Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

صلح حدیبیہ اسلامی تاریخ کی روشن مثال

اسلام کی عظمت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے، اسلامی پیغامات، رسول اکرؐم کی سیرت، قرآن کی تعلیمات اور اسلامی تہذیب کو اجاگر کرنے کے لئے سعودی عرب میں ایک دہائی قبل جو منصوبہ سازی ہوئی تھی وہ اب پایہ تکمیل کو پہنچ رہی ہے۔ مذکورہ بالا کاموں کو مشن 2030 کے تحت اب عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ پہلے مرحلہ میں اسلام کی تہذیب و تاریخ کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی جو سعی ہو رہی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ مقام حدیبیہ کے نزدیک کنگ عبداللہ او سس فار ڈائیلاگ کلچرل سینٹر (King Abdullah Oasis cultural Dialogue Centre) کا قیام اسی مقصد کا واضح نتیجہ ہے۔ حدیبیہ معاہدہ اسلامی تاریخ کا وہ روشن معاہدہ ہے، جس پر آج تک بڑے بڑے ماہرین اقتصادیات اور جنگی امور کے ماہر حیرت کرتے ہیں کہ کیسے جیتی ہوئی جنگ کے باوجود حضور اکرم ؐ نے صلح حدیبیہ کی تھی۔ فاتح کبھی صلح نہیں کرتا، حدیبیہ معاہدہ پر 628 عیسوی بمطابق 6 ہجری میں دستخط ہوئے تھے لیکن اس معاہدہ کے پس پردہ عالمی سطح پر بھی اسلامی ظہور کی راہوں میں بندشیں ختم ہو گئی تھیں۔ انسانی ادراک وشعور کا بہترین نتیجہ صلح حدیبیہ ہے۔ طاقت رکھنے کے باوجود صلح کرنا بھی حیرت کی بات ہے لیکن اسلام نے ایسا کر دکھایا۔ اسی تناظر میں اب کنگ عبداللہ اوسس کلچرل ڈائیلاگ سینٹر اسلامی تہذیب کو اجاگر کرنے کا بیڑا اٹھا چکا ہے۔ یہ سینٹر، جس میں حدیبیہ کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی تھی، ماضی میں تاریخی شخصیات کی نشست کا ایک اہم مرکز رہا تھا۔ اب اس سینٹر میں عالمی امن و آشتی اور استحکام کے لئے تاریخی کام انجام دیئے جا رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں اہمیت کا حامل حدیبیہ کی فضیلت کے تناظر میں یہ سینٹر اسلامی پیغامات تہذیب و ثقافت اور تاریخ کو دنیا کے سامنے اجا گر کرنے میں گراں قدر رول ادا کر رہا ہے۔ اسی کے تناظر میں ریاض میں بھی مملکت کے شاہ عبداللہ نے کنگ عبد العزیز نیشنل ڈائیلاگ سینٹر قائم کیا تھا، جہاں ملک کی ترقی کے لئے تعلیم کو ترجیح دینے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے اور خواتین اور صحت کے موضوعات پر غورو خوض کئے گئے تھے۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے، جس کے ابتدائی دور میں صلح حدیبیہ نے اسلام کے فروغ میں جو رول ادا کیا تھا اب اسی حدیبیہ کے تناظر میں سعودی عرب دنیا کے سامنے اسلام کا اصل چہرہ پیش کرنے جا رہا ہے۔ قارئین کو بتاتے چلیں کہ صلح حدیبیہ دراصل امن و امان کی ایسی کوشش تھی جوکہ بظاہر مسلمانوں کے لئے توہین آمیز تھی لیکن اس کے دو ر رس اثرات بھی تھے۔ آج اسی صلح حدیبیہ کی عظمت کے پیش نظر اسلام کے فروغ کے جو کارہائے نمایاں مملکت میں انجام دیئے جا رہے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ شاہ عبد اللہ اوسس سینٹر میں ایک نمائش گاہ، میڈیا پروڈکشن سینٹر، عوامی مذاکرات کا ہال اور ایک ریسٹورینٹ بھی ہے۔ اس سینٹر کو شاہ عبداللہ کے نام سے منسوب کرنا بھی مشن 2030 کے منصوبوں کو آگے بڑھانا ہے۔ شاہ عبداللہ نے 24 مارچ 2008 کو عالمی امن و آشتی اور استحکام کے لئے بلا تفریق مذہب و مسلک کے قائدین کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کیا تھا۔ اسی دوران انہوں نے ریاض میں عالم اسلام اور جاپان کے چھ وفود کے درمیان تاریخی خطاب بھی کیا تھا، اس خطاب کے دوران 80 ممالک کے سربراہ اور مندوبین موجود تھے۔ عالمی اتحاد اور اسلام کا روشن چہرہ، جسے آج فسطائی قوتیں تاریک کر رہی ہیں، اسے اجاگر کرنا اور دنیا کے سامنے پیش کرنا بھی مشن 2030 کا ہی ایک حصہ ہے۔ زیر نظر مضمون اسی تناظر میں مملکت کے ترقیاتی منصوبوں پر محیط ہے:

مملکت سعودی عرب میں کچھ ترقیاتی کاموں کا منصوبہ دس سال قبل ہی تیار کیا جا چکا تھا، جن میں سے بہت سے ترقیاتی کام مکمل کرائے جا چکے تھے اور بقیہ تمام کاموں کو مشن 2030 کے تحت اب عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ مکہ معظمہ کے نزدیک مقام حدیبیہ ہے، جوکہ صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے تعلق سے اسلامی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے۔ اس مقام کی فضیلت اس لئے ہے کہ پیغمبر حضرت محمدؐ اور قریش قبیلہ کے درمیان ایک آفاقی اور تاریخی معاہدہ ہوا تھا۔ اسی فضیلت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس جگہ پر کنگ عبداللہ اوسس فار کلچرل ڈائیلاگ سینٹر (King Abdullah Oasis cultural Dialogue Centre) قائم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ حدیبیہ معاہدہ پر 628 عیسوی (6ہجری) میں دستخط ہوئے تھے، جس کے ساتھ ہی عالمی سطح پر اسلامی ظہور کو فروغ ملنے کی راہ ہموار ہو گئی تھی۔ چنانچہ اسی نظریہ سے سماجی اور دانشورانہ مذاکرات کرنے کے مقصد سے مکہ معظمہ سے کچھ فاصلہ پر شاہ عبداللہ کے نام سے منسوب ایک سینٹر قائم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ اسی سلسلہ میں شہزادہ سعود بن عبداللہ جو کہ اس وقت الجبیل اور ینبع شاہی کمیشن کے چیئر مین تھے، سے مکہ معظمہ کے گورنر شہزادہ خالد ال فیصل نے ملاقات کی تھی اور مکہ معظمہ کے میئر اسامہ ال بار نے اس پروجیکٹ کے تعلق سے تبادلہ خیال کیا تھا۔ اس وقت شہزادہ خالد نے اپنے خیالات ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ایک اہم ترین مقام پر قیام میں آنے والا یہ پروجیکٹ اسلامی تہذیب کو اجاگر کرنے میں اہم رول ادا کرے گا۔‘‘

اس وقت مکہ معظمہ کے گورنر نے اس پروجیکٹ کے خاکہ کا بھی مشاہدہ کیا تھا، جس میں حدیبیہ کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی تھی، جوکہ ماضی میں تاریخی شخصیات کی میٹنگ کا ایک اہم مرکز رہا تھا۔ اس پروجیکٹ کے بارے میں یہ تصور کیا گیا تھا کہ مملکت میں ایک ایسا سینٹر قائم کیا جائے، جہاں پر مملکت کے باشندے اور بیرونی ممالک کے افراد آپس میں تبادلہ خیال کر سکیں اور یہ خیال اس وقت حقیقت میں تبدیل ہوگیا، جب شاہ عبد اللہ اویسس سینٹر میں پورے سال کانفرنسوں اور لیکچروں کا انعقاد ہونے لگا تھا۔ اس سینٹر میں ایک نمائش گاہ، میڈیا پروڈکشن سینٹر، عوامی مذاکرات کا ہال اور ایک ریسٹورینٹ بھی ہے۔ اس سینٹر کو شاہ عبد اللہ کے نام سے منسوب کرنا اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ انہوں نے عالمی امن و آشتی اور استحکام کے لئے مختلف ثقافتوں اور مختلف عقائد کے مقلدین کے درمیان مذاکرات کو فروغ دینے کا کارہائے نمایاں انجام دیا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 24 مارچ 2008 کو شاہ عبد اللہ نے مختلف عقائد کے مقلدین کے درمیان مذکرات کرائے جانے کے آغاز کا اعلان کیا تھا اور اسی دوران انہوں نے ریاض میں عالم اسلام اور جاپان کے چھ وفود کا استقبال کئے جانے کے وقت تاریخی خطاب کیا تھا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ میں ایک دیگر عالمی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس میں 80 ممالک کے سربراہوں اور مندوبین نے شرکت کی تھی۔ نیویارک میں منعقد ہونے والی ایک مذاکراتی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے دہشت گردی اور عالمی تعلقات میں تلخی پیدا کرنے والے عناصر سے مقابلہ کرنے کے لئے عالمی اتحاد قائم کرنے پر زور دیا تھا۔

اس بات کا ذکر کرنا بھی بر محل ہوگا کہ شاہ عبداللہ نے بذات خود بھی ریاض میں کنگ عبد العزیز نیشنل ڈائیلاگ سینٹر قائم کیا تھا، جہاں پر
تعلیم، بے روزگاری، خواتین اور صحت کے موضوعات اور مسائل سے وابستہ بہت سے مذاکرات اور مباحثے ہوئے تھے تاکہ ان عالمی مسائل کو حل کرنے کا کوئی طریق کار اختراع کیا جا سکے۔ حدیبیہ میں شاہ عبد اللہ اوسس فار ڈائیلاگ سینٹر قائم کرنے کے نظریہ کو صلح حدیبیہ کے معاہدہ سے ہی تقویت ملی تھی۔

جب صلح حدیبیہ کے معاہدہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے پہلے کی تاریخی جانکاری حاصل کرنا بھی ضروری ہو جاتی ہے۔ مکہ سے ہجرت کرنے کے بعد پیغمبر اسلام ؐ نے 6 سال تک مدینہ میں قیام کیا تھا اسی دوران آپؐ نے ایک کشفی تخیل میں اس بات کا مشاہدہ کیا تھا کہ آپؐ بلا کسی مزاحمت کے کعبہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس کو ایک اچھی علامت سمجھتے ہوئے آپؐ نے عمرہ کرنے کا قصد کیا تھا۔ آپ ؐ کی اس مسافت کے نتیجہ میں ہی حدیبیہ معاہدہ وجود میں آیا تھا۔ اسی معاہدہ کے تحت اس بات کی بھی وضاحت کر دی گئی تھی کہ آئندہ سال آپؐ اپنے صحابہ کرامؓ کے ہمراہ احرام زیب تن کرکے بلا کسی مزاحمت کے کعبہ شریف میں داخل ہو جائیں گے اور مکمل ارکان پورے کریں گے لیکن معاہدہ سے قبل آپؐ کے سامنے کچھ دشواریاں آگئی تھیں۔اہل مکہ کو جب آپ کی آمد کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں (قریش) نے خالد بن ولید (جو کہ دوسال بعد مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے) کی قیادت میں 200 گھڑ سوار فوجیوں کو طاقت کے بل پر آپؐ کو اور صحابہ کرامؓ کو مکہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے بھیج دیا تھا۔ چونکہ پیغمبر اسلام ؐ کا معرکہ آرائی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ لہذا آپؐ نے راستہ بدل دیا اور حدیبیہ کے میدان میں قیام کیا تھا۔

پیغمبر اسلامؐ اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ آئندہ چند دنوں تک حدیبیہ میں ہی قیام کرتے رہے، اس کے بعد پھر مسلمانوں اور قریش کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے تھے۔ ابتدائی گفت وشنید مکمل ہونے کے بعد پیغمبر اسلامؐ نے قریش کے پاس حضرت عثمان بن عفان کو روانہ کیا تھا لیکن جب ان کی واپسی میں غیر معمولی تاخیر ہو گئی تو یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں شہید کر دیا گیا ہے۔ یہ افواہ سن کر پیغمبر اسلامؐ نے اپنے تمام صحابہ کرام ؓکو جمع کیا اور جنگل میں ایک کیکر کے درخت کے سائے میں تشریف فرما ہوکر ان سے ’’بیعت ال رضوان‘‘ لی۔ قرآن کریم (XLVII:18) نے اس بیعت کی تصدیق کی ہے۔ جب حضرت عثمان بن عفانؓ واپس آگئے تو یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ مکہ کے قریش معاہدہ کرنے کے لئے تیار تھے، جس میں سمجھوتہ پر دونوں جانب سے دستخط ہوئے تھے۔ وہی حدیبیہ معاہدہ کے نام سے معروف ہوا تھا، جس کی شرائط و ضوابط مندرجہ ذیل تھے۔

سب سے پہلی بات تو یہ تھی کہ دس برسوں تک امن و امان برقرار رکھا جائے گا۔ اس دوران مسلمان مکہ جاسکتے ہیں اور قریش مسلم علاقوں سے ہوتے ہوئے شام جا سکتے ہیں، یکطرفہ حوالگی کی جائے گی، پیغمبر اسلامؐ کی پناہ میں آنے والے مکہ کے باشندوں کو مطالبہ کرنے پر قریش کے حوالے کر دیا جائے گا لیکن وہ مسلمان جوکہ قریش کی پناہ میں ہیں انہیں واپس سپرد نہیں کیا جائے گا۔ کوئی بھی قبیلہ، جوکہ مکہ والوں یا قریش کے ساتھ معاہدہ کرنے کا خواہش مند ہوگا وہ ایسا کرنے کے مجاز ہوں گے۔ اسی مدت کے دوران حضرت ام کلثوم بنت عقبیٰ بن ابو موث، جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ وہ پیغمبر حضرت محمدؐ کی پناہ میں آگئی تھیں۔ ان کے رشتے دار حضورؐ کے پاس آئے اور ان کو واپس بھیجنے کے لئے کہا لیکن پیغمبر اسلام ؐ نے انہیں واپس نہیں بھیجا کیوں کہ خواتین کے تعلق سے اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی نازل ہو گئی تھی (سورۃ ممتحنہ: آیت 10) مکہ کی مسافت طے کرنے سے قبل حضور اکرمؐ نے جو کشفی خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر حدیبیہ معاہدہ کی شکل میں مکمل ہو گئی تھی اور ساتویں ہجری میں مسلمانوں نے اولین پُر امن اور پر سکون عمرہ کیا تھا۔

اسلام کی تاریخ میں مستقبل کے لئے حدیبیہ کا معاہدہ نہایت اہمیت کا حامل ثابت ہوا تھا، ا س سے قبل اپنا مقصد پورا کرنے کے لئے اس طرح سے متحد نہیں ہو سکے تھے لیکن صلح حدیبیہ کے بعد ان کے درمیان زبردست استحکام پیدا ہو گیا تھا۔ چھ برسوں کی کاوشوں کے بعد مکہ اور مدینہ کے درمیان تعلقات زبردست طریقہ سے استوار ہو گئے تھے۔ اس کے بعد اسلامی تبلیغ کرنے کے لئے دروازے وا ہو گئے تھے۔ دونوں اطراف کے لوگ آزادی کے ساتھ رابطہ کرنے کے مجاز ہو گئے تھے اور نو مسلم پیغمبر اسلام ؐ کے اردگرد جمع ہونے لگے تھے، جن کی تعداد پہلے سیکڑوں میں تھی اور بعد میں ہزاروں میں ہو گئی تھی۔ اس معاہدہ کی وجہ سے پورے عرب میں اسلام کو اخلاقی اور سیاسی فتح حاصل ہو گئی تھی۔ حالانکہ قریش مکمل طور پر اس معاہدے کی حمایت میں تھے لیکن زیادہ تر مسلمان اس معاہدہ کے شرائط و ضوابط سے خوش نہیں تھے۔ جب ایسی صورتحال پیدا ہو گئی تھی تو پیغمبر اسلامؐ نے انہیں یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ آپ نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر کیا ہے اور جن شرائط و ضوابط سے وہ ناراض ہیں وہ مسلمانوں کے حق میں ہیں۔ بعد کے واقعات سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ یہ معاہدہ ہی فتح مکہ کا پیش خیمہ تھا۔ معاہدہ سے قبل قریش قبائلیوں پر یہ دباؤ بنا رہے تھے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ اتحاد نہ کریں۔ اس معاہدہ کے توسط سے ہی قبائلی مسلمانوں اور قریش سے اتحاد کرنے لگے تھے۔ حالانکہ اس معاہدہ میں کچھ ایسے رموز پوشیدہ تھے، جن کے سنگین نتائج ہو سکتے تھے لیکن بعد میں حالات نے کچھ اس طرح سے کروٹ لی، جس نے مکہ فتح کرنے کی راہ ہموار کر دی تھی۔

اس معاہدہ کے تحت یہ شرط رکھی گئی تھی کہ اگر کوئی مسلمان قریش کی پناہ میں آجاتا ہے تو اسے واپس مسلمانوں کے پاس نہیں بھیجا جائے گا لیکن اگر کوئی قریش مسلمانوں کی پناہ میں آتا ہے تو اسے واپس قریش کے پاس بھیج دیا جائے گا۔ ظاہری طور پر یہ شرط مسلمانوں کے خلاف تھی لیکن ایسا نہیں تھا۔ یہ بات بالکل واضح تھی کہ اگر کوئی مسلمان قریش کی پناہ میں جانا چاہتا ہے تو یہ معاملہ صاف طور پر ارتداد کا ہوتا اور اس کو واپس کرنے کے لئے دباؤ ڈالنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن جب کوئی قریش مسلمانوں کی پناہ میں آجاتا اور واپس ہو جاتا تو ایسی صورت میں دو امکانات پیدا ہو جاتے۔ اول تو یہ کہ اگر اسلام میں اس کا عقیدہ مضبوط ہو گیا ہے تو وہ نہ صرف قریش کے درمیان مسلمان ہی رہے گا بلکہ وہ دیگر لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دے گا اور اگر اس کا ایمان پختہ نہیں ہے تو اسلام کو اس سے چھٹکارا مل جائے گا۔

حضرت ابو بکر صدیق نے حدیبیہ معاہدہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’اسلام کی کوئی بھی فتح حدیبیہ معاہدہ سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ انسان ہمیشہ جلدبازی کرتا ہے لیکن خداوند قدوس اس کے پختہ ہونے کا انتظار کرتا ہے۔ ماضی میں مسلمانوں اور دیگر لوگوں کے درمیان ایک دیوار حائل تھی۔ وہ ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کرتے تھے اور جب کبھی بھی ملتے تھے تو آپس میں لڑنے جھگڑنے لگتے تھے۔ آخر کار وہ عداوت ختم ہو گئی اور تحفظ نیز اعتماد کی فضا قائم ہو گئی۔ ایک عام فہم شخص جس نے بھی اسلام کے بارے میں سنا تھا وہ بھی حلقہ ٔاسلام میں داخل ہو گیا۔ 22 ماہ کی جنگ بندی کے دوران سابقہ مدت کے مقابلے بہت سے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے تھے اور چاروں طرف اسلامی عقیدہ خود بخود پیدا ہوگیا تھا۔

شاہ عبداللہ اوسس فار کلچرل ڈائیلاگ سینٹر کے قیام کے تعلق سے حدیبیہ کا ذکر کرنا اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے تاکہ یہ بات باور کرائی جائے کہ مذاکرات سے مشکل ترین مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں۔ یہ اسلامی تاریخ کی ایک ایسی روشن مثال ہے جو کہ نہ صرف اہل اسلام بلکہ اقوام عالم کو بھی آفاقی ضابطہ کے تحت راہ راست دکھاتی ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close