Khabar Mantra
اپنا دیشتازہ ترین خبریں

گیانواپی کی طرح ملالی مسجد بھی قانون کے شکنجہ میں

گیانواپی کی طرح ملالی مسجد بھی قانون کے شکنجہ میں

(پی این این
منگلورو:جنوبی ہند میں بھی فرقہ پرست تنظیموں کی ریشہ وانیوں میں اضافہ ہوتا جارہاہے ۔اب منگلورو کی تاریخی ملالی مسجد کامعاملہ بھی گیانواپی کی طرح ہوگیاہے ۔اس مسجد کو بھی ہندوتنظیمیںمندر قرارد ے رہی ہیں اور یہ معاملہ اب عدالت پہنچ گیا ہے ۔حالانکہ سپریم کورٹ نے پہلے ہی اپنے فیصلے میں واضح کردیاتھاکہ بابری مسجد کے بعد اب کوئی مسجد پر دعوی نہیں  کیاجاسکتااور1991عبادت گاہ ایکٹ کے مطابق بھی اس طرح کے معاملات کورٹ نہیں لے جاسکتے اور نہ تو ان کی سماعت کا اختیار عدالت کو ہے مگر اس کے باوجود کئی مسجدوں کے معاملے عدالت میںزیرسماعت ہیں ۔ادھر جنوبی ہند کے منگلورو کے ملالی مسجد کا معاملہ کو بھی اب عدالت نے قابل سماعت قراردیاہے ۔کرناٹک کے منگلورو واقع جنوبی کنڑا ضلع کے ملالی مسجد کو نچلی عدالت نے شنوائی کے قابل ماناہے ۔اس تاریخی مسجد کو لیکر ہندو تنظیموں نے کہاتھاکہ مسجد کی جگہ پہلے مسجد تھا ۔ ہندوتنظیموں نے عدالت سے گیانواپی کے طرز پر سروے کرانے کامطالبہ کیاتھا اس کو تسلیم کرتے ہوئے کورٹ نے کہاکہ سول کورٹ میں یہ معاملہ چلایاجاسکتاہے ۔غورطلب ہےکہ ملالی مسجد 400سال پرانی قدیم مسجد ہے جہاں پر نماز کی ادائیگی ہوتی رہی ہے ۔لیکن اس سال اپریل میں اس وقت تنازع کھڑاہوگیا جب وہاں مسجد کی تزئین وآرائش کے دوران ایک ستون ملاتھاجس کو لیکر ہندو تنظیموں نے ہنگامہ کھڑاکیا۔
وشو ہندو پریشد اور دوسری تنظیموں نے اسے مندر جیسا ستون بتایااور اس کے بعد ہندو تنظیموںنے عدالت کا رخ اختیار کیا ۔جہاں انہوںنے سماعت کی درخواست اور سروے کامطالبہ کیاجبکہ مسجد انتظامیہ کمیٹی نے اصل مقدمے کی پائیداری کو چیلنج کر تے ہوئے کہاتھاکہ یہ مسجد وقف کی املاک ہے او راس معاملے کی سماعت وقف ایکٹ کے مطابق وقف ٹریبونل کے ذریعہ کی جانی چاہئے لیکن عدالت نے اپنے فیصلے میں اس معاملے کی سماعت وقف ٹریبونل کے ذریعہ کرائے جانے کی درخواست خارج کردی اور ملالی مسجد پر سماعت کا حکم دیا۔یہ معاملہ منگلورو کی تیسری ایڈیشنل کورٹ میں چل رہاہے جہاں ہندو تنظیموں کی طرف سےسروے کرانے کامقدمہ دائر کیاگیاہے ۔
واضح ہوکہ عدالت کا فیصلہ وارانسی کی ایک عدالت کے خطوط پر ہے ، جس نے گیانواپی مسجد کی جانب سے وقف ایکٹ کے ذریعے دائر کیے گئے مقدمے پر پابندی نہیں لگائی تھی، کیونکہ مدعی (مسجد کے اندر نماز پڑھنے کی اجازت مانگنے والی پانچ خواتین) غیر مسلم ہیں اور متنازعہ جائیداد پر بنائے گئے مبینہ وقف کے لیے اجنبی ہیں۔ قابل ذکرہے کہ کرناٹک میں ملالی مسجد کی بحالی کے دوران ہندو مندر جیسا ڈھانچہ ملنے کے بعد تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا۔ اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے وشو ہندو پریشد اور دیگر ہندو تنظیموں نے عدالت کے مقرر کردہ کمشنر کے ذریعے سروے کا مطالبہ کیا۔ٹی اے دھننجے اور بی اے منوج کمار نے تھرڈ ایڈیشنل سول کورٹ میں عرضی دائر کی تھی جس میں مسجد کے سروے کی مانگ کی گئی تھی۔

 

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close