Khabar Mantra
محاسبہ

زندگی خود بھی گناہوں کی سزادیتی ہے…

محاسبہ...........................سید فیصل علی

جس دن مودی جی کی مخصوص اقتصادی پالیسی ’مودی نامکس ‘ کے تحت عالمی اور ہندوستانی معیشت کی ترقی،عالمی امن،انسانی بہبود میں بہتری اور ہندوستان میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے پُر وقار ’سیول پیس ایوارڈ‘ کا اعلان ہوا، اسی دن 8سالہ معصوم محمد عظیم کو مذہبی نفرت کے شیطانوں نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا تھا۔ گزشتہ چاربرسوں میں ماب لنچنگ کے 234واقعات ہوئے،جن میں 134لوگ ہجومی تشدد کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ 840 افردا زخمی ہوئے،لیکن 24اکتوبر کا یہ واقعہ بہت انوکھا ہے اور ان تمام ماب لنچنگ کے واقعات کو پس پشت کر دیتا ہے نیز یہ دہائی بھی دیتا ہے کہ اقتدار وسیاست کا یہ کون سا نفرت انگیز رقص چل رہا ہے،جس میں معصوم بچے بھی روندے جا رہے ہیں۔ بربریت،وحشت کی انتہا ہے کہ علی الاعلان یہ دھمکی دی جا رہی ہے ’ابھی تو ایک مرا ہے اور ماریں گے،تم دیکھو گے ہم کیا کیا کریں گے‘۔ عظیم کی اندوہناک موت کے بعد یہ دھمکی کسی شقی القلب شر پسند نے نہیں دی ہے بلکہ نفرت کا یہ لب ولہجہ اورگفتار سروج نامی ایک خاتون کا ہے،جس کی شہ پر عظیم الدین کی پیٹ پیٹ کر ہلاکت ہوئی۔ دہلی میں ہوئے اس شرمناک واقعہ نے اب یہ اجاگر کر دیا ہے کہ مسلمانوں سے نفرت کی آگ اُن دلوں میں بھی اٹھنے لگی ہے،جہاں قدرت نے محبت،ممتا،قربانی اور ایثار کے خزانے بھر دیئے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کی 17ریاستوں میں ہوئے ہجومی تشدد میں کسی عورت کی نہ شمولیت دیکھی گئی اور نا ہی کسی نا انصافی کی انہوں نے حمایت کی۔ لیکن اب مرکزی حکومت کی ناک کے نیچے دہلی میں ایک معصوم بچے کو پیٹ پیٹ کرہلاک کرنے کے واقعے نے نہ صرف انسانیت کو داغدار کیا ہے بلکہ نسوانی وقار کو بھی شرمسار کر رہا ہے اور اس خدشہ کا بھی اظہار کر رہا ہے کہ کیا مذہبی نفرت اور تعصب کی سیاسی بساط پر اب عورتیں بھی مہرہ بنائی گئی ہیں۔ یہ ایک ایسا دل سوز سانحہ ہے،جس نے ہر ذی شعور کی آنکھوں میں آنسو اور ذہن میں تشویش کی لہر پیدا کر دی ہے۔

8سالہ معصوم ماب لنچنگ کا شکار محمد عظیم ولد محمد خلیل میوات کے نوح ضلع کے ریہٹ گائوں کا رہنے والا تھا،جو دہلی کے مالویہ نگر بیگم پور کے سرائے شاہ جی میں واقع جامعہ فریدیہ میں زیر تعلیم تھا۔ وہ مدرسہ کے پاس میدان میں کھیلنے گیا تھا،جہاں لڑکوں کی ایک بھیڑ نے اس کی اتنی پٹائی کی کہ جائے واردات پر ہی عظیم کی موت ہو گئی۔ اور ماب لنچنگ کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا کہ ہجومی تشدد اب بچوں کو بھی نہیں بخشنے والا ہے۔ گو کہ پولس نے اس ماب لنچنگ میں ملوث 4 نابالغ لڑکوں کو گرفتار کر لیا ہے اور دہلی حکومت نے پانچ لاکھ معاوضہ کا اعلان کیا ہے۔ مقامی ایم ایل اے سومناتھ بھارتی نے مدرسہ سے متصل چار دیواری بنانے کا اعلان بھی کیا ہے تاکہ یہاں شر پسندوں کاجھمکٹا نہ لگ سکے اور مدرسہ کے طالب علم زد میں نہ آسکیں۔ حالانکہ شر پسندی کا کوئی اور چھور تو ہوتا نہیں،دو روز قبل ہی اس مدرسہ میں خنزیر کا گوشت پھینکا گیا تھا،تاکہ فساد برپا ہو۔ مگر مدرسہ کے ذمہ داروں کی دُور اندیشی سے یہ سازش ناکام رہی۔ اب عظیم کے بہیمانہ قتل پر ملی تنظیمیں جائے واردات پر پہنچ رہی ہیں اور عظیم کے ورثاء کو دلاسے دے رہی ہیں،مگر تمام دلاسوں اور اعلانات کے باوجود یہ طوفان ابھی ٹلا نہیں ہے۔ مدرسہ کے مہتمم مولانا جوہر کا یہ مطالبہ درست ہے کہ اس معاملہ میں لڑکوں کو اُکسانے والوں کے خلاف کارروائی ہو نی چاہیے اور ان کی گرفتاری ہونی چاہیے کیونکہ ماب لنچنگ تو ایک بارُود کا ڈھیر ہوتا ہے،جو معمولی تلی سے ہی بھڑک جاتا ہے۔

ملک میں بھڑکے ہجومی تشدد کی آگ چار برسوں میں تیز سے تیز ہوتی گئی ہے۔ مولانا کی یہ تشویش صحیح ہے کہ اسے فروغ دینے والوں کو سزا ملنی چاہیے،لیکن ماب لنچنگ کو کنٹرول کرنے کے بجائے اسے مزید آنچ دی گئی ہے۔ 28ستمبر 2015 میں دادری کے محمد اخلاق کی ماب لنچنگ کی چنگاری اب تو 2018میں ایک ایسا خوفناک طوفان بن گئی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کب تھمے گی۔ 2018 تو ماب لنچنگ کا سال ثابت ہو رہا ہے، اس سال 25 معاملے سامنے آئے، 34 لوگ مارے گئے، 289افراد آج بھی چلنے پھرنے سے معذور ہیں۔ ایک خاص طبقہ سے نفرت اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس کی معاشرت، تہذیب و تشخص، کھان پان سے لے کر لباس تک سب نشانہ پر ہیں۔ کب کس کی داڑھی نوچ لی جائے، کب کس کا برقعہ کھینچ لیا جائے، کب کسی مسجد و مدرسہ میں ناپسندیدہ جانور کا گوشت پھینک دیا جائے،فساد بھڑکانے کا عمل ایسے جاری ہے جیسے اسے کسی کی بڑی طاقت کی پشت پناہی حاصل ہو اور شاید اسی پشت پناہی کا فتنہ ہے کہ دہلی کے ایک سرکاری اسکول میں ہندو مسلم کلاس کے نام پر تفریق بھی برتی گئی۔ یہ نئے نئے فتنے دہلی میں اٹھ رہے ہیں،جب دہلی کا یہ عالم ہے تو دیگر ریاستوں کا کیا حال ہوگا؟

بہر حال،بیف خوری اور گائے کے نام پر اٹھا یہ طوفان عمر خان،پہلو خان،رگبر خان،افروزالاسلام،معصوم انصاری،امتیاز احمد سے لے کر حافظ جنید تک جانے کتنے نوجوانوں کو نگل چکاہے اور ہر واقعہ یہ اندیشہ ظاہر کرتا ہے کہ اگلا شکار کون ہو گا؟ اور اب ہجومی تشدد کے باب میں بچوں کی ہلاکت بھی شامل کر لی گئی ہے۔ آٹھ سالہ عظیم کا بہیمانہ قتل پوری انسانیت کا قتل ہے لیکن شرمناک بات تو یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ نے خاص کر ٹی وی چینلوں نے جس طرح اسے دبایا،وہ بھی انسانیت کو ضرب پہنچانے کے مترادف ہے۔ بچوں کو ہلاک کیا جانا ملک کو قبائلی دور کی طرف لے کر جانا ہے،جہاں طاقت کی پرستش ہوتی ہے، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اوپر والے کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے، قدرت کو جب جلال آتا ہے تو تمام مظالم،نا انصافیاں اورجنون پل بھر میں زیر وزبرہو جاتے ہیں۔ مظلوم کی بد دعا کو اُوپر والا کبھی نظر انداز نہیں کرتا۔ بقول شاعر :

عدل وانصاف فقط حشر پر موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزادیتی ہے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close