Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

کیوں ہر عروج کو یہاں آخر زوال ہے

محاسبہ…………….سید فیصل علی

رات کے اندھیرے میں اقتدار حاصل کرنے والی بی جے پی کو مہاراشٹر میں جو کرارا جھٹکا لگا ہے، اس کی باز گشت ملک میں گونج رہی ہے۔ 23 نومبر سے 26 نومبر تک صرف 80 گھنٹے وزیراعلیٰ کا تاج پہننے والے فڑنویس نے ایوان میں اکثریت ثابت کرنے سے قبل ہی ہار مان کر اس بات کو اجاگر کر دیا کہ بی جے پی عروج کے دور سے لوٹ کر زوال کی طرف گامزن ہے۔ مہاراشٹر میں بی جے پی کی اقتدار سے واپسی اس بات کا عندیہ ہے کہ بھارت میں ہندوتو کو جو عروج ہے وہ بھی زوال پذیر ہے اور ملک میں ایک بار پھر آئین اور سیکولرزم کی رگوں میں توانائی آنے والی ہے۔ رواداری، بھائی چارہ کے علم برداروں کو خوف کے پردے سے نکل کر ملک کی زہریلی فضاکو درست کرنے کا موقع ملنے والا ہے۔

مہاراشٹر جیسی بڑی ریاست سے بی جے پی حکومت کا پتہ صاف ہونے کے بعد امت شاہ کی ناقابل تسخیر سیاست کی بھی حقیقت عیاں ہو چکی ہے۔ شرد پوار نے جس طرح مہاراشٹر میں بی جے پی کے قلعہ میں سیندھ لگا کر فڑنویس کو اقتدار سے بے دخل کیا ہے، راج بھون سے لے کر مرکز اور امت شاہ کے کھیل کی بساط ایسی الٹی ہے کہ آج سیاسی پنڈت شرد پوار کو اپوزیشن کا سکندر کہہ رہے ہیں۔ جن کی سیاست کے آگے نہ پیسے کی طاقت کام آئی ہے، نہ جیل بھیجنے کی دھمکی کا اثر دکھائی دیتا ہے، شرد پوار کی دمدار سیاست نے ملک کی خستہ حال اپوزیشن کو بھی زبردست تقویت بخشی ہے اور ان میں یہ اعتماد پیدا ہوا ہے کہ بی جے پی کو آئندہ اقتدار سے باہر کرنے میں شرد پوار اصلی چانکیہ کا رول ادا کرسکتے ہیں۔

مہاراشٹر میں بی جے پی اقتدار کا سورج غروب ہونے کے بعد ہی این ڈی اے کے کنبہ میں بغاوت کے سر ابھرنے لگے ہیں۔ رام ولاس پاسوان نے بہار میں تمام اسمبلی سیٹوں پر اکیلے چناؤ لڑنے کا اعلان کردیا ہے اور اب یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کہ ہندوستان کو کانگریس مکت کرنے والی بی جے پی کی سلطنت کا دائرہ اب تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ 2019 کے انتخاب سے قبل 2017 میں ملک کی تقریبا 71 فیصد سے زائد آبادی پر بی جے پی سامراجیہ قائم تھا۔ ملک کی 21 ریاستوں میں این ڈی اے حکومت کا چراغ روشن تھا، اب اس کی روشنی صرف 40 فیصد آبادی تک محدود ہو گئی ہے۔ گزشتہ 11مہینوں میں بی جے پی 4 بڑی ریاستوں میں اقتدار سے محروم ہوچکی ہے، وہ مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور پنجاب کے بعد اب مہاراشٹر میں بھی اقتدار سے بے دخل ہے۔ حالانکہ میزورم اور سکم کی حکومتیں بی جے پی کے دائرہ سلطنت میں ضرور ہیں، لیکن وہاں کی سرکار کا اقبال عوامی طاقت سے نہیں، بلکہ بی جے پی کی جوڑ توڑ کی سیاست سے بلند ہے۔

مجموعی طور پر ملک میں 13 ریاستوں میں بی جے پی اور 4 ریاستوں میں اس کی حامی جماعتوں کے وزرائے اعلیٰ ہیں۔ تمل ناڈو میں بی جے پی حکومت کے ساتھ ضرور ہے، مگر وہاں اس کا ایک بھی ایم ایل اے نہیں ہے۔ اس طرح گجرات کو چھوڑ کر بی جے پی صرف شمالی ہند میں نظر آ رہی ہے، حالانکہ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے بعد بی جے پی یوپی تک محدود ہوگئی ہے، ہریانہ میں بھی بی جے پی اپنے دم پر سرکار بنانے کی اہل نہیں۔ ضمنی انتخابات میں تو بی جے پی کو بنگال اور یوپی میں بھی کراری شکست ملی ہے۔ ممتا بنرجی اور اکھلیش ایک بار پھر بڑی طاقت بن کر بی جے پی کو چیلنج دے رہے ہیں۔ اسی طرح بہار میں بی جے پی نتیش کے کندھے پر سوار ہوکر حکومت ضرور کر رہی ہے، مگر نتیش کب گردن جھٹک لیں گے کہا نہیں جاسکتا؟ بہار میں مہاگٹھ بندھن کی طاقت آج بھی بی جے پی کے لئے لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ بہار میں پاسوان کے باغیانہ تیور، جے ڈی یو کی بی جے پی پالیسیوں کی مخالفت اس بات کا اشارہ ہے کہ بہار میں بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ شیوسینا کے سینئر لیڈر سنجے راوت کے اس دعوے میں بڑا دم ہے کہ مہاراشٹر کا کرشمہ پورے ملک میں نظر آئے گا، مہاراشٹر کے بعد اب گوا کی باری ہے، اس کے بعد دوسری ریاستوں میں جائیں گے، ملک میں غیر بی جے پی سیاسی محاذ بنائیں گے۔

قدرت کا یہ عجب کرشمہ ہے کہ جتنی تیزی سے ہندوستان بھگوا نشے میں سرشار ہوا تھا، اب اسی تیزی کے ساتھ یہ نشہ اتر بھی رہا ہے۔ 2017 سے قبل بی جے پی کی سلطنت کی وسعت جموں وکشمیر سے لے کر آندھرا اور اروناچل پردیش تک تھی اب اس کے سکڑنے کا عمل جاری ہے۔ مہاراشٹر کے بعد گوا، کرناٹک اور ہریانہ حتیٰ کہ بہار میں بھی بازی پلٹ سکتی ہے۔ مودی کے پی ایم بننے کے بعد این ڈی اے کی 17 چھوٹی بڑی پارٹیاں بی جے پی کا دامن چھوڑ چکی ہیں اور اب شیوسینا نے بھی اپنی 30 سال پرانی دوستی توڑ کر بی جے پی کو اوقات میں رہنے پر مجبورکر دیا ہے۔ دراصل ریجنل پارٹیاں اچھی طرح سمجھ چکی ہیں کہ بی جے پی کے ساتھ جانے سے ان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا، ان کی فلاسفی یہ ہے کہ بی جے پی بھسماسر ہے، اس نے جس کے سر پر ہاتھ رکھا وہ برباد ہوا، بی جے پی کا ساتھ دینے سے ریجنل پارٹیوں کو اپنے صوبے میں پنپنے کا موقع نہیں ملا۔ بی جے پی (Use and Throw) (استعمال کرو اور پھینکو) کی پالیسی کی عادی ہے، مگر اب یہی پالیسی اسے بھاری پڑ رہی ہے، اپنے مفاد کے لئے بی جے پی نے چھوٹی پارٹیوں سے معاہدہ ضرور کیا، مگر انہیں حاشیہ پر ڈال دیا اور جس نے مخالفت کی، وہ بھی بی جے پی کے سیاسی انتقام کا شکار ہوا۔

لالو پرساد یادو سے لے کر ڈی شیوکمار، پی چدمبرم وغیرہ تک سب انتقامی کارروائی کا شکار ہیں۔ محبوبہ مفتی سے لے کر نتیش کمار تک سب پر جیل بھیجنے کی تلوار لٹکائی گئی ہے، مگر مہاراشٹر میں بی جے پی کا قلعہ منہدم ہونے کے بعد اب یہ منظرنامہ بھی صاف ہونے لگا ہے کہ خوف و دہشت اور بلیک میلنگ کی سیاست کی ہوا نکل رہی ہے، نام نہاد ہندوتو کی ڈگڈگی بجانے والوں، ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کی آڑ میں ’سب کا وناش‘ کی سیاست فلاپ ہو رہی ہے، ملک اپنی پرانی ڈگر کی طرف لوٹ رہا ہے۔ شیوسینا کے ساتھ کانگریس کا آنا دراصل بی جے پی کے شدت پسند ہندوتو کی تشریح بدلنے کی سیاست ہے، کیونکہ بھارت کا اصل ہندوتو رواداری، پریم، بھائی چارہ اور سنسکار کا نام ہے۔ ہندوستان کی مٹی میں سیکولرزم اور گنگا جمنی تہذیب کا خمیر شامل ہے، جسے اقتدار کی طاقت اور دہشت کے زور پر زیادہ دنوں تک دبایا نہیں جاسکتا اور نظام قدرت بھی یہی ہے کہ ہرعروج کے بعد زوال ہرذی روح کا مقدر ہے۔ بقول شاعر__

کیوں ہر عروج کو یہاں آخر زوال ہے
سوچیں اگر تو صرف یہی اِک سوال ہے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close