Khabar Mantra
محاسبہ

سرخ رو ظل الٰہی ہوں گے

محاسبہ...........................سید فیصل علی

60 گھنٹے تک پاکستان کی گرفت میں رہنے کے بعد ونگ کمانڈر کی ہندوستان وطن واپسی ہو چکی ہے۔ ملک میں ابھینندن کی واپسی کا شاندار ابھینندن ہو رہا ہے۔ ابھینندن نے پاکستان کے سامنے جو حوصلہ دکھایا ہے، حب الوطنی کا جو مظاہرہ کیا ہے اس جذبہ کو سلام۔ بے شک ابھینندن کی واپسی کے ساتھ ہند۔پاک کے درمیان بڑھتا تناؤ کم ہونے کی رمق پیدا ہو چکی ہے اور پاکستان امن کی طرف ایک قدم آگے بڑھا چکا ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ امن کے مقصد سے ہی ابھینندن کو ہندوستان کو سونپ رہے ہیں۔ حالانکہ اس سے قبل ابھینندن کی واپسی کو لے کر پاکستان نے کئی شرطیں رکھیں، بیانات بدلے اور بنا شرط رہائی کا فیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ اس فیصلہ کے لئے پاکستان پر سخت عالمی دباؤ تھا۔ پی-5 کے ملکوں، جس میں امریکہ، فرانس، برطانیہ، روس اور چین شامل ہیں، انہوں نے پاکستان پر دباؤ تو ڈالا ہی، وہیں’’پیک چینل ڈپلومیسی‘‘ کا بھی اہم رول رہا۔

امریکہ، یو اے ای اور سعودی عرب نے پاکستان کے اوپر زبردست دباؤ بنایا کہ بالآخر ابھینندن کی بنا شرط واپسی ہوئی خاص کر سعوری عرب نے ابھینندن کی رہائی میں جو کلیدی رول ادا کیا، جنگ کی بھڑکتی آگ کو بجھانے میں جو تیزی دکھائی وہ ہند۔پاک دونوں کے لئے احسان عظیم سے کم نہیں ہے۔پرنس محمد بن سلمان نے ذاتی طور پر مداخلت کرکے رہائی کو یقینی بنانے کے لئے جونیئر وزیر خارجہ عادل ال جبیر کو جمعرات کو پاکستان روانہ کر دیا اور ہم اسے اتفاق نہیں کہہ سکتے کہ اسی وقت سعودی عرب کے سفیر برائے ہند ڈاکٹر سعود الساطی پرنس کے خصوصی پیغام کے تحت وزیر اعظم مودی سے ملاقات کر رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ ساری حکمت عملی اور ڈپلومیسی کا ہی کرشمہ تھا کہ امن کی پیش رفت کامیاب ہوئی، ابھینندن گھر لوٹے مگر اس واپسی پر سیاست کا بازار گرم ہے۔ فتح کے شادیانے بج رہے ہیں، سوشل میڈیا پر حکومت کی واہ واہی ہو رہی ہے لیکن ہمیں کسی حال میں خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب پاکستان نے جنگی قیدیوں کو واپس کیا ہے۔ اس سے قبل 1999 کی کارگل کی جنگ میں نچیکیتا کی پاکستان سے واپسی ہوئی تھی اس کے علاوہ کئی دیگر جنگی قیدی بھی واپس آئے ہیں۔ اس لئے ابھینندن کی واپسی کو جیت اور شکست کے طور پر تولنا عالمی سطح پر ہوئی امن کی کاوشوں اور حالات کی نزاکت کو نظر انداز کرنا ہوگا۔

ہمیں یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ عمران خان نے بہت چالاکی سے ریورس سوئینگ، جس کے وہ ماہر رہے ہیں، گیند پھینک کر جنگ نوازوں اور پاکستان مخالفین کو کلین بولڈ کر دیا ہے ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ عمران خان نے اپنے مثبت رویے سے عالمی سطح پر ایسا تاثر ضرور دے دیا ہے، جس سے دہشت گردی کے تعلق سے اقوام عالم کے تیور ڈھیلے ضرور پڑگئے ہیں، عمران کا قد بڑھ چکا ہے سفارتی سطح پر ان کی پوزیشن معتبر ہو چکی ہے، جس کے نتائج یا فائدہ پاکستان کو مل سکتا ہے۔ جیت کی بغلیں بجانے کے بجائے ہماے لئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے خواہ کسی بھی دباؤ میں فیصلہ کیا لیکن بڑا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنی لیڈرشپ کو مستحکم کر دیا ہے پاکستان کو بچا لیا ہے، اسی فیصلہ کو اگر ہندوستانی تناظر میں دیکھا جائے تو میڈیا اور داخلی سیاست، اس کے نفع نقصان کا جو پریشر ہوتا ہے، اس دباؤ میں ہم کیا اس طرح کا فیصلہ کر پاتے؟

اچھی بات تو یہ ہے کہ ہندوستان میں جنگ۔جنگ کی باز گشت گُونج رہی تھی وہیں پاکستان میں جلسہ، جلوس اور سوشل میڈیا کے ذریعہ ابھینندن کی رہائی کی گوہار لگائی جا رہی تھی، جو ایک بہت خوش آئند بات ہے۔ ابھینندن کی واپسی نے دونوں ملکوں میں ہونے والی جنگ کو بھی ٹال دیا ہے اور ایک موقع فراہم کیا ہے کہ بات چیت اور مذکرات کے ذریعہ ہی امن کی راہیں ہموار کی جائیں۔ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ابھینندن کے معاملہ میں میڈیا کا جو نا عاقبت اندیش رول رہا خاص کر اینکر حضرات جو زیادہ تر ’’وار رپورٹنگ‘‘ کے حوالہ سے قطعی نابلد ہیں، چیخنے چلانے، نشریاتی دہشت پھیلانے میں ماہر ہیں انہوں نے تناؤ بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ دو پڑوسی ممالک میں جنگ ہو ہی جائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان اینکر حضرات اور راج نیتاؤں کے کسی سگے نے بھی کبھی فوج کا رُخ نہیں کیا ہوگا۔

عام لوگوں کے بچے ہی آرمی میں جاتے ہیں اور سرحد پر وطن کے محافظ بن کر ڈٹے رہتے ہیں۔ غور کیجئے جب ابھینندن کی خون میں لت پت پہلی تصویر ان کے گھر والوں نے دیکھی ہوگی تو ان پر کیا قیامت گزری ہوگی مگر واہ رے ہمارے ٹی وی کے اینکر حضرات جن سوالوں کا جواب پاکستانی فوج کے قبضہ میں ہونے کے باوجود جاں باز ابھینندن نے نہیں دیا خواہ ان کے شہر، ان کے حوالہ سے ہو ان ساری چیزوں کی ایک ایک جزئیات ہندوستانی میڈیا نے ایک ایک کرکے ساری دنیا کو بتا دیا۔ انہوں نے اتنے پر ہی اکتفا نہیں کیا کوئی اینکر ممبئی سے، کوئی گوالیار سے، کوئی آگرہ سے میزائل داغ رہا ہے۔ جیسے کہ ٹی وی گرافک کے ذریعہ ہی جنگ جیت لی جائے گی۔

ہمیں مبارکباد دینی چاہیے کہ اپنی بہادر فوج، اپنے جانباز پائلٹوں کو، جنہوں نے مشکل گھڑی میں ملک کا پرچم بلند کیا۔ ہمیں مذمت کرنی چاہیے ان سیاسی بازی گروں کی، جو فوج کی قربانیوں کو اپنے اقتدار کی سیڑھی بنا رہے ہیں۔ ہند-پاک ٹکراؤ پر اپنی سیٹوں کی گنتی شروع کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے جمہوری و تکثیری ماحول میں لاشوں پر سیاست ہو رہی ہے۔ جنگ کی بساط پر نفرت کے مہرے بٹھائے جا رہے ہیں۔ سارا ملک ابھینندن کی واپسی کی دعائیں کرتا رہا ہے۔ جنگ کے بعد کے خطرات پر فکر مند ہے۔ ہر ذی شعور جنگ کی خوفناکی سے سہما سمہا سا ہے، لیکن سیاسی بازی گر لاشوں پر چڑھ کر اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملک میں بے حسی کا ایسا منظر نامہ تشویش ناک ہے۔ ایسے عالم میں ہر ذی شعور جمہوری فکر و نظر رکھنے والا ہر فرد ملک کی نئی تہذیب کا شکار ہر مظلوم بھلے ہی بے بس ہے لیکن وہ لاشوں پر سیاست کی مذمت کر رہا ہے، جنگ پر لعنت بھیج رہا ہے۔ بقول موج رامپوری:

جنگ میں قتل سپاہی ہوں گے
سرخ رو ظل الٰہی ہوں گے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close