Khabar Mantra
محاسبہ

کبھی سنا ہے کہ اندھیروں نے ،سویرا ہونے نہ دیا

محاسبہ………………………………سید فیصل علی

دلی کی سرحدوں پر کسان اندولن کو 75دن ہوچکے ہیں ۔حکومت نے کسانوں کی بیرونی آمد و رفت کو روکنے کیلئے جس طرح قلعہ بندی کی ہے اس کی پوری دنیا میں تنقید ہورہی ہے۔اسے جمہوریت اور انسانیت کے خلاف قرار دیا جارہا ہے۔ عالمی سطح کی کئی شخصیات نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔امریکی گلوکارہ ریحانہ اور ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کے ایک ٹوئٹ نے حکومت وقت کو جو آئینہ دکھایا ہے اس پر پورا گودی میڈیا بھاجپا کے لیڈران بالی وڈ کے ستارے اور کرکٹ کھلاڑیوں تک جس طرح چراغ پا ہورہے ہیں اس سے وہ خود دنیا میں مذاق کا موضوع بن رہے ہیں اور کسان اندولن نہ صرف قومی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی صدائے حق بن کر اقتدار اور اکثریت کے نشے میں شرسار مسند نشینوں کے آگے سوال بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔

26 جنوری کے سانحہ کے بعد کسان اندولن ایک طرح سے آئی سی یو میں چلا گیا تھا مگر ٹکیت کے آنسوئوں نے اندولن کو نئی زندگی دے دی ۔محض 24گھنٹے کے اندر اندولن نے یوٹرن لیا مایوس کسانوں کے چہروں پر رونق لوٹ آئی۔ ٹکیت کی حمایت میں ہریانہ ، مظفرنگر ،باغپت وغیر ہ سے کسانوں کا ایک اژدہام دلی بارڈر کی طرف کوچ کرگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کسان اندولن پہلے کی بہ نسبت کہیں زیادہ طاقتور اندولن بن گیا ۔ کسانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے حکومت بھی گھبراگئی آناً فاناًمیں بارڈر کی قلعہ بندی کردی گئی ۔ کسانوں کی بیرونی آمد و رفت روکنے کیلئے کٹیلے تار لگائے گئے،خندقیں کھودی گئیں،پانچ لیئر کی بیریکیٹنگ کی گئی ،حتیٰ کے سڑکو ں پر کیلیں نصب کی گئیں اور بڑی تعداد میں جوان بھی تعینات کردئے گئے۔اندولن کی آواز دبانے کیلئے بارڈر پر موبائل اور انٹر نیٹ سروس معطل کردی گئی۔ چنانچہ کسانوں نے قلعہ بندی کا جواب 6 جنوری کو ملک گیر چکہ جام کے ذریعہ دیا۔یہ ملک گیر چکہ جام عوامی غم و غصہ کا ایسا اظہاریہ تھا ۔جس نے ثابت کیا کہ کسان اندولن نہ صرف جن اندولن بن چکا ہے بلکہ سڑک سے پارلیمنٹ تک گھماسان مچا دیا ہے۔اس اندولن کی دھمک غیر ملکوں میں بھی گونچ رہی ہے۔برطانیہ کی پارلیمنٹ سے لیکرامریکہ، کناڈا ،سوئڈن اقوام متحدہ وغیرہ تک ہندوستان کی عظیم جمہوریت کی بے بسی پر آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔کئی عالمی شخصیات کسان اندولن کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوئیںہیں۔امریکہ کی معروف گلوکارہ ریحانہ ،ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ ،امریکی نائب صدر کی بھتیجی مینا ہیرس،امریکی اداکارہ امانڈہ وغیرہ جیسی مقبول ترین خواتین نے کسانوں کی آواز دبانے کو انسانیت اور جمہوریت کے منافی قرار دیا ہے۔ لیکن ان کے خلاف گودی میڈیا بی جے پی آر ایس ایس کے لیڈران بالی وڈ کے مشہور فلمی ستارے اور کرکٹ کھلاڑی تک آستینیں چڑھا کر کھڑے ہیں۔ اسے ہندوستان کے اندرونی معاملے میں مداخلت بتایا جارہا ہے۔ٹوئٹر پر ریحانہ اور گریٹا کے کردار کا بخیہ ادھیڑا جارہا ہے اور جس طرح دلی بارڈر قلعہ بندی کی گئی اسی طرح ان دو عورتوں کے خلاف مورچہ بندی ہورہی ہے۔ دونوں جگہوں کو مورچہ بندی سے دنیا میں ہندوستان کی عظیم شبیہ مجروح ہورہی ہے۔ ششی تھرور کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی امیج کو بچانے کیلئے یہ ہنگامے ختم ہونے چاہیں۔مگر جس دور میں انسانیت ، ضمیر کی آواز اور حق کی پکار نام نہاد راشٹر وادکے چابک سے خاموش کی جارہی ہو،جہاں آئینی ادارے حتیٰ کہ عدلیہ تک دبائو میں ہو ،ایسے دور میں اقتدار اور اکثریت کے زعم میں مبتلا مسند نشینوں کو بھلا اس کی پرواہ ہی کیا ہے۔ 

32 سالہ امریکی گلوکارہ ریحانہ اور21سالہ ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کے ٹوئٹ نے سوشل میڈیا سے لیکر گودی میڈیا میں کہرام مچادیا ہے ۔سیاسی لیڈروں سے لیکر فلمی ستاروں ،موسیقی کاروں ،کرکٹ کھلاڑیوں کے ذریعہ ان دو عورتوں کی لعنت ملامت کی ڈفلی بجائی جارہی ہے اور حیرت تو یہ بھی ہے کہ کسان اندولن کی آتنک وادیوں سے سانٹھ گانٹھ کی بات بھی ہونے لگی ہے۔ ریحانہ کو پیسہ دیکر ٹوئٹ کرانے کا پرچار ہورہا ہے، دلی میں گریٹا پر مقدمہ قائم کردیا گیا ہے۔مگر ریحانہ،گریٹا اپنے موقف پر قائم ہیں۔

گلوکارہ ریحانہ دنیا میں مودی سے زیادہ مقبول ہیں ،ان کے ٹوئٹر پر 10 کروڑ فالوورز ہیں،جبکہ مودی کے 6کروڑ فالوورز ہیں۔ ریحانہ نے صرف ایک لائن ٹوئٹ کرکے اپنے ضمیر اور جذبات کا اظہار کیا’ہم کسان اندولن کے بارے میں بات کیوں نہیں کرتے‘۔ریحانہ کے اسی ٹوئٹ کے بعد گریٹا تھنبرگ ، مینا ہیرس ،اداکارہ امانڈہ بھی کسانوں کی حمایت میں کھڑی ہوگئیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانیت اور جمہوریت کی بقا کیلئے آواز اٹھانا اندرونی مداخلت نہیں ہے۔ مجھے گمان نہیں تھاکہ ریحانہ کے ایک ٹوئٹ کا اتنا اثر ہوگا کہ ہندوستان کی سالمیت ، بقا،جمہوریت سب خطرے میں پڑ جائے گی،ہر طرف ہاہاکار مچ جائے گی ،ریحانہ اور گریٹا کے ٹوئٹ نے تو بالی وڈ کے سوئے ہوئے لوگوں کو بھی جگادیا ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ ان میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی اور یہ خود ہی کسانوں کے حق کی آواز بنتے نہ کہ کسانوں کی آواز اٹھانے والے ریحانہ وگریٹا کی مخالفت کرتے۔لیکن اس کے برعکس ریحانہ اور گریٹا کے خلاف ایک کے بعد ایک ٹوئٹ اس بات کے غماز ہیں کہ بالی وڈ کس حد تک سرکار کا قصیدہ خواں بن چکا ہے۔

یہ بڑا افسوسناک منظرنامہ ہے کہ ہندوستانی سیلیبریٹیز کے بجائے ریحانہ ،گریٹا ،امانڈہ جیسے لوگوں کو کسانوں کی حالت پر ٹوئٹ کرنا پڑ رہا ہے ۔ہندوستانی جمہوریت اور بقا کی آواز اٹھانی پڑ رہی ہے۔ جب آپ ظلم پر چپ رہیں گے تو باہر والے آواز اٹھائیں گے یہ قدرت کا نظام ہے اور اب جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ سب پیسہ دیکر کرایا گیا ہے توجن بین الاقوامی شخصیات نے کسانوں کی حمایت کی ہے ان کا بیک گرائونڈ دیکھا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ عالمی سطح پر یہ شخصیتیں کتنی بلند امیج رکھتی ہیں۔ ریحانہ کی ملکیت 4480 کروڑ کی ہے جو بالی وڈ کے بہت سارے اسٹار کی املاک سے زیادہ ہے۔ریحانہ انسانی خدمات ، فلاحی کاموں میں جنون کی حد تک دلچسپی لیتی ہیں۔ انہوں نے کوویڈ کے دور میں جو رقم خرچ کی ہے وہ بالی وڈ کے اسٹار کی املاک و کمائی سے کہیں زیادہ ہے۔ دراصل جو جیسا ہوتا ہے اس کی سوچ بھی ویسی ہی ہوتی ہے۔ہندوستان کے فلم اسٹار کس طرح پیسہ لیکر کسی کی وکالت کرتے ہیں دو تین سال قبل ’کوبرا پوسٹ‘اس کو ایکسپوز کرچکا ہے ۔ ریحانہ نے ٹوئٹ کرکے اتنا ہی تو کہا تھا کہ ہم کسان اندولن پر با ت کیوں نہیں کررہے ہیں۔صرف ایک ٹوئٹ نے اندھ بھکتوں کو چراغ پا کردیا ۔ اندھ بھکت جوقومی سطح پر مذاق کا نشانہ بن رہے تھے اب عالمی سطح پر بھی بن رہے ہیں۔ چلئے مان لیتے ہیں کہ کسی غیر ملکی کو ہندوستان کے اندرونی معاملات میں بولنے کی ضرورت نہیں تو پھر اس پر کیاکہیں گے جب کیپٹول ہل کے سانحہ پر ہر خاص وعام مذمت کررہاتھا ۔کیا یہ امریکہ کے اندرونی معاملے میں مداخلت نہیں؟۔اس سے قبل ایک امریکی سیاہ فام جارج فلائڈ کی پولیس کے ذریعہ بے دردی سے مارے جانے پر ہندوستان کے یہی لیڈران اور فلمی ستاروں نے ٹوئٹ کیا ،کیا یہ مداخلت نہیں؟،اب کی بار ٹرمپ سرکار کیا یہ مداخلت نہیں؟،ٹرمپ کی جیت کیلئے ہندوستان میں پوجا پاٹ ،ہون کیا یہ مداخلت نہیں ؟۔

26جنوری کو لال قلعہ پر جس طرح جھنڈا لہرایا گیا اس کی مذمت ہورہی ہے اور ہونی بھی چاہئے۔لیکن اس حوالے سے کسان اندولن کو دیش ورودھی کہنا خالصتانی،پاکستانی،چین یا دوسرے ممالک سے جوڑنا،ملک توڑ نے والا اندولن کہنا دراصل خود ملک دشمن بیانات ہیں۔ 75دنوں سے کسان تیاگ، بلیدان کی علامت بنے ہوئے سڑکوں پر بیٹھے ہیں ۔دلی کی سرحدوں پر اپنے جائز مطالبات کے تحت ایک جٹ ہوکر احتجاج کررہے ہیں تو اسے صرف پنجاب کی تحریک نہیں کہہ سکتے۔ انہیں راجستھان ،پنجاب ،ہریانہ ، مہاراشٹر ، تلنگانہ ،تمل ناڈوسے لیکر اترپردیش بہار تک ہر ریاست سے سمرتھن مل رہا ہے۔ ملک میں کسانوں کی حمایت میں 28 سے زیادہ مہا پنچایتیں منعقد ہوچکی ہیں،آپ اسے دیش ورودھی اندولن نہیں کہہ سکتے۔کسان اندولن کے دور میں میڈیا کا شرمناک چہرہ سامنے آیا ہے۔ نیوز چینلوں کی ذہنی پسماندگی اور اس کا صحافتی زوال چرم سیما پر ہے۔انہیں ریحانہ کی شکل میں ایک ٹانک مل گیا ہے اور میڈیا میں نام نہاد راشٹر واد کی ہنکار مچی ہوئی ہے۔مگر کسان کس پریشانی سے دوچار ہیں اس کو دکھانے کے بجائے نئے نئے زاوئے سے انہیں بدنام کرنے کی ہوڑ مچی ہوئی ہے۔بے شک26 جنوری کے گناہگاروں کو سزا ملنی چاہئے لیکن ترنگا اتار کر کس کا جھنڈا لہرایاگیااس کی جانچ کی بات کوئی نہیں اٹھاتا۔ میڈیا کو یہ بات بھی باور کرانی چاہئے کہ کسانوں کی لڑائی انا کی نہیں حق کی ہے۔ اگر کسان زرعی قانون سے مطمئن  نہیں ہیںتو سرکار اسے واپس لے،ویسے بھی سرکار اسے سال دو سال کیلئے ٹالنے کیلئے تیارہے ۔

بہر حال ضرورت اس بات کی ہے کہ ریحانہ نے کیا کہا کیا نہیں اس پر بحث کے بجائے غور اس پر کیا جائے کہ ملک کا اتنا بڑا اندولن کس طرح ختم ہو ۔جہاں کسی کی دل آزاری نہ ہو سرکار اسے اپنی ہار یا انا کاایشو نہ بنائے ۔ ملک کو ریحانہ اورگریٹا میں نہ الجھائے ،اندولن کو بدنام کرنے کے بجائے مثبت سوچ اور فراخ دلی سے اس کا حل تلاش کرے۔بقول شاعر:

 

یہ راہیں ہی لے جائیں گی منزل تک ، حوصلہ رکھ

کبھی سنا ہے کہ اندھیروں نے ،سویرا ہونے نہ دیا

 

([email protected])

 

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close