Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

آساں نہیں انصاف کی زنجیر ہلانا

محاسبہ...........................سید فیصل علی

بھارت ایک ہندو راشٹر ہے، ہندو یہاں ہزاروں سال سے رہتے چلے آئے ہیں، وہ ملک، حالات اور وقت کے مطابق زندگی گزارتے چلے آرہے ہیں، آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کا یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے، اس تحقیق اور بحث سے قطع نظر آج انسان ترقی کے کمال پر ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اس نہج پر ہے کہ دنیا کا گلوبلائزیشن ہو چکا ہے، دنیا ایک مٹھی میں آچکی ہے، ایک کِلک سے ہر حقیقت عیاں ہو رہی ہے، ہر دوری ختم ہو رہی ہے اور ہر راز سے پردہ اٹھنے لگا ہے۔ ہندوستان بھی ترقی کے اسی دور سے گزر رہا ہے، اس نے چاند پر کمند ڈال دی ہے، خلائی دوڑ میں وہ دنیا کا چوتھا ملک بن چکا ہے، مگر تمام تر ترقی کے مدارج طے کرنے کے باوجود یہاں کا ذہن پرانے قبائلی دور کے اثرات سے آزاد نہیں ہوا ہے۔ آج بھی یہاں کے لوگ اندھ وشواس، تنتر منتر، جادوٹونوں، ٹوٹکوں اور اندھ بھکتی کے چنگل میں پھنس کر نہ صرف اپنی جانیں گنوا رہے ہیں، بلکہ دوسروں کی جانوں کے درپے بھی ہیں، یہ منظرنامہ دنیا کے سامنے ہندوستان کو شرمسار کر رہا ہے۔

گزشتہ دنوں اوڈیشہ کے گنجان ضلع میں اندھ وشواس کے تحت جس گھناؤنی حرکت کو انجام دیا گیا، وہ آج کے انتہائی ترقی یافتہ اور مہذب ہندوستان کے آگے بھی سوال بن کر کھڑا ہے۔ گنجان ضلع کے گوپاپور گاؤں میں جادو ٹونا اور ٹوٹکے کے تحت چھ دلتوں کو یرغمال بنایا گیا، پھر انہیں انسانی فضلہ کے علاوہ کئی جانوروں کی غلاظت کھلائی گئی، تاکہ گاؤں والوں کو بیماریوں سے نجات مل سکے۔ کیا معاشرہ کو صحت مند رکھنے کے لئے ایسی گھناؤنی حرکت اور قبیح عمل کی کوئی مہذب سماج حمایت کرے گا؟ گزشتہ دنوں گنجان ضلع کے گوپاپور گاؤں کے تین لوگوں کی نامعلوم بیماری کے سبب موت ہوگئی تھی، گاؤں میں تانترک کو بلایا گیا، جس نے اپنے ’انوشٹھان‘ کے بعد چھ دلتوں کو ان اموات کا ذمہ دار ٹھہرایا، یہ بھی کہاکہ بستی کی سلامتی کے لئے ضروری ہے کہ انہیں فضلہ کھلایا جائے اور پھر چھ دلتوں کو پکڑ کر کمرے میں بند کیا گیا اور پیٹتے ہوئے انہیں زبردستی فضلہ کھلایا گیا، کسی طرح یہ اطلاع پولیس تک پہنچی اور دلتوں کو بچایا گیا۔ اندھ وشواس کی انتہا تھی کہ دلتوں کو بچانے کی پاداش میں پولیس پر ہجوم نے حملہ کر دیا، حملہ آوروں میں 8 مرد اور 22 خواتین تھیں۔

بقول سنگھ سربراہ بھارت ایک ہندو راشٹر ہے تو کیا ہندو راشٹر میں آستھائیں، اندھ بھکتی، اندھ وشواس، جادو ٹونوں اور ٹوٹکوں کا ہی بول بالا ہوگا اور اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو نشانہ بنایا جائے گا؟ مہاراشٹر میں اندھ وشواس اور اندھ بھکتی کے خلاف آواز اٹھانے میں ڈاکٹر دابھولکر اور معروف ادیب کلکرنی کا قتل ہوا اور یہ قتل کس نے کیا یہ بھی صیغہ راز میں ہے؟ ستم تو یہ ہے کہ نام نہاد ہندوتو کے اس دور میں اندھ وشواس کی جڑیں جس طرح توانا ہوئی ہیں، اندھ بھکتی پھلنے پھولنے لگی ہے، اندھ بھکتوں کا حوصلہ بڑھا ہے، وہ بھلے ہی آج کی سیاست کے لئے سودمند ہو، لیکن کل کے ہندوستان اور اس کی تہذیب کے لئے بھی بے حد ضرر رساں ہے۔

دو دہائی سے ہی ملک میں بڑھتے اندھ وشواس، اندھ بھکتی کے خلاف قانون بنانے کا مطالبہ ہوتا رہا ہے۔ 2017 میں جنوبی ہند میں اٹھی اس تحریک کے دباؤ کی وجہ سے کرناٹک میں ”پری وینشن اینڈ ایریڈیکشن آف ان ہیومن ایول پریکٹس اینڈ بلیک میجک ایکٹ“ بھی لایا گیا، جس کے تحت کسی کو آگ پر چلنے کے لئے مجبور کرنا، منھ سے لوہے کا راڈ نکالنا، کالا جادو کے نام پر پتھر پھینکنا، سانپ کے کاٹنے پر جھاڑ پھونک کرانا، آستھا کے نام پر عورت کو ننگا کرنا، بھوت پریت کے وجوود کے نظریہ کو تقویت دینا، خود کو چمتکاری بتانا، خود کو زخمی کرنا وغیرہ کی آستھاؤں پر پابندی عائد کی گئی، لیکن تمام تر پابندی کے باوجود اندھ بھکتی کا تام جھام جاری ہے۔

کرناٹک کے ایک مندر کے باہر آج بھی یہ آستھا ہے کہ اونچی ذات کے لوگوں کے جوٹھن پر لیٹنے سے جلدی امراض ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ تمام تر ایکٹ کے باوجود آستھا اور اندھ وشواس کے ایوان میں بھلا کون کس کی سنتا ہے؟ ضعیف الاعتقادی یا اندھ وشواس ہندوستانی کلچر کا ایک اٹوٹ حصہ بن چکا ہے، جو ختم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ نئے دور کی سیاست نے اس کی پشت پناہی یا حوصلہ افزائی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اس اندھ وشواس کا سب سے زیادہ شکار خواتین یا دلت طبقہ ہو رہا ہے۔ جھارکھنڈ، اوڈیشہ، چھتیس گڑھ میں ڈائن کی آڑ میں عورتوں کو ننگا گھمانے، ان کا سر مونڈنے اور پیشاب پلانے کے ٹوٹکوں کا گھناؤنا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ صرف ایک سال میں 120 سے زائد مرد و خواتین اندھ وشواس کی حیوانیت کے شکار ہو چکے ہیں اور مہذب سماج خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔

ستم تو یہ ہے کہ ہندوستان میں اندھ وشواس، کالا جادو، ٹوٹکوں، تعویذ گنڈوں، ڈائن، اوگھڑوں، باباؤں کا عالمگیر سطح پر شہرہ ہے۔ کرناٹک کا اڈپی ضلع کیرل کا تریشور، حیدرآباد کا بادشاہی گاؤں، اوڈیشہ کی کش بھدرا ندی کا کنارہ، کولکاتہ کا نیم تلا گھاٹ، جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ کے آدیواسی علاقے، آسام کا کامروپ اور میون کے خطے کالا جادو کو لے کر کافی مشہور ہیں۔ مذکورہ بالا علاقوں میں اگر اس کی مخالفت کی آواز بلند کی جائے تو وہاں کا پورا سماج اس آواز کو کچلنے کے لئے سامنے آ جاتا ہے، پولیس پر بھی حملہ کر دیا جاتا ہے، یہ کیسا ہندو راشٹر ہے؟ جہاں ماب لنچنگ کے خلاف 49 دانشوروں پر وزیراعظم کو مکتوب بھیجنے کی پاداش میں غداری کا مقدمہ درج ہو جاتا ہے اور اندھ وشواس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ بابائے قوم کی 150 ویں جینتی کے موقع پر یوپی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں مویشی پروری کے وزیر جے پرکاش نشاد نے ایوان اسمبلی میں انکشاف کیاکہ جب سے اترپردیش میں گؤکشی میں کمی آئی ہے، مذبح خانے بند ہوئے ہیں، فطرت نے بھی ساتھ دیا ہے اور خوب بارش ہو رہی ہے، حالانکہ بارش نے بہار اور یوپی میں قہر کا روپ دھارن کر لیا ہے۔ ایک مرکزی وزیر نے تو مہابھارت کے دور میں کمپیوٹر ہونے کا بھی دعویٰ کر دیا ہے۔ جھارکھنڈ تو اندھ وشواس کی عجب غضب ریاست بن چکی ہے، جہاں کے سائنسداں بھی اب نئے نئے شگوفے چھوڑ رہے ہیں۔ جمشید پور کے این آئی ٹی کی پروفیسر دلاری ہمبرم کا دعویٰ ہے کہ مستقبل میں راکٹ، گؤموتر اور گوبر کے ایندھن سے پرواز بھرے گا۔ زی نیوز کے اینکر سدھیر چودھری تو سب سے آگے نکل گئے ہیں، انہوں نے اپنے ٹیلی ویژن پر آدمی کو لافانی بنانے کا نسخہ بھی پیش کر دیا ہے۔ موصوف نے کہا ہے کہ ’مرتنجے جاپ‘ سے ’مرتیو‘ کو ہرایا جا سکتا ہے۔ موت پر قابو پانے کا یہ نسخہ آستھا کی عجب غضب شکل ہے۔ کیا آج کے سائنسی دور میں ایسا ممکن ہے؟

بہرحال ان تمام تر ممکن اور ناممکن سوالات کے درمیان اندھ وشواس کے حیرت کدہ سے لے کر ایوان سیاست تک بس آستھا اور اندھ وشواس کی زنجیریں ہلائی جا رہی ہیں۔ نام نہاد ہندوتو کی آڑ میں بھارت اس نہج پر جا رہا ہے، جہاں عمل یا کرموں پر نہیں، بلکہ آستھا، جادو ٹونوں، پیش گوئیوں پر وشواس رکھنے کی تلقین ہو رہی ہے، اس تلقین میں وزیر بھی شامل ہیں، سائنسداں بھی شامل ہیں، بڑے بڑے دانشور اینکر بھی شامل ہیں، حتیٰ کہ سپریم کورٹ میں بھی آستھا کو بنیاد بناکر قانون کی نئی تشریح ہو رہی ہے، اب ایسے دور میں کون حق کی آواز بلند کرے؟ بقول اختر بستوی:

آساں نہیں انصاف کی زنجیر ہلانا
دنیا کو جہانگیر کا دربار نہ سمجھو

 

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close