Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

قاتلوں کی جیب میں قانون ہے کیا کیجئے

محاسبہ…………….سید فیصل علی

تین روزہ خونی تشدد اور 45 لوگوں کی جانیں گنوانے اور 300 سے زائد لوگوں کے زخمی ہونے کے بعد دہلی میں شہر خموشاں سا سنّاٹا ہے، ہر سمت ڈرا ڈرا سا منظرنامہ ہے، گروتیغ بہار اسپتال سمیت کئی اسپتالوں میں اپنوں کی تلاش میں فساد متاثرین کی ایک بھیڑ لگی ہوئی ہے، 50 سے زائد افراد کے گم ہونے کی خبریں ہیں، 16 افراد کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی گئی ہے۔ دہلی میں زندگی رفتہ رفتہ لوٹ رہی ہے، مگر یہاں سیاحوں کی آمد نہیں کے برابر ہے۔ کاروبار وتجارت کا گراف زوال پذیر ہے۔ دہلی کے فساد نے سیاحت، تجارت، معیشت اور ہوٹل بزنس کو زبردست جھٹکا دیا ہے، اس فساد کا اثر اجمیر تک پہنچا ہے، جہاں خواجہ معین الدین چشتی ؒ کا 808 واں عرس جاری ہے۔ خواجہؒ کے دربار میں جانے سے قبل محبوب الٰہیؒ کے دربار میں حاضری دینے والے زائرین دہلی آنے سے محروم ہیں۔ بستی حضرت نظام الدین جو اجمیر عرس کے زمانے میں بھری رہتی تھی، آج وہاں سنّاٹا ہی سنّاٹا ہے، کیونکہ 6 دنوں کے بعد بھی 2 طبقوں کے درمیان نفرت کی خلیج کم نہیں ہو رہی ہے۔ حالانکہ زندگی کو پٹری پر لانے کا دعویٰ خوب خوب ہو رہا ہے، پولیس کمشنر تبدیل کر دیئے گئے ہیں، دہلی کے امور ڈووال دیکھ رہے ہیں، قومی سلامتی کے مشیر ڈووال سے لے کر ایل جی انل بیجل تک متاثرین کے درمیان جاکر اعتماد بحال کرنے کی بات کر رہے ہیں، مگر سچائی تو یہ ہے کہ ابھی بھی ایک دوسرے پر بھروسہ قائم نہیں ہوا ہے اور اسی عدم اعتماد کا نتیجہ ہے کہ دہلی کے شیووہار میں 6 دنوں بعد حیوانیت کا کھیل ہوا، دو بھائیوں کو پیٹ پیٹ کر شدید زخمی کردیا گیا، ایک غریب ٹھیلا والا مار دیا گیا۔

دہلی جسے کبھی ”دہلی جو ایک شہر ہے عالم میں انتخاب“ کہا جاتا تھا، اب یہی دہلی ایک عذاب بن کر ملک کے جمہوری اقدار، سیکولر کردار، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، دیرینہ رواداری اور بے مثال گنگا جمنی تہذیب کے آگے سوال بن کر کھڑا ہے، دہلی کا فساد ملک کے آئین، عدل وقانون اور انتظامیہ کو منھ چڑھا رہا ہے، ہرطرف خاموشی اور بے بسی ہے، میں اس فساد پر لکھوں تو کیا لکھوں؟

شاہین باغ کی خواتین کا پرعزم دھرنا 77دنوں سے جاری ہے، شاہین باغ کی تقلید میں دہلی کی کئی جگہوں پر بھی دھرنے اور مظاہرہے چل رہے ہیں، شہریت قانون کے خلاف صدائے احتجاج دہلی والوں کو کتنی مہنگی پڑی ہے، اس کو دنیا والوں نے بھی دیکھا ہے، بھگوا سیاست، بھڑکاؤ بھاشن اور ’ستا کی طاقت‘ کا ہی نتیجہ ہے کہ نارتھ ایسٹ دہلی کی 7سے زائد جگہوں پر سیکڑوں جلے ہوئے مکانات، دکانیں، گاڑیاں، آٹو رکشا، غریبوں کے ٹھیلے، سبزی فروشوں کی رہیڑیاں اور ہزاروں بے گھروں کی دہشت بھری نظریں یہی پوچھ رہی ہیں کہ کیا یہ بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کا انتقام ہے؟ کیونکہ یہ فسادات ان پانچ علاقوں میں ہوئے ہیں، جہاں بی جے پی فاتح ہوئی ہے۔ عام سوال تو یہ بھی ہے کہ پولیس کو دہلی کے دنگوں پر قابو پانے میں اتنا وقت کیوں لگا؟ تشدد بڑھنے کیوں دیا گیا؟ سی اے اے مخالف مظاہرین کے سامنے کپل مشرا دھکمیاں دے رہا تھا اور پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی، دنگائیوں کے ساتھ راگنی تیواری چلاتی رہیں کہ دہلی پولیس لٹھ بجاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں، جو بھی غدار ہے اسے کاٹ ڈالو کاٹ ڈالو کے نعرے بلوائیوں کے جنون میں اضافہ کرتے رہے، پولیس تماشائی بنی رہی، دہلی پولیس کا جانبدارانہ رول دنگائیوں کو حوصلہ بخشتا رہا، جس طرح گجرات فساد میں پولیس نے بلوائیوں کی پشت پناہی کی، کچھ ایسا ہی دہلی میں بھی دیکھا گیا۔ اطلاع کے مطابق مدد کے لئے ساڑھے تین ہزار کالیں پولیس کو کی گئیں، مگر پولیس نے بہت کم پر دھیان دیا۔ سابق آئی پی ایس پبھوتی نارائن کہتے ہیں کہ پولیس کو دنگا کنٹرول کرنے کے لئے گھنٹہ کافی ہوتا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ دہلی جس طرح لہولہان ہوئی، چن چن کر جس طرح ایک طبقے کو نشانہ بنایا گیا، اسے دنگا کہوں یا ایک خاص طبقے کو ڈرانے کے لئے سرکاری حملہ کہوں یا یہ کہوں کہ دہلی میں ایک بار پھر 1984 دہرایا گیا۔

دہلی میں شہریت قانون کے خلاف مظاہرین پر حملہ دہلی کے حالات اور پولیس کی کارکردگی پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں بھی تشویش کا اظہار ہوا۔ سپریم کورٹ نے دوٹوک کہا کہ پولیس نے پروفیشنل طریقے سے اپنا کام نہیں کیا۔ اسے برطانیہ اور امریکہ کی پولیس سے درس لینا چاہیے، جو بغیر کسی دباؤ کے کام کرتی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس مرلی دھر دہلی میں فرقہ پرستی کے ننگے ناچ پر اتنے برہم تھے کہ انہوں نے سخت لہجے میں کہا کہ ہم دہلی میں ایک اور 1984 نہیں دیکھنا چاہتے۔ انہوں نے دہلی فساد کے لئے ذمہ دار اشتعال انگیز بیانات دینے والوں پر فوری ایف آئی آر کی تلقین کی۔ دہلی کو فساد سے بچانے اور عدل وقانون کا رتبہ بلند رکھنے کے لئے جسٹس مرلی دھر نے رات ساڑھے بارہ بجے سے لے کر دوسرے دن تک طویل سماعت کی، مگر سیاست کے آگے عدالت کیا ہے؟ پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھانے والے، مظلومین کو راحت دلانے کی بات کرنے والے جسٹس مرلی دھر کا ہی راتوں رات چنڈی گڑھ ہائی کورٹ ٹرانسفر کر دیا گیا، حالانکہ سرکار یہ تاویل دیتی ہے کہ ان کے تبادلے کی سفارش 12 فروری کو ہی کردی گئی تھی۔ جسٹس مرلی دھر کے تبادلے پر کانگریس سمیت اپوزیشن نے اسے انصاف کا قتل کہا ہے اور کہا ہے کہ اقتدار کے نشے میں چور مودی سرکار آئین، عدلیہ اور شہریوں کے بھروسے کو کمزور کر رہی ہے۔

بہرحال دہلی میں فساد ختم ہو چکا ہے، لیکن دہشت باقی ہے، فساد کی راکھ اب بھی سڑکوں پر نظر آ رہی ہے، جمنا پار کے نالے، گلیوں کے ڈرین لاشیں اگل رہے ہیں، ہر روز کوئی نہ کوئی لاش کی برآمدگی دہشت کو تقویت دے رہی ہے، مگر دھرم کی سیاست کی آڑ میں نفرت کی آگ کے درمیان انسانیت کی آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیں۔ مصطفی آباد میں مسلمانوں نے ایک ہندو لڑکی کی شادی کو منسوخ نہیں ہونے دیا، اندر منڈپ میں شادی ہوتی رہی اور مسلم نوجوان باہر پہرہ دیتے رہے، فساد میں پانچ مسجدوں اور ایک مزار کو نقصان پہنچایا گیا، مگر اس کے باوجود ایک مندر کو بچانے کے لئے مسلم نوجوان سینہ سپر ہوئے، اسی طرح سیکڑوں مسلمانوں کو ہندوؤں نے اپنے گھروں میں چھپا کر دنگائیوں سے بچایا۔ خاص کر سکھوں نے جس طرح فساد متاثرین کے لئے اپنے گرودوارے کھول دیئے، اپنی گاڑیوں سے مسلم خاندانوں کو محفوظ مقامات پر پہنچاتے رہے، وہ بھی حوصلے کی عظیم مثال ہے، جو ہمیں درس دیتی ہے کہ ملک کی تہذیب اتنی جلدی بھگوا نہیں ہونے والی۔ نفرت کی سیاست پر محبت ہرحال میں حاوی رہے گی۔

دہلی کے فسادات کی گونج پوری دنیا میں ہے، اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انٹونیوگوٹریس نے دہلی فساد پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور عوام سے تحمل برتنے اور گاندھی کے نظریات پر چلنے کی تلقین کی ہے۔ مگر یہاں تو گاندھی کے نظریات ہی معتوب زمانہ ہو رہے ہیں اور گاندھی کے قاتل ہیرو بنائے جا رہے ہیں اور یہ بھی ایک تاریخی المیہ ہے کہ جے این یو جیسے سیکولر تعلیمی ادارے کی انتظامیہ نے وہاں کی طلباء یونین کو نوٹس جاری کردیا ہے کہ وہ فساد متاثرین کو شیلٹر نہ دیں، ورنہ کارروائی ہوگی۔ انسایت کی اس سے بڑھ کر توہین اور کیا ہوگی؟ تادم تحریر دہلی کے راجیو چوک میٹرو اسٹیشن پر ’گولی مارو……کو‘ کے نعرے لگائے گئے، دہلی میں آج بھی نفرت کو کم کرنے کے بجائے بڑھانے کی بات ہو رہی ہے، مگر ایک طرف محبت کی خوشبو ابھر ہی رہی ہے تو دوسری طرف فرقہ پرستی کا تعفن بھی ابل رہا ہے، لیکن کریں تو کیا کریں؟ بقول وجے تیواری:

سامنے انسانیت کا خون ہے کیا کیجئے
قاتلوں کی جیب میں قانون ہے کیا کیجئے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close