Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

اسلام کا فروغ اور امریکہ کی مسجدیں

یوروپ اور امریکہ میں جس تیزی کے ساتھ وہاں کی نئی نسل اسلام کی طرف راغب ہو رہی ہے، اس میں سب سے زیادہ اہم رول وہاں کی مسجدیں نبھا رہی ہیں۔ 9/11 کے بعد امریکہ میں جس طرح اسلام اور مسلمان معتوب زمانہ ہوئے تھے، اس سازش کا بھی بھانڈہ پھوٹ چکا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسلام امریکہ میں ایک ایسا مذہب بن کر ابھر رہا ہے جو وہاں کی اکتائی ہوئی نسل اور اپنے ماحول سے پریشان لوگوں کے لئے باعث سکون ہے۔ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں امریکہ کی مسجدوں نے جو شاندار رول ادا کیا ہے وہ اسلام کے فروغ کی تاریخ کا زریں باب ہے۔ امریکہ میں مسجدیں صرف نماز پڑھنے کیلئے ہی نہیں ہے بلکہ ان مسجدوں سے اسلامی پیغامات، قرآن کے احکامات اور سیرت طیبّہ کا جو تشہیری کام شروع ہوا ہے، اس نے امریکہ ہی نہیں پورے یوروپ کو اسلام کی طرف رخ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ امریکہ میں نہ صرف مسجدیں اسلام کے فروغ کا ایک ذریعہ ہیں بلکہ اسلامک سینٹر اور دیگر اسلامی ادارے پورے حوصلے کے ساتھ اسلام کا روشن چہرہ امریکیوں کے آگے پیش کر رہے ہیں۔ زیر نظر مضمون امریکہ میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مسجدوں، اسلامک سینٹروں کی جدوجہد کا احاطہ کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان مسجدں کی طرز تعمیر کے روشن پہلوؤں کو نمایاں کرتا ہے۔ امریکہ کی مسجدیں بلاشبہ دنیا کیلئے خاص کر ساؤتھ ایشیا یعنی برصغیر کے لئے ایک ایسی روشن مثال ہیں کہ اگر ان کی تقلید کی جائے تو ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش میں بھی اسلام کا نیا منظرنامہ ابھر کر سامنے آئے۔ اسلام کی صحیح شبیہ اور مسلمان اسلامی خدمت کی بہترین مثال بن کر ملک و ملت کی خدمت کر سکتے ہیں۔ مسجدوں سے معاشرے کی اصلاح کی آواز بلند ہو سکتی ہے۔ مسجدوں سے تعلیم کی راہیں ہموار کرنے کی اپیل ہو سکتی ہے۔ مسجدوں سے قرآنی پیغامات، اسلامی تعلیمات کی راہیں نکل سکتی ہے اور ملک میں ترقی کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ امریکہ کا مسلمان جہاں اقتصادی طور پر خود کفیل ہے وہیں دین کی خدمت میں بھی دوسروں سے کہیں بہتر ہے۔ وہاں کی مسجدیں دوسری اقوام کے لئے ایک ایسا آئینہ ہے، جس میں اسلام سب مذاہب سے برتر اور روشن نظر آتا ہے۔

جب ظہور اسلام سے کرہ ارض منور ہو گیا تھا اور نصف سے زائد ممالک اس کے سایہ فگن میں آ گئے تھے تو دنیا کے مختلف ممالک کے مختلف علاقوں میں مسجدیں تعمیر کرانے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اس دور میں جن مساجد کو تعمیر کرایا گیا تھا آج بھی وہ نہ صرف اسلامی تشخص، تہذیب، تمدن اور اس کے اقدار کی لافانی علامت ہیں بلکہ ان میں سے بہت سی مسجدوں کو اقوام متحدہ کی آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل کئے جانے سے ان کی اہمیت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ حالانکہ غیر مسلم افراد سیاحت کے نظریہ سے ان مسجدوں کا دیدار کرتے ہیں لیکن وہ اسلام کے آفاقی نظریہ، تہذیب، تمدن اور اخلاقی اقدار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے۔

تاریخ کی کتابوں اور انٹرنیٹ کے توسط سے جن مساجد کا ذکر کیا گیا ہے یا جنہیں آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ان کو دیکھنے کے لئے دنیا کے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں اشتیاق پیدا ہو گیا ہے۔ علاوہ ازیں دور جدید میں جن ممالک میں نئی مساجد تعمیر کرائی جا رہی ہیں، ان میں روایتی طرز تعمیر کو ذہن میں رکھتے ہوئے جدید طرز تعمیر کو ہم آہنگ کیا جا رہا ہے اور مغربی ممالک میں تعمیر کرائی جانے والی مسجدوں میں خصوصی طور پر اس بات کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ گزشتہ 14صدی سے زائد مدت کے دوران مسجدوں کے ڈھانچہ جاتی طرز تعمیر میں موضوعاتی اور بصارتی ڈیزائنوں میں تبدیلیاں ابھر کر سامنے آنے لگی تھیں تاکہ انہیں نئے ماحول سے بھی ہم آہنگ کیا جا سکے اور ساتھ ہی روایتی قدیم تاریخی ساخت بھی برقرار رہے۔ چنانچہ بوسٹن میں واقع میسا چوسیٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کے ایک محقق اور مساجد کے تاریخ داں ڈاکٹر عمر خالدی کے مطابق امریکہ میں مسجد تعمیر کرانے کا سب سے پہلا کام سیڈار ریپڈ (Cedar Rapid) اور لووا (Lowa) میں شروع ہوا تھا جو کہ 1934 میں مکمل ہوا تھا۔ یہ ایک مستطیل عمارت تھی جس کی بنیاد مٹی اور سیمنٹ سے تیار کی گئیں چھوٹی اینٹوں پر رکھی گئی تھی جیسے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے مربوط کرکے آراستہ کیا گیا تھا نیز اس کے سامنے والے دروازہ پر ایک سفید گنبد تعمیر کرایا گیا تھا۔

اس وقت متحدہ ہائے امریکہ میں 2000 سے زائد مسجدیں ہیں، جن میں سے زیادہ تر بڑی عمارتوں میں واقع ہیں۔ حالانکہ ان عمارتوں کو دیگر مقاصد کے لئے تعمیر کرایا گیا تھا لیکن ان میں سے تقریباً 1000 مسجدیں ایسی تھیں جن میں اسلامی سینٹر قائم کئے گئے تھے۔ 1990کی دہائی میں کرائے گئے ایک سروے سے اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ 100 سے کچھ کم مسجدوں کا ڈیزائن بنیادی طور پر روایتی طرز پر تھا، ان کا ڈیزائن فن تعمیر کے ماہرین نے تیار نہیں کیا تھا۔ بہت سی سادہ عمارتیں ایسی بھی ہیں جو کہ ثقافتی پروگراموں کے لئے مختص تھیں یا انہیں کمیونٹی سینٹروں کے طور پر استعمال کیا جا تا تھا۔ اس طرح کی عمارتوں میں کلاس روم، لائبریری، کانفرنس سینٹر، مطبخ، تفریح گاہ، رہائشی اپارٹمنٹ اور میت کو غسل کرانے کی سہولیات فراہم کی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ نماز ادا کرنے کے لئے ایک عبادت خانہ بھی ہوتا تھا۔ یہاں پر شادیوں کا اہتمام کرانے کے علاوہ عمارت کے تہہ خانے میں کھیل کود کی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی تھیں۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران امریکہ میں تعمیر کرائی جانے والی تقریباً تمام مسجدوں کے طرز تعمیر کا ڈیزائن عالمی معیار کے مطابق ہوتا تھا اور ان کا طرز تعمیر کافی حد تک خصوصیات کا حامل ہوتا تھا۔ یہ مساجد تین زمروں میں سے کسی ایک زمرہ کے تحت آتی ہیں۔

بیرونی ڈیزائن:
اس زمرہ کے تحت ان مسجدوں کو شمار کیا جاتا ہے جن کا ڈیزائن مکمل طور پر روایتی ہوتا تھا اور جو کہ اسلامی سرزمین کی مسجدوں سے مشابہت رکھتی ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی (1957) میں تعمیر کرایا گیا اسلامک کلچر سینٹر اس کی ایک واضح مثال ہے۔ اسی طرح ٹیمپے (Tempe)، ایریزونا (Arizona)، ورجینیا (Virginia) اور رکمونڈ (Richmond) میں واقع اسلامک سینٹر بھی اسی ساخت کے ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی میں واقع اسلامک سینٹر اس میں سب سے بڑا ہے۔ روایتی ڈیزائن والا یہ سینٹر طرز تعمیر کے اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہے، جسے مسلمانوں نے امریکہ میں انفرادی نوعیت کے ساتھ تعمیر کرایا تھا۔ اسی لئے یہ اب امریکہ کی محفوظ (Protected) عمارتوں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔ مصر کی وزارت برائے مقدس مقامات جوکہ مسلمانوں اور عطیات کے تعاون سے مسجدوں کی دیکھ بھال کرتی ہے کے انجینئروں کی مدد سے اٹلی کے قاہرہ میں مصروف کار ماہرفن تعمیرات ماریو روسی (Mario Rossi) نے اس کا ڈیزائن تیار کیا تھا۔

قابل غور بات یہ ہے کہ مسجد کو منتقل کرنے کا کارنامہ مسلم اور غیر مسلم ماہرین فن تعمیرات نے یکساں طور پر انجام دیا تھا۔ ان میں سے بہت سے فنکاروں نے قدیم طرز تعمیر کو اختیار کیا تھا، جن میں قدیم اور جدید دونوں طرزیات کی آمیزش نظر آتی تھی۔ اس میں ایک جانب جہاں مسلمانوں کا ایک قدامت پرست طبقہ شامل تھا، وہیں دوسری جانب ایک غیر مسلم ماہر فن تعمیرات ولیم پریسٹن(William Preston)یہ چاہتے تھے کہ مقامی طور پر عمارت جدید ترین ہونی چاہیے۔ بہرکیف قدیم روایت کو برقرار رکھنے میں معماروں نے قابل ستائش رول ادا کیا تھا۔

اختیار کیا گیا ڈیزائن:
دیگر مسجدوں میں روایات کی نئے سرے سے تشریح کی گئی تھی کہیں کہیں ان میں امریکی عناصر بھی نظر آتے ہیں۔ نیو یارک شہر (1991) میں تعمیر کرایا گیا اسلامی کلچرل سینٹر نیو میکسکو کے ابی کیو (Abiquiu) میں واقع دارالاسلام (Dar Al Islam) وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ امریکی پس منظر میں جن مسجدوں میں روایتی طرز تعمیرکی نئی تشریح کرنے کی کوشش کی گئی تھی ان میں منہاٹن (Manhattan) کا اسلامک کلچرل سینٹر (ICC) قابل ذکر ہے۔ اس کا ڈیزائن اسکڈمور (Skidmore) کی معروف ترین کمپنی اوونگ اینڈ میرل (Owinge Merill) نے 1991 میں تیار کیا تھا۔ اس پروجیکٹ کے ذریعہ ایسی شبیہ وضع کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ وہ مسلم طبقہ اور کشادہ اطراف کے معاشرہ دونوں کو خوشگوار لگے۔ اس پروجیکٹ کے ڈیزائن تیار کرنے کے مرحلہ کے دوران آئی سی سی نے دو مشاورتی کمیٹیاں تشکیل دی تھیں۔ ایک کمیٹی نیویارک کے معروف ترین مسلم طبقہ کے اراکین پر مشتمل تھی جبکہ دوسری کمیٹی میں زیادہ تر غیر مسلم ماہرین فن تعمیرات شامل تھے۔ ان دونوں کے مباحثے مسجد کی ساخت اور شبیہ پر مرکوز رہے تھے۔ ماہرین فن تعمیرات یہ چاہتے تھے کہ مسجد کی تعمیر 21 ویں صدی کی مناسبت سے کی جائے جبکہ مسلمان یہ چاہتے تھے کہ مسجد کی ساخت روایتی رکھی جائے جس میں اسلام کی تاریخی جھلک نمایاں طور پر نظر آئے۔ ایک طویل بحث کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ جدید عمارت تعمیر کرائی جائے لیکن مسلم کمیٹی نے اس بات پر اصرار کیا کہ اس میں میناریں اور گنبد بھی تعمیر کرائے جائیں۔ اس طرح واشنگٹن ڈی سی میں واقع مسجد تصوراتی فریم ورک کی عکاسی کرتی ہے لیکن یہ رقبہ اور جائے وقوع کے اعتبار سے مختلف ہے۔

واضح رہے کہ نیو میکسکو کے ابی کیو (Abiquiu) میں واقع دار لااسلام مسجد کا ڈیزائن معروف مصری ماہر فن تعمیرات حسن فاتحی (Hassan Fathy) نے تیار کیا تھا اور 1981 میں تعمیر ہونے والی اس مسجد میں امریکہ میں پیدا ہونے والے مسلمان پہلے سے ہی یہاں نماز ادا کرتے تھے۔ اس مسجد کی ڈرامائی ساخت میں اس نفاست کے ساتھ سنگ تراشی کی گئی تھی کہ اطراف میں وہ کہیں بھی نظر نہیں آتی ہے۔ اس کے گنبد اور محرابوں کی آرائش باز نطینی (Byzantine) اور ساساند (Sasanid) طرز پر کی گئی تھی لہذا مسجد دارالاسلام ہر لحاظ سے ایک مثالی حیثیت رکھتی ہے۔

اختراعی ڈیزائن:
کچھ مسجدوں کے ڈیزائن مکمل طور پر اختراعی نوعیت کے ہیں، جن میں انڈیانہ (Indiana) کے پلین فیلڈ (Plainfield) میں واقع اسلامک سوسائیٹی آف نارتھ امریکہ کا ہیڈ کوارٹر، البوقرق (Al buquwrque) کا اسلامک سینٹر اور ایوانس ولے (Evansville) کے انڈیانہ کا اسلامک سینٹر شامل ہیں۔ مسجدوں کے روایتی طرز تعمیر کی منتقلی اور جدید تشریح کا فیصلہ کن انحراف پاکستانی نژاد کناڈیائی ماہر فن تعمیرات گلزار حیدر اور امریکہ کے بارٹ پرنس (Bart Prince) کے ڈیزائنوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے پروجیکٹوں کے تحت اختراعی تخلیق کی بے مثال مساجد تعمیر کرا گئی تھیں۔ حیدر کا موقف یہ تھا کہ مسجد کا ڈیزائن ماحول دوست اور صوریاتی ہونا چاہئے۔ انڈیانہ کے پیلن فیلڈ کے آئی ایس این اے ہیڈ کوارٹر میں واقع مسجد ان کے قابل ذکر کارناموں کی ایک مثال ہے۔ ان کے مطابق اسلامی طرز تعمیر خود اظہاریت کی ایسی مثال ہونی چاہیے جو کہ تمام لوگوں کی دلچسپی کا مرکز بن جائے اور امریکہ کے مسلم باشندوں کا بیرونی ممالک کے امریکہ میں مقیم مسلمانوں سے رابطہ قائم ہونے کا ذریعہ بن جائے تاکہ عالمی سطح پر اسلامی اتحاد کا پیغام عام ہو جائے اور غیر مسلموں کے لئے بھی مسلمانوں سے رابطہ قائم کرنے کے لئے اس کے دروازے کھول دیئے جائیں تاکہ بین عقائد مذاکروں کا سلسلہ دراز ہو جائے۔ چنانچہ اس کو نہ بند رکھا جائے اور نہ غیر مسلموں کے داخلہ کو ممنوع قرار دیا جائے۔ حیدر کے مطابق آئی ایس این اے مسجد بذات خود مسلمانوں کے تعلق سے ال باطن (The Hidden) اور ال ظاہر (The Manifest) کی ترجمانی کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عظیم ترین 99 ناموں میں سے 2 ہندسیائی و صوفیانہ (Mystical Jeometry) نام جوکہ مکعبی شکل میں ہیں کعبہ شریف کی یاد دلاتے ہیں جوکہ اتحاد کی علامت ہے۔ وہ اپنے ظاہری اور باطنی تضاد کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم اقلیت پہلے سے ہی غیر اسلامی ملک امریکہ میں رہتی آئی ہے۔ وہ اس تضاد کو علامتی حقیقت کے طور پر دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام ذاتی عقیدہ کا ایک معاملہ اور اس کا ریاستی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مسجدیں تعمیر کرانے کے سلسلے سے ہی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ میں مشرف بہ اسلام ہونے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ آج امریکہ جوکہ ایک سپر پاور ملک ہے وہاں اسلام کا ضیاء فگن ہونا اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مقدس کتاب قرآن کریم سے جتنا استفادہ امریکہ نے کیا ہے اتنا کسی دیگر غیر مسلم ملک نے نہیں کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف قرآن کریم کا مطالعہ کیا ہے بلکہ اس کو اچھی طرح سے سمجھا ہے۔ امریکہ کی زیادہ تر ایجادات قرآن کریم کی مرہون منت ہیں۔ یہ اسلامی عقیدہ کا ہی ثمرہ ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم امریکی باشندے نئی نئی مساجد تعمیر کرانے میں غیر معمولی تعاون دے رہے ہیں اور یہ مسجدیں اہل امریکہ کو اپنی جانب آنے کی دعوت دے رہی ہیں۔ 9/11 کے بعد امریکہ میں مسلمانوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا گیا تھا لیکن جب عداوت کا یہ جذبہ رفتہ رفتہ مفقود ہوگیا تو آج اہل امریکہ اسلام اور مسلمانوں کو قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات استوار کرنے میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اس ضمن میں گرانقدر رول ادا کیا ہے۔ لہذا امریکی باشندوں کے قلوب میں مسجدوں کی تو قیر میں قابل قدر اضافہ ہو گیا ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close