Khabar Mantra
محاسبہ

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

محاسبہ...........................سید فیصل علی

2019 کا پارلیمانی انتخاب ایک احتساب سے کم نہیں ہے۔ یہ الیکشن طے کرے گا کہ ملک میں گنگا جمنی تہذیب کی خوشبو برقرار رہے گی یا نفرت کی یک رنگی تہذیب ملک کا مقدر بنے گی۔ دیرینہ رواداری، قدیم اقدار و سنسکار کی جیت ہو گی یا ملک سے مسلمانوں کو بھگانے والوں کا ڈنکا بجے گا۔ یہ الیکشن ہندو راشٹر کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گا یا نظام قدرت، نفرت کی سیاست اور ذلت سے دوچار کرے گا۔ دل و ذہن میں ایک عجب کشمکش کا عالم ہے کہ 2019 کا الیکشن کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اسی فکر و نظرکے تحت ہر ذی شعور ایک روحانی کرب سے دوچار ہے اور دعاگو ہے کہ ہندوستان کی عظمت کا پرچم بلند رہے۔ اس کے سیکو لر کردار کا دم خم برقرار رہے۔

12 اپریل کو ہوئے پہلے مرحلہ کے پارلیمانی انتخابات کے رجحانات بتا رہے ہیں کہ اب 2014 والی صورت حال نہیں رہی۔ امید کی کرن پھوٹتی دکھائی دے رہی ہے۔ 20 ریاستوں کی 91سیٹوں کے لئے ہوئے چناؤ میں 2014 کے مقابلہ پولنگ کافی کم ہوئی ہے، جو اس بات کا اشاریہ ہے کہ اس چناوی مہابھارت میں مودی کی پارٹی کو لوہے کے چنے چبانے پڑ رہے ہیں۔ بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں پولنگ 60 فیصد سے زیادہ تجاوز نہیں کر سکی۔ جبکہ 2014 میں ان ریاستوں میں پولنگ 80 فیصد سے زائد ہوئی تھی۔ اب ہم اسے ای وی ایم کا کمال کہیں یا مودی کا اقبال کہیں لیکن اس بار نہ کمال کی رفتار تیز ہے نہ اقبال کی دھمک سنائی دے رہی ہے، نہ الیکشن میں شور شرابہ اور نعروں کی گونج ہے بلکہ ہر سمت ایک پُراسرار خاموشی ہے اور یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے، کسی انقلاب کی آمد بھی ہو سکتی ہے۔

حالیہ الیکشن میں پولنگ کی گرتی شرح، عوام کی خاموشی سے بی جے پی بوکھلا سی گئی ہے۔ مودی کو اقتدار کی منزل تک پہنچانے میں بہار اور یوپی کا اہم رول رہا ہے لیکن یوپی میں اب صرف 60 فیصد تو بہار میں 53 فیصد ووٹ پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی اقتدار والی دیگر ریاستوں مہاراشٹر میں 56 فیصد اور اتراکھنڈ میں 57 فیصد پولنگ نے مودی مقبولیت کے غبارہ کی ہوا نکال دی ہے۔ چنانچہ پورے ملک کو چوکیدار بنانے والے مودی اب ایئر اسٹرائک، اینٹی سیٹلائٹ اور دیگر دفاعی کارناموں کو لے کر ملک کا ہیرو بننا چاہتے ہیں۔ فوج کے سیاسی استعمال کو لے کر 150 سے زائد فوجی افسروں نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور صدر جمہوریہ کو مکتوب بھیج کر گزارش کی ہے کہ وہ سیاست دانوں کو ہدایت کریں کہ وہ سیاسی مقاصد کے تحت فوج، فوج کی وردی یا فوج سے متعلق علامتوں کا استعمال نہ کریں۔ ادھر یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے انڈین آرمی کو مودی سینا کے نام سے منسوب کرکے ضابطۂ اخلاق کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ مگر المیہ تو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس معاملہ میں سخت قدم اٹھانے کے بجائے محض وارننگ دینا ہی اپنی ذمہ داری سمجھی ہے۔

بی جے پی لیڈروں کی زہر افشانی اور الیکشن کمیشن کے موقف پر چندر بابو نائیڈو کا ردعمل بھی اس آئینی ادارے پر سوال کھڑا کرتا ہے۔ نائیڈو نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسا غیر حساس، غیر ذمہ دار اور بے کار الیکشن کمیشن نہیں دیکھا۔ الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر ملک کے سابق 66 اعلی افسروں نے بھی شدید اعتراض کیا ہے۔ انہوں نے مشن شکتی، اینٹی سیٹلائٹ، ایئر اسٹرائک اور نئی نسل کے ذریعہ پہلا ووٹ فوجیوں کے نام پر مودی کی اپیل کو ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ انہوں نے مودی پر بنی فلم، نمو ٹی وی وغیرہ پر پابندی لگانے کے لئے صدر جمہوریہ کو مکتوب بھیجا ہے۔ ان اعلی افسروں نے دو ٹوک کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا رول انتہائی مشتبہ ہے۔ سرعام مثالی ضابطۂ اخلاق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں لیکن الیکشن کمیشن دفعہ 32A کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال نہیں کر رہا ہے تاکہ ملک کے عوام کسی سے متاثر ہوئے بغیر اپنے ووٹ کا استعمال کر سکیں۔ ملک میں فسطائیت کے بڑھتے قدم اور گنگا جمنی تہذیب کی بقا کے لئے فلم انڈسٹری کے800 سے زائد فنکاروں اور 250 سے زائد ادیبوں، مصنفوں اور شاعروں نے عوام سے ملک کے سیکولرازم کو بچانے کے لئے نفرت کے بازی گروں کو ووٹ نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ شاید ملک کے نئے منظر اور دباؤ کا ہی اثر ہے کہ اب الیکشن کمیشن تھوڑا بہت الرٹ ہو چکا ہے۔ اس نے مودی پر بنی فلم پر پابندی لگا دی ہے۔

الیکشن کمیشن کے بدلتے رویہ، ووٹنگ شرح میں کمی اور انتخابات کے رجحان کا ہی اثر ہے کہ بی جے پی کی بِلی تھیلے سے باہر آ چکی ہے۔ اس کے لیڈران مغلظات بکنے لگے ہیں، کھل کر ہندومسلم کارڈ کھیلنے لگے ہیں۔ سوشل میڈیا پر زہریلے پیغامات کی بھرمار ہے، یوپی، بہار میں گٹھ بندھن کی سیاست سے شدید بے چینی ہے۔ سلطان پور سے بی جے پی امیدوار مینکاگاندھی نے تو مسلمانوں کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے ووٹ نہیں دیا تو ان کا کام نہیں ہوگا۔ ساکشی مہاراج نے ووٹروں کو دھمکی دی ہے کہ میں سادھو ہوں ووٹ نہیں دیا تو ’شراپ‘ دوں گا، برباد ہو جاؤ گے۔ گری راج سنگھ نے ’علی-بجرنگ بلی‘ پر منافرت کا نیا فتنہ کھڑا کر دیا ہے لیکن سب سے بڑا فتنہ تو بی جے پی کے گُرو گھنٹال امت شاہ نے پیداکیا ہے ۔انہوں نے اپنی ایک انتخابی ریلی میں بہ بانگ دہل یہ ا علان کیا ہے کہ حکومت بننے کے بعد ہندوؤں، سکھوں اور بودھوں کو چھوڑ کر تمام گھس پیٹھیوں کو ملک سے کھدیڑ دیا جائے گا۔ امت شاہ کے اس بیان کی ہر سمت مذمت ہو رہی ہے۔ اس بیان کو نہ صرف ضابطۂ اخلاق کی بدترین خلاف ورزی سمجھا جا رہا ہے بلکہ ملک کے سیکولر کردار اور مسلمانوں کی حب الوطنی پر بھی ضرب سمجھا جا رہا ہے لیکن یہ خوشگوار نظارہ ہے کہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو بچانے والے بھی موجود ہیں۔ سِکھوں نے امت شاہ کے اس بیان پر سب سے پہلے اعتراض کیا ہے۔ ایک سِکھ سردار کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر فرقہ پرستوں کے منہ پر طمانچہ لگا رہا ہے۔ اس ویڈیو کی زبردست ستائش ہو رہی ہے۔ ایک سِکھ نے امت شاہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی تقریر میں سِکھوں کا نام قطعی استعمال نہ کریں کیونکہ اس ملک کا مسلمان بھی ہمارے اتنا ہی قریب ہے جتنا ایک ہندو یا کسی بھی مذہب کا آدمی۔ ہم سب بھائی ہیں۔ کیرل کی کرسچیئن فورم سمیت ملک کی کئی اہم تنظیمیں نے بھی شاہ کے مسلم مخالف بیان کی مذمت کرتی نظر آ رہی ہیں۔ 2019 کے مہا بھارت میں اب یہ دکھائی دینے لگا ہے کہ نفرت کی بساط بچھانے والوں، ہندو مسلم کا کھیل کھیلنے والوں کو ناکام بنانے والے بھی اب کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔

مگر فسطائیت کے اس کھیل کو ناکام بنانے کے لئے برادران وطن سے زیادہ مسلمانان ہند کو بڑی دانش مندی اور خاموشی سے کام لینا ہو گا۔ مسلم ووٹ تقسیم نہ ہو، اس کے لئے انہیں ذات برادری اور ہر مفاد سے اوپر اٹھ کر کثیر تعداد میں پولنگ کرنی ہو گی۔ انہیں سیمانچل کے مسلمانوں سے درس لینا ہوگا کہ کس طرح انہوں نے2014کی مودی لہر میں اپنے ووٹوں کو منقسم نہیں ہونے دیا۔ خاموش حکمت عملی اور اتحاد کی سیاست سے بی جے پی کے امیدواروں کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا۔ سیمانچل کے مسلمانوں کی وہی خاموش حکمت عملی اور اتحاد کی تقلید وقت کی ضرورت ہے خاص طور پر یوپی اور بہار کے مسلمانوں کو حد درجہ محتاط اور اتحاد کے ساتھ پولنگ کرنی ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ مہاگٹھ بندھن کی سیاست بی جے پی کے رتھ کو روک دے گی لیکن مسلم ووٹوں کے بکھراؤ سے ہندوتو کا یہ رتھ پھر رواں دواں ہو جائے گا۔ یوپی، بہار میں مہا گٹھ بندھن کو تقویت اسی وقت ملے گی جب مسلم ووٹ متحد ہوگا۔ بی جے پی ہمیشہ مسلم ووٹوں کے بکھراؤ کا فائدہ اٹھاتی رہی ہے یا یوں کہیں کہ مسلمانوں کا انتشار بی جے پی کو اقتدار تک پہنچاتا رہا ہے۔ مسلمان یہ غلطی نہ کریں اور اس بار تو معرکہ جمہوریت نوازوں، سیکولرازم کے علمبرداروں کا ہندو راشٹر کے پیروکاروں، فسطائیت کے گناہ گاروں اور نام نہاد چوکیداروں سے ہے۔ بقول شاعر:

یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی تھی

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close