Khabar Mantra
محاسبہ

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

محاسبہ...........................سید فیصل علی

پلوامہ کے افسوسناک واقعہ کے بعد ملک میں عوامی غم و غصہ کا جو عالم ہے، اس میں تمام ایشوز پس پشت ہو چکے ہیں۔ اب ہر سمت جنگ۔جنگ کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ پاکستان سے دو دو ہاتھ کرنے کا طبل بج رہا ہے مگر افسوس تو یہ ہے کہ پاکستان کو سبق سکھانے کا مطالبہ کرنے والے اب کشمیریوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ ملک میں پھیلے کشمیری تاجر اور کشمیری طلباء کو زدو کوب کیا جا رہا ہے، انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان نواز قرار دے کر انہیں مطعون کیا جا رہا ہے۔ مغربی بنگال کی ندیہ سے لے کر پٹنہ، دہرہ دون، احمد آباد، پونے، ممبئی وغیرہ تک نفرت کا تماشہ جاری ہے۔ کشمیری طلباء و تاجروں کی پٹائی ہو رہی ہے، انہیں ذلیل و خوار کیا جا رہا ہے۔ اس شرمناک عمل سے نہ صرف انسانیت اور جمہوریت لہولہان ہو رہی ہے بلکہ یہ عمل ردعمل بن کر وادی کشمیر کو آتش فشاں کی سمت لے جا رہا ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ پلوامہ پر جس طرح سیاست کی گھمسان مچی ہے وہ ہندوستانی فوج کے لئے بھی صحیح نہیں ہے اور جمہوری اقدار کے لئے بھی نقصان دہ ہے مگر سیاست کی اس بازی گری میں نیتاجی تو نیتاجی آئینی ادارے پر سرفراز ایک گورنر صاحب نے بھی فرمان جاری کیا ہے کہ کشمیریوں کا سوشل بائیکاٹ ہونا چاہیے، ان کی اشیاء کی خرید وفروخت پر پابندی لگنی چاہیے۔ عزت مآب گورنر صاحب کے اس فرمان کی جتنی مذمت کی جائے اتنی کم ہے کیونکہ پلوامہ کے بعد پاکستان ہی معتوب نہیں ہے کشمیری بھی مطعون ہیں۔ گوکہ کشمیر کو ملک کا اٹوٹ حصہ سمجھا جا رہا ہے لیکن وہاں کے رہنے والے کشمیری پرائے سمجھے جا رہے ہیں۔ہندوستان میں کشمیریوں کے لئے زمین تنگ ہو رہی ہے، دل جیتنے کے بجائے کشمیر میں نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ اس کے نتائج کیا نکلیں گے یہ سوچ کر ہی ہول ہوتی ہے۔

پلوامہ کے بعد ملک میں ابھری اس نئی فکر نے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کشمیر اہم ہے یا کشمیری۔ خدا کا شکر ہے کہ ملک میں نفرت کی فضا کو ختم کرنے اور کشمیریوں کے تحفظ کے لئے سپریم کورٹ آگے آگیا ہے۔ اس نے 11 ریاستوں کو فوری کارروائی کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ سپریم کورٹ کا یہ قدم اہل کشمیر کے زخموں پر ایک مرہم ہے، لیکن کشمیرمیں جو علیحدگی پسند افراد اور ہند مخالف عناصر ہیں، ان کی بھی مذمت ہونی چاہیے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ تمام کشمیریوں سے نفرت کریں۔ ملک میں نفرت اور اشتعال کی آگ بھڑکانے میں ذرائع ابلاغ بھی پیش پیش ہیں خاص طور پر ٹی وی چینلوں میں بیٹھے ہوئے جرنلسٹ، پینلسٹ، جنہوں نے کبھی جنگ کی خوفناکی نہیں دیکھی وہ آج جنگ جنگ چلا رہے ہیں۔ اپنی 25 سالہ صحافتی زندگی میں خاکسار نے کئی جنگیں دیکھی ہیں۔ عراق، شام، صومالیہ سے لے کر افغانستان کی جنگ کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور جنگ کے درد کو سمجھاہے،جنگ کے بعد کے نتائج کو دیکھا ہے۔ ٹی وی پر بیٹھے ان نام نہاد دانشوروں کو کیا پتہ کہ جنگ ہوتی کیا ہے؟ جنگ کے بعد ملک کو اپنی جگہ واپس آنے میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔

جنگ ہوئی تو پاکستان کا کیا ہوگا یہ اس کا مسئلہ ہے، وہ کیا کھوتا ہے کیا پاتا ہے وہ جانے۔ اگرچہ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان ہندوستان سے جنگ جیت نہیں سکتا لیکن ہندوستان جیسا ترقی پذیر ملک جوکہ اقتصادی، جی ڈی پی اور سائنس وٹیکنالوجی کے حوالہ سے چاند تک جانے کا حوصلہ رکھتا ہے، اس کا جنگ کے جنون میں مبتلا ہونا ایک تاریخی المیہ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا جنگ سے مسئلہ کشمیر کا حل نکل آئے گا؟ کیا جنگ سے دنیا کا کوئی مسئلہ حل ہوا ہے؟ عراق، شام، یمن، افغانستان کی جنگ نے کیا وہاں کے مسائل حل کر دیئے؟ لیکن ان سب سے بے نیاز آج ہر اینکر دیش پریم سے سرشار ہے، گفتار کا غازی بنا ہوا ہے۔ کسی ٹی وی چینل نے یہ دکھانے کی جرأت نہیں کی کہ پلوامہ کے بعد بھی ایک تصادم ہوا، جس میں پانچ جوان شہید ہو گئے، جن میں صوبہ دار مدن لال چودھری کے علاوہ سبھی مسلمان تھے۔ کسی نے صوبہ دار اشرف علی میر، حولدار حبیب اللہ قریشی، لانس نائک منظور احمد، لانس نائک محمد اقبال کی شہادت کا تذکرہ نہیں کیا، بلکہ نفرت کی کشید کے لئے خوب خوب دھمال مچائے۔ جمہوریت کا یہ چوتھا ستون صحافت کے اقدار کو بری طرح پامال کر رہا ہے، پتر کاریتا کے سچے اصولوں کو طاق پر رکھ رہا ہے۔ پلوامہ میں سیکورٹی فیلیور کے معاملہ میں سرکار سے سوال پوچھنا، ان کے لئے گناہ عظیم ہے۔ کوئی اینکر یہ نہیں پوچھتا کہ مسعود اظہر کو کس نے اور کیوں چھوڑا؟

جنگیں ہمیں آگاہ کرتی ہیں کہ جنگ کے بعد فریقین کو آمنے سامنے ایک ٹیبل پر آنا ہوگا۔ جیسا کہ ڈیڑھ دہائی سے چل رہے افغان خانہ جنگی کے بعد آج امریکی اور طالبان ایک ساتھ گفتگو کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے ٹی وی چینلز اور کچھ پاکستانی چینلز بھی زہرافشانی کر رہے ہیں اور اینکر حضرات جس طرح جنگ کی بات کر رہے ہیں۔ پاکستان کو لفظوں کی جنگ میں شکست دینے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لینے پر آمادہ ہیں۔ اس ہوڑ میں وہ پورے ہندوستان کے ماحول کو دہکا رہے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے اذہان میں ٹینک، توپ اور بارود بھر رہے ہیں۔ گفتار کے یہ غازی پاکستان سے گفتگو، کشمیریوں سے محبت کی بات کرنے والوں کو بلاجھجک پاکستانی ترجمان قرار دے رہے ہیں۔ امن و امان کی بات کرنے والے بزدل، دیش دروہی تک کہے جا رہے ہیں۔ یہ جو پانی روکنے کی بات ہوئی ہے یہ ایک طویل ترین مرحلہ ہے۔ ویسے بھی جتنا پانی پاکستان کو دیا جاتا ہے، اس کا 35 فیصد پانی پاکستان میں ضائع ہو جاتا ہے۔ فی الوقت پاکستان کو Indus Valley Treaty کے تحت پاکستان کو جتنا پانی دیا جانا چاہیے، اس سے زیادہ دے رہے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ ہمیں پاکستان سے محبت ہے بلکہ ہمارے پاس فاضل پانی کو اسٹور کرنے کے لئے ریزر وائر اور ڈیم نہیں ہیں، اس لئے ہم پانی روک نہیں سکتے۔ ایم ایف این کی واپسی کا معاملہ بھی یہی ہے، جس میں ہندوستان کا تجارتی نقصان پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔

بہرحال پلوامہ میں جو ہوا وہ انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے، اس پر ملک بھر میں غم وغصہ فطری ہے۔ پاکستان کو یہ طے کرنا ہوگا کہ اس کے سر زمین سے ہونے والی دہشت گردی ہر حال میں بند ہونی چاہیے۔ خطہ کے امن کے لئے یہ ضروری ہے۔ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ ٹی وی پر شہیدوں کو خراج عقیدت کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی شہیدوں کے خاندان والوں سے ہمدردی کی جانی چاہیے اور ان کے لئے آگے آنا چاہیے اور جنگ کی گردان کے بجائے گفتگو کا گلستان بنانے کی کوشش ہونی چاہیے۔ ملک میں نفرت کی کشید کے بجائے محبت کی خوشبو پھیلائی جانی چاہیے۔ اہل کشمیر کے سوشل بائیکاٹ کے بجائے انہیں تحفظ، محبت اور احترام ملنا چاہیے۔ محبت کا ماحول ہزار جنگوں پر بھاری ہوتا ہے۔ کل ممبئی میں سابق چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمیرل ایل رام داس نے جنگ کی بات کرنے والوں کو آئینہ دکھایا کہ دونوں ملک نیو کلیئرپاور سے لیس ہیں، اگر جنگ کی صورت حال پیدا ہو گئی تو حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ آج جنگ کی نہیں امن اور محبت کی زیادہ ضرورت ہے۔ بقول ساحر ؔ:

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
خون اور آگ آج برسے گی
بھوک و احتیاج کل دے گی

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close