Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

وہ نادان ہیں جو بلندی پہ غرور کرتے ہیں

محاسبہ…………….سید فیصل علی

دہلی کا چناؤ زہریلی سیاست اور نفرت کے بھنور میں پھنستا جا رہا ہے اور شاہین باغ اس زہریلی سیاست کا ایسا ہتھیار بن چکا ہے جس کی آڑ میں ہندو مسلم کارڈ کھیلا جا رہا ہے۔ مدعوں اور ترقیاتی پروگراموں سے بے نیاز بی جے پی اب دہلی چناؤ میں راشٹر واد اور ہندوتو کی آڑ میں اپنی روٹیاں سینک رہی ہے۔ عوام کو اصل ایشوز سے ہٹا کر بھاؤناؤں کا افیون چٹا رہی ہے۔ تشویشناک امر تو یہ ہے کہ بی جے پی کے وزیر بھی اپنی زہریلی تقریروں سے عوام کا رخ موڑنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ دہلی کی چناوی ریلیوں میں زہریلی تقریروں کا ایسا طوفان اٹھایا جا رہا ہے جس سے نہ صرف تمام رواداری، سنسکار اور ملک کی دیرینہ تہذیب کچل رہی ہے، بلکہ ایک نئے ہندوستان کی شیبہ بھی ابھر رہی ہے۔ جس میں گاندھی کا ملک اب اہنسا (عدم تشدد) کے بجائے ہنسا (تشدد) کا پیرو نظر آرہا ہے۔ گاندھی کو ماننے والے معتوب ہو رہے ہیں، گوڈسے نواز ہیرو بنائے جارہے ہیں۔ 30 جنوری 1948 وہ منحوس دن ہے جب سیکولرزم، بھائی چارہ، رواداری اور گنگاجمنی تہذیب کی پاسداری کی بنا پر آر ایس ایس کے ایک گرگے ناتھورام گوڈسے نے بابائے قوم کو گولیوں سے بھون دیا تھا، 72 برسوں کے بعد پھر دہلی میں اسی دن ایسا ہی منظرنامہ ابھرا ہے۔ جب گاندھی جی کے اصولوں پر چلنے والے مظاہرین پر گوڈسے نواز ایک سرپھرے نے گولیاں چلائیں، جامعہ گولی کانڈ ایک عام واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستان کے ماضی، حال اور مستقبل کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

واضح ہوکہ جامعہ کے طلباء جو ڈیڑھ ماہ سے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہرہ کررہے ہیں انھوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ ’شہادت دیوس‘ پر جامعہ سے لیکر گاندھی سمادھی تک پرامن مارچ نکالیں گے چنانچہ جب ساڑھے بارہ بجے دن میں طلباء کا مارچ شروع ہوا تو گوپال نامی ایک سرپھرا ہاتھوں میں پستول گھماتے ہوئے مظاہرین کے سامنے آیا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا کہ ’کسے چاہئے آزادی میں تمہیں کروں گا آزاد‘ اور پھر اس نے مظاہرین پر گولی چلا دی، جس سے جامعہ کا ایک طالب علم شدید زخمی ہوگیا۔ پولیس اس دوران خاموش تماشائی بنی رہی، فائرنگ کے بعد پولیس نے بڑے اطمینان کے ساتھ حملہ آور کو گرفت میں لے لیا حالانکہ اس وقت میڈیا بھی موجود تھا، کئی لوگ چلا رہے تھے کہ اس کے ہاتھ میں پستول ہے لیکن شاید پولیس کو گولی چلانے کا انتظار تھا، بہرحال جامعہ کے مظاہرین پر طلباء پر فائرنگ پھر حملہ آور کی گرفتاری تک کا واقعہ جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا وہ دہلی پولیس کی کارکردگی پر کئی سوال کھڑا کرتا ہے کہ ایک طرف سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے طلباء پر لٹھ برسانے والی دہلی پولیس پستول لہراتے ہوئے رام بھکت کے سامنے ہاتھ باندھے کیوں کھڑی رہی؟ کیا اسے گولی چلانے کا انتظار تھا؟ حملہ آور رام بھکت گوپال کا منظر پس منظر بھی کم چونکانے والا نہیں ہے۔

اطلاع ہے کہ وہ چھ ماہ تک پڑوسی کی نابالغ لڑکی کے ریپ معاملے میں جیل میں رہا ہے، اس کے دو فیس بک سامنے آئے ہیں، دونوں میں وہ بجرنگ دل کے کنوینر کے طور پر نظر آرہا ہے، 2018 کے پروفائل میں وہ خود کو بجرنگ دل اور آر ایس ایس کا کارکن بتا رہا ہے، کئی تصویروں میں ہندوتو کے لیڈروں کے ساتھ تلوار لئے کھڑا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ شروع میں حملہ آور کی عمر 27 سال بتائی گئی تھی، اب اس کو 17سالہ نابالغ بتاکر اس کے جرم کو کم کرنے کی سعی ہو رہی ہے۔ جبکہ خبر یہ ہے کہ حملہ آور رام بھکت کے والد کی موت 22 سال قبل ہی ہوچکی تھی، شاید یہی وہ نقطہ ہے کہ اب حملہ آور کےOSSIFICATION TEST (بون ٹیسٹ) کرانے کی بات ہورہی ہے اور دہلی پولیس ایک بار پھر کٹہرے میں ہے، ستم تو یہ بھی ہے کہ گزشتہ سال بابو کے پتلے کو گولی مارنے والی علی گڑھ کی ہندو مہاسبھا تنظیم نے گوپال شرما کو سمّان دینے کا اعلان کیا ہے۔

دہلی میں چناؤ ہے، شاہین باغ کا دھرنا بھی پچاس دن پورے کرچکا ہے، چنانچہ دہلی میں نفرت کی سیاست بھی عروج پر ہے، تشہیری جلسوں میں ’ہیٹ اسپیچ‘ آج کی بی جے پی کی سیاست کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ دہلی میں ایک روز قبل ہی مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے ایک چناوی جلسے میں ’گولی مارو غداروں کو‘ کا نعرہ لگوایا تھا اس کا فوری ریکشن جامعہ کے مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجے میں سامنے آیا اور یہ بھی اجاگر ہوگیا کہ اب وکاس کے نام پر بی جے پی چناؤ نہیں جیت سکتی، کیونکہ 2014 کے چناؤ کے بعد آج تک جتنے چناؤ ہوئے ہیں ان میں دعویٰ وکاس کا تو ہوا سب کا ساتھ سب کا وکاس کی باتیں ہوئیں مگر یہ صرف جملے ثابت ہوئے۔ اس لئے جیسے جیسے دہلی میں تشہیری مہم تیز ہورہی ہے بی جے پی اپنی کیچلی سے باہر آتی جا رہی ہے۔ سب سے پہلے پاکستان پھر ہندو مسلمان کا نقارہ خوب خوب بج رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ خاص کر ٹی وی چینل اصل مدعے کے بجائے بی جے پی کے اس مدعے کی ڈفلی کو زور شور کے ساتھ بجا رہے ہیں، ملک کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ لوگ جہالت کی وجہ سے ان مدعوں کو سمجھنے پرکھنے کے بجائے بھاؤناؤں میں بہہ جاتے ہیں۔

چنانچہ اب شاہین باغ زہریلی سیاست کے نشانے پر ہے، بڑے افسوس کی بات ہے کہ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے جامعہ کے مظاہرین پر حملے سے صرف ایک دن قبل ہجوم سے ’گولی مارو ……کو‘ کا نعرہ لگوایا تھا۔ ایک مرکزی وزیر کے ذریعہ گولی مارنے کی بات پر میڈیا بھی ساتھ ہے اور جس طرح دہلی میں تشہیری مہم چل رہی ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ جو بی جے پی کے خلاف ہے وہ ملک کے خلاف ہے، دیش کا غدار ہے، اسے گولی مارا جانا واجب ہے، یہ Narrative دن ورات، صبح وشام ٹی وی پر دکھایا جا رہا ہے۔ پھر کوئی بھی سرپھرا، جاہل ایسی حرکت کرتا ہے جیساکہ رام بھکت گوپال نے کیا۔ حالانکہ رام گوپال نے کس کے کہنے پر گولی چلائی وہ کن کن لوگوں کے رابطے میں تھا، فیس بک پر کسے میسیج کر رہا تھا یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ جامعہ کے طلباء پر فائرنگ کے تار بہت دور تک ہیں۔

دہلی کے چناؤ کے تناظر میں جس طرح نفرت کی سیاست کو راشٹرواد سمجھا جا رہا ہے وہ تشویش کا موضوع ہے۔ گری راج سنگھ پارلیمنٹ کے باہر جس انداز میں میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں، انوراگ ٹھاکر کو جائز قرار دے رہے ہیں اس پر مقدمہ کیوں نہیں ہوتا؟ ایک قوم کے خلاف بھڑکانا، تشدد پر آمادہ کرنا سنگین جرم ہے۔ سی اے اے پر گاندھی جی کا جس طرح غلط استعمال کیا گیا اس پر بھی اخبارات، ٹیلی ویژن خاموش ہیں کہ آخر گاندھی جی نے کہا کیا تھا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ یہ لوگ گاندھی پریمی کیسے ہوگئے جنھوں نے گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کو ہیرو ماننے والی پرگیہ کو پارلیمنٹ بھیجا ہے۔ بی جے پی کا گاندھی پریم ’100چوہے کھا کر بلی چلی حج کو‘ کے مترادف ہے۔

دراصل دہلی میں ہار کے خوف سے بی جے پی حد درجہ بوکھلائی ہوئی ہے، اس کے سامنے کجریوال بڑے دشمن کے طور پر کھڑے ہیں۔ جنھوں نے تعلیمی بجٹ کو دوگنا کردیا ہے، وہ تعلیم کی روشنی میں بھاؤناؤں کی سیاست کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں، مگر بی جے پی کرے بھی تو کیا کرے۔ اس کے ترکش میں ہندوتو کے تیر کے سوا کچھ باقی نہیں ہے۔ چنانچہ امت شاہ انوراگ ٹھاکر، گری راج سنگھ، یوگی آدتیہ ناتھ، کپل مشرا، پرویش ورما وغیرہ وغیرہ تک سبھی شاہین باغ کو چوطرفہ نشانے پر لیکر دہلی فتح کرنا چاہتے ہیں، تادم تحریر شاہین باغ کے مظاہرین پر پھر ایک سرپھرے نے گولیاں چلائی ہیں، لیکن یہ پبلک ہے جو سب جانتی ہے۔ بقول شاعر:

وہ نادان ہیں جو اپنی بلندی پہ غرور کرتے ہیں
سب نے دیکھا ہے سورج کو بھی ڈھلتے ہوئے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close