Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

فن خطاطی اسلامی تہذیب کا آئینہ………

خطاطی ایک بہترین اور بلند ترین فن ہے ۔اس فن کے ماہر کی دنیا نے بڑی قدر واہمیت دی ہے اور فن خطاطی تو اسلامی تہذیب کا ایسا آئینہ ہے ،جس میں اس کی معاشرت کی کئی جھلکیاں نظر آتی ہیں،جو ثقافت سے لے کر ہر شعبۂ حیات پر اثر انداز تھیں۔تمام علوم اس کے زیر اثر تھے اور قرآن کریم کی خطاطی کرنا تو اہل خطاط کا کمال تھا ۔مساجد کے میناروں ،ممبروں ،محلات کے خاصگوشوں ،قالین ،تکیوں ،جا نماز اور مسندوں غرض کہ ایسا کوئی بھی آلۂ جات نہیں ہے ،جس پر خطاطی نہیں کی گئی ہے ۔اس فن پارے کو دنیا نے بھی سراہا ہے اور یہ اسلامی تہذیب کا تو آئینہ ہی ہے ۔ قرآن کریم میں اپنے فن کا جلوہ دکھانے والے حکمرانوں کی بھی کمی نہیں ہے ۔ہیتلی کی فن خطاطی سے لے کر ہندوستانی سلطان نا صر الدین اور اورنگ زیب عالمگیر تک ایسے ایسے حکمران گزر چکے ہیں ،جنہوں نے فن خطاطی کے ذریعہ اپنے اہل خانہ کی پرورش کی ،حکومت سے پیسہ نہیں لیا ۔خواتین میں بھی اس فن کی کئی ماہر نظر آتی ہیں،جس کی زمانے نے بھی بڑی قدر کی ۔عباسی دور میں خوبصورت خطاطی کرنے والی کئی خواتین تھیں ۔غرض کہ فن خطاطی کو جلا بخشنے میں اسلام اور مسلم حکمرانوں کا اہم رول رہا ۔اور شاید یہی وجہ ہے کہ فن خطاطی اسلامی تہذیب کا ایسا آئینہ ہے ،جس میں ہم اسلامی ہنر کو پورے طور پر روشن دیکھتے ہیں ۔تاج محل کے میناروںسے لے کر لال قلعہ ،موتی مسجد اور دنیا کی معروف عمارتوں میں فن خطاطی آج بھی اسلامی تہذیب وتشخص کا جلوہ بکھیر رہا ہے ۔زیر نظر مضمون فن خطاطی کے اہم رموز و نکات اور تاریخ پر محیط ہے, جس سے Calligraphy کے طلبا بھی مستفیذ ہو سکتے ہیں اور اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو بھی یہ مضمون لطف فراہم کرتا ہے

اسلام میں خطاطی کا نہ صرف ایک بلند مقام ہے بلکہ اس نے معاشرہ میں ایک اہم رول بھی ادا کیا ہے۔ فنکاری کی یہ صنف معاشرہ اور ثقافت کے تمام تر شعبوں میں اثر انداز ہو گئی تھی۔ قرآن کریم سمیت تمام علوم جیسے سائنس، مذہب اور ادب سے متعلق کاموں کی خوبصورتی کے ساتھ خطاطی کی گئی تھی۔ مساجد، منبروں، محلات، قالین، تکیوں، مسندوں، تلواروں، ہیلمیٹ اور یہاں تک کہ سائنٹفک آلہ جات جیسے آفتاب اور ستاروں کی بلندی معلوم کرنے والا آلہ اور گلوب وغیرہ کی خوش نویس ڈیزائن کے ساتھ خطاطی کے توسط سے آرائش کی گئی تھی۔ دلچسپ بات جو کہ حیرت میں مبتلا کر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ خطاطی کے فن پاروں کی تخلیق کرنے والے فنکاروں جن کی عالمی سطح پر ستائش کی گئی تھی، وہ سب مرد فنکار ہی نہیں تھے۔اسلامی کلچر کو فروغ دینے میں خواتین نے بھی بہت اہم رول ادا کیا تھا۔ بلاشبہ اسلام میں فن خطاطی کا بلند مقام ہے۔ اس نے تہذیب ومعاشرت کو جلا بخشنے میں اہم رول ادا کیا۔ گو کہ فن خطاطی کے عروج کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ معاشرتی تہذیب کے بہت سارے اسباب ہیں۔ اسلام نے ابتدائی دور سے ہی حصول علم کی حوصلہ افزائی کی اور حصول علم کے لئے خطاطی بنیادی چیز تھی اس کے علاوہ وہ سرکاری اور مذہبی دونو ں طرف اپنے حسن کا جلوہ دکھا رہی تھی۔ عربی طرز تحریر اس فن کے اشتراک سے خوبصورت ترین اسکرپٹ ہو گئی تھی۔ مسلم حکمرانوں نے خطاطی کی حوصلہ افزائی کی اور خطاطوں کو اعزاز سے بھی نوازتے رہے، بلکہ خطاطوں کی مسلم حکومتیں معاونت بھی کرتی تھیں۔ مسلم خطاط مذہبی جذبہ کے زیر اثر ہوتے تھے یا پھر دانشور۔ ان کو معاشرے میں بہت تکریم اور وقار حاصل تھا۔

عباسی دور کے آخر میں مستنسیم نام کی ایک ہر دلعزیز خاتون تھی، جس نے خلیفہ الناصر الدین اللہ کے دور اقتدار میں نہایت اہم رول ادا کیا تھا۔ خلیفہ نے اسے اتنے عمدہ طریقہ سے خطاطی کی مشق کرائی تھی کہ وہ تقریباً انہیں کی طرح خوبصورت خطاطی کرنے لگی تھیں۔ جب وہ عمر رسیدہ ہونے لگے تو ان کی آنکھوں کی بصارت بھی کمزور ہو نے لگی تھی، جس کی وجہ سے وہ عوامی مسائل پر غور کرنے کے قابل بھی نہیں رہ گئے تھے۔ چونکہ انہوں نے نسیم کو اس کام کے لئے مناسب ترین سمجھاتھا چنانچہ ان کے نام سے ہونے والی خط وکتابت کے بارے میں انہوں نے نسیم سے کہا کہ وہ اس کام کی ذمہ داری اس کے سپرد کرنا چاہتے ہیں۔ نسیم نے یہ ذمہ داری بخوشی قبول کر لی تھی اور طویل وقت تک انہوں نے اس کام کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا تھا۔

ہسپانیہ (اسپین) کے خلیفہ النودار ’ (Al-Nuddor ‘ 374-985 )کے محل میں خلیفہ کا پسندیدہ ایک خطاط تھا، جس کا نام الحاکم بن عبد الناصر تھا ،جس کا فن خطاطی میں منفرد مقام تھا۔ وہ نہ صرف یہ کہ ایک شاعر تھا بلکہ ماہر ریاضی بھی تھا تاہم خطاطی کے تمام رموز سے وہ بخوبی واقف تھا۔ المنتصر کی سکیریٹری لبنیٰ (394-1004) ایک شاعرہ تھی اس کو قواعد، فن خطابت اور علم ریاضیات پر کمال حاصل تھا۔ انہوں نے اس دور میں خطاطی کے عمدہ فن پارے تخلیق کئے تھے۔ اندلس کے خلیفہ نا صر ال دین کی سیکریٹری (Muznah- (358-969 بھی بے مثال خطاط تھیں اور انہیں نہایت قدر ومنزلت کی نظرسے دیکھا جاتا تھا۔

عربی فن خطاطی میں خواتین کا رول:
عربی تخلیقات میں مہارت حاصل کرکے خواتین نے معاشرہ میں ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا تھا اور اسی کے ساتھ ساتھ انہوں نے خطاطی میں بھی کمال حاصل کر لیا تھا ۔اکثر یہ بھی مشاہدہ میں آیا تھا کہ خواتین نے نہ صرف محلات کے امور کو منظم کیا تھا ،بلکہ وہاں سے جانکاریاں حاصل کرکے وہ اسکالر بن گئی تھیں ۔انہوں نے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی کتابوں کی نقول حاصل کر لی تھیں ،جن میں ادب شاعری اور احادیث سے متعلق کتب بھی شامل تھیں۔انہوں نے نہایت دانشمندی کے ساتھ ان کتابوں کی نہ صرف نقل کی تھی بلکہ درستگی کے اعتبار سے اصل کتابوں کو سامنے رکھ کر چیک کیا تھا ۔انہوں نے قرآن کریم کی نقول کو نہایت بلند اور ممتاز انداز میںپیش کیا تھا ۔سرکاری محکموں کے افسران سیاسی معاہدات کی عبارت تحریر کرنے کے لئے اکثر خواتین پر اعتماد کیا کرتے تھے کیونکہ ان کی تحریر اعلیٰ درجہ کی اور بلیغ ہوتی تھی۔

اسلام کے ذریعہ سیکھنے اور لکھنے کی حوصلہ افزائی:
اسلام کے ظہور میں آنے تک 17مرد اور 3خواتین لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے ۔جب پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ یہاں تشریف لائے تھے تو انہوں نے اپنے مقلدین اور صحابہ کرام کو لکھنے اور پڑھنے کی تلقین کی تھی ۔اس سلسلے میں قرآنی فرمودات بالکل واضح ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو بھی پڑھنے کا حکم دیا تھا ۔اس نے فرمایاتھا کہ اپنے معبود (اللہ تعالیٰ) جس نے انسان کو ایک خون کے قطرہ سے پیدا کیا ہے کے نام سے اقرایعنی پڑھیئے۔ وہ نہایت کریم ہے۔ تلاوت کیجئے اس اللہ کے کلام کی جس نے اس قلم کے بارے میں انسانوں کو بتایا، جن سے وہ واقف نہیں تھے اور اسی نے کاشتکاری کے تعلق سے جانکاری دی تھی۔ علاوہ ازیں پیغمبر حضرت محمدؐ نے بھی ارشاد فرمایا تھا کہ ’’تعلیم حاصل کرو ،چاہے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ۔‘‘ اس ضمن میں چین کا حوالہ اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ یہ اس زمانے میں دور دراز ملک تھا اور مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے اس ملک کا فاصلہ بہت زیادہ تھا اور اس وقت سفر اور مواصلات کے ذرائع بھی نہیں تھے۔ چنانچہ چین جانا ایک دشوار ترین مرحلہ تھا۔ پیغمبر حضرت محمدؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ ’’آپ میں سے جو بھی تعلیم یافتہ ہے اسے دوسرے لوگوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا چاہیے۔ ‘‘واضح رہے کہ دشوار ترین کام ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو تعلیم حاصل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ پیغمبر حضرت محمدؐ کے مدینہ منورہ میں ہجرت کرنے کے فوراً بعد قرآن کریم کی ابتدائی آیات میں اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ قرض کے تعلق سے بھی سخت ضابطہ مرتب کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرض کے تعلق سے تحریری ریکارڈ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے ایمان والو! جب تم مقررہ وقت کے لئے قرض لینے کا معاہدہ کرتے ہوتو اسے لکھ لیا کرویا اسے ایک محرر سے لکھوا لیا کرو۔ اس طرح مالی معاملات میں قانون سازی کو ضابطۂ تحریر میں لایا گیا تاکہ معاہدہ اور انسانی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے ۔
چنانچہ اسکرپٹ کے مطالعہ اور تحریرمیں زبردست دلچسپی کا اظہار کیا گیا تھا جوکہ قرآن کریم کی روشنی میں تھا، پیغمبر اسلام ؐ چونکہ امیّ تھے اس لئے وہ پڑھنے لکھنے سے واقف نہیں تھے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ’’اس سے قبل آپ نے کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے کوئی کتاب لکھی تھی۔ حضرت محمدؐ نے اپنے بہت سے مقلدین اور صحابہ کرام میں سے بہت سے ایسے اشخاص کو مقررکر دیا تھا، جو کہ ان پر نازل ہونے والی وحی کے کاتب ہوا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر ابن خطاب ؓ ،حضرت عثمان غنی ؓ ابن ابی سفیان، حضرت علی ابن ابی طالبؓ۔ زید ابن ثابت ؓ،ابی ابن کعب ،معاویہ ابن ابی سفیان اور زید ابن اقرم ؓ وغیرہ کاتب وحی تھے ۔ان میں سے آپ ؐ نے ہر ایک کو خصوصی کام سپرد کیا ہوا تھا ۔مثال کے طور پر آپ نے زید ابن ثابت کو وحی تحریر کرنےکی ذمہ داری سونپ دی تھی۔ اس کے بعد آپؐ نے مسجد میں ایک خصوصی ڈیسک (SUFFAH) قائم کر دی تھی جس کا مقصد تعلیم دینا اور تعلیم دینے والے اساتذہ کی تقرری کرنا تھا۔ اساتذہ میں عبداللہابن سعد ابن ال آس اور عبید اللہ ابن ال سمّت شامل تھے۔ آپ ؐ نے Maud Ibn Jabal کو یمن اور حضر اموت میں بطور استاد روانہ کیا تھا۔ تعلیم دینے میں آپ ؐ کی دلچسپی محض مردوں کو ہی تعلیم یافتہ بنانے تک محدود نہیں تھی بلکہ آپ ؐ نے ہدایت دی تھی کہ سبھی خواتین کو مناسب تعلیم دی جائے۔ایک خاتون جس کا نام الشفابنت عبداللہ ال اداویہ جو کہ لکھنے کے فن میں مہارت رکھتی تھی، اس سے آپؐ نے فرمایا تھا کہ وہ آپؐ کی دختر نیک اختر حفصہ کو یہ فن سکھائے۔

آپؐ کے مقلدین نے بعد میں پڑھنا اور لکھنا سکھانے کے لئے لوگوں کو دعوت دینی شروع کر دی تھی۔ اس سلسلے میں حضرت علی ابن ابی طالب کا کہنا تھا کہ ’’اپنے بچوں کو لکھنا اور قدراندازی سکھائو‘‘ انہوں نے مزید یہ بھی کہا تھا کہ ’’خوش خطی سے سچائی مزید واضح ہو تی ہے ‘‘ اور ’’خوش خط لکھئے یہ روزی کمانے کی کلید ہے۔ ‘‘عبداللہ ابن عباس نے فرمایا تھا کہ ’’خطاطی ہاتھوں کی زبان ہے ‘‘ ۔ایک دیگر بات کی جانب اشارہ ضرور کیا جانا چاہیے، جس سے پیغمبر حضرت محمدؐ کی جانب سے علم کو فروغ دینے کے جذبہ کی عکاسی ہوتی ہے۔ جب قریش قبیلہ پر فتح حاصل کرنے کے بعد جنگ بدر کا اختتام ہو گیا تھا تو اس وقت قیدیوں کی تعداد زبردست تھی۔ ان میں سے بہت سے قیدی ایسے تھے، جن کے پاس تاوان دینے کے لئے رقومات نہیں تھیں تو آپؐ اس بات پر رضامند ہو گئے تھے کہ ہر ایک قیدی جو کہ اسلامی اصولوں کا مطالعہ کرنے میں مہارت رکھتا ہے اس کی جانب سے یہ تاوان ہو گا کہ وہ 10 مسلمانوں کو پڑھائے۔

مذکورہ غو روفکر سے مسلمان جوشیلے جذبہ کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہو گئے تھے۔ وہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم کی راہ پر گامزن ہو گئے تھے بلکہ وہ تصنیف و تالیف کرنے کی صلاحیت سے بھی معمور ہو گئے تھے اور پھر وہ عربی اسکرپٹ کو فروغ دینے میں مسلسل مصروف ہو گئے تھے، جن میں مذہبی اور نوع انسان سے متعلق موضوعات شامل تھے ۔مسلمان اسکالر جو کہ تصنیفات میں مہارت رکھتے تھے، انہوں نے بخوبی کام انجام دینا شروع کر دیا تھا۔ کچھ اسکالر تو ایسے تھے کہ ان کی تخلیقات کی تعداد چار سو تک ہو گئی تھی۔ ایسے تخلیق کاروں میں فلسفی القندی، ال جاہیز جو کہ معروف تصنیف کار تھے، معروف تاریخ داں ال مدینی اور ماہر دینیا ت السیوطی کے نام گرامی درج کئے جا سکتے ہیں۔

خطاطی میں عرب کی فوقیت:
مکہ معظمہ میں جو عربی رسم الخط رائج ہے، اسے مکی (Maccan) کہا جاتا ہے جو کہ نباتین رسم الخط کی ایک شاخ ہے۔ پیغمبر حضرت محمدؐ کی ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ایک دیگر رسم الخط وجود میں آیا جسے مدینی یا مدنی رسم الخط کہا جا تا ہے۔ یہ رسم الخط مکہ معظمہ کے رسم الخط سے معمولی طور پر مختلف ہے۔ کوفی رسم الخط کوفہ شہر (16ویں ہجری) کے قیام کے بعد وجود میں آیا تھا۔ رسم الخط (اسکرپٹ) کی تاریخ میں یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ اس لئے اس رسم الخط سے نئے رجحانات اور اصلاحات نمودار ہوئی تھیں۔

تمام مفتوح ممالک میں اسلام کے ساتھ ساتھ کوفی رسم الخط مقبول ہو گیا تھا۔ بہر کیف ہر ملک کا جو کہ خصوصی طرز ہوتا ہے لہذا ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ دمشق،شام، بغداد، عراق، محقق، مصر، قیراون اور اندلس کے رسم الخط میں معمولی سا فرق پایا جا تا ہے۔ کچھ رسم الخط کے بارے میںیہ جانکاری بھی سامنے آئی ہے کہ سلسلہ سلاطین کے تعلق سے انہیں منسوب کیا گیا تھا، جیسے کہ فاطمی، ایوبی اور مملوک کوفی رسم الخط اس طرح کی مثالیں ہیں۔ تاہم تمام تغیرات کے باوجود قرآن کا چوتھی /دسویں صدی تک کوفی رسم الخط ہی رہا تھا۔ اس میں تبدیلی اس وقت رونما ہوئی جب مقلہ اور ابن ال بواب جیسے معروف خطاط منظر عام پر آئے تھے اور انہوں نے نسخی رسم الخط میں قرآن کریم کو اپنے فن سے آراستہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ 16ویں / 12صدی میں کو فی رسم الخط کو قرآن کریم میں استعمال نہیں کیا گیا تھا لیکن مساجد کی تزئین کاری میں اس کا استعمال برقرار رہا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ رسم الخط کا یہ نیا اور ترقی یافتہ طرز جیسے نسخ، روقہ، ثلث، دیوان اور طلیق استعمال کئے جانے لگا تھا۔

 

 

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close