Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

قدرت کا عجب کرشمہ ہے کہ جب جب مسلمانوں پر حالات نے شکنجہ کسا تو مسلمان مزید حوصلہ اور طاقت کے ساتھ دنیا کے لئے سامنے ابھر کر آئے۔نیوٹن کی تھیوری بھی یہی ہے کہ جس چیز کو جتنی قوت سے زمین کی جانب پھینکا جائے وہ اس سے دو گنا طاقت سے اچھلتی ہے۔ اسلام کا بھی کچھ یہی حال ہے، جب جب اسے دبانے کی سعی ہوئی وہ مزید طاقت کے ساتھ دنیا پر چھا گیا۔ امریکہ میں جب ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا تو مسلمان پوری دنیا میں معتوب ہوئے۔ 9/11 کے حملے نے مسلمانان عالم کو دنیا کے سامنے مجرم بنا دیا۔ دنیا انہیں دہشت گرد کے طور پر دیکھنے لگی اور اسلام معتوب زمانہ ہو گیا۔ خاص کر امریکہ اور یوروپ کے مسلمان ایک طرح سے شک و شبہہ کے کٹہرے میں کھڑے ہوگئے مگر یہ اسلام کی حقانیت اور مسلمانوں کے حوصلے اور ایمان کی علامت ہے کہ امریکہ اور اہل یوروپ جب حقائق کی راہوں سے گزرے اور انہوں نے اسلام کا اصل چہرہ دیکھا تو انہیں غلطی کا احساس ہی نہیں بلکہ وہ اسلام کی طرف مائل بھی ہیں۔ 9/11 نے بھلے ہی مسلمانوں کو معتوب کر دیا لیکن حالات کے دباؤ نے اپنے مذہب کو پورے طور پر اجاگر کرنے کا موقع بھی دیا۔ اسلام کی معتبوبیت کے دور سے نکالنے کے لیے امریکہ کے مسلمان ہر تکنیک اپنا رہے تھے۔ سمینار، مذاکرات، اخبارات میں مضامین کے ساتھ ساتھ اسلامی پیغامات کا ایک سلسلہ چل رہا تھا۔ اسے قدرت کا کرشمہ نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ جس ملک سے اسلام کو معتوب کرنے کا طوفان اٹھایا گیا، اسی ملک میں اسلام کی ترویج واشاعت نے پوری دنیا کو چونکا کر رکھ دیا۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آج امریکہ کے ہر 10شہریوں میں سے ایک اسلام کی طرف مائل ہے۔ وہاں مسجدوں کی تعمیر کا سلسلہ ایک ریکارڈ بنتا جا رہا ہے۔ قرآن کریم پر تحقیق کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اس کا بھی امریکی عوام پر گہرا اثر پڑا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں جس تیزی کے ساتھ امریکہ میں اسلام کی خوشبو پھیلی ہے وہ پوری دنیا کے لیے مثال ہے۔ مگر ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکہ کے مسلمان مغربی تہذیب وتمدن کے دائرے میں اپنے دینی اقدار اور اپنی معتبریت کو لے کر فکر مند رہتے ہیں۔ شاید یہی فکر مندی انہیں دین کی خدمت کی طرف زیادہ راغب کرتی ہے۔ زیر نظر مضمون معروف اسلامی اسکالر اور مصنف ڈاکٹر اکبر احمد کے امریکی مسلمانوں کے احساس فکر کا جائزہ لینے کے لیے امریکہ کے سفر اور ان کی تحقیق پر مبنی ہے۔ 9/11 کے بعد امریکہ کے مسلمان کیا سوچتے ہیں اپنی زندگی ومعاشرے سے متعلق کیا محسوس کرتے ہیں، اسی نکتہ پر ڈاکٹر احمد اور ان کی ٹیم نے امریکہ کے 60 شہروں کا دورہ کیا اور وہاں کے مسلمانوں کے احساسات کو جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے پایا کہ امریکہ کے مسلمان ایک طرف اسلام کے تعلق سے غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہیں تو دوسری طرف دین کے فروغ کی راہ پر بھی تیز رفتاری سے گامزن ہیں۔ امریکہ کے مسلمانوں کا یہ حوصلہ عالم اسلام کے لیے ایک سبق ہے تو دشمنان اسلام کے لیے ایک انتباہ بھی۔

دنیا کے خود ساختہ چودھری امریکہ میں اسلام کے فروغ کے لیے جو تاریخ ساز کارنامے انجام دیے جا رہے ہیں، خاص کر اپنے ماحول سے اکتائی نئی نسل کے اذہان میں اسلام کے پیغامات کی خوشبو پہنچانے کا کام کتنا مشکل ترین مرحلہ ہوگا، یہ ایک مسلمان ہی سمجھ سکتا ہے۔ 9/11 کے بعد صہیونی قوتوں نے جس طرح پورے عالم اسلام کو معتوب کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے، اُس دور کشاکش میں جس تیزی کے ساتھ امریکہ میں اسلام کا فروغ ہو رہا ہے، مسجدوں کی تعداد مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ خاص کر وہاں کا نوجوان اور دانشور طبقہ اسلام کو سمجھنے کے لیے قرآن کا مطالعہ کر رہاہے، یہ قدرت کا عجب کرشمہ ہے۔ قرآن کریم میں ایسے ایسے سائنسی نکات بتائے گئے ہیں جن پر امریکہ اور یوروپ میں تحقیق چل رہی ہے۔ ہم اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ تمام تر اسلامی دشمنی اور صہیونی سازشوں کے باوجود اہل مغرب کے اذہان میں یہ بات ضرور بیٹھ گئی ہے کہ اسلام کی عظمت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔

امریکہ کے مسلمانوں کے کردار و عمل کی روشنی میں آج وہاں کی دوسری اقوام کے لوگ بھی مسلم ماحول کو پسند کرنے لگے ہیں۔ امریکہ کے عصری معاشرے میں مسلمانوں نے اپنے دین کو کس حوصلے کے ساتھ محفوظ رکھا ہے، یہ بھی قدرت کا کرشمہ ہے۔ 9/11 کے بعد امریکہ کی آزاد خیالی و ثقافتی تہذیب کے ضابطے کچھ اس طرح معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں کہ ان سے نکلنا بھی مشکل ہے، لیکن یہ امریکی مسلمانوں کا ہی دل گردہ ہے کہ وہ اس معاشرے کو اسلام کی خوشبو سے ایسے معطر کر رہے ہیں جس سے اہل مغرب بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ ’جرنی ان ٹو امریکہ‘ کے تناظر میں ایسے ہی سوالات ابھر رہے ہیں۔ دنیا کے معروف اسلامک اسکالر اور مصنف ڈاکٹر اکبر احمد نے اپنی ٹیم کے ہمراہ اس بات کو جاننے کے لیے تحقیق کی تھی۔ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ 11ستمبر کے بعد امریکہ کے منظرنامہ کا بڑی گہرائی سے جائزہ لے رہے تھے۔ 9/11 کے بعد امریکہ ودیگر چھوٹے بڑے شہروں میں کیا حالات تھے، اس کا انہوں نے بخوبی جائزہ لیا تھا۔ اپنی مہم کے دوران الباما، نیشویلے، ٹینیسی اور سالٹ لیک سے لے کر نیویارک، بوسٹن، شکاگو اور لاس اینجلس وغیرہ جیسے بڑے شہروں کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنی ریسرچ کے دوران اس بات کا پتہ لگانے کی سعی کی تھی کہ آخر امریکہ میں مسلمان اپنی زندگی ومعاشرے کے تعلق سے کیا محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے بہت سے افراد کے انٹرویوز کیے تھے۔ اسی موضوع پر پاکستان کے سابق سفیر برائے برطانیہ اور امریکی یونیورسٹی میں ڈپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے چیئرمین کی کتاب بھی جلد منظر عام پر آنے والی ہے۔

اکبر احمد نے ’جرنی ان ٹو امریکہ‘ کے تحت 60 شہروں کا دورہ کیا تھا۔ جارجیا کی راجدھانی اٹلانٹا کا دورہ خاص اہمیت کا حامل تھا، جس میں اکبر احمد نے اس حقیقت کو جاننے کی کوشش کی تھی کہ پورے امریکہ میں اسلام کے تئیں کیا نظریات ہیں۔ اٹلانٹا کے اپنے اولین دورہ کے بعد ڈاکٹر احمد نے کہا تھا کہ یہ ایک انٹرنیشنل شہر ہے، جہاں پر بین الاقوامی سطح پر تعاون ومساوات کی علامتیں موجود ہیں، یہاں کی جس بات نے انہیں بہت زیادہ متاثر کیا تھا، وہاں کی بڑی بڑی عمارتیں اقتصادی خوشحالی کے تعلق سے نہیں تھیں بلکہ وہ اہل اٹلانٹا کے ذریعہ مسلمانوں کی طرز رہائش اور اسلامی اقدار وتشخص کا خیر مقدم کیے جانے سے متاثر تھے۔ میٹرو علاقہ کے 40 مسلمانوں نے ڈاکٹر احمد اور ان کی ٹیم کا استقبال کرنے کے لیے ایک ڈنر تقریب کا انعقاد کیا تھا۔ اس تقریب میں افریقی، امریکی، بوسنیا، ترکی اور پاکستان کے مرد وخواتین شریک ہوئے تھے۔ وہ گرم جوشی سے ڈاکٹر احمد اور ان کی ٹیم کا استقبال کر رہے تھے اور اٹلانٹا کے بارے میں وہ ان سے بات کرنے کے خواہش مند تھے۔ انہوں نے بڑی محبت سے اطراف کے علاقے دکھائے، ان سے جانکاریاں حاصل کیں اور اس کی ریسرچ سے یہ بات اجاگر ہوئی کہ امریکہ میں بہت سارے لوگ یہ نہیں سمجھ پاتے ہیں کہ مسلم دنیا انسانی نسلوں اور ثقافت کی سائنٹفک تفصیل کا کوئی بڑا بلاک نہیں ہے۔

ڈاکٹر احمد اور ان کی ٹیم کو یہاں کے لوگوں نے بتایاکہ میٹرو اور اٹلانٹا کے اطراف میں 40 مساجد واقع ہیں۔ اس علاقہ میں مسلم طبقہ کی نصف آبادی افریقی امریکن افراد پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر احمد اور ان کی ٹیم نے امریکہ کے صدر براک اوباما کی افتتاحی تقریب میں بھی شرکت کی تھیں۔ انہوں نے مسلمانوں کی دسویں نسل کے ایک ایسے مسلمان کا انٹرویو بھی کیا تھا جس کے آباواجداد کو ان کے آبائی وطن افریقہ سے غلاموں کے جہاز کے ذریعہ امریکہ لایا گیا تھا۔ ڈاکٹر احمد بتاتے ہیں کہ ہم یہاں واشنگٹن ڈی سی میں ہی شرکت نہیں کر رہے تھے بلکہ ایک چھوٹے سے ایسے غیر معروف جزیرے پر آئے ہوئے تھے، جس کے متعلق بہت کم لوگوں کو واقفیت تھی اور وہاں پر غلاموں کی نسل کے ایک ایسے شخص کی حلف برداری کرائی جا رہی تھی جس کے والد مسلمان تھے۔ وہاں کے مسلمانوں نے ڈاکٹر احمد کی ٹیم کو بتایاکہ اگرچہ امریکہ مسلمانوں کے رہنے کے لیے ایک بہت ہی بہتر جگہ ہے تاہم وہ احساس تنہائی بھی محسوس کرتے ہیں۔ ڈاکٹر احمد کہتے ہیں کہ اسلام کے تعلق سے آج بھی امریکہ میں لازمی طور پر ایک غلط فہمی کی فضا ہے، وہاں آج بھی اسلامی شبیہ کو مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ 9/11 کے بعد سے ہی اسلام امریکہ میں نشانے پر آگیا۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان خلیج بڑھتی ہی گئی، لیکن ڈاکٹر احمد مسلمانوں اور مغرب کے درمیان بڑھتی خلیج کو پاٹنے کے لیے جی جان سے مصروف ہوگئے۔

بین الاقوامی امور اور اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر جان ایسپوزیٹو نے جارج ٹائون میں واقع اے ویل ہال میں پر ہجوم سامعین کو خطاب کیا، جس میں اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے کی بھر پور کوشش ہوئی۔ ڈاکٹر ایسپوزیٹو 35 سے زیادہ نان فکشن کتابوں کے مصنف ہیں، لیکن ڈاکٹر ایسپوزیٹو کی زیادہ تر کتابوں اور مضامین کا تعلق مسلم دنیا سے ہے۔ ان کا ایک خط صدر اوباما کے نام کافی مشہور ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ’عالمی سطح پر ایک بلین مسلمان کیا سوچتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں‘ کے عنوان سے ایک مذاکرہ میں بھی شرکت کی تھی۔ اس مذاکرہ کو امریکہ کے ’مسلم اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن‘ اور ’دی اسٹوڈنٹ اسمبلی‘ نے اسپانسر کیا تھا۔ ڈاکٹر ایسپوزیٹو نے سامعین کو متنبہ کرتے ہوئے اپنے لیکچر کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے کہاتھاکہ میں ایک بہت ہی نازک موضوع پر گفتگو کروں گا، کیونکہ یہ بہت متنازع موضوع ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ مسلمانوں سے متعلق موضوع کو غیر معمولی طور پر سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ایسپوزیٹو نے مغربی میڈیا کے منفی رول پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ گزشتہ کچھ برسوں سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے جو کچھ بھی کہا گیا اس پر دنیا نے آنکھ بند کرکے یقین کرلیا، جو افسوسناک ہے۔

انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ حالیہ برسوں میں مسلمانوں کے تعلق سے امریکہ کے نظریات کو مسخ کرکے بھی پیش کیا گیا۔ انہوں نے اہل امریکہ کو تلقین کرتے ہوئے نصیحت کی کہ آپ کے پاس ٹی وی پر ماہرین کی ٹیم ہوتی ہے جو یہ بتاسکتی ہے کہ مسلمان کیا سوچتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس عوام میں مسلمانوں کے تعلق سے ایسے خیالات پیش کیے جاتے ہیں جو جنگ سے متعلق ہوتے ہیں یا پھر ان نام نہاد ماہرین کے خیالات ہوتے ہیں جو انتہاپسند عیسائیوں کے مسلمانوں کے تعلق سے ہوتے ہیں۔ یہاں پر ان لوگوں کا فقدان ہوتا ہے جن کے بارے میں بات چیت ہوتی ہے جو اوسط درجے کا ایک مسلمان ہوتاہے۔ جب کہ اسٹوڈیو میں مسلمان ہوتے ہی نہیں ہیں، لیکن ان کے بارے میں خوب خوب باتیں کی جاتی ہیں۔ مغربی میڈیا عیسائیوں، یہودیوں اور دیگر طبقہ کے تعلق سے مباحثہ نہیں پیش کرتا، لیکن اب امریکہ میں دور بدل چکا ہے، سچائی سامنے لانے کے لیے بہت کچھ عمل جاری ہے۔ ’انٹر فیتھ یوتھ کور‘ نامی ایک غیر منفعتی رفاہی تنظیم جو شکاگو میں واقع ہے اور بین عقائد کے فروغ کے لیے کام کرتی ہے۔ اس تنظیم کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ایبو پٹیل اپنے حالیہ مضمون میں رقمطراز ہیں کہ 9/11 کے بعد سے مسلمان امریکہ یا کسی بھی دوسری جگہ پر اپنی معتبریت برقرار رکھنے کے لیے حد درجہ کوشاں ہیں۔ یہ مضمون انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو امریکہ کے مسلمانوں کے احساسات کا مظہر ہے۔

اس مضمون کو ’یونائٹیڈ اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف پیس‘ میں نمایاں طور پر شائع کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں اس بات کو بخوبی اجاگر کیا گیا ہے کہ مسلم طبقہ میں اب دہشت گردی حاشیہ پر آچکی ہے، کیونکہ مسلم امن پسند تحریک نے ایک انتہائی خوشگوار ماحول پیدا کر دیا ہے۔ اس مضمون میں سب سے پہلے میڈیا کے اس جھوٹ کی بھی سختی سے تردید کی گئی ہے کہ مسلم لیڈروں نے کبھی بھی دہشت گردی کے خلاف بیان نہیں دیا ہے یا اسے غلط قرار نہیں دیا ہے۔ مضمون نگار نے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ان 13 امریکی مسلم تنظیموں کا حوالہ دیا جنہوں نے 9/11 کے حملے کے فوراً بعد اس کی مذمت میں اپنے بیانات جاری کیے تھے۔ ایبوپٹیل مزید کہتے ہیں کہ اپنے مذہب وعقائد اور ملک کے ضابطوں کا احترام کرتے ہوئے ہم ہر قسم کی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور تشدد کی اس طرح کی واردات کو انجام دینے والے کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس قسم کے مذمتی بیانات پوری دنیا کے دیگر بہت سارے مسلم ممالک اور اسلامی اداروں کے سربراہوں کی جانب سے جاری کیے گئے تھے، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ دہشت گردی کو اسلام بھی انسانیت اور سماج کے لیے ایک خطرناک جرم قرار دیتا ہے، لیکن مغربی ذرائع ابلاغ اور صہیونی فکر ونظر نے بڑی حکمت عملی سے دہشت گردی کے خلاف مسلم دنیا کی آواز کو پس پشت کرکے اسلام کو معتوب کرنے کا کھیل جاری رکھا۔

ایبوپٹیل کے مضمون میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے جس پر پردہ ڈالنے کی ہر دور میں کوشش ہوتی رہی ہے۔ اسلام کے پیغامات جو انسانیت کا درس دیتے ہیں۔ امن ومساوات کی تلقین کرتے ہیں، ان نکات کو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ پیچھے ڈال دیا گیا، لیکن اب زمانہ بدل رہا ہے۔ اس مضمون میں سب سے اہم باب اسلام کے پیغامات پر مبنی ہے۔ ملک میں امن قائم کرنے کی کوششیں بہ ذات خود اسلامی روایات واقدار سے مربوط ہیں۔ آج دنیا بھر میں دانشوران اسلام نہ صرف دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، بلکہ امن عالم قائم کرنے کے لیے بھی آوازیں دے رہے ہیں۔ یہی نہیں مسلم ممالک اور دیگر ملک بھی اسلام کے تعلق سے دنیا بھر میں پھیلی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی سعی کر رہے ہیں اور اتحاد عالم کا دائرہ بڑھانے کی لگاتار کوششیں کر رہے ہیں۔ آج امریکہ کے مسلمان بھی دنیا بھر میں پھیلی مسلمانوں کے تئیں غلط فہمیوں کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں، بلکہ وہ امریکہ میں بھی اسلام کی بہتر سے بہتر شبیہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ ہر اس فاصلے کو ختم کرنے کے لیے بھی حکمت عملی بنا رہے ہیں، جو انسان سے انسان کو دور کر رہی ہے۔ آج امریکہ میں تمام تر نامساعد حالات اور غلط فہمیوں کے باوجود وہاں کا مسلمان اپنے اسلامی اقدار وتشخص کے سائے میں دین کی ترویج واشاعت میں نہ صرف مصروف ہیں، بلکہ اسلام کے خلاف ہونے والی زہریلی تشہیر اور صہیونی سازشوں کا عملی طور پر جواب دینے کیلئے اسلامی ویب سائٹ، مذاکروں، سمیناروں اور مضامین کے ذریعہ حقائق کا آئینہ دکھانے کے لیے بھی سرگرم ہیں۔ اسلام کے تعلق سے نشر واشاعت کا جو کام چل رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ وسط صدی تک دنیا کا ایک چوتھائی حصہ مشرف بہ اسلام ہو جائے گا۔ جو تمام ممالک کی نصف آبادی سے زیادہ ہوگا۔چنانچہ امریکہ کی خارجی پالیسی کے لیے مسلم ممالک انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔اسلامک اسکالر ڈاکٹر احمد کا کہناکہ آج ہر ایک امریکی باشندے کو اسلام کوسمجھنے اورایک مسلمان کے کردار وعمل کو کشادہ ذہنی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اپنی ویب سائٹ پر اپنے احساسات کا ذکر کرتے ہوئے ’جرنی ان ٹو امریکہ‘ مہم کے قائد ڈاکٹر احمد کہتے ہیں 60 شہروں کا دورہ کرنے، امریکہ کے لوگوں سے ملنے خاص کر مسلمانوں کے انتہائی اہم انٹرویوز، سوالات، مشاہدات اور ان کے احساسات کے توسط سے میں اور میری ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ امریکہ میں 9/11 کے بعد مسلمانوں اور غیر مسلموں کے رجحانات اور نظریات کا جائزہ لینے کا ہمیں ایک نایاب موقع ملا۔ معروف مقامی افسران، یونیورسٹی کے پروفیسران وطلبا اور مذہبی رہنمائوں سے تفصیلی میٹنگ کے دوران امریکہ کے ماحول، وہاں کی کثرت الوجود، باہمی رواداری، ثقافتی یکجہتی کے بارے میں گرانقدر جانکاری حاصل ہوئی، جو اس بات کا مظہر ہے کہ اسلام کے تعلق سے غلط فہمیاں کم ہو رہی ہیں تو دوسری طرف غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش بھی کی جاری ہے، لیکن ایک دور آئے گا جب اسلام کے پیغامات کی روشنی ہر امریکی کے دل میں اپنی اہمیت قائم کردے گی۔ اسلامی دنیا کے بارے میں اس طرح کی معلومات ’جرنی ان ٹو اسلام‘کے عنوان سے لکھی گئی ایک کتاب سے بھی حاصل ہوئی ہے۔ ڈاکٹر اکبر احمد کی ’جرنی ان ٹو امریکہ‘ ایک ایسی یادگار مہم ہے جس سے یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے بارے میں امریکہ اور وہاں کے باشندے کیا نظریات رکھتے ہیں۔ چنانچہ 9/11 کے بعد سے یہ خوشگوار منظر نامہ بھی ابھرا ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے امریکہ کے موقف کا رخ مثبت انداز میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اب امریکہ میں اسلام کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے پیغامات کا احترام کیا جا رہا ہے، اس کے اقدار وتشخص کو قبولیت بھی دی جا رہی ہے۔ اگر یہی منظرنامہ رہا تو وہ دن دور نہیں جب پورا امریکہ اسلام کی خوشبو سے معطر ہوگا اور اسلام کو نشانہ بنانے والے خود اس کے محافظ ہوں گے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close