Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

اقتصادی بحران کا حل اسلامی بینکنگ

قرآن کریم ایک مکمل اصول حیات ہے اور رسولؐ کا ہر عمل بنی نوع انسانی کے لئے باعث فلاح ہے۔ اسلام انسانی خدمت کا پیغام دیتا ہے طبقاتی اونچ نیچ کے بجائے مساوات اور ہم آہنگی کا درس دیتا ہے۔ اسلام کا ایک سچا پیرو ہمیشہ قرآن کریم اور سنت رسولؐ کی پیروی کرتا ہے۔ بلاشبہ قرآن کریم ایک ہدایت ہے جو انسان کو زندگی کے ہر رموز نکات سے آگاہ کراتا ہے اور سیرت رسولؐ کی تقلید انسانی زندگی کو صالح کرتی ہے اور معاشرہ کو روشن کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں جتنی ریسرچ اسلام اور قرآن کریم پر ہو رہی ہے وہ کسی کتاب پر نہیں ہو رہی ہے۔ خاص کر امریکہ اور یوروپ میں قرآن کریم کو سمجھنے اور اس پر تحقیق کرنے کے بڑے بڑے اسلامک مراکز قائم ہو چکے ہیں، جس کے تحت نہ صرف قرآن کریم کے پیغامات اور ہدایات سے انسانی فلاح کی راہیں کشید کی جا رہی ہیں بلکہ آنے والے دور کی فلاح و بہبود کے لئے بھی راستہ تلاش کیا جا رہا ہے۔ ”سود“ آج بھی تجارت کا حصہ ہے اور ماضی میں بھی سود کا معیشت میں بڑا رول تھا مگر سود کے چلن نے جس طرح انسانیت کی راہ کے بجائے خالص منافع کی راہیں اپنائیں۔ اس سے معاشرہ کا زبردست نقصان ہوا اور آج بھی معاشرہ سود سے بے حال ہے مگر قرآن کریم نے سود لینے اور دینے کی ہمیشہ مذمت کی ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے۔ عصر حاضر کا اقتصادی نظام اور معیشت کی بنیاد کچھ اس طرح قائم ہے کہ آج کے ٹریڈ میں سود کے بغیر کام ہی نہیں چل سکتا۔ خاص کر بینکوں کے ذریعہ قرض اور کاروبار سے لے کر ہر شعبہ زندگی سود کی محصور ہو گئی ہے مگر بینکوں کے ذریعہ متعین سود کی شرح انسانی زندگی کے لئے ایک تازیانہ ثابت ہو رہی ہے۔ سود پر کئے گئے کاروبار ترقی کی منازل طے کرنے کے بجائے تباہی کی طرف لڑھک رہے ہیں۔ اسلام نے چودہ سو سال قبل ہی سود کے لین دین کو حرام قرار دیا اور آج کے دور میں بھی بغیر سودی اسلامی بینکنگ نظام ان لوگوں کے لئے رہنما ہدایت بن چکا ہے، جو سود کی زنجیروں میں جکڑ کر معاشی بدحالی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ اسلامی بینکنگ اب یوروپ امریکہ کے لئے بھی ایک مثال بن چکا ہے۔ مغربی معیشت اور اقتصادی نظام اب اسلامی بینکنگ سے استفادہ کر رہا ہے اور اب امریکہ یوروپ میں بھی اسلامی ملکوں کے طرز پر بغیر سودی اسلامی بینکنگ کے نظام و اصولوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کا دور شروع ہو چکا ہے۔ زیرنظر مضمون میں قرض اور سود کے نقصانات سے نجات پانے اور معیشت کی شفافیت اور فروغ کے لئے شریعت اور اسلامی بینکنگ کے طریق کار کا گہرائی سے مطالعہ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اقتصادی بحران سے نجات پانے کے لئے اسلامی تجارتی نظام پر روشنی ڈالی گئی ہے جو اکنامکس کے طلبا کے لئے بھی دلچسپی کا باعث ہے۔

اسلام میں قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی ہدایات کے مطابق سود (بیاج) لینا اور دینا دونوں حرام ہیں اور کسی بھی دیگر فریق کا اس میں شامل ہونا بھی اسی زمرہ میں آتا ہے لیکن دنیاوی اقتصادی نظام میں یہ کچھ انسانوں کی زندگی میں مجبوری بن گیا ہے۔ اسلام کے مطابق سود لینا اور دینا ایک ہی عمل کے دائرے میں آتے ہیں۔ دنیاوی بینکنگ نظام کا تو سود کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جب کوئی شخص بینک سے لون لیتا ہے تو اسے فیصد کے حساب سے سود دینا ہوتا ہے اور جب کوئی بینک میں رقم جمع کراتا ہے تو اسے جمع رقم پر فیصد کے حساب سے سود ملتا ہے یعنی دونوں صورتوں میں لین دین کرنے پر سود کی آمیزش ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے محنت سے کمائی گئی رقم بھی آلو دہ ہو جاتی ہے۔ اس لعنت سے نجات حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ نے یوم آخر تک کے لئے رہنمائی کی ہے۔

امریکہ میں کوئی چیز رہن (Mortgage) رکھ کر لون دینے سے وہاں کے بینکوں کو زبردست خسارہ ہوا تھا اور ایک طرح سے امریکہ کی اقتصادی صورت حال ڈگمگا گئی تھی۔ وہاں کے اقتصادی ماہرین یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ اقتصادی بحران سے کس طرح سے باہر نکلا جائے۔ چنانچہ ان کی توجہ اسلامی بینکنگ کی جانب مبذول ہوئی۔ قرآن کریم کے تراجم کا مطالعہ کرنے کے بعد اقتصادی ماہرین کو امید کی ایک کرن نظر آئی اور اس پر انہوں نے ریسرچ کرنی شروع کر دی۔ عمیق مطالعہ اور ریسرچ کے بعد انہوں نے جو نتیجہ اخذ کیا، وہ اسلامی بینکنگ کی صورت میں سامنے آیا۔ حالانکہ پوری دنیا میں اسلام سے بغض رکھنے والے انتہا پسندوں نے اس نظام کی مخالفت کی تھی اور کچھ لوگ آج بھی مخالفت کر رہے ہیں پھر بھی اسلامی بینکنگ میں نہ صرف متواتر پیش رفت ہو رہی ہے بلکہ کچھ ممالک میں تو اسلامی بینکنگ نظام رائج بھی ہوگیا ہے۔

اس بات سے سبھی لوگ واقف ہیں کہ امریکہ میں ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب چیزیں رہن رکھ کر لون دینے کی وجہ سے وہاں کے بڑے بڑے اقتصادی ادارے نہایت خستہ حال ہو گئے تھے اور بینک یہ سوچنے لگے تھے کہ کس طرح سے خسارہ کی بھرپائی کی جائے۔ ایسی صورت میں متحدہ ہائے امریکہ میں ایک چھوٹے سے ادارے مشیگن بینک (Michigan Bank) نے سود لئے بغیر قرضہ جات پر فائدہ اٹھانے کے لئے اس صنعت کی جانب توجہ دی تھی۔ ان کے اس اقدام کی خصوصیت یہ تھی کہ اقتصادی پرو ڈکٹ اسلامی ضابطوں کے مطابق تھے یعنی نہ سود لینا اور نہ ہی خسارے میں کوئی چیز فروخت کرنا۔ علاوہ ازیں انہوں نے ایسا کوئی بھی معاہدہ (Contract) نہیں کیا جس کو نہایت پُرخطر سمجھا جائے۔ اس نے ضابطوں کے تحت کچھ ایسی کارگزاریوں کا بھی انکشاف کیا جس کی وجہ سے مغربی معیشت رہن رکھی گئی چیزوں کی معاشی حالت، قرض نہ چکانے اور ادل بدل کرنے کے سبب مشکلات میں مبتلا ہو گئی تھی۔

امریکہ کی ریاست مشیگن کے ایک شہر این آربر (Ann Arbor) کی یونیورسٹی اسلامک فائینیشئیل کارپوریشن (University Islamic Financial Corp.) میں بینک کے کارپوریٹ ڈائریکٹر جان سکلر (John Sickler) نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”جب آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ معاشی بحران میں مبتلا ہو گئے ہیں تو آپ اگر لین دین اسلامی شرعی معیشت کے مطابق کریں گے تو آپ کو اس سے اقتصادی بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا“۔ اسلامی شریعت کے مطابق جو لین دین کیا جاتا ہے اس میں ناجائز منافع حاصل کرنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں جو بینک اسلامی ضابطوں کے مطابق فیس سے رقم حاصل کرتے ہیں وہ لون کی رقم کا ہی ایک حصہ ہوتی ہے۔ اس میں سے کچھ رقم وقت پر ہی ادا کر دی جاتی ہے اور کبھی کبھی بعد میں بھی ادا کی جاتی ہے۔ چنانچہ اس میں کسی بھی طرح سے سود کی رقم کی آمیزش نہیں ہوتی ہے۔ یونیورسٹی اسلامک فائنیشئیل دو طرح کے مالی لین دین کرتی ہے۔ ایک کو ”Marked up Instalment Sale“ اور دوسری کو ”Lease to Puchase Sale“ کہا جاتا ہے۔ فیس کے تعلق سے ان دونوں معاملوں میں رقم روایتی لون سے مناسبت رکھتی ہے۔ بینک کے افسران بھی اس بات کی وضاحت کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی چیز کو فروخت کرنے والا شخص جو کہ ایک گھر 100,000 ڈالر میں خریدتا ہے تو وہ اسے 120,000 ڈالر اور یہاں تک کہ وہ 300,000 ڈالر تک میں فروخت کر سکتا ہے بشرط یہ کہ خریدنے والا رضا مند ہو جائے، یہ ایک جائز سودے بازی ہوگی۔ یہ مکان قسطوں کی بنیاد پر بھی فروخت کیا جا سکتا ہے اگر فروخت کرنے والے شخص اور خریدار کے درمیان مفاہمت ہو جائے۔

یہ بینک مشیگن میں واقع یونیورسٹی بینک کا معاون بینک ہے جس کے سربراہ افسران نے بزنس کو فروغ دینے کے واسطے جانکاری حاصل کرنے کے لئے قومی بینکوں کے ایگزیکٹو افسران سے بات چیت کی تھی۔ چونکہ رقم خود بخود نہیں بڑھ سکتی اور اسے بڑھانے کے لئے سود در سود وصول کیا جاتا ہے، اس لئے اسلامی شرعیت اور ضابطہ کے مطابق وہ لین دین قابل قبول نہیں ہوتا ہے جبکہ لین دین میں مساوی رقومات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور مختلف چیزوں کے لین دین میں ایمان داری کے ساتھ قیمت کے تعلق سے مفاہمت کی جائے۔ چنانچہ ایک سیب کے لئے ایک پیسہ مذہبی طور پر قابل قبول ہوتا ہے جبکہ ایک سیب کے بدلے دو سیب مذہبی اعتبار سے قطعی طور پر ناقابل قبول ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ یونیورسٹی بینک میں عام طور پر کھاتے دار نہیں تھے اور کچھ صارفین ایسے تھے کہ جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ یہاں پر اسلامی بینکنگ کا نظام ہے تو انہوں نے اپنے کھاتے بند کر دیئے تھے۔ کچھ ملازمین نے بھی اعتراض کیا تھا اور وہ وہاں سے نوکری چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ مشیگن بینک نے اس جانب توجہ دی تھی اور انہوں نے اس بات کی وضاحت کر دی تھی کہ اس اقتصادی نظام کے تحت قرض لینے والوں اور قرض دینے والوں کے درمیان نفع اور نقصان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ یونیورسٹی اسلامک فائینیشئیل نے بتایا تھا کہ یہ ملک کا اولین ایسا بینک ہے جو کہ شریعت سے مطابقت رکھتا ہے اور فیڈرل سے جمع رقم کا انشورینس کرا دیا جاتا ہے۔

حالانکہ اسلامک بینکنگ کئی ممالک میں بہت زیادہ عمومی ہے لیکن امریکہ میں بینکوں اور کریڈٹ کارڈ جاری کرنے والی کمپنیاں ایسی برانچیں قائم کرنے کے لئے کوشاں تھیں جن کی رسائی ان ممالک تک ہو جائے، جہاں پر مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے۔ سنگاپور میں بھی اس طرح کا نظام قائم کرنے کی ایک برانچ کھولی گئی تھی کہ جہاں پر سنگا پور کے ڈالر سے اسلامی بانڈ خریدے جا سکیں۔ وہاں پر سکوک (Sukuk) اسلامی بانڈ جاری کئے گئے جوکہ سنگا پور حکومت کی سیکورٹیز (Securities) سے مناسبت رکھتے تھے۔ اس نظام کو بعد میں مشترکہ طور پر اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک اور اسلامک بینک آف ایشیا نے اسے اختیار کیا تھا۔ اس کے بعد خلیجی خطہ کے مشرق وسطیٰ میں اس طرح کے بینک 2007 میں وجود میں آئے تھے۔

ملیشیا اسلامک بینکنگ کے شعبہ میں جنوب مشرقی ایشیا کا لیڈر ہے جو قرض (کریڈٹ) دینے کے معاملہ میں خسارہ کا دیگر بینکوں کے مقابلے شکار نہیں ہوا تھا۔ سکوک (شرعی بانڈ) کی گلوبل مارکیٹ میں کریڈٹ کی درجہ بندی کرنے والی فرم اسٹینڈرڈ نے کہا تھا کہ چند برسوں میں ہی سکوک کی مارکیٹ 100 بلین ڈالر تک ہو جائے گی۔ لہذا یہ امید کی جاتی ہے کہ آنے والے برسوں میں اسلامک بینکنگ مقبول ہو جائے گی۔ بینکنگ کے اس روایتی نظام نے اسلامی بینکنگ کے نظام سے بہت کچھ سیکھا تھا اس بات کا انکشاف دبئی اور لندن میں قیام کرنے والے اقتصادیات کے ایک ماہر وکیل جواد علی نے کیا تھا، جنہوں نے شریعت کے مطابق لین دین کرنے کے نظام میں مہارت حاصل کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ”ہم اتنی رقم حاصل نہیں کر سکتے جتنی روایتی بینک کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ان چیزوں کو فروخت نہیں کرتے ہیں جو کہ ہمارے پاس ہوتی ہیں، فروخت کرنے سے قبل ہمیں وہ چیزیں حاصل کرنی ہوتی ہیں اور کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کا موقع گنوا دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں خسارہ نہیں ہوتا ہے اور یہ خصوصیت اسلامی بینکنگ میں ہے۔“

اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کی ایک شا خ میں اسلامک بینکنگ کے ہیڈ آفاق خان نے کہا تھا کہ ”ہم مریخ پر بینکنگ نہیں کرنے جا رہے ہیں، اگر معاشی سر گرمیاں زبردست طریقہ سے کساد بازاری کا شکار ہو جاتی ہیں تو اس سے اسلامک بینکنگ بھی متاثر ہو جائے گی۔“ شریعت کے مطابق کسی چیز کو رہن رکھنا کسی چیز کے اختیارات محفوظ رکھنے کے لئے کرایہ پر دینے کے مترادف ہے۔ رہن کے واسطے کوئی رقعہ نہیں ہوتا ہے لیکن خصوصی طور پر ہر ایک حصہ کے لئے حتمی خریداری کے لئے ماہانہ ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔ اسلامی فائینینس مارکیٹ میں ڈیوٹشے بینک (Deutsche Bank) کے کُل تخمینہ اثاثے تقریباً ایک ٹرلین ڈالر تھے جوکہ گلوبل اقتصادی اثاثوں کا ایک معمولی ساحصہ ہے لیکن اس کے باوجود بینک کا یہ کہنا تھا کہ اس سیکٹر میں اس وقت کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 15 سے 20 فیصد کا اضافہ ہو رہا تھا۔ اس سلسلے میں لیزا ویسٹر مین (Lisa Westermann) جو کہ ویلس فارگو (Wells Fargo) کے ترجمان تھے ان کا کہنا یہ تھا کہ ”جہاں تک مستقبل کا سوال ہے تو ہم ہمیشہ صارفین کو بہتر مواقع فراہم کرانے کے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن ہماری خصوصی حکمت عملی ملکیت پر ہی مبنی ہوتی ہے۔“ کو میریکا (Comerica) کے وائس پریزیڈینٹ امال بیری براؤن (Amal Berry Brown) نے کہا تھا کہ ”شرعی بینکنگ ایک ایسا نظریہ ہے جس کی امریکہ میں طویل مدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔“ جیسے جیسے اسلامی بینکنگ کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے ان لو گوں کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے جو کہ اس شعبہ سے متعلق باریکیوں سے واقف ہوں۔

فائنینشیل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ”جنوبی انگلینڈ میں واقع یونیورسٹی آف ریڈنگ اسلامی فائنینس کی تعلیم دینے کے لئے ایک ٹیچنگ سینٹر قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔“ ایک سال بعد یونیورسٹی نے اسلامی اقتصادی نظام اور بینکنگ میں سرمایہ کاری کی ماسٹر ڈگری کے کورس کا آغاز کر دیا تھا اور مغربی ممالک میں پوسٹ گریجویشن کا کورس کرانے کی ان کو ترغیب مل گئی تھی، جن کی وجہ سے مسلم دنیا میں ان اقدامات سے فروغ ملنا شروع ہو گیا۔ اسلامی بینکنگ نظام کی جانکاری نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے بینک ملازم نہ ہونے کی وجہ سے بھی مجبور تھے۔ چنانچہ جب اسلامی بینکنگ میں پوسٹ گریجویشن کرنے والے افراد سامنے آنے لگے تو ان کی یہ مجبوری بھی ختم ہو گئی تھی، اسی لئے تو ریڈنگس انٹر نیشنل کیپیٹل مارکیٹس ایسوسی ایشن سینٹر (Readings International Capital Markets association Centre) کے ڈائریکٹر جان بورڈ (John Board) نے کہا تھا کہ ”جہاں تک ہم سوچتے ہیں اسلامک فائینس میں لوگوں کی زبردست کمی ہے اور اب بینکنگ کے نظام میں اسلامی بینکنگ کو مقبولیت حاصل ہو گئی ہے۔چنانچہ ہمیں اس کمی کو بہت جلد دور کرنا چاہئے۔“

پوسٹ گریجویشن کرنے والوں کے بارے میں صرف Reading نے ہی غور نہیں کیا تھا بلکہ ویلس (Wales) میں واقع بانگور (Bangor) یونیورسٹی نے بھی اسلامک بینکنگ میں ماسٹر ڈگری تفویض کرنی شروع کر دی تھی۔ سب سے پہلے 23 طلبا نے اس کورس میں داخلہ لیا تھا۔ اس کے بعد لیکچرار اور پروفیسر کا یہ مشاہدہ تھا کہ طلبا دیگر کورسوں کے مقابلے اسلامی بینکنگ کے کورس کی جانب زیادہ رجحان دکھا رہے تھے۔ رابرٹ شومین (Robert Schuman) یونیورسٹی میں بزنس لاء سینٹر کے سربراہ مائیکل اسٹورک (Michel Storck) نے اس وقت کہا تھا کہ ”میں گزشتہ دو یا تین برسوں سے طلبا میں اس کورس سے متعلق بڑھتی ہوئی دلچسپی محسوس کر رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسلامک بینکنگ کی اہمیت اور مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔“ اس کے بعد امریکہ میں اسلامک بینکنگ کو زیادہ دلکش اور زیادہ محفوظ سمجھا جانے لگا تھا۔ شاید یہ بات قابل حیرت نہیں ہوگی کہ انگلینڈ کی یونیورسٹیوں نے بھی اسلامک بینکنگ کے نصاب شروع کر دیئے تھے۔ لندن میں اسلامی اقتصادی نظام کو فروغ دینے کے لئے ایک ہب (Hub) تیار کر لیا تھا۔ فرانس کی پارلیمنٹ نے اپنے ایک اجلاس میں سیاسی اراکین، بینکرس اور شریعت کے اسکالروں کی میٹنگ میں اس بات پر مباحثہ کیا تھا کہ کچھ خصوصی ٹیکس قوانین میں ترمیم کرکے اور لوگوں کے درمیان بیداری پیدا کرکے کس طرح سے اسلامی نظام معیشت کو فروغ دیا جائے۔

مذکورہ بالاسطور سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مغربی ممالک کا بھی رجحان اب اسلامی بینکنگ کی جانب ہوتا جا رہا ہے۔ بہت سے مغربی ملکوں کے کچھ بینکوں نے سکوک بھی جاری کرنے شروع کر دیئے ہیں جو کہ سود کی لعنت سے پاک ہوتے ہیں۔ ان بینکوں سے لین دین کرنے والے صارفین اور خود بینکوں کو خاطر خواہ منافع بھی ہوا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں اسلامی نظام معیشت کے شعبہ میں ملیشیا کو ایک نقیب کی حیثیت حاصل ہے اور بہت سے ممالک اپنے اقتصادی ماہرین کو وہاں بھیج کر اس کی کامیابی کا راز جان کر اس سے مستفید ہونے کی سعی کر رہے ہیں۔ اس سے اس بات کی قومی امید پیدا ہو گئی ہے کہ رفتہ رفتہ پوری دنیا میں شریعت کے مطابق بینکوں کا اسلامی نظام ایک دن رائج ہو جائے گا۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close