Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

یوروپ میں اسلام کی پھیلتی روشنی……..

اسلام ہر دور میں نشانہ پر رہا ہے اور اس کے ماننے والے مسلمان ہر زمانہ میں مسائل و مصائب کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ لیکن اسلام کے پیروکاروں کی ایک عجیب بات رہی ہے کہ جب جب انہیں پریشانیوں کے دور سے گزرنا پڑا، وہ مصائب، مسائل اور نامساعد حالات کا شکار ہوئے تب تب ان کے ایمان اور حوصلہ میں پختگی اور تیزی آتی گئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمان دنیا کے ایک بڑے حصے پر حاوی ہو گئے، عیش وعشرت کا شکار ہوئے۔ مصائب و مسائل کے شکنجہ سے نکلتے گئے، تب ان کا زوال شروع ہو گیا۔ آج اسلام اور مسلمان ایک بار پھر اسی دور سے گزر رہے ہیں۔ دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے، جہاں کا مسلمان پریشان نہ ہو، جہاں اسلام کٹہرے میں کھڑا نہ ہو۔ اور آج کا بد ترین المیہ تو یہ ہے کہ اسلام کو دہشت گرد ی کے پیغامات دینے والامذہب قرار دیا جا رہا ہے۔ اسلام کے خلاف جھوٹی تشہیر نے جہاں نئی نسل کے اذہان پر اثر ڈالاہے، مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھا جا رہا ہے، اسی خوفناک تشہیر کا ردعمل ہے کہ انصاف پسند افراد اب اسلام اور مسلمانوں پر تحقیق کرنے لگے ہیں۔ قرآن اور اس کی حقانیت پر ریسرچ ہو رہی ہے اور جب حقائق سامنے آ رہے ہیں، تو بڑی تعداد میں نئی نسل اسلام کی طرف راغب ہو رہی ہے۔ یوروپ، امریکہ جہاں 9/11 کے بعد اسلام اور مسلمان معتوب زمانہ ہو گئے تھے اور اس کے اثرات پوری دنیامیں پھیل گئے تھے۔ایک دہائی تک مسلمان آزمائشی دور سے گزر رہا تھا۔ دہشت گردی کے الزامات تو آج بھی اسلام اور مسلمانوں کے سر پر منڈھ دیئے گئے ہیں، لیکن اب جو نسل ابھر کر آئی ہے تو اس نے جھوٹے پروپیگنڈے کے بجائے اسلام کا مطالعہ شروع کر دیا ہے اور اس مطالعہ اور ریسرچ نے اس قوم کو اسلام کی طرف راغب کر دیا ہے جو صدیوں سے اسلام کو مطعون کر رہی تھی۔ صیہونی سازشوں کے تحت اسلام دہشت گردوں کا مذہب بتایا جا رہاہے، لیکن اسلام اور قرآن کی سچائی سے اب دنیا روشن ہونے لگی ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکہ کے ایک ادارے نے پیشن گوئی کی ہے کہ30 برس کے بعد مغربی ممالک خاص کر یوروپی یونین میں مسلمانوں کی آبادی بھی20 فیصد سے زائد ہو جائے گی، ایک طرح سے یہاں کا ہر چوتھا آدمی مسلمان ہو گا۔ یوروپ میں اسلام کے عروج کی اسی داستان کو آج کے عالمی منظر نامہ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ یوروپ میں اسلام کی جڑیں اس حد تک پیوست ہیں، وہاں کے حالات، سیاست اور حکومت کی پالیسی کے باوجود اسلام کس طرح فروغ پا رہا ہے، یہ مضمون اسی کی جھلکیاں پیش کر رہا ہے۔ خاص کر دہشت گردی کے تعلق سے یوروپ میں جو خاص مزاج بنا ہو اتھا، اب اس مزاج میں تبدیلی آچکی ہے۔ لوگ واقف ہو رہے ہیں کہ اسلام محبت کا مذہب ہے، دہشت گردی کا نہیں۔ یہی واقفیت اور حقیقت یوروپ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں اسلام کی جڑوں کو مضبوط کرتی جا رہی ہیں۔

ابھی حالیہ دنوں میں ایک امریکی ادارہ نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ 2050تک یوروپی یونین میں مسلمانوں کی آبادی 20فیصد سے زیادہ ہو جائے گی۔ فی الحال یوروپ میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 4فیصد ہے، لیکن مہاجرین، ترک وطن کرنے والے افراد اور تیزی کے ساتھ شرح پیدائش بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ واضح طور پر یوروپی آبادی میں دیگر طبقات کے مقابلے نہایت تیزی کے ساتھ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے۔ لہذا، ایسا ہونے پر بہت ممکن ہے کہ 40سال کی مدت میں مسلمانوں کی آبادی اس نہج پر پہنچ جائے کہ ہر پانچ یوروپی افراد کے درمیان ایک مسلمان ہو جائے۔ اس بات سے یہاں ایک سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس روش سے یوروپ میں کسی طرح کی تبدیلی رونما ہو جائے گی۔

ایک معروف خاتون صحافی ایمان کردی کے مطابق اس نقطہ پر توجہ دینے کی نہایت ضرورت ہے چنانچہ انہوں نے سعودی عرب کے ایک روز نامہ ’’عرب نیوز‘‘ میں شائع ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’ہر پانچ یوروپی افراد کے درمیان ایک مسلمان ہونے پر بھی مسلمانوں کے اقلیت میں ہونے کی ترجمانی ہوتی ہے۔ لہذا، اسلام کو یوروپ میں ہی مشکل سے عروج حاصل ہو سکے گا۔‘‘ انہوں نے اپنے مضمون میں اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ آبادی کے تعلق سے جو پیش گوئی کی جاتی ہے وہ شاذو نادر ہی درست ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ نقل مکانی یا ہجرت ہمیشہ کم وبیش ہوتی رہتی ہے اور یہ تناسب سلسلہ وار اقتصادی، سماجی اور سیاسی اثرات کے مطابق ہوتا رہتا ہے، جن کے بارے میں پیش گوئی نہیں کی جا سکتی ہے۔ ایسا بھی تصور کیا جاتا ہے کہ شرح پیدائش اسی طرز پر جاری رہے گی کیونکہ غیر مسلم ہم وطنوں کے مقابلے مسلم خواتین کے زیادہ بچے ہوتے ہیں، لیکن ان سب اسباب کی وجہ سے مذکورہ بالا تصور ممکن نہیں ہو سکتا ہے۔‘‘

کردی کا یہ بھی کہنا ہے کہ یوروپی آبادی میں ہر پانچویں افراد کے درمیان ایک مسلمان ہونے کی روش 2050تک اگر ختم نہ ہو جائے تو یہ یوروپ کے لئے نیک شگون ہونی چاہیے۔ ’’کیوں کہ وہ پہلے سے ہی اپنے شان دار ثقافتی ورثہ میں اسلام کی خصوصیات کو شامل کر لے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں میں بہت زیادہ تنوع ہے۔ موجودہ دور میں پوری دنیا کی آبادی میں مسلمانوں کی آبادی 23فیصد سے کچھ ہی زیادہ ہے، جس سے 2050تک ان کی آبادی میں اضافہ ہونے کا معمولی سا اشارہ ملتا ہے۔ بالکل اسی طرح یوروپ میں ان کے مختلف گروپ ہیں، جو کہ اپنے آبائی ممالک کے مطابق رجحان رکھتے ہیں اور اسی کے مطابق خود کو منظم کئے ہوئے ہیں۔ یوروپی مسلمان بھی کافی حد تک اس نئے ملک کے معاشرہ میں گھل مل گئے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ اب بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2050 تک وہ کس حد تک اس نئے معاشرہ میں گھل مل جائیں گے۔ کیا یوروپی مسلمان مکمل طور پر یوروپ کے شہری ہو جائیں گے؟ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ شہری جن کی دوسری، تیسری اور چوتھی نسل یہاں پیدا ہوئی ہے، وہ خود ہجرت کرنے والوں کی اولاد یں ہونے کا لیبل چسپاں نہیں کریں گے؟ یا پھر انہیں بھی اسی طرح دیکھاجائے گا جیسا کہ دہائیوں قبل نہیں بلکہ صدیوں قبل ان کے اجداد کو دیکھا گیا تھا؟‘‘ ایک اندازے کے مطابق یہاں پر ترک نژاد2.9ملین جرمنی باشندوں کی آبادی ہے۔ جرمن مسلمانوں کی یہ سب سے بڑی آبادی تصور کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں کردی کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو وہ زیادہ دنوں تک ترک نژاد جرمن باشندے نہیں رہیں گے بلکہ صرف انہیں جرمن مسلمانوں کے طور پر تسلیم کر لیا جائے گا۔ چونکہ انضمام ہونے کا یہ دو طرفہ عمل ہے اس لئے نئی مسلم شناخت میں جرمنی کی خصوصیات خود بخود شامل ہو جائیں گی۔ اس کے علاوہ 27ملکوں، جن کو ملا کر یوروپی یونین بنی ہے ان میں تبدیلیاں رونما ہونے کے مواقع بھی مل جائیں گے۔

ہسپانیہ (اسپین) میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً ایک ملین یعنی یوروپ کی کل آبادی کی 2فیصد ہے۔ فرانس میں جو کہ اسی کا ایک پڑوسی ملک ہے اس میں قدرے کم یوروپ کے مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے تاہم ہجرت کے سبب حالیہ دنوں میں مسلم آبادی میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔لہذا، ایک دہائی کی مدت کے دوران غیر ملکی نژاد افراد کی آبادی میں 3فیصد سے بڑھ کر 13فیصد سے زائد کا اضافہ ہو گیا ہے۔ جرمنی کی ایک نیوز میگزین ’Der Spiegel‘ کی رپورٹ کے مطابق چند سال قبل مشرف بہ اسلام ہونے والے جرمنی کے باشندوں کی تعداد میں اب چار گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ ا س کا مطلب یہ ہے کہ جولائی 2004 اور جون 2005کے درمیان جرمنی کے تقریباً 4000افراد نے اسلام مذہب اختیار کر لیا تھا جو کہ گزشتہ برسوں کے مقابلے چار گنا ہے۔

جرمنی میں وزارت داخلہ کی مالی امداد سے کرائی گئی ایک اسٹڈی میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں زیادہ تر خواتین نے ان مردوں سے شادی کی تھی، جنہوں نے اسلام مذہب قبول کر لیا تھا اور آج بہت سے لوگ دانستہ طور پر یا اپنی خوشی سے تبدیلی مذہب کر رہے ہیں۔ اس اسٹڈی میں مزید کہا گیا ہے کہ موجودہ وقت میں یوروپی مسلمانوں کی شمولیت بحث کا ایک موضوع بن گئی ہے، جس کا منظر نامہ یوروپ کے میڈیا میں ابھر کر سامنے آیا ہے، جس کی وجہ سے لوگ انہیں ایک خصوصی متبادل کے طور پربھی دیکھ رہے ہیں۔ کردی کے مطابق ’’خبروں کی حقائق جانے بغیر ان پر ردعمل ظاہر کرنے پر خصوصی طور پر امیگریشن کے تعلق سے کسی کے لئے بھی وہ غور وفکر کرنے کا موضوع بن جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے پیو (Pew) کے ذریعہ کرائے گئے سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اہل اسپین کسی نہ کسی حد تک ملک میں دہشت گردی کے تعلق سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت مسلمانوں کے اعداد وشمار کے تعلق سے باتیں ہونا محض ایک اتفاق ہی نہیں ہے، جو کہ ایک بم کی مانند ہے بلکہ خواتین کو نقاب میں دیکھ کر یہ شبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ برقعہ یا نقاب کی غلط تشریح ہونے کے سبب یہ ایک اہم ایشو ہو گیا ہے۔ کئی ملین خواتین یوروپ میں رہتی ہیں لیکن ان میں سے چند ہزار ہی برقعہ زیب تن کرتی ہیں اور اسی طرح سے فرانس، اسپین اور بیلجیئم ان تینوں ملکوں میں بھی یہی روش دیکھی جا تی ہے۔ اسی لئے اس کو قانونی دائرہ میں لایا جا رہا ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں اسپین کی حکومت نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسپین میں رہنے والے مسلمانوں کی زندگی میں مذہب کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور وہ رواداری میں یقین رکھتے ہیں۔ 2008میں 400مسلم گروپوں نے بروسلس میں یوروپی مسلمانوں کے لئے ایک چارٹر پر دستخط کئے تھے، جس میں یوروپی سوسائیٹی میں ان کے حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں وضاحت کی گئی تھی اور یوروپی پارلیمنٹ کے نمائندوں نے اس کی ستائش کی تھی۔ اس وقت کنزرویٹو فورزا اٹیلیا پارٹی سے وابستہ پارلیمنٹ کے ڈپٹی چیئر مین ماریو مورو نے کہا تھا کہ ’’یوروپ میں اس چارٹر سے مسلمانوں کے ضابطۂ اخلاق کی بہت حد تک عکاسی ہوتی ہے، جس میں انہوں نے متحدہ معاشرہ کی تعمیر و ترقی کا عزم ظاہر کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس میں مسلمانوں نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ معاشرہ میں نہ صرف یکجہتی اور خوشحالی لانے میں تعاون کریں گے بلکہ ایک بہترین شہری ہونے کا رول بھی ادا کریں گے اور دیگر لوگوں کے لئے انصاف و مساوی حقوق کے لئے بھی جذبہ بر قرار رکھیں گے۔ پارلیمنٹ و دیگر مذہبی گروپوں کے درمیان تعلقات کی پا سداری نہایت ذمہ داری کے ساتھ ادا کریں گے۔ فیڈریشن آف اسلامک آرگنائزیشن ان یوروپ (FIOE) کے ترجمان ابراہیم ایلزائت کا کہنا ہے کہ ’’یہ چارٹر نہ صرف حکومت اور بقیہ سوسائیٹی کے لئے ایک پیغام کی مانند ہے بلکہ یوروپ میں مسلمانوں کو اس سے ہدایت بھی ملے گی۔ ‘‘یہ چارٹر اب کو آرڈی نیٹر کے طور پر عمل کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ایک تاریخی دستاویز بن گیا ہے۔

ایف آئی او ای تقریباً 29مسلم تنظیموں اور 1000سے زائد گروپوں، جس میں مسلم ایسو سی ایشن آف برٹین (MAB)، یونین ڈیس آگنائزینس اسلامک ڈی فرانس (UOIF) اور ((Islamische Gemeinschaft in Deutschland (IGD) بھی شامل ہیں، کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایلزائت نے Euro Observe کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس چارٹر میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ‘ہمیں ان سوسائیٹوں میں ایک اچھے شہری ہونے کے ناطے کیسے برتائو کرنا چاہیے، جہاں پر ہم رہتے ہیں اور جہاں پر ہمیں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ اس دستاویز میں علیحدہ علیحدہ 26 نکات ہیں اور ان میں بھی بہت سی شقیں ہیں، جس میں بلاشبہ اس بات کی وضاحت کر دی گئی کہ اسلام اور تشدد کے درمیان جو غلط فہمیاں پیدا کر دی گئی ہیں، حقیقت میں ایسانہیں ہے۔ اس کے علاوہ جہاد کے تعلق سے بھی صاف الفاظ میں وضاحت کر دی گئی ہے۔ یوروپی یونین میں مسلمانوں کا رول اور مسلمانوں کے تئیں یوروپ کا رجحان اب سیاسی ایجنڈا بن گیا ہے۔ دریں اثنا، Centre-right Euro-deputies اب EU-Islam کے تعلق سے بات چیت کرنے لگے ہیں، جس کے تحت اسکولوں میں مذہبی تعلیم دئے جانے پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ ای یو کلچر کمشنر جان فگیل نے کہا تھا کہ بہت سے یوروپی اسکولوں میں عقیدہ کے لحاظ سے طلبا کو الگ الگ کر دیا گیا ہے اور انہیں الگ سے تعلیم دی جاتی ہے جو کہ ان کے اپنے مذہب کے مطابق ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بروسلس ممبر ریاستوں کی حوصلہ افزائی کرے گا کہ وہ بھی اپنے یہاں نصاب کا جائزہ لیں تاکہ تعلیمی نظام مزید متحرک ہو جائے ۔Swedish conservative MEP (ممبر آف یورونین پارلیمنٹ) اور EPP-ED گروپ کے ڈپٹی چیئرمین ہو کمارک نے Euro Observer سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ممالک جو بہت زیادہ مذہبی نہیں ہیں جیسے کہ سویڈن کے باشندے تو ان کو بھی مذہب کے بارے میں زیادہ جانکاری ہو نی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ لوگوں نے غلط طریقہ سے دہشت گردی کو اسلام سے منسوب کر دیا ہے۔ اسلام دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے لوگ اس بات سے واقف ہو تے جا رہے ہیں، یوروپ میں اسلام کا دائرہ وسیع ہو تا جا رہا ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close