Khabar Mantra
محاسبہ

بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

محاسبہ...........................سید فیصل علی

تبریز انصاری ماب لنچنگ معاملے میں جھارکھنڈ پولیس کو قتل کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں، چنانچہ 11 ملزمین کے خلاف دائر مرڈر کے چارجز ہٹا لئے گئے ہیں۔ پولیس نے عدالت میں چارج شیٹ بھی پیش کر دی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تبریز انصاری کی موت ہارٹ فیلیور سے ہوئی ہے۔ قانون کے محافظوں کے اس نئے روپ اور تیور کو دیکھ کر انسانیت ایک مرتبہ پھر سکتے میں ہے اور دنیا بھی حیران ہے، قانونی حلقوں میں بھی ایک بے چینی سی پھیلی ہوئی ہے کہ راجستھان کے پہلو خاں کی طرح تبریز انصاری کو بھی انصاف نہیں ملے گا۔ پہلو خان کی موت بھی کی وجہ بھی ہارٹ فیلیور بتائی گئی تھی اور اب تبریز کی موت بھی ہارٹ فیلیور قرار دی گئی ہے۔

محکمہ پولیس کا یہ نیا تیور ہر ذی شعور کو خوف زدہ کر رہا ہے اور لنچنگ کے قاتلوں کی حوصلہ افزائی بھی کر رہا ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی احساس دلا رہا ہے کہ ملک سے ماب لنچنگ اب رکنے والی نہیں ہے۔ پولیس کا رول ماب لنچنگ کے ملزمین کو یہ پیغام بھی دے رہا ہے کہ انہیں سزائیں نہیں ہوں گی، وہ بالآخر قانون کی گرفت سے نہ صرف آزاد رہیں گے بلکہ ان کے اس عمل کا والہانہ استقبال بھی ہوگا۔ جھارکھنڈ ماب لنچنگ معاملے میں سرفہرست ہے اور اسے اب لنچستان بھی کہا جانے لگا ہے۔ تبریز سے قبل جھارکھنڈ میں علیم الدین لنچنگ معاملے میں قاتلوں کی نہ صرف ضمانت ہو چکی ہے، بلکہ رہائی پر ایک مرکزی وزیر نے انہیں مالائیں پہنا کر ان کا والہانہ استقبال بھی کیا تھا۔

تبریز انصاری ماب لنچنگ معاملے میں چارج شیٹ سے قتل کی دفعہ 302 کو ہٹایا جانا اس اندیشہ کو تقویت پہنچا رہا ہے کہ ملزمین کو بچانے کی حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے، گوکہ جھارکھنڈ پولیس کا کہنا ہے کہ تبریز کی موت کی وجہ کارڈئیک اریسٹ (ہارٹ اٹیک) اور سر پر لگی گہری چوٹ ہے۔ پوسٹ مارٹم کی اسی رپورٹ کی بنیاد پر چارج شیٹ سے ملزمین پر سے قتل کی دفعہ ہٹائی گئی ہے، پولیس کی یہ بے تکی دلیل اور ہارٹ اٹیک کی تھیوری خود اسے قانونی ماہرین کے کٹہرے میں کھڑا کر چکی ہے اور واضح لفظوں میں کہا جا رہا ہے کہ ملزمین کو بچانے کے لئے قتل کی دفعہ کو ہٹایا گیا ہے۔ قومی انسانی حقوق امور کے وکلاء اور کرمنل لاء معاملات کے ماہرین نے اسے صریحاً ایک مجرمانہ اور جانبدارانہ عمل قرار دیا ہے۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ جھارکھنڈ میں 17جون کی شب 24 سالہ تبریز کو 15 گھنٹوں تک پیڑ سے باندھ کر زدوکوب کیا گیا، جے شری رام نہیں بولنے کی پاداش میں اس کی مسلسل پٹائی ہوتی رہی، ایک مسلم نوجوان کو اذیت دے کر مارنے والا یہ خوفناک ویڈیو دنیا نے دیکھا، ملک بھر میں اس ماب لنچنگ کے خلاف احتجاجات ہوئے، کینڈل جلوس نکالے گئے، کولکاتہ، پٹنہ، رانچی، لکھنؤ، ممبئی، حیدرآباد وغیرہ وغیرہ تک مظاہرے ہوئے، پارلیمنٹ سے لے کر دہلی کے جنترمنتر تک لوگ سڑکوں پر اترے، قومی سطح سے لے کر عالمی سطح تک اس واقعہ کی بھرپور مذمت ہوئی، امریکہ کے کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم سے لے کر برطانیہ اور فرانس کی کئی تنظیموں نے تبریز انصاری کی ماب لنچنگ کی شدید مذمت کی اور سخت قانونی کارروائی کرنے کی اپیل کی، مگر یہ تمام احتجاجات، اپیلیں اور مذمتیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ تبریز انصاری کے قاتلوں پر عائد قتل کی دفعات ہی ہٹا دی گئی، پہلو خان کی طرح تبریز کی موت بھی ہارٹ فیلیور سے دکھائی گئی اور ماب لنچنگ کے گنہگاروں کی آزادی کی راہیں ہموار کردی گئیں۔

حالانکہ جھارکھنڈ پولیس کی کارکردگی پر تو اسی وقت سوال کھڑے ہو گئے تھے کہ جب ماب لنچنگ کے بعد تبریز پر چوری کا الزام لگاکر جیل بھیج دیا گیا تھا پھر اسپتال میں اس کی قبل از وقت موت ڈکلیئر کی گئی، وہ معاملہ آج بھی زیرتفتیش ہے اور اب اچانک جس طرح پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آئی ہے، وہ رپورٹ بھی کئی طرح کے سوال کھڑے کرتی ہے کہ ماب لنچنگ کے ملزمین جس آسانی کے ساتھ رہا ہو رہے ہیں، پہلو خان سے لے کر تبریز انصاری تک جس طرح ملزمین کو راحت دی گئی ہے اور وہ قانونی شکنجے سے جس آسانی سے باہر نکل رہے ہیں یہ پورا عمل قانون کے محافظوں کے جانبدار اور متعصب رول اور حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی اہم رکن میناکشی گنگولی کہتی ہیں کہ لنچنگ معاملوں میں جب پولیس کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ملزمین کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتی ہے اور جانبدار ہوجاتی ہے اور پولیس کئی مرتبہ مقدموں کو کمزورکرنے کے لئے لنچنگ کے متاثرین کے خلاف ہی معاملہ درج کر لیتی ہے۔ پہلو خان معاملے میں بھی یہی ہوا اور انہیں جانوروں کا اسمگلر بنا دیا گیا، حالانکہ پہلو خان نے موت سے قبل حملہ آوروں کے نام بھی بتائے تھے پھر بھی ملزم آزاد ہو گئے۔

انسانی حقوق معاملات کو اٹھانے والے سینئر وکیل کولن گونجالوس دو ٹوک کہتے ہیں کہ میرا مشاہدہ ہے کہ پولیس بھی فرقہ پرستی کے جذبے سے کام کرتی ہے، اس کا یہی متعصب رویہ ماب لنچنگ کرنے والوں کو حوصلہ بخشتا ہے اور وہ حملہ آور ہوتے ہیں۔ پولیس کا یہ فرقہ پرست رویہ انصاف کی راہ میں سب سے بڑا پتھر ہے۔ کئی ریاستوں میں پولیس سربراہ رہے امود کنٹھ بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ کئی مرتبہ پولیس حالات اور سیاسی دباؤ سے متاثر ہو جاتی ہے، جس کا اثر جانچ پر پڑتا ہے۔

بہرحال تبریز انصاری ماب لنچنگ جانچ پر سیاست کا سایہ پڑ چکا ہے اور قاتلوں کو بچانے کا جو عمل شروع ہوا ہے، اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے، مگر کس کس بات کی مذمت کی جائے؟ تبریز کو پٹائی کے بعد بھی اسے بچایا جا سکتا تھا، 18جون سے لے کر 21جون تک پولیس کی جانبدار کارروائی سے اس نوجوان کی جان چلی گئی، جس کی چند ماہ قبل ہی شادی ہوئی تھی اور اب جو چارج شیٹ سے قتل کا ثبوت ہی ختم کر دیا گیا ہے، اس سے تبریز انصاری کو انصاف ملنا غیریقینی سا لگ رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے وکیل انس تنویر صدیقی کرمنل لاء کے ماہر وکیل ستیش ٹمٹا، ہیومن رائٹس کے وکیل امن خان وغیرہ کہتے ہیں کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کو لے کر قتل کی دفعہ ہٹایا جانا انتہائی غیرمناسب اور جانبدارانہ عمل ہے۔ رپورٹ کہیں نہ کہیں اس بات کا اشارہ ضرور دے رہی ہے کہ تبریز انصاری کی موت انسانی قتل کا معاملہ ہے اور ماب لنچنگ معاملے میں ویڈیو سب سے بڑا ثبوت ہے، مگر سوال تو یہ بھی ہے کہ پہلو خان معاملے میں بھی ویڈیو بہت بڑا ثبوت تھا، مگر ہوا کیا؟ پہلوخان کے قاتل آزاد ہوگئے اور اب تبریز کے لنچنگ ویڈیو کو لے کر انصاف کا مطالبہ ہے۔ 13 ستمبر کو دہلی کے جھارکھنڈ بھون کے سامنے بھی تبریز انصاری کے ملزمین پر قتل کا مقدمہ چلانے کے لئے ایک عوامی جلسے کے انقعاد کی بھی خبریں ہیں، مگر سوال وہی ہے؟ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، جب ارباب اقتداروسیاست کی نگاہ کرم ماب لنچنگ کے ملزمین پر ہوں تو عدل وقانون کو دست بستہ کھڑا ہونا ہی پڑے گا۔ آج کے اس دور کی زہریلی سیاست اور حالات نے انسانیت، جمہوریت اور عدل وقانون سب کو کچل کر رکھ دیا ہے، بقول علی سردار جعفری:

تیغ منصف ہو جہاں، دار و رسن شاہد
بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close