Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

تاریخ کے آئینہ میں خانہ کعبہ کی کلید

ایک مسلمان کے لئے خانہ کعبہ و قرآن کریم، سنت رسول کی تقلید کو برقرار رکھنا اس کے ایمانی جذبے کی شناخت ہے، عالم اسلام میں مذکورہ بالا تینوں امور کو فروغ دینے کی کوششیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں۔ ایک مسلمان کے لئے اپنی زندگی میں خانہ کعبہ کو دیکھ لینا ہی اس کے ایمان کا کمال سمجھا جاتا ہے۔ خانہ کعبہ کا دیدار، گنبد خضریٰ میں حاضری اور حرم میں عبادت کی سعادت ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتی ہے مگر یہ خانہ کعبہ سے والہانہ ایمانی لگاؤ کا نتیجہ ہے کہ اک زمانے تک غلاف خانہ کعبہ کے چھوٹے ٹکڑے کی حصولیابی کے لئے بھی بڑی جدو جہد ہوتی رہی ہے۔ غلاف خانہ کعبہ کا یہ چھو ٹا ٹکڑا گھروں میں ایمانی برکت کا باعث سمجھا جاتا رہا ہے۔ ایک زمانے تک مکہ اور مدینہ کی مٹی کے ڈھیلے بھی عقیدت کی علامت رہے ہیں لیکن تاریخ کی آنکھوں نے یہ بھی دیکھا ہے۔ اللہ کے اس گھر کی کلید جو کل بھی انتہائی قابل تعظیم و تکریم کی حامل رہی ہے اور آج بھی اسی تکریم و تقدس کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ فتح مکہ سے قبل خانہ کعبہ کی کنجی کے تحفظ کی ذمہ داری حضرت عثمان ؓ بن طلحہ کو دی گئی تھی اور مکہ کو فتح کرنے کے بعد بھی حضور اکرمؐ نے اسی شیبی خاندان کو خانہ کعبہ کی کنجی کا محافظ اور امین بنایا تھا۔ 15 سو سال سے نسل در نسل شیبی قبیلہ کے خاندان والے خانہ کعبہ کی کنجی کے محافظ چلے آ رہے ہیں اور تا حیات کلید خانہ کعبہ کی امانت و محافظت کی یہ روایت برقرار رہے گی کیونکہ یہی حضور اکرم ؐ کا فرمان ہے۔ زیر نظر مضمون خانہ کعبہ کی کلیدی تاریخ اور اس کی اہمیت پر بھر پور روشنی ڈالتا ہے کہ کس طرح ایک بار خانہ کعبہ کی کنجی کی پر اسرار طریقہ سے چوری ہوئی اور 9 اپریل 2008 کو کسی نامعلوم شخص اسے 18.1 ملین ڈالر میں خرید لیا۔ اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلامی فن پاروں کی قیمت اور عظمت کتنی بلند ہے۔ بہرحال خانہ کعبہ کی کلید کا محافظ ہونا بھی اپنے آپ میں ایک ایسا اعزاز ہے جس سے انسان روحانی طور پر بھی سرشار ہوتا ہے۔ زیر نظر مضمون کی ہر دور کے خانہ کعبہ کی کلید کی داستان پر مرقوم ہے جو ہمیں درس دیتی ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کی بنیاد قصہ کہانیوں، گڑھی ہوئی داستانوں پر محیط نہیں ہے بلکہ اسلام کے وجود میں آنے سے لے کر تاحال ہر شے ثبوت کا زندہ مظہر ہے جو اسلام کی حقانیت کا عکاس ہے:

ظہور اسلام سے ہی خانہ کعبہ کی کلید انتہائی اہمیت کی حامل اور قابل تعظیم و تکریم رہی ہے۔ فتح مکہ سے قبل اس کلید کی ذمہ داری حضرت عثمان ؓ ابن طلحہ کو سونپی گئی تھی جو کہ پیغمبر اسلام ؐ کے صحابی تھے۔ ان کا تعلق شیبی قبیلہ سے تھا اور حضور پاک ؐ نے مکہ فتح کرنے کے بعد بھی ان کو خانہ کعبہ کی کلید کا محافظ بنا دیا تھا۔ حضرت عثمان ؓ کے بعد شیخ عبد القادر طلحہ اس کے 108ویں محافظ منتخب ہوئے تھے۔ آج بھی نسل در نسل اسی قبیلہ کے افراد کلید خانہ کعبہ کے محافظ ہیں اور پیغمبر اسلام ؐ کی ہدایت یا وصیت کے مطابق ہمیشہ اسی قبیلہ کے پاس کلید خانہ کعبہ رہے گی اور اس کی حفاظت کرنا بھی اسی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے اشخاص کی ہوگی۔ تقریباً پندرہ سو سال سے ہی یہ روایت جاری ہے اور یوم آخر تک ہی روایت جاری رہے گی کیونکہ پیغمبر اسلام ؐ کا یہی فرمان ہے۔

لیکن خانہ کعبہ کی کلید کے پر اسرار طریقہ سے غائب ہونے سے اہل عرب پر مایوسی طاری ہوگئی تھی۔ اس عقدہ کا انکشاف اس وقت ہوا تھا جب عباسی دور اقتدار میں 12ویں صدی قدم کلید خانہ کعبہ کو لندن کے Sothey’s نے 9 اپریل 2008 کو کسی نامعلوم شخص کو 9.2 ملین پاؤنڈ (18.1ملین ڈالر) میں فروخت کر دیا تھا۔ رائٹر کی رپورٹ کے مطابق اسلامی فن پارہ کی فروخت کا یہ ایک نیا ریکارڈ تھا۔ لوہے سے بنی ہوئی7 سینٹی میٹر لمبی یہ کلید ابھی تک جانکاری کے مطابق نجی ہاتھوں میں ہونے کی اولین مثال ہے۔ دوسری جانب گمنام خریدار کے تعلق سے لو گوں میں تجسس پیدا ہو گیا تھا، ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق خانہ کعبہ کی کلیدوں کی تعداد 58 ریکارڈ کی گئی تھی جوکہ میوزیموں میں رکھی ہوئی ہیں۔ ان میں استنبول میں واقع ٹوپ کا پی پلیس میوزیم میں 54، نہاد السعید کلکشن میں 2، پیرس کے لوور (Louvre) میں ایک اور قاہرہ کے اسلامک آرٹ میوزیم میں آج بھی مو جود ہیں۔

سعودی عرب میں دونوں مقدس مساجد کی نوادرات مکہ معظمہ کے پر سکون ام ال جود پہاڑی علاقے جوکہ الکسوۃ فیکٹری سے زیادہ دور نہیں ہے، میں نمائش کے لئے رکھی گئی تھیں وہیں پر 1309 ہجری (1892 جی) میں تیار کر دہ خانہ کعبہ کا تالا اور چابی (کلید) بھی رکھے گئے تھے جن کو عثمانی سلطان عبد الحمید دوئم کے دور اقتدار سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس نمائش میں بیک وقت مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے بیش قیمت نوادرات بھی رکھے گئے تھے اور ان میں وہ نوادرات بھی شامل تھے جن کو 10 ویں صدی ہجری سے منسوب کیا جاتا ہے۔

مقامی انگریزی روزنامہ ’عرب نیوز‘ نے 17 اپریل کو مکہ معظمہ سے یہ رپورٹ شائع کی تھی کہ کعبہ شریف کے کلید بردار صالح ال شیبی جن کے اجداد مقدس مسجد کی کلید کی حفاظت کرتے رہے تھے، انہوں نے پوری دنیا کے دولتمند مسلمانوں سے یہ کہا تھا کہ وہ حقیقی مقام تک اس کلید کو دوبارہ واپس لانے میں اپنا تعاون پیش کریں۔ ال شیبی کے ذریعہ یہ بات کہنے کے بارے میں یہ رپورٹ بھی ملی تھی کہ ”ہو سکتا ہے کہ قدیم دور میں اسے (کلید) کوئی چھپا کر لے گیا ہو یا پھر اسے چرا لیا گیا ہو“ لیکن انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی تھی کہ وہ کلید اصلی تھی یا نہیں۔ سعودی تاریخ داں ھانی فیروزی نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا تھا کہ کس طرح سے اس کلید کو چرایا جا سکتا ہے اور اگر ایسا ہے تو یہ لوگوں کو لوٹے جانے کے مترادف ہے۔ انہوں نے مملکت کے حکام سے یہ اپیل کی تھی کہ اس مو ضوع پر تحقیق کرائی جائے اور یہ بھی کہا تھاکہ کلید کو اگر اسمگل کیا جا سکتا ہے تو دیگر نوادرات کے تعلق سے بھی یہ خدشہ پیدا ہوسکتا ہے۔

فیروزی نے یہ بھی کہا تھا کہ آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس، مسلم ورلڈ لیگ اور دیگر اسلامی تنظیموں کو مشترکہ طور پر کلید کو مکہ معظمہ واپس لانے کے لئے کام کرنا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ”یو نیسکو(UNESCO) کو بھی اس طرح کی ثقافتی اور مذہبی اہمیت کی حامل چیزوں کی چوری روکنے کے لئے اقدامات کرنے چاہیئں۔ سعودی مصنف انتصار العقیل کا کہنا تھا کہ خانہ کعبہ کی کلیدوں کا مناسب طریقہ سے ریکارڈ رکھا جانا چاہئے تاکہ کسی بھی طرح کے نقصان ہونے پر فوراً اس کا پتہ لگایا جاسکے اور دولت مند مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اصل مقام تک انہیں واپس لا ئیں۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ”فی الحال اگر وہ کسی کے پاس ہے اور وہ کثیر رقم کا مطالبہ کرتا ہے تو مسلمان مشترکہ طور پر وہ رقم جمع کر سکتے ہیں۔“

کچھ دنوں قبل خانہ کعبہ کی 13ویں صدی کی دو کلیدیں جوکہ دھات کی چھڑوں سے بنائی گئی تھیں اور ان کی چاندی سے تزئین کاری کی گئی تھی انہیں واشنگٹن ڈی سی میں Smithsomian Institute کے آرتھر ایم سیکلرگیلری نے نمائش میں رکھا تھا۔ ان میں سے دو کلیدیں مرحوم نہاد السعید جو کہ لبنان کے ایک تاجر تھے کے کلکشن سے لی گئی تھیں۔ یہ کلیدیں تقریباً 800 سال قبل مملوک دورا قتدار میں فراہم کی گئی تھیں۔ اس نمائش میں جن دیگر چیزوں کو دکھایا گیا تھا وہ روزانہ استعمال میں آنے والی چیزیں جیسے جگ، پیالے، صراحی، گھڑے، دوات اور اگردان وغیرہ شامل تھے جن کی نہایت خوبصورت انداز میں چاندی سے تزئین کاری کی گئی تھی اور اسلامی فن کاری کے ساتھ ان پر نقش نگاری کی گئی تھی۔ جہاں تک کلیدوں کا سوال ہے تو یہ مکہ معظمہ میں ہی تیار کی گئی تھیں اور ان پر قرآن مقدس کی آیات کنندہ کی گئی تھیں۔ جن کا مفہوم کچھ اس طرح تھا: ”اولین عبادت خانہ /لوگوں کے لئے مختص کیا گیا /جو کہ بقا/نعمتوں اور برکتوں سے بھر پور /اور رہنمائی کرنے والا /تمام بنی نوع انسان کے لئے /اس میں نشانیاں ہیں /اظہار (مثال کے طور پر) ہے /مقام ابراہیم /جو کوئی بھی اس میں داخل ہوگا /اسے تحفظ ملے گا /یہاں کی زیارت کرنا فرض ہے /انسان خدا کے تابع ہے /جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں /ان پر سفر حج۔۔۔(سورۃ 3 آیت 96-97)نقش تھا۔

نہاد السعید کا کہنا ہے کہ دھاتوں سے تیار کئے گئے اسلامی فن پاروں کا کلکشن نجی ہاتھوں میں بہترین طریقہ سے محفوظ ہے۔ 27 چیزیں جن پر سونے چاندی، تانبے، کانسہ، اسٹیل اور پیتل سے جَڑاؤ دار کام کیا گیا ہے ان کو 6ویں ہجری صدی (12 ویں جی) اور 7 ویں صدی (13 ویں جی) ہیرات اور 7ویں صدی (13ویں جی) موصل ایو بی شام سلجوک، اناتو لیہ، مملوک سلطنت، دہلی سلطنت، تیموری اور صفاوی ایران سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اسلامی دنیا میں دھاتوں سے تیار کی گئی چیزیں فنکاری کے اظہار کا محور رہی ہیں۔ اقتصادی صورتحال کے پیش نظر مختلف طبقات کی ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے تکنیکی ماہریں نے دھاتوں کو تبدیل کرکے سادہ مگر آرائشی چیزوں کو تیار کرنے میں اپنی مہارت دکھائی تھی۔ جبکہ سونے اور چاندی سے تیار کی گئی چیزیں نسبتاً کم نظر آتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جب سیاسی اور معاشی اتار چڑھاؤ کا وقت آیا تھا تو انہیں پگھلا کر ضروریات پوری کی گئی تھیں۔

10 ویں صدی کے آخر میں ایران کے مینوفیکچرروں نے دھاتوں جیسے پیتل اور کانسہ کی چیزیں بنانی شروع کر دی تھیں، جن میں سونے، چاندی اور تانبے کی جَڑواں نقش نگاری کی جاتی تھی کرسٹے مڈل ایسٹ (Christe Middle East) کے مینجنگ ڈائریکٹر مائیکل جیہا (Michael Jeha) کے مطابق ’مشرق وسطی میں آرٹ کے تعلق سے زبردست بیداری اور جوش و خروش تھا“ حالیہ دریافت سے اس بات انکشاف ہوا ہے کہ ثقافتی منظر نامہ کے تحت قابل غور تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جوکہ معاشرے کے ہر شعبہ میں نظر آتی ہیں۔ آرٹ سے متعلق شعبہ میں مزید ترقی حاصل کرنے کے عزم کے ایک حصہ کے طور پر مشرق وسطیٰ کے ضمن میں کرسٹے نے اپنے جائزہ کے مطابق اس خطے میں آرٹ کے منظر نامہ کے تعلق سے ایک نیا ڈیٹا شائع کیا تھا۔ یوجوف سراج (Youjov Siraj) نے اپنے ڈیٹا سے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ آرٹ کے تعلق سے لو گوں کا ذاتی نظریہ اور ان کے مزاج میں تبدیلی آتی ہے اور اسی کے مطابق وہ آرٹ اور فن پاروں میں دلچسپی دکھا تے ہیں۔ یوجو ف سراج نے گلف کو آپریشن کو نسل (GCC) میں 100000سے زیادہ باشندوں کا سروے کیا تھا اور ان سے جو نتائج بر آمد ہوئے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کثیر تعداد میں لو گوں کے نظریات ابھر کر سامنے آئے تھے، جن کا تعلق آرٹ سے تھا۔

پورے خلیج (Gulf) کے شرکاء نے مشرق وسطیٰ کے آرٹ شیدائیوں کا جائزہ لینے کے لئے اپنی توجہ کئی اہم نکات پر مرکوز کی تھی۔ جس میں انہوں نے پایا تھاکہ آرٹ میں ان کا رجحان قدرے زیادہ تھا۔ اس کے علاوہ شعبہ تعلیم، ادوار کا امتیاز، جنس، قومیت اور آمدنی کے حساب سے بھی نہ صرف انہوں نے ستائش کی تھی بلکہ وہ آرٹ کی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش بھی رکھتے تھے۔ آرٹ کے فروغ کے تعلق سے کرسٹے نے اپنی دیگر دریافت کے بعد یہ اعلان بھی کیا تھاکہ:

٭اوسطاً 30 ممالک کے آرٹ شیدائیوں نے دبئی کی Christie’s کی تقریب میں شرکت کی تھی،جن میں سے 50 فیصد سے زائد خریدار مشرق وسطیٰ میں رہائش پذیر ہیں۔ Christie’s انٹرنیشنل تقریبات میں مشرق وسطیٰ کی دستیاب کارگزاریوں میں 2007 میں 55فیصد تک اضافہ ہو گیا تھا جو کہ 2006 کے اعدادوشمار کے مقابلے زیادہ تھے، ان کی دلچسپی اسلامی آرٹ کے فن پاروں میں کچھ زیادہ ہی تھی۔

گزشتہ آٹھ برسوں سے بہت سی تقریبات اور نمائشوں کا اس خطہ میں انعقاد ہونے پر اور بہت سے تعلیم یافتہ و دیگر افراد کے ذریعہ ان میں شرکت کئے جا نے سے پورے مشرق وسطیٰ میں Christie’s نے نہ صرف ایک عجیب و غریب پو زیشن حاصل کر لی ہے بلکہ اس نے اس شعبہ میں مزید پیش قدمی کرنے کی اہلیت بھی حاصل کر لی ہے کہ اب وہ اس بات سے واقف ہو گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کن چیزوں کی اہمیت زیادہ ہے اور عام لو گوں کی دلچسپی کن چیزوں میں ہے۔ Christie’s کے اولین سروے بھی جیہا (Jeha) نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے باشندوں کا رجحان کن آئٹموں کی جانب زیادہ ہے۔ انہوں نے مزید اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ ”ہمیں امید قوی ہے کہ اس سروے کے نتائج نہ صرف حوصلہ افزا ہو ں گے بلکہ اس سے انفرادی طور پر لو گوں اور اداروں کو تحریک بھی ملے گی جو کہ آرٹ اور ثقافت کے شعبہ میں غیر معمولی دلچسپی رکھتے ہیں یا پھر اس شعبہ میں کارہائے نمایاں انجام دینا چا ہتے ہیں۔“

مشرق وسطیٰ میں خصوصی طور پر سعودی عرب اور اس کے اطراف کے ممالک جہاں پر اسلامی تہذیب و تمدن کا غلبہ رہا ہے اور جہاں پر اسلامی نوادرات و فن پاروں کا بے مثال خزینہ ہے، ان کی جانب دیگر ممالک ہمیشہ سے ہی متوجہ رہے ہیں۔ مغربی ممالک کے اسلامی فن پاروں اور دیگر نوادرات میں دور قدیم سے ہی دلچسپی رہی ہے اور انہیں حاصل کرنے میں وہ ذرا سی تاخیر نہیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اسلامی تہذیب و تمدن اور ثقافت سے وابستہ نوادرات اور فن پارے ان کے لئے کشش کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں بے شمار ایجادات ہوئی تھیں۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں انہوں نے اپنی دانشمندی کا مظاہرہ نہ کیا ہو۔ وہاں کے فنکاروں اور دیگر کاریگروں نے اپنے ہنر کا ایسا کمال دکھایا تھا جس سے مغربی ممالک آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ وہ اسلامی اقدار اور اختراعات سے از حد متاثر ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی قدیم فن پارہ اور دیگر نوادرات کو حاصل کر نے کی جستجو کرتے رہتے ہیں۔ ایک گمنام شخص کے ذریعہ خانہ کعبہ کی کلید کو خریدنا بھی ایک ایسی ہی مثال ہے۔

جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں ذکر کیا گیا ہے کہ ماہرین نے یہ مشورہ دیا تھا کہ اسلامی نوادرات اور فن پاروں کا تحفظ کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بیش بہا اثاثہ کا تحفظ کرنے میں اپنا خشوع و خضوع کے ساتھ تعاون دینے کی سعی کر ے۔ یہی ہمارے دین و ایمان کا تقاضا ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close