Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

جنادریہ فیسٹول 2018: نئے خواب کی نئی تعبیر

تغیرات تو زمانے کا مقدر ہیں۔ انسانی زندگی بھی انہی تبدیلیوں کی راہوں پر سفر کرتی ہے۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے، جو مکمل نظام حیات ہے اور اس کی مقبولیت اور مضبوطی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ نئے دور کی بھی شناخت بنتا رہا ہے، پرانے دور کو بھی کمال دیتا رہا ہے لیکن وقت کا المیہ یہ بھی ہے کہ لوگوں نے اسلام کی جو شبیہ پیش کی ہے یا اسلام دشمنوں نے اسلام اور مسلمانوں کو جس طرح دہشت گردی اور انتہا پسندی سے جوڑا ہے وہ امن وعالم کے لئے خطرناک ہے۔ چنانچہ اب مملکت سعودی عربیہ نے دنیا کے سامنے اسلام کو امن کا مذہب ثابت کرنے کا عزم کیا ہے۔ انتہا پسندی، دہشت گردی کے تعلق سے جس طرح عالم اسلام کو بدنام کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اس کا جواب دینے کی سعی کی ہے۔ جنادریہ فیسٹیول کے پلیٹ فارم کے ذریعے اپنی عظیم ثقافت کا آئینہ بھی دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ خادمین حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ان کے جوان سال ولی عہد پرنس محمد بن سلمان نے نئے سعودی عرب کی تعمیر وتشکیل اور اسلام کی صحیح شبیہ کا جو خواب دیکھا ہے Vision 2030 اسی کی تعبیر ہے جس کے تحت سعودی عرب کو ترقیاتی میدان میں سرخرو کرنے کے نئے نئے منصوبے شروع کئے گئے ہیں، جو محض چند برسوں میں اپنے عروج تک پہنچ گئے ہیں۔ سعودی عرب جو صرف مکہ اور مدینہ کی وجہ سے مقدس سمجھا جاتا رہا ہے اب وہاں کی ترقیاتی عظمت بھی دنیا کے لئے مثال بن رہی ہے۔ زیر نظر خصوصی شمارہ سعودی عرب میں تبدیلیوں کے خوش آئند منظر ناموں کا ایک ایسا آئینہ ہے جس سے نہ صرف پوری دنیا کو متاثر ہو رہی ہے بلکہ عالم اسلام کو بھی حوصلہ مل رہا ہے کہ آنے والے دور میں سعودی عرب ایک بڑی طاقت بن کر عالم اسلام کی قیادت کرے گا ۔

مملکت سعودی عرب نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ تغیر زندگی کی حقیقت اور وقت کی ضرورت ہے، جسے بہت دن تک نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اسی نقطہ نظر کے تحت مملکت سعودی عربیہ نے بڑے وسیع پیمانے پر سماجی، معاشرتی، مقامی اور اقتصادی تبدیلی کی تیز رفتار شروعات کر دی ہے اور اس بات کو بھی جھوٹا ثابت کر دیا ہے کہ سعودی عربیہ ایک بند سوسائیٹی ہے، کنزرویٹو سسٹم ہے، جہاں کسی طرح کے ریفارم یا تبدیلی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے اور اگر کوئی تبدیلی آئے گی بھی تو بہت دھیمی رفتار سے آئے گی۔

خادمین حرمین شریفین ملک سلمان بن عبدالعزیز اور ان کے 32 سالہ جوان سال ولی عہد محمد بن سلمان اس پورے قواعد کے محرک و مبلغ ہیں، جنہوں نے یقیناً ایک بڑا سیاسی داؤ کھیلا ہے اور اپنی امیدوں کا مرکز اور اپنے ملک کی بدلتی ہوئی کشتی کا ناخدا وہاں کے نوجوانوں کو بنایا ہے، جو برسوں سے تبدیلی کے خواہاں تھے اور سعودی عرب میں ہو رہی بدعنوانیوں سے بد دل بھی تھے۔

یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ سعودی عرب کی کُل آبادی 3 کروڑ 30 لاکھ ہے، جس میں تقریباً 1کروڑ 30 لاکھ غیر ملکی ہیں یعنی خارجی ہیں، جو ہند، پاک، بنگلہ دیش وغیرہ سے روزگار کی تلاش میں آئے ہیں۔ بقیہ 2 کروڑ میں 37 فیصد آبادی کی عمر 14 سال سے کم ہے۔ اسی طرح 51 فیصد لوگوں کی عمر 25سال سے کم ہے یعنی سعودی عرب کی 2 تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے پرنس محمد بن سلمان نے اپنا ذہن Vision 2030 پر مرکوز کیا ہے، جس کی تہہ میں جہاں ملک میں معاشرتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ترقیاتی تبدیلی کی بھی لہریں موجزن ہیں۔

سعودی عرب کی جی ڈی پی پورے طور پر Oil پر منحصر ہے۔ پٹرول سے ہونے والی آمدنی مملکت کی ترقی کا ذریعہ ہے، لیکن اب جس تیزی سے آئل کی قیمتوں میں کمی آرہی ہے اور دنیا میں تیل کے متبادل کی تلاش جاری ہے۔ اس کے مد نظر سعودی عرب بھی اپنی معیشت کو مستحکم رکھنے اور جی ڈی پی کو مضبوط بنائے جانے کے لئے Budget Deficit جو تقریباً 50 بلین ڈالر کا ہے۔ اسے کم کرنے کے لئے آمدنی کے دوسرے ذرائع نکالنے کے لئے کوشاں ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ معیشت کو استحکام دینے کے لئے روزگار اور صنعت کاری کے تحت اسمارٹ سٹی کا پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے۔سعودی عرب میں سیاحوں کو پرموٹ کرنے کے لئے تیز رفتاری سے کام چل رہا ہے۔ اس سے 30 ملین سیاح حج و عمرہ کے عازمین کے علاوہ ہر سال سعودی عرب آئیں گے اورانکی آمد حکومت کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہوگی۔

نئے معاشی نظام کے تحت سعودیوں کو روزگار اور نوکری کے نئے مواقع فراہم کرائے جا رہے ہیں اور خواتین کو بھی ان امور میں خصوصی طور پر ترجیح دی جا رہی ہے۔ مملکت میں جہاں ایک طرف معاشی و اقتصادی سرگرمیاں تیز تر ہو رہی ہیں تو دوسری طرف معاشرتی تبدیلی بھی قابل دید ہے، خوش آئند ہے۔ یہاں عورتوں کے گاڑی چلانے پر پابندی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب خواتین اسٹیئرنگ تھامے ہوئے گاڑی چلاتی نظر آتی ہیں۔ خواتین کو اب تو موٹر سائیکل چلانے کی بھی آزادی دی جا رہی ہے۔ اسٹیڈیم میں جاکر کھیل کود کے میچ کا لطف بھی یہاں کی خواتین اٹھا رہی ہیں۔ اس سے پہلے سعودی عرب کے کلچر میں یہ تصور بھی نہیں تھا۔ 1980کی دہائی میں جب الٹرا کنزرویٹو ازم کا دور آیا تو سنیما ہال بند ہو گئے تھے لیکن اب بڑی تیزی سے کئی سنیما ہال کھل رہے ہیں۔ پہلے تفریح کی غرض سے جہاں سعودی باشندے ہفتہ کے آخر میں ہزاروں کی تعداد میں دبئی اور بحرین کا رُخ کرتے تھے وہاں جاکر تفریح کرتے تھے اب وہ اپنے ملک میں ہی ان ساری سہولیات کا لطف اٹھا رہے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سعودی عرب سے باہر جانے والا پیسہ سعودی عرب میں ہی خرچ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے مملکت کی جی ڈی پی میں اضافہ ہو گیا ہے۔

2018 تبدیلیوں کو لے کر کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سال کئی تقریبات اور شوز منعقد ہوئے جن میں ریپر نَیلی (Rapper Nelly) اور گیمس آفتھرونس (Games of Thrones) کے دو اسٹار پہلی بار سعودی عرب آئے اور ان کا یہاں زبردست استقبال ہوا۔ اسی کڑی میں جان ٹرووولٹا بھی سعودی عرب آئے۔کامک کونس (Comic Con) کے شوز بھی منعقد کئے گئے۔ پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان کا بھی زبردست شو سعودی عرب میں ہوا اور Formula E-Race کا اہتمام بھی ایک زبردست کامیابی ہے، جس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 50 ہزار غیر ملکی افراد نے شرکت کی۔ یہ ساری باتیں نئے سعودی عرب کا منظر ہیں اور بہت خوش آئند ہیں اور اس بات کی غماز بھی ہیں کہ سعودی عرب بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔

مزے دار بات ہے کہ اس ملک کے مزاج کے برعکس جیسا کہ عام تصور تھا کہ یہاں کا معاشرہ ان چیزوں کو بہت تیزی سے قبول کر رہا ہے۔ جنادریہ فیسٹیول اس کی بہترین مثال ہے۔ جس میں ہر طرح کے کھیل کود، ثقافتی پروگرام، میلہ میں مرد و کھاتیں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ جنادریہ فیسٹیول سعودی عرب کا قومی تہوار ہے جو 2 ہفتہ چلتا ہے 20 دسمبر 2018 سے شروع ہونے والے جنادریہ فیسٹیول کا افتتاح ملک سلمان بن عبدالعزیز نے کیا۔ جنادریہ فیسٹیول میں سعودی عرب کی تاریخ و ثقافت، علم و ادب، موسیقی، روایتی میلے، سیمینار مشاعرے سے لے کر ہر طرح کے پروگرام بڑے پیمانے پر منعقد ہوتے ہیں جو سعودی عرب کی تاریخ، تہذیب و تمدن کا حصہ ہیں، جس میں اونٹ کی دوڑ، اردا رقص وغیرہ کافی مقبول ہیں۔ 2017 کے جنادریہ فیسٹیول میں ہندوستان کی وزیر خارجہ سشما سوراج گیسٹ آف آنر تھیں۔ 2018 کے جنادریہ میں انڈونیشیا کو یہ اعزاز حاصل ہوا۔

میں نے کئی مرتبہ جنادریہ میں شرکت کی لیکن اس مرتبہ جب جنادریہ 2018 کی تقریبات میں شرکت کرنے کے لئے سعودی حکومت کی دعوت پر ریاض پہنچا تو ان سارے تغیرات کو اپنے سامنے دیکھ کر کچھ لمحوں کے لئے ششدر رہ گیا، سوچنے لگا کہ کیسے سعودی معاشرہ ان کو قبول کر رہا ہے لیکن گفتگو کے دوران مملکت کے اس وقت کے اطلاعات کے وزیرڈاکٹر اوادالاواد نے بڑی خوش دلی سے کہا کہ اس میں حیرت کی بات نہیں سعودی نوجوانوں کی بھی وہی خواہشات اور وہی خواب ہیں جو دیگر ملک کے نوجوانوں کے ہوتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ جب سعودی عرب کے بارے میں سوچتے ہیں یا گفتگو کرتے ہیں تو ان کا ذہن مکہ اور مدینہ پر مرکوز ہوتا ہے یہ ہمارے لئے فخرکی بات ہے کہ یہ دو مقدس شہر ہماری سر زمین پر ہیں اور ہماری سب سے بڑی طاقت ہیں۔ سعودی عرب مکہ اور مدینہ اور یہاں آنے والے عازمین کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے پرعزم ہے لیکن سعودی عرب بھی اسی طرح سے ملک ہے جیسے کوئی دوسرا ملک۔ خواہ ہندوستان ہو پاکستان یا انگلستان ہو یا امریکہ۔ ہمارے لوگوں کو بھی دور جدید کی ہر سہولت و آرم و آسائش سے لطف اندوز ہونے کا پورا حق ہے جیسا کہ دیگر ممالک کے عوام کا ہے اور ہم یہ حق یہاں کے عوام کو فراہم کر رہے ہیں۔

جو لوگ یہاں ہونے والے ریفارم پر تنقید کرتے ہیں خواہ سنیماہال کے کھولے جانے کے حوالے سے یا دیگر امور پر ان کے خود کے ملک میں سیکڑوں سنیماہال ہیں۔ وہ ماڈرن دنیا کی ہر سہولت کو اپنے یہاں استعمال کر رہے ہیں لیکن وہی چیزیں جب سعودی عرب کرتا ہے تو مکہ۔مدینہ کا حوالہ دے کر تنقید کی جاتی ہے، تنبیہ کی جاتی ہے جو دراصل سعودی عرب کو مین اسٹریم سے باہر رکھنے اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے چھوڑنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ ڈاکٹر اواد نے یہ بھی کہا ہے کہ جیسے کسی بھی معاشرے میں لوگ نئی چیزوں کا خیر مقدم کرتے ہیں وہیں کچھ لوگ اس کو لے کر پس و پیش میں بھی رہتے ہیں۔ یہاں بھی ایسا ہی ہے لیکن سرکار پُرعزم ہے۔ ہمیں پورے طور پر ملک کے نوجوانوں اور سارے لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ Vision 2030 اسی حمایت پر آگے بڑھ رہا ہے اور ہم یقیناً یہ سچ کرکے دکھا دیں گے اور سعودی عرب کو ایک ماڈرن ترقی یافتہ، امن پسند ملک کے طور پر دنیا میں اس کی شناخت کومزید مضبوط کریں گے۔

ہم اس معاملہ میں پوری دنیا کی قیادت کرنے کا دم رکھتے ہیں ہمارا عزم ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اسلام کی ایک طرفہ تصویر پیش کی ہے اور اس دین کو، اس کے ماننے والوں کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے شرمندہ کیا ہے انہیں ہم بتائیں گے کہ اسلام امن کا نام ہے، اسلام فلاح بہبود کا نام ہے اسلام جیو اور جینے دو کا نام ہے۔ اسلام انسانیت کا پیغامبر ہے، جہاں مذہب کے نام پر قتل وغارت گری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سعودی عرب اسی پیغامِ انسانیت کو فروغ دے رہا ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close