Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

جذبہ ایمانی کی نادر مثال

قرآن کریم امتّ محمدیہ کے لئے قدرت کا عظیم تحفہ ہے تو دنیا کے لئے بھی مشعل راہ ہے۔ قرآن کریم میں ایک آئیڈیل زندگی بسر کرنے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے تو دنیا کو مسخر کرنے کے بھی جھلکیاں اس میں ملتی ہیں۔ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل قرآن کریم میں نہ ہو بلکہ یوں کہا جائے کہ قرآن کریم چودہ سو سال پہلے بھی ایک مکمل نظام حیات کا پیش خیمہ تھا تو آج کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زمانے میں بھی ہدایات ومعلومات کا سر چشمہ ہے۔ چودہ سو سال قبل قرآن کریم میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے خدائی کا دعوی کرنے والے فرعون کی لاش کو کہاں محفوظ رکھا گیا ہے۔ آج فرعون کی لاش دستیاب ہو گئی ہے اور اس کی لاش پر نمک کے اثرات ملنے کو لے کر سائنس داں یہ ثابت کر چکے ہیں کہ فرعون کی ہلاکت سمندر یا پانی میں ہوئی ہوگی اور اس کے لئے سائنس دانوں نے خصوصی طور پر قرآن کریم کا مطالعہ کیا اور وہاں سے انہیں اپنی ریسرچ میں زبردست روشنی ملی اور وہ حیرت زدہ رہ گئے کہ چودہ سو سال قبل اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایسے ایسے راز منکشف کئے، جس پر آج بھی سائنس داں حیران ہیں اور آج کی سائنس اس پر ریسرچ کر رہی ہے۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ اس نے دنیا میں اس سمندر کا بھی ذکر کیا جہاں دو لہریں یکجا ہوتی ہیں۔ سورہ رحمن پر آج بھی سائنس دان حیران ہیں کہ جو چیز آج سائنس دریافت کر رہی ہے وہ ڈیڑھ صدی قبل قرآن کریم میں موجود ہے حتیٰ کہ ایٹم کی تھیوری بھی قدرت نے کلام پاک میں پرو دیا ہے۔ سائنسداں ششدر ہیں کہ قدرت نے قرآن کریم کے ذریعہ انسان کو دنیا مسخر کرنے کی تلقین بھی کی ہے۔ کائنات کے راز۔ستاروں کی تعداد اور آج کی سائنس کے رموز ونکات قرآن کریم میں ملتے ہیں۔ مغربی ممالک میں جس طرح قرآن پاک پر ریسرچ ہو رہی ہے وہ بھی حیرت ناک ہے اور اسی ریسرچ کا نتیجہ ہے کہ مغرب میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کا سلسلہ جاری ہے۔ قرآن کریم کی تعلیمات، پیغامات، جدید دور سے اکتائی نسل کو اپنی سمت کھینچ رہے ہیں اور اسے اسلام سے جوڑ رہے ہیں۔ دور قدیم میں بھی قرآنی تعلیمات کے بڑے زبردست انتظامات کئے گئے۔ بغداد سے لے کر ایران تک مدارس کا نظام کا ایک سلسلہ دراز تھا لیکن یہ وہ دور تھے، جہاں مدارس میں صرف دینی تعلیمات ہی نہیں عصری علوم کو بھی ترجیح دی جا رہی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں بڑے بڑے سائنسداں، ماہر فلکیات، میڈیکل سائنس کے موجد، ریاضی کے محرک وغیرہ وغیرہ پیدا ہوئے اور آج کی میڈیکل سائنس پوری طرح مسلمانوں کی دی گئی تھیوری پر مبنی ہے۔ ماضی قریب میں اسلامی سلطنتوں میں بھی قرآن کریم پر بھی زبردست کام ہوئے۔ قرآن کریم کا کاتب ایوان حکومت میں بڑی ہی عظیم شخصیت کا حامل ہوتا تھا۔ سلطان ناصرالدین سے لے کر محی الدین اورنگ زیب تک ایسے بادشاہ گزرے ہیں، جنہوں نے فن خطاطی خاص طور پر قرآن کی خطاطی میں نام پیدا کیا، جن کے لکھے ہوئے قرآن کریم آج بھی ان کے علم وہنر کا پتہ دیتے ہیں۔ زیر نظر ضمیمہ میں قرآن کریم کی اہمیت اس کی تزئین کاری کے لئے حکومت متحدہ عرب امارات کی کاوش قابل ستائش ہے۔ مملوک کے دور کی قرآن کریم کو اس کے اصلی حالت میں لانا بھی فنکاری کا ایک بے مثال نمونہ ہے۔ دبئی کے کاتبین اور فنکاروں نے جس طرح مملوک کے نادر ونایاب قرآن کو اس کی اصل ہیئت وصورت میں لانے کی کوشش کی ہے وہ جذبۂ ایمانی کا ہی حصہ ہے، جو ہمیں درس دیتا ہے کہ کوئی بھی فن کو جلا اس وقت ملتی ہے۔جب اس کے جذبہ میں طغیانی ہو اور جب جذبہ میں حرارت ایمانی پیدا ہوتی ہے تو فن کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ مملوک دور کے قدیم قرآن کریم کو اس کی اصلی شکل و شباہت میں لانا کسی کرشمہ سے کم نہیں۔ فنکاری کے ذریعہ حلب سے لائے گئے قدیم ترین اور سب سے بڑے قرآن کے نسخہ کو سنوارنا، سجانا بلاشبہ جذبہ ایمانی کی نادر مثال ہے۔

دبئی کے دست کار ماہرین نے 10 سال قبل قرآن کریم کے قدیم نسخہ کی تزئین کاری کی تھی۔ اس ضمن میں انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے کتنی دلچسپی اور چابکدستی کے ساتھ اس قدیم ترین اور سائز میں سب سے بڑے قرآن کریم کے اس نسخہ کو سنوارا تھا، جوکہ نہایت جانفشانی کے ساتھ پرانے شام کے شہر حلب سے موصول ہوا تھا۔ اس قدیم ترین نسخہ کو دیکھ کر سبھی ماہرین حیرت زدہ تھے لیکن اس کی خستہ حالی سے سبھی لوگ فکر مندی میں مبتلا ہو گئے تھے چونکہ یہ نسخہ نوادرات میں شمار کیا جا چکا تھا، اس لئے ماہرین نے اس کی تزئین کاری اصل نسخہ کے مطابق کرنے پر غور کیا تھا۔

150 سال قبل آخری مرتبہ تزئین کاری کے بعد ہجری کلنڈر کی آٹھویں اور نویں صدی میں مملوک سلسلۂ سلاطین کے دور اقتدار سے منسوب قرآن کریم کا یہ 650 سالہ قدیم نسخہ نہایت خستہ حالت میں وہ گیا تھا۔ مقدس قرآن کا یہ نسخہ، جوکہ 434 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کا سائز 52×72 سینٹی میٹر ہے وہ حلب Aleppo کی وقف لائبریری میں محفوظ تھا۔ دبئی میں بحالی اور تزئین کاری کے شعبہ کے سربراہ محمد ندال قواس (Mohammed Nidal Kawas) نے کہا تھا کہ دس ماہرین نے تقریباً تین ماہ تک اس مقدس کتاب کی دست کاری /تزئین کاری کے لئے اپنی خدمات انجام دی تھیں۔ دھول مٹی اور نمی کی وجہ سے اس قرآن کریم کے صفحات نہ صرف بوسیدہ ہو گئے تھے بلکہ کچھ صفحات پر اس کے کچھ حروف بھی پھیکے پڑ گئے تھے۔ لہذا 150 سال قبل ماہرین کی ایک ٹیم نے اس قرآن کریم کے صفحات کو نہ صرف صاف کرنے کا کام شروع کر دیا تھا بلکہ نہایت احتیاط کے ساتھ ان پر کوٹنگ (Coating) بھی کی تھی۔ اس بات کی وضاحت القواس نے متحدہ عرب امارات کے ایک روزنامہ کے صحافی سے کی تھی۔ چونکہ قرآن مقدس کے کچھ اصل صفحات حاصل نہیں ہو سکے تھے لہذا ایسے کاغذ کی تلاش تھی، جن کا رنگ اور کاغذ کی موٹائی اصل مسودہ کے مطابق ہو۔ لہذا اس خصوصیت کو برقرار رکھنے کے لئے دبئی میں ہی بادام کے پتوں سے اسی طرح کا کاغذ تیار کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’’بکری کی کھال استعمال کرکے ہاتھوں سے ایک نیا کور (Cover) تیار کیا گیا تھا اور صفحات کی سلائی بالکل اسی انداز سے کی گئی تھی، جس طرح سے اصل سلائی کی گئی تھی۔‘‘ اس کا کور (cover12) سطور میں ستاروں کے ساتھ اسی ڈیزائن میں تیار کیا گیا تھا جو کہ مملوک سلسلۂ سلاطین کے دور اقتدار میں تھا۔ اس کے بعد ایک ایسا بکس (Box) تیار کیا گیا تھا تاکہ اس مقدس کتاب کو مزید کسی دیگر نقصان سے محفوظ کیا جا سکے۔

جمعہ الماجد سینٹر (Juma Al Majid Centre) کے ماہرین وقف لائبریری کے اسٹاف کو گزشتہ برسوں سے شہر میں ملنے والے قرآن کریم کے نہایت قدیم نسخوں کی بحالی اور تزئین کاری کی تربیت دے رہے ہیں۔ اب یہ لائبریری دیگر وسیع ترین علاقے میں منتقل ہو گئی ہے جو کہ حلب کی امیہ مسجد سے وابستہ ہے۔ موجودہ دور میں اب یہ ایک ایسا مقام ہے، جسے ثقافتی مضامین کے میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بڑے سائز کے اس قرآن کریم کو دوبارہ پڑھنے کے لئے تمام حکام کی توجہ اس کی جانب مبذول ہو گئی تھی. اس لئے وہ جلد از جلد اس کی بحالی اور تزئین کاری کا بے تابی سے انتطار کرنے لگے تھے۔ اس لئے اس کام کی ذمہ داری انہوں نے دبئی کے ماہر دستکاروں کو سونپ دی تھی۔ اس تعلق سے لائبریری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ال مصری نے کہا تھا کہ ’’اگر ہمارے اسٹاف کو ہی یہ کام کرنا ہے تو اس نسخہ کی حالت درست کرنے میں کم از کم 6ماہ لگ جائیں گے اور اس کے بعد آئندہ دو ماہ میں ہم اسے لائبریری میں دوبارہ تلاوت کے لئے پیش کر دیں گے۔‘‘ اس سے پہلے القواس نے یہ بات بھی واضح کر دی تھی کہ قرآن مقدس کا یہ نسخہ نہایت خستہ حالت میں ہے۔ لہزا نہایت نازک انداز میں اس پر کام کیا جائے گا۔ ذراسی چوک سے اس قدیم نسخہ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ بنا رہے گا۔مملوک سلسلۂ سلاطین کے دور میں جب یہ نسخہ تیار کیا گیا ہوگا تو اس کی شان وشوکت قابل دید ہو گی اسی شان وشوکت کی آبیاری کے لئے اسے نہایت باریک بینی سے سنوارنا ہوگا۔

اسی بات پر عمیق غور کرتے ہوئے سب سے پہلے قرآن مقدس کے اوراق پر گرم پانی لگایا گیا تھا اور اس کی کوٹنگ ہٹانے کے لئے ایک سرجیکل بلیڈ (Scalpel) کا استعمال کیا گیا تھا محمد ندال قواس نے اس بات کا انکشاف یو اے ای ڈیلی (UAE daily) سے کیا تھا، جمعہ الماجد سینٹر کے ماہرین نے وقف لائبریری کے جن اسٹاف کو قرآن کریم کے قدیم نسخوں کو سنوارنے کی تربیت دی تھی۔ انہوں نے ایک پروجیکٹ کے تحت پورے شہر سے قرآن کریم کے نادر اور بیش قیمت 40نسخہ حاصل کر لئے تھے اور نہایت احتیاط کے ساتھ ان کو سنوارنے کا کام شروع کر دیا تھا۔ چونکہ یہ تمام نسخہ مملوک سلسلۂ سلاطین کے دور میں تیار کئے گئے تھے اس لئے ان صفحات کے نہ صرف خستہ حالی ہو گئے تھے بلکہ کچھ صفحات دستیاب نہیں ہو سکے تھے۔ماہرین اور دستکاروں کے سامنے یہ ایک مشکل ترین مرحلہ تھا کہ اصل صفحات اور ان کے رنگ کی مطابقت سے نئے صفحات کے لئے کاغذ کی فراہمی کس طرح سے کی جائے لیکن ایمانی حرارت نے ماہرین اور دستکاروں کی یہ مشکل بھی آسان کر دی۔ نہایت جفاکشی کے بعد انہوں نے قرآن کریم کے اصل صفحات کے کاغذ کی مماثلت سے کاغذ تیار کر لیا تھا اور اس کے بعد مقدس کتابوں کو سنوارنے اور ان کی تزئین کاری کا عمل شروع کر دیا تھا۔ یہ عمل اتنی ذہانت اور چابکدستی کے ساتھ انجام دیا گیا تھا کہ ان قدیم نسخوں کو دیکھنے کے بعد لوگ محو حیرت ہو گئے تھے کیونکہ قرآن مقدس کے قدیم نسخے اصل حالت میں نظر آ رہے تھے۔

اس ضمن میں سائنس کی تاریخ کے پروفیسر داکٹر ال مصری(Dr. Al -Misri) نے کہا تھا کہ ’’قرآن کریم کی قدیم جلدوں اور دیگر نادر کتابوں سے گزشتہ صدیوں کے دوران ہماری اسلامی تہذیب سے وابستہ ہمارے ترقیاتی کارناموں اور حصولیابیوں کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ قدیم ترین قرآن کریم کے نسخوں
اور دیگر علمیات کی کتابوں کو محفوظ رکھنا ہماری اسلامی شناخت کو محفوظ رکھنے کا ہی ایک ناقابل فراموش حصہ ہے۔‘‘ انہوں نے اس بات کی بھی جانکاری دی تھی کہ دبئی میں واقع جمعہ الماجد سینٹر فار کلچر اینڈ ہیریٹیج کی پورے عرب اور مسلم ممالک میں تقریباً 40شاخیں ہیں، جن میں ترکی، عمان اور جارڈن کی شاخیں اہیمت کی حامل ہیں۔ ان سینٹروں میں اسلامی تشخص، تہذیب وتمدن وثقافت اور علمی نوادارت کا خزینہ موجود ہے، جوکہ پوری دنیا کو فیض یاب کرنے کے نظریہ سے محفوظ کیا گیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں دبئی میں انجام دیا گیا یہ ایک ایسا مثالی اور غیر معمولی کارنامہ تھا، جس کا ذکر سعودی عرب کی ایک معروف ترین میگزین نے بھی اپنے اوراق میں کیا تھا۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close