Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

دشمنی جم کر کرو، لیکن یہ گنجائش رہے

محاسبہ…………….سید فیصل علی

ہندوستان کے 3 علاقوں کو اپنے نقشے میں شامل کرنے کے بعد نیپال اب نیا شہریت قانون لا رہا ہے، جس کی رو سے نیپال میں ہندوستانی بہوؤں کی شہریت کے راستے بند ہو جائیں گے۔ 7 سال کے طویل انتظار اور جانچ پڑتال کے بعد ہی انہیں شہریت ملے گی۔ نیپال کی یہ نئی قلا بازی بہت حیران کن اور افسوسناک ہے، کیونکہ اس قانون کا سیدھا اثر بھارت پر پڑے گا۔ ہند-نیپال سرحد پر بسے سیکڑوں علاقوں کے درمیان صدیوں پرانی مشترکہ تہذیبی و ثقافتی رابطے، شادی بیاہ کے رشتے اور ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں شامل ہونے کی روایتیں حد درجہ متاثر ہوں گی۔ نیپال کے اس نئے قانون سے مشرقی یوپی اور بہار کے علاقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یوپی کے سنت کبیرنگر، گورکھپور، دیوریا، بلیا، بل تھرا روڈ، لار روڈ سمیت بہار کے سیتا مڑھی، موتیہاری، بیتیا، دربھنگہ، مدھوبنی، سوپول، ارریا اور کشن گنج وغیرہ درجنوں اضلاع کے سمدھیانے نیپال کے وبیرگنج، جنک پور، انروا، وراٹ نگر سے لے کر کٹھمنڈو تک شادی بیاہ کا عام رواج ہے، یہی رسم و رواج ہند-نیپال کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کی امین ہے۔ مگر اس امانت پر اب نیپال کی کے پی شرما اولی سرکار نے خیانت کی تلوار لٹکا دی ہے۔

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ نیپال جیسا بہترین دوست ملک جو ہمارے قدیم تہذیبی حصے کا شراکت دار بھی ہے اور مصیبت کی گھڑی میں اس نے ہندوستان کی حمایت کی ہے۔ 1857 کی پہلی لڑائی کے دوران دہلی کی مغل سلطنت کو تاراج کرنے کے بعد انگریزوں نے لکھنؤ کو نشانہ بنایا۔ نواب واجد علی شاہ معزول کرکے کولکاتہ کے خضر پور بھیج دیئے گئے تو ان کی چہیتی بیگم حضرت محل نے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت اٹھایا، لیکن انگریزوں کی عیاری کے آگے ان کی کچھ نہیں چلی۔ بالآخر وہ نقل وطن پر مجبور ہوئیں اور پھر موتیہاری اور رکسول ہوتے ہوئے نیپال پہنچیں، نیپال کے راجہ نے آخری وقت تک انہیں تحفظ و احترام دیا اور 1879 میں ان کی کٹھمنڈو میں وفات ہوئی، وہاں کی جامع مسجد میں بیگم حضرت محل کا مقبرہ آج بھی ہند-نیپال دوستی، تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کا گواہ ہے۔

صدیوں سے ہند- نیپال میں بیٹی اور روٹی کا بھی رشتہ رہا ہے۔ نیپال کی شاہی حکومت میں ہندنژاد شہریوں کو اہم عہدے بھی ملتے رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آج بھی نیپال کی تعمیر و تشکیل میں بھارت کا اہم رول رہا ہے۔ نیپال کی مجموعی آبادی فی الحال تقریباً 3 کروڑ کی ہے، جس میں 30 فیصد آبادی ہند نژاد ہے۔ جنہیں مدھیشی کہا جاتا ہے، یہ ہندنژاد مدھیشی صنعت وتجارت سے لے کر اقتدار وسیاست کا بھی اہم حصہ ہیں۔ ان مدھیشیوں میں 10 فیصد اونچی ذات کے ہندو ہیں، 5 فیصد دلت ہیں اور 5 فیصد مسلم ہیں، بقیہ قبائل ذاتی کے لوگ ہیں۔ خاص بات تو یہ ہے کہ یہ مدھیشی ہندنژاد ہیں اور یہی ہندنوازی نیپال کی چین نواز حکومت کو راس نہیں آ رہی ہے۔ چنانچہ مدھیشیوں کی سیاسی قوت کو تاراج کرنے کیلئے نیپال کی نئی نئی قلا بازیاں جاری ہیں۔ نئے شہریت قانون سے بھارت کی بہوئیں اب بدیشی ہوکر رہ جائیں گی۔ نیپال اب ویزا سسٹم کی تیاری بھی کر رہا ہے تاکہ ہندوستانیوں کی آمد پر مکمل طور پر قدغن لگ سکے۔ یہی نہیں اس نے ہند-نیپال سرحد پر مغربی چمپارن سے سیتامڑھی تک سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ نیپالی علاقے دیشاؤتا، بشن پوروا، پانڈوپور، ہلدا اور مرزاپور میں آرمی پوسٹ بھی قائم کر دیا ہے۔ سیتامڑھی کے سون برسا کے علاقے میں فائرنگ کے بعد اپنی سرحد پر جوانوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ مغربی چمپارن کے بھڑہروا، بسنت پور، انروا کے سامنے اس نے باقاعدہ چائنیز سینٹ لگائے، جس پر بی ایس ایف نے اعتراض بھی کیا ہے۔ ہندوستان سے دوری پیدا کرنے کے لئے نیپال کے ریڈیو ایف ایم پر بھی نفرت انگیز پروگرام چلائے جا رہے ہیں، جو تشویش کا موضوع ہے۔

لیکن ان تمام تر نئی نئی کارستانیوں کے درمیان نیپال نے اب جو تیور دکھائے ہیں، اس سے بہار کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ مانسون کے دنوں میں نیپال میں ہوئی بارش کا سیدھا اثر بہار پر پڑتا ہے، وہاں سے آنے والا پانی بہار کو سیلاب سے دوچار کر دیتا ہے، حالانکہ اسے روکنے کیلئے کئی بیراج بنائے گئے ہیں، مگر اب نیپال نے چمپارن کے بالمیکی نگر میں واقع گنڈک بیراج کی مرمت کے کام پر بھی روک لگا دی ہے۔ یہ بیراج پنڈت نہرو نے 1964 میں بنوایا تھا، جس پر سارا خرچ ہندوستان کا ہوا تھا اور آج بھی اس بیراج کے رکھ رکھاؤ کی ذمہ داری بہار حکومت کی ہے۔ گنڈک بیراج میں 36 گیٹ ہیں، جس میں 18 گیٹ نیپال میں ہیں۔ نیپال نے اپنے علاقے میں بیریئر لگا دیئے ہیں، جس کی وجہ سے مرمت کا کام رک گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اب نیپال ’نو مین ایریا‘میں بھی کام نہیں ہونے دے رہا ہے۔ موتیہاری سے 60 کلو میٹر دور لال بگیہ ندی پر انگریزوں نے سیلاب سے بچنے کیلئے ایک پشتہ بنایا تھا، یہ قدیم پشتہ خستہ حالی کے دور سے گزر رہا ہے، ہر سال اس کی مرمت ہوتی ہے، مگر اس سال محض 500 میٹر تک ہی کام ہوا تھاکہ نیپال نے کام رکوا دیا ہے۔ اس کے علاوہ جے نگر سمیت کئی علاقوں میں بھی کام رکوا دیئے گئے ہیں۔ کملابلانگ باندھ بھی خطرناک حالت میں ہے۔ بہار میں مانسون کی خطرناک آمد ہوچکی ہے، مسلسل موسلادھار بارش نے قہر کا روپ دھار لیا ہے۔ بجلی گرنے سے 100 سے زائد افراد کی موت ہو چکی ہے۔ سیمانچل، متھلانچل اور چمپارن سمیت کئی علاقوں میں سیلاب کا خطرہ پیدا ہوچکا ہے۔ نیپال سے آنے والے پانی کی وجہ سے ندیوں میں طغیانی بڑھ چکی ہے، کب پشتے (باندھ) ٹوٹ جائیں کہا نہیں جا سکتا؟ چمپارن، دربھنگہ، سیتامڑھی سے لے کر ارریا کے علاقے تک دہشت کے عالم میں ہیں۔ گرچہ حکومت بہار نے طوفانی بارش اور سیلاب کے پیش نظر چمپارن سمیت 17 اضلاع میں الرٹ جاری کر دیا ہے۔ کاش وہ قبل از وقت ہی اپنی ذمہ داری نبھاتی اور عین مانسون کے وقت کام شروع کرنے کے بجائے سال کے آغاز میں ہی اگر پشتوں کی مرمت کا کام مکمل کرواتی تو سیلاب سے بچا جا سکتا تھا، مگر کیا کہئے! سیاست کی ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہرکام ووٹ لینے کی غرض سے ہی ہو رہا ہے، مشرقی بہار کے عوام کورونا سے زیادہ آنے والے سیلاب سے خوف زدہ ہیں۔ واضح ہو کہ نیپال میں بارش کے بعد وہاں سے آئے پانی کی وجہ سے ہمیشہ بہار ڈوبتا رہا ہے، کوسی ندی کا قہر اہل سیمانچل کا مقدر ہے، کوسی کو اسی لئے’ دریائے غم‘ کہا جاتا ہے، لیکن یہ بھارت کی فراخ دلی کہئے کہ اس نے نیپال سے آنے والے پانی کو روکنے کیلئے کوئی مثبت حکمت عملی نہیں بنائی ہے۔ اپنے پڑوسی اور سب سے چہیتے دوست کو بچانے کیلئے اس معاملے میں تساہلی برتی گئی ہے، یہی تساہلی آج بہار کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔

گرچہ 3 ماہ کے بعد وزیراعلیٰ نتیش کمار بہار کا جائز لینے کیلئے اپنے حجرے سے باہر آئے ہیں۔ نومبر میں بہار میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، چنانچہ مزدوروں کی نقل مکانی، بے بسی اور کورونا کے درمیان پستے عوام کی انہیں اب یاد آئی ہے، مگر کیا انہوں نے سیلاب سے بچانے کیلئے کوئی ٹھوس حکمت عملی بنائی ہے، یہ ایک بڑا سوال ہے؟ میرے پاس شیوہر، دربھنگہ، سیتامڑھی، موتیہاری وغیرہ سے سیکڑوں کال آرہے ہیں، وہاں کے لوگ مسلسل بارش اور سیلاب سے ہراساں ہیں اور کشتیوں کے فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں، حکومت کئی ماہ سونے کے بعد اب جاگی ہے، اس نے نیپال کی کارروائیوں کا ذکر ایک مکتوب میں کرکے مرکز کو اطلاع دے دی ہے، حالانکہ بہار حکومت کو سیلاب سے نپٹنے کیلئے جنگی صورت پر کام کرنے کی ضرورت ہے، مگر اس عمل سے بے نیاز بہار میں ووٹ کی جنگ جیتنے کی حکمت عملی تیار ہو رہی ہے، باندھوں اور پشتوں کو محفوظ کرنے کے بجائے آرجے ڈی اور مہاگٹھ بندھن کو کمزور کرنے کی تیاریاں چل رہی ہیں، مگر بہار کے عوام کے سیاسی شعور کا دنیا لوہا مانتی ہے۔ انہوں نے گزشتہ اسمبلی الیکشن میں بھی فرقہ پرست قوتوں کو سبق سکھایا تھا اور اس بار بھی سبق سکھائیں گے، مزدوروں کی بے بسی اور کورونا کے درمیان سرکاری بے حسی کا حساب لیں گے، مگر فی الحال بہار کے عوام نیپال کے رویہ سے پریشان ہیں۔ نیپال میں بھی عوامی احتجاج ہو رہا ہے۔ نیپال کے وزیراعظم پر استعفیٰ کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ہند-نیپال دوستی اور ثقافت کی بنیاد اتنی گہری ہے کہ اسے کمزور کرنا مشکل ہے، کیونکہ نیپال کے عوام ہی اس بنیاد کے محافظ اور امین ہیں۔ نیپال حکومت کو اسے دھیان میں رکھنا چاہیے، بقول بشیر بدر:

دشمنی جم کر کرو ، لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں

([email protected])

 

محاسبہ………………………………………………………………………………………سید فیصل علی

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close