Khabar Mantra
محاسبہ

سرخ رو ظل الٰہی ہوں گے

محاسبہ...........................سید فیصل علی

مودی حکومت نے ملک میں دوسری پاری کا آغاز کر دیا ہے۔ نئی وزارت نے قلم دان سنبھال لیا ہے لیکن تشویش ناک امر تو یہ ہے کہ راشٹرواد کا نعرہ لگاکر ہندوتو کی گنگا بہاکر الیکشن جیتنے والی بی جے پی کے صدر امت شاہ کے کندھے پر راشٹرواد سنبھالنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ ملک میں ان کی حیثیت نمبر دو کی ہو چکی ہے۔ امت شاہ اس عہدے پر سرفراز ہو چکے ہیں، جہاں تمام آئینی ادارے ان کے ابروئے ہدایت کے محتاج ہوں گے۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب تین طلاق، یکساں سول کوڈ، آرٹیکل 370، 35A کے علاوہ این آر سی کا مسئلہ مزید گرم ہوکر ہندوتو کی سیاست کو تقویت دے گا۔ اگرچہ مودی کے 58 رکنی کابینہ کو ایک مضبوط اور پائیدار کابینہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن راجناتھ کی جگہ امت شاہ کو نمبر دو کی حیثیت دینا اس بات کا غماز ہے کہ اس دور میں ہندوتو کے کھیل کو فتحیاب کرانے کی حدیں پار کر دی جائیں گی۔ یہی تشویش ہر ذی شعور کے ذہن کو ڈنک مار رہی ہے۔

اروند کجریوال نے دوران الیکشن عوام سے ملک کی بدلتی تہذیب اور ہندوتو کی لہر کو روکنے کی اپیل کی تھی۔ انہوں نے 10 مئی کو ایک ٹوئٹ کے ذریعہ انتباہ دیا تھا کہ اگر بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آئی تو یقیناً امت شاہ ملک کے وزیر داخلہ ہوں گے، اس لئے سوچ لیجئے پھر کیا ہوگا؟ کجریوال کی پیش گوئی صد فیصد درست ثابت ہوئی۔ امت شاہ نے وزیر داخلہ کا قلم دان سنبھال لیا ہے۔ چنانچہ اب راشٹرواد کے نام پر کیا کھیل تماشے ہوں گے یہ تشویش کا موضوع ہے۔ حالانکہ راشٹرواد اور ہندوتو کے نام پر کھیل تماشوں کا آغاز 25 مئی سے ہی شروع ہے۔ ماب لنچنگ، مسلم دشمنی کے درجنوں واقعات ابھرنے لگے ہیں۔ دہلی کی ناک کے نیچے گڑ گاؤں میں ایک روزے دار مسلم نوجوان برکت کی اس وقت پٹائی کی گئی جب وہ افطار کے بعد مسجد جا رہا تھا۔ اسے جے شری رام بولنے پر مجبور کیا گیا، اس کی ٹوپی اتار کر پھینک دی گئی اور یہ وارننگ دی گئی کہ وہ ٹوپی پہن کر اس راستے سے نہ گزرے۔

نام نہاد ہندوتو کے علمبرداروں نے دہلی کے کناٹ پلیس میں مقیم ایک ڈاکٹر کو جے شرری رام بولنے پر مجبور کیا۔ مدھیہ پردیش کی شیونی میں ایک مسلم عورت یرغمال بنائی گئی، کئی لوگوں کی پٹائی کی گئی۔ ناگور میں بھی ایسا ہی شرمناک واقعہ پیش آیا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اب نتیش کمار کے بہار میں بھی ماب لنچنگ کے خونی واقعے ہونے لگے ہیں۔ وہاں بھی ہر دوسرے تیسرے دن مسلم دشمنی کا کھیل دکھایا جا رہا ہے۔ مہاگٹھ بندھن کی ہار کے بعد بہار میں نفرت کی آگ تیزی سے بھڑکائی جا رہی ہے۔ گری راج سنگھ کی جیت کے بعد 27 مئی کو بیگو سرائے میں ایک پھیری والے کو اس کا نام پوچھ کر گولی مار دی گئی۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان تھا، اس کا نام قاسم تھا۔ گولی مارنے کے بعد اسے گالیاں بھی دی گئیں کہ تیری جگہ تو پاکستان ہونی چاہیے اور اب تو حد ہو گئی ہے کہ گاندھی کے قاتلوں کو ہیرو بناکر پیش کیا جا رہا ہے جگہ جگہ گوڈسے کے مجسمے بنانے کی بات چل رہی ہے ہندوستانی نوٹ پر گاندھی کے بجائے ساورکر کی تصویر لگانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ 35 سالہ فوجی خدمات انجام دینے اور کارگل میں لڑنے والے ثنااللہ اور ان کے اہل خانہ کو غیر ملکی قرار دیا جا رہا ہے۔

کہنے کو یہ این ڈی اے کی حکومت ہے مگر اس میں 93 فیصد وزرا ء بی جے پی کے ہیں۔ 34 رکنی کابینہ میں 28 اونچی ذات کے ہیں۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس والی سرکار میں اونچی ذات کا دبدبہ کتھنی اور کرنی کے برعکس ہے۔ حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ اس وزارت میں نصف سے زائد وزراء داغدار شبیہہ کے ہیں۔ کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ معروف زمانہ گراہم اسٹینس کو زندہ جلانے میں ملوث بجرنگ دل کا سارنگی بھی وزارت میں شامل کر لیا جائے گا۔ سارنگی کا وزارت میں ہونا بھی کرشمہ سیاست ہے اور وقت کا المیہ یہ بھی ہے کہ وزیر داخلہ کے عہدے پر ایک ایسا شخص سرفراز ہے جو ہمیشہ عدل و قانون کے کٹہرے میں نظر آتا رہا ہے۔ امت شاہ کا وزیر داخلہ ہونا اس تشویش کو مزید تقویت دیتا ہے کیا ملک کے مظلوم طبقہ کے ساتھ انصاف ہو گا؟ یا پھر ہندوتو اور راشٹرواد کے نام پر نئی بساط بچھائی جائے گی اور ملک کا امن و سکون تشویش کے میزان پر ڈولتا ہی رہے گا۔

آج کی سیاست کا المیہ کہیں کہ وزارت داخلہ کی کرسی پر وہ شخص براجمان ہے جسے کبھی تڑی پار کیا گیا تھا، جس پر گجرات میں فرضی انکاؤنٹر، دنگے فساد کی سازش رچنے کے الزام لگتے رہے ہیں۔ تلسی پرجاپتی قتل سے لے کر سہراب الدین معاملہ تک اس کی آستین خون سے بھیگی رہی۔ یہ اور بات ہے کہ اقتدار و سیاست کے سائے میں کئی معاملات میں انہیں کلین چٹ دے دی گئی ہے۔ ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ بہار میں مظلوموں کی آواز اٹھانے والے لالو پرساد کی مسلسل قید و بند سے بی جے پی کو زبردست تقویت ملی ہے اور سیکولر قوتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ وزارت داخلہ میں چھوٹے صاحب کی کرسی اس شخص کو دی گئی ہے، جس پر کئی سنگین معاملات درج ہیں۔ بہار کے نتیا نند رائے داخلی امور کے وزیر مملکت بنائے گئے ہیں، جن پر تین کریمینل معاملات ہیں۔ ان پر اغوا، رنگ داری اور سرکاری عملے کے ساتھ مارپیٹ کا مقدمہ بھی درج ہے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کے سامنے حلف نامہ میں اس کا اعتراف بھی کیا ہے، مگر اسے سیاست کی کرشمہ سازی کہیں یا اقتدار کی طاقت کہ سنگین مقدمات میں ملوث لیڈران آج وزارت داخلہ کے سلطان ہیں مگر قارئین نہیں بھولے ہوں گے یکم جون 1996 کو دیوگوڑا حکومت وجود میں آئی تھی تو بہار کے تسلیم الدین وزیر داخلہ بنائے گئے تھے۔ ان کے وزیر داخلہ بنتے ہی پورے ملک میں انہی بی جے پی والوں نے طوفان کھڑا کر دیا تھا حالانکہ تسلیم الدین پر قتل، دنگا فساد کا کیس نہیں تھا معمولی مقدمات تھے مگر بی جے پی کی طوفان بدتمیزی سے بالا آخر تسلیم الدین کو 40 دن کے اندر مستعفی ہونا پڑا۔ تسلیم الدین کو وزیر داخلہ بنائے جانے پر لالو یاد کی بھی کافی لے دے ہوئی تھی۔ اب وزارت داخلہ میں امت شاہ کے ساتھ ساتھ نتیا نند رائے بھی آچکے ہیں، جن پر سنگین مقدمات ہیں۔

یہ کیسی دو رخی قیادت اور سیاست ہے کہ ایک طرف وزارت سازی سے قبل مودی پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں این ڈی اے کے نو منتخب ارکان کے سامنے آئین پر ہاتھ رکھ کر سب کا ساتھ سب کا وکاس کی تلقین کر رہے تھے اور اپنے ساتھیوں سے کہہ رہے تھے کہ ملک کا مسلمان دہشت کے عالم میں ہے، انہیں دہشت کے ماحول سے نکالنا ہو گا ان کا اعتماد جیتنا ہو گا مگر سوال تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ مسلسل ناانصافی کے ماحول میں اعتماد کی بات کیسے ہو سکتی ہے۔ مودی کی شان دار جیت میں مسلمانوں کا اہم رول ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث بھی چل رہی ہے کہ مسلم خواتین نے مودی کی زبردست حمایت کی ہے۔ مسلمانوں کے دس فیصد ووٹ بی جے پی کے کھاتے میں گئے ہیں مگر اس جھوٹی تشہیر پر کون یقین کرے گا۔ ای وی ایم میں دس فیصد مسلم ووٹ فیڈ کر دیئے گئے ہوں یہ الگ بات ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دھوپ کی شدت اور رمضان کے مہینے میں قطار میں کھڑے ہوکر مسلمانوں نے بی جے پی کو نہیں بلکہ انصاف اور امن کی بات کرنے والوں کو ووٹ دیا ہے۔ مسلمانوں کو بی جے پی کا ساتھ دینے کا جو پرو پیگنڈا ہو رہا ہے اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ مسلمانوں کو غلط فہمی یا خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمانوں کا بھروسہ جیتنے کی بات کر نے والے وزیر اعظم 2014 میں بھی لال قلعہ کی فصیل سے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا اعلان کر چکے ہیں مگر ہوا کیا؟پانچ برسوں میں وکاس تو نہیں مسلمانوں کا ’سروناش‘ ضرور ہوا۔ اب مسلمانوں کا اعتماد جیتنے کا شگوفہ سیاسی بساط کا حصہ ہے، سیکولر قوتوں سے مسلمانوں کو دور رکھنے کی سازش ہے۔ وزیر اعظم کا جملہ یعنی مسلمانوں کا بھروسہ جیتنے کی بات پر بڑھ چڑھ کر مبارکباد کا جو سلسلہ دراز ہوا ہے وہ بھی اخلاقی جرأت کے فقدان کا دلسوز منظر نامہ ہے۔ اہل مصلحت کی یہی ساری سرگرمیاں، خوشامدانہ انداز، فدویانہ طور طریق اہل سیاست کی نظروں میں مسلمانوں کو بے توقیر، بے وزن اور بے ضمیر ثابت کرتے رہے ہیں۔ مسلمانوں نے ہمیشہ اس ملک کی تہذیب، رواداری، سیکولرزم اور جمہوریت کے پاسداروں کی حمایت کی ہے۔ مسلمان کبھی یک رنگی تہذیب کے علمبرداروں کے ساتھ نہیں ہو سکتے۔ ویسے بھی راشٹرواد ہندوتو کے نام پر نفرت پھیلانے والے اور پلوامہ کے نام پر ووٹ مانگنے والوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو حاشیے پر رکھنے کی سیاست کی ہے۔ آج کا مسلمان سب سمجھ رہا ہے اور سوچ رہا ہے کہ ہندو مسلم کی تفریق کی سیا ست کے بل بوتے اقتدار میں آنے والے کیا مسلمانوں کے ہمدرد ہو سکتے ہیں۔ مسلمانوں کی تباہی پرہی تو ان کا قصرسلطنت قائم ہے۔ بقول شاعر:

جنگ میں قتل سپاہی ہوں گے
سرخ رو ظل الٰہی ہوں گے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close