Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

مرا پیغامِ محبت ہے جہاں تک پہنچے

محاسبہ…………….سید فیصل علی

دنیا ایک عذاب کے دور سے گزر رہی ہے، انسانیت ایک اعتصابی کیفیت سے دوچار ہے، کورونا کے قہر سے دنیا کا کوئی گوشہ اور کوئی ملک بچا نہیں ہے، اس وبا نے یوروپ اور امریکہ کو سب سے زیادہ تباہ کیا ہے، جہاں متاثرین کی تعداد 15 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، مہلوکین کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، کورونا زدہ ملکوں میں امریکہ سب سے زیادہ متاثر ہے، جہاں متاثرین کی تعداد 5 لاکھ سے اوپر ہے، 18 ہزار سے زائد لوگ مر چکے ہیں۔ یہ بھی قدرت کا عجب غضب کھیل ہے کہ جب جب کوئی آفت نازل ہوتی ہے تو انسان اپنی اوقات میں آجاتا ہے، دوستی دشمنی کی تمیز ختم ہوکر انسانی خدمت میں بدل جاتی ہے اور انسانیت پورے دم خم کے ساتھ ہر تفریق پر حاوی ہو جاتی ہے۔ کورونا وائرس جیسے وبائے عظیم نے نہ صرف دنیا کے چودھری امریکہ تک کو سرنگوں کر دیا ہے، بلکہ وہی امریکہ اب ہندوستان سے مدد لینے پر بھی مجبور ہوچکا ہے۔ آج وقت کا عجیب وغریب منظرنامہ ہے کہ امریکہ، برازیل سمیت 8 ملکوں کو بھارت طبی امداد فراہم کر رہا ہے، دیگر 45 ملکوں نے بھی بھارت سے میڈیل امداد کی اپیل کی ہے۔ بھارت کی اس عالمی سطح پر راحت کاری کو دنیا ستائش کی نظروں سے دیکھ رہی ہے، پاکستان نے بھی بھارت کی اس انسانی خدمت پر ایئر انڈیا کے پائلٹوں کے حوصلے کو سلام کیا ہے، جو جان ہتھیلی پر رکھ کر طبی اشیاء کے ساتھ ان ملکوں میں جا رہے ہیں جہاں کورونا نے ہزاروں زندگیاں نگل لی ہیں۔

لیکن وقت کی ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ بھارت جہاں دنیا میں ادویہ فراہم کرانے میں تاریخی رول ادا کر رہا ہے، وہیں بھارت میں خود چراغ تلے اندھرا ہے، یہاں کورونا کے خوف سے لاک ڈاؤن کے دوران لاکھوں زندگیاں بھوک، ڈپریشن اور بداعتمادی کی شکار ہیں اور مزید ستم تو یہ ہے کہ جس وبا نے آدمی سے آدمی کو دور کر دیا ہے، سوشل ڈسٹینس جس کورونا کا علاج بن چکا ہے، ایسے عالم میں سماج کو بانٹنے کا بھی انسانی سوز کارنامہ جاری ہے۔ میڈیا کی بے لگامی نے ملک کو دہشت اور بداعتمادی کے ماحول میں لا کھڑا کیا ہے۔ ملک میں کورونا کا مقابلہ، سماجی بیداری، اتحاد اور اعتماد کے ساتھ ہی کیا جا سکتا ہے، مگر دہلی کے تبلیغی جماعت کے مرکز کے معاملے کو جس طرح اچھالا گیا اور جتنا اچھالا گیا وہ حد درجہ افسوس ناک ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دہلی کے تبلیغی مرکز کے ذمہ داروں سے کچھ کوتاہیاں بھی ہوئی ہیں۔ اجتماع کے موقع پر آنے والے تبلیغی جماعت کے غیر ملکی افراد کو اگر روک دیا گیا ہوتا تو شاید یہ نوبت نہیں آتی۔ مرکز کے 300 سے زائد افراد کورونا سے متاثر نہیں ہوتے، مگر غلطی تو بہرحال غلطی ہے، جسے تبلیغی مرکز کے ذمہ داروں نے سنجیدگی سے نہیں سمجھا، مگر اس غلطی یا کوتاہی کو لے کر جس طرح سے چوطرفہ حملے ہو رہے ہیں، ملک میں کورنا پھیلنے کا سارا ملبہ تبلیغی جماعت پر ڈالا جا رہا ہے وہ افسوسناک ہے، حالانکہ غیر ملکیوں کی آمد کی اطلاع حکومت کو بھی ہوتی ہے، اس سلسلے میں انتظامیہ نے بھی کوتاہیاں کی ہیں۔ مرکز میں آئے غیرملکیوں کی جانچ ہوئی ہوتی، انتظامیہ نے روک تھام کیا ہوتا تو اتنا بڑا طوفان کھڑا نہیں ہوتا، اس لئے اس غلطی کیلئے جنتا ذمہ دار مرکز ہے، اس سے کہیں زیادہ ذمہ دار ملک کا انتظامیہ بھی ہے۔

تبلیغی جماعت کو لے کر دو طبقوں میں خلیج پیدا کرکے کورونا کی لڑائی جیتی نہیں جا سکتی، بے لگام میڈیا کی کارستانی جگ ظاہر ہوچکی ہے اور اب غلطی یہ ہو رہی ہے کہ اعتماد، حوصلے اور ہمت کے ساتھ کورونا متاثرین کی مدد کرنے کے بجائے تبلیغی جماعت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، مسجدوں کو نشانے پر لیا جا رہا ہے، حالانکہ تبلیغی جماعت کا ایک روایتی طریق کار ہے، اس کے ارکان ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں، مسجدوں میں ٹھہرتے ہیں، اسلامی پیغامات کی تبلیغ کرتے ہیں، مسلمانوں کو پنج گانہ نماز کی تلقین کرتے ہیں، نہ ان کا کوئی سیاست سے لینا دینا ہوتا ہے اور نہ وہ حکومت کی مخالفت یا موافقت کی باتیں کرتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کے لوگ عاقبت کو سنوارنے اور دین کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کے لئے گاؤں گاؤں، قریہ قریہ گھومتے ہیں، اب ایسے دین دار لوگوں کی نیت پر شک کرنا درست نہیں۔ تبلیغی جماعت کو لے کر بہتان آمیز خبریں اب میڈیا کا خاص ایشو بن چکی ہیں۔ تادم تحریر’ زی نیوز‘ کی ایک جھوٹی خبر نے پورے اروناچل پردیش میں ہڑکمپ مچا دیا ہے۔ زی نیوز نے یہ فتنہ پھیلایا ہے کہ اروناچل پردیش میں 12 تبلیغی جماعت کے ارکان کورونا متاثر ہیں، حالانکہ انتظامیہ نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔ انتظامیہ نے ایک مریض کی توثیق کی ہے، مگر یہ نہیں کہا ہے کہ وہ تبلیغی جماعت سے منسلک ہیں۔ چنانچہ آج جہاں عزم و اتحاد کے ساتھ کورونا سے جنگ لڑنے کی بات ہو رہی ہے، وہیں اب تبلیغی جماعت پر انتظامیہ، میڈیا اور سوشل میڈیا تک چوطرفہ حملہ کر رہا ہے۔ تبلیغی جماعت کے ارکان کی تلاش میں مسجدوں میں چھاپے ماری ہو رہی ہے، بے لگام میڈیا یہ تشہیر کر رہا ہے کہ تبلیغی جماعت کے لوگ مسجدوں میں چھپے ہوئے ہیں، حالانکہ اسی میڈیا نے دہلی کے ’مجنو کا ٹیلہ‘ کے گرودوارہ میں 275 افراد کے پناہ گزیں ہونے کی بات کہی تو دوسری سمت اسی میڈیا نے یہ خبر چلائی کہ مرکز اور درگاہ میں ہزاروں لوگ چھپے ہوئے ہیں۔

میڈیا کے ذریعہ تبلیغی جماعت پر ’میڈیا ٹرائل‘ اور دیگر بحث ومباحثہ سے تبلیغی جماعت کے ارکان میں خوف اور بداعتمادی پیدا ہوچکی ہے اور یہ معاملہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بے شک اس معاملے میں متاثرین کی جانچ ہونی چاہیے، لیکن سرکار کو بڑے صبروتحمل اور حکمت عملی سے بھی کام لینا چاہیے، کیونکہ یہ کہنا ایک طرح سے ماحول بگاڑنا ہے کہ مرکز نے جو غلطیاں کی ہیں اس کا خمیازہ ملک بھگت رہا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ باہر ملک سے بھارت آئے ہیں ان کی غلطی کا خمیازہ ملک بھگت رہا ہے۔ خود دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال یہ کہہ چکے ہیں کہ 68 افراد غیر ملک سے آئے ہیں، جس سے 38 خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ ممبئی کے وکاڈ ہاسپٹل کے 52 ڈاکٹر و نرس کورونا سے متاثر ہیں، کیا وہ بھی کسی تبلیغی جماعت کی غلطی کے شکار ہوئے؟ غیر ملکی دورہ کے بعد لکھنؤ آئی معروف گلوکارہ کنیکاکپور نے ایک بڑی پارٹی منعقد کی جس میں وجیہ راجے سندھیا اور ان کے ایم پی بیٹے سمیت سیکڑوں جانی مانی شخصیتیں موجود تھیں، مگر اس طرف کسی کا دھیان نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش کے ایک وکیل نے غیرملک سے آئے رشتہ دار کو اپنے گھر میں چھپا کر رکھا، اس پر بھی میڈیا کی نظر نہیں گئی، مگر برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر۔

بہرحال عالمی سطح پر بھارت کی طبی راحت کاری کی ستائش ہو رہی ہے۔ بھارت کے عوام بھی حکومت کی کورونا کے خلاف جنگ کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں، اس کے لئے بھی بہتر اقدامات کی ضرورت ہے، کیونکہ ملک میں اب کورونا سے زیادہ عوام کو اشیائے خوردنی اور دیگر ضروریات زندگی کا سامنا ہے۔ خاص کر میڈل کلاس اور مزدور طبقہ لاک ڈاؤن سے حددرجہ پریشان ہیں، حالانکہ لاک ڈاؤن کے تحت آن لائن خریداری کی سہولت دی گئی ہے، مگر ایک مزدور اور غریب طبقہ کو آن لائن سے کیا واسطہ۔ بھارت میں بھی وزیرصحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے 15 ہزار کروڑ کی طبی راحت کاری کا اعلان کیا ہے۔کورونا پر فتح عزم وحوصلہ اور اعتماد سے ہی ممکن ہے۔ بہت سارے علاقے سیل کردیئے گئے ہیں، قومی شاہراہوں پر مزدور جہاں تہاں پڑے ہوئے ہیں۔ اشیائے خوردنی کی دکانیں بند کر دی گئی ہیں، اگر لاک ڈاؤن کی میعاد بڑھتی ہے تو سرکار کو بڑے پیمانے پر راحت کاری اور لنگر کی ضرورت پیش آسکتی ہے، کیونکہ اب عام لوگوں میں کورونا سے زیادہ بھوک سے مرنے کا خوف پیدا ہوچکا ہے۔ ایسے میں سماج کے اندر توڑ پیدا کرنے کے بجائے اتحاد اور عزم کی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ بقول جگر مرادآبادی:

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
مرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

 

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close