Khabar Mantra
محاسبہ

کیوں ہر عروج کو یہاں آخر زوال ہے

محاسبہ...........................سید فیصل علی

نیوزی لینڈ میں 2 مسجدوں پر دہشت گرادنہ حملہ سے عالم انسانیت ہل کر رہ گئی ہے، پوری دنیا اس کی مذمت کر رہی ہے۔ مگر تمام ترمذمت اور لعن طعن کے باوجود مسلمانان عالم اب یہ سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ وہ دنیا کے کسی گوشہ میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ خواہ وہ انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں مقیم ہوں، انتہائی تہذیب یافتہ ماحول میں رہتے ہوں، اعلی ترین، نظم ونسق اور قانون کی سرپرستی میں ہوں ہر جگہ مسلم دشمن قوتیں سرگرم ہیں۔ ہر سمت اسلام مخالف سازشوں کا جال بچھا ہوا ہے گوکہ اسلام دشمنی قوم پرستی کی آگ میں مسلمان امریکہ اور یوروپ میں بھی جھلس رہے ہیں۔ دہشت اور نفرت پھیلانے کی بساط صرف ہندوستان میں نہیں مغربی ممالک میں بھی بچھی ہوئی ہے، جہاں انسانیت کو روندنے والے مہرے اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں اور دنیا کو دو حصوں میں بانٹتے جا رہے ہیں۔ اذیت ناک صورت حال تو یہ ہے کہ اسلام دشمنی اور قوم پرستی کا خونیں مظاہرہ احساس تفاخر بنتا جا رہا ہے اور اس شرمناک عمل کے ویڈیو بھی وائرل کئے جا رہے ہیں۔ مسجدالنور میں حملہ کرنے سے قبل 28 سالہ آسٹریلین دہشت گرد برنٹن ٹیرنٹ نے فیس بک پر لائیو اسٹریمنگ شروع کر دی۔ سوشل میڈیا پر وائرل فوٹیج میں دہشت گرد کو مسجد کے اندر نمازیوں پر اندھا دھند گولیاں برساتے ہوئے دیکھا گیا۔ گولی باری کے بعد دہشت گرد بڑے سکون سے مسجد سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھا اور نمازیوں کو چوہے کی طرح مارے جانے کی بات کہہ کر اپنی بہادری بیان کرنے لگا۔ حالانکہ بعد میں ٹوئٹر اور فیس بک نے یہ ویڈیو کو بلاک کر دیا لیکن تب تک لاکھوں افراد نفرت اور دہشت کے اس ویڈیو کو دیکھ چکے تھے۔

نیوزی لینڈ کی دو مسجدوں میں نماز جمعہ کے دوران جس طرح گولیاں برسائی گئیں کہ 49 افراد مسجد النور میں ہی شہید ہو گئے، 60 افراد اسپتال لائے گئے، جن میں سے گیارہ اب بھی موت و زندگی کی کشمکش میں ہیں۔ مرنے والوں میں 9 ہند نژاد، 8 بنگلہ دیشی اور 5 پاکستانی بتائے جاتے ہیں۔ مسجد النور اور اڈلین کی مسجد میں 49 مسلمانوں کی شہادت سے ہر ذی شعور کی طرح میرا دل بھی غم سے معمور ہے۔ نیوزی لینڈ کی مسجد النور سیاحوں کے لئے بھی ایک کشش رکھتی ہے، اس مسجد کی خوبصورتی اور طرز تعمیر وہاں کے مسلمانوں کی فیاضی اور اللہ کے گھر سے محبت کے جذبہ کو اُجاگر کرتی ہے۔ نیوزی لینڈ جہاں جرائم کی شرح نہ کے برابر ہے، خوشحالی، امن وآشتی، مذہبی آزادی اس ملک کے سیکولر نظام کے اہم ستون ہیں، اسی کشش کے تحت 10سال قبل میں نیوزی لینڈ گیا تھا، وہاں کی طرز حکومت اور حالا ت خاص کر مسلمانوں کی اقتصادی اور تعلیمی خوشحالی اور دین کے تئیں خدمات سے حد درجہ متاثر ہوا تھا۔ میں نے وہاں کی مسجدوں کی خوبصورتی، ان کے انتظام وانصرام اور مسجدوں کے ذریعہ تعلیمی خدمات کے جو مناظر دیکھے تو بڑا رشک ہوا تھا۔ کاش برصغیر کے مسلمان بھی اسی طرز فکر اور حکمت عملی سے کام لیں تو ان کا مسلم معاشرہ بھی دین کی خدمت کے ساتھ دنیا میں بھی اپنی عظمت کی خوشبو پھیلا سکتا ہے۔

نمازیوں سے بھری رہنے والی دنیا میں ایک مثال تاریخی مسجد، النور اور اڈلین کی مسجدیں آج خود مرثیہ خواں ہیں کہ ان کی آغوش میں نماز پڑھنے والے 49 نمازی نہیں رہے 13سالہ سید معین جو اپنے والد کے ساتھ النور مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے کی للک لئے گیا تھا، وہ شہید ہو چکا ہے۔ یہ سوچ کر روح کانپ سی جاتی ہے کہ کیسے اس کے والد اپنے فرزند کو ہاتھوں میں اٹھا کر گھر لائے ہوں گے۔ یہ قدرت کا کرشمہ ہی ہے کہ بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم جو نیوزی لینڈ میں موجود تھی نماز جمعہ ادا کرنے مسجد النور پہنچی تو اندر فائرنگ ہو رہی تھی، کئی زخمی ہو کر مسجد سے باہر آکر دم توڑ رہے تھے۔ یہ خونی منظر دیکھ کر بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم فوراً ہوٹل واپس چلی گئی اور ان کی جان بچ گئی اگر وہ چند منٹ بھی ٹھہرتی تو دہشت گرد باہر نکل کر ان کو گولیوں سے بھون دیتا۔

نیوزی لینڈ میں دہشت گردانہ حملہ سے ہر ذی شعور آزردہ ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ کرب کی بات یہ ہے کہ مغرب میں قوم پرستی اور اسلام دشمنی کے مظاہرے پر شرمندہ ہونے کے بجائے اسے فروغ دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ انسان دشمنی کے جو مناظر وہاں ابھر رہے ہیں وہ مستقبل قریب میں کسی خوفناک معرکہ کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ مسجد میں نمازیوں پر گولیاں برسانے والا دہشت گرد برنٹن امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو اپنا ہیرو مانتا ہے۔برنٹن نے باقاعدہ 37 صفحات والا مینی فیسٹو ’دی گریٹ رپلیسمنٹ‘ بھی جاری کیا ہے۔ قوم پرستی کے جنون میں نفرت کی انتہا تک پہنچنے والا برنٹن نے مسجد میں حملہ انجام دینے کی وجہ بھی بتائی ہے۔ وہ رقم طراز ہے کہ ہم اپنی زمین پر کسی دوسرے کو رہنے نہیں دیں گے، ہماری زمین کبھی ان کی نہیں ہوگی۔ یہ دہشت گردانہ حملہ نہیں ہے بلکہ قبضہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہے۔ سیاہ فاموں کے خلاف سفید فاموں کی جنگ ہے۔ نسلی برتری کے اس جنون کا سب سے بڑا شکار مسلمانان عالم ہیں جو دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کا وجود انتہاپسندوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ مغرب میں قوم پرستی دہشت گردی کی شکل اختیار کرکے دنیا کے سکون کو غارت کر رہی ہے تو مشرق میں مذہبی انتہا پسندی کی آڑ میں انسانیت کو کچلا جا رہا ہے۔ انتہا پسندوں کے حوصلہ دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔ اقتدار و سیاسی برتری کا ہی یہ شاخسانہ ہے کہ نفرت کی سیاست اور دلوں کی خلیج بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

نفرت انگیزی کے یہ بازی گر کبھی مسلمانوں کو پاکستان جانے کی تلقین کرتے ہیں تو کوئی ان کی جگہ قبرستان بتاتا ہے، کبھی اس کی شریعت کٹہرے میں کھڑی کی جاتی ہے، کبھی اس کے لباس اور کھان پان پر ضرب لگائی جاتی ہے اور اب اسے اتفاق کہیں یا کچھ اور کہ ایک طرف نیوزی لینڈ میں قوم پرستی کے جنون میں مبتلا ایک دہشت گرد مسلمانوں کو ملک چھوڑنے کے پیغام کے تحت نمازیوں پر گولیاں برسا رہا تھا اسی جمعہ کو ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت میں مسلمانوں کو ہندوستان سے بھگانے کی عرضی دی گئی تھی۔ سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا گیا کہ ملک کے تمام مسلمانوں کو پاکستان بھیج دیا جائے۔ یہ عرضی اس لئے حیرت انگیز تھی کہ ابھی تک تو ہندوتو کے علمبردار لیڈران ہی مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی بات کرتے تھے، اب اس دور منحوس میں انتہا پسندوں کو اتنا حوصلہ مل چکا ہے کہ مسلمانوں کو پاکستان بھگانے کا مطالبہ لے کر سپریم کورٹ کی دہلیز تک پہنچ گئے ہیں۔ اس قسم کی مضحکہ خیز عرضی پر سپریم کورٹ کی برہمی لازمی تھی۔ اس نے عرضی دہندہ وکیل سے مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی عرضی باآواز بلند پڑھنے کا حکم دیا پھر کہا کہ ہم آپ کی بات سنیں گے لیکن اس سے قبل تحریک مذمت لائی جائے گی۔ یہ سن کر وکیل کے حواس باختہ ہو گئے اور عدالت نے عرضی خارج کر دی۔

قصۂ مختصر یوں کہ مغرب میں قوم پرستی کا جنون اپنا خونی کرتب دکھا رہا ہے تو مشرق میں مذہبی انتہا پسندی نفرت کی کھیتی کر رہی ہے ہرسو ظلم کا بازار گرم ہے۔ قدرت نے ظالم کے خلاف بھلے ہی رسی ڈھیلی کر رکھی ہے مگر یہ رسی ایک دن ضرور کَسی جائے گی۔ ظالم کو سزا ضرور ملے گی۔عروج کو زوال ضرور آئے گا قدرت کا یہی نظام ہے۔ بقول شاعر:

کیوں ہر عروج کو یہاں آخر زوال ہے
سوچیں اگر تو صرف یہی اک سوال ہے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close