان کیا کرے یہ فکر کا موضوع بھی ہے، جو ملی قیادت کو دعوت احتساب دے رہا ہے اور عام مسلمانوں کے آگے بھی یہ سوال کھڑا کر رہا ہے کہ کب وہ جذباتی سیاست اور شور شرابہ کے ماحول سے نکل کر خاموشی سے کام کریںگے۔ مسلمانوں کی خاموش سیاست ہی بدلتے زمانے کو پلٹ سکتی ہے۔مسلمانوں کو سوچنا ہو گا، حکمت، تدبر اور تحمل کے فقدان نے ملت کو دو کوڑی کا بنا دیا ہے۔ بقول شاعر :
کوئی فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہیے
پانی کو اب سر سے گزر جانا چاہیے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close