Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

احمدآباد کی جھولتی میناریں..اسلامی طرز تعمیر کی نادر مثال

9ویں صدی سے لے کر 11ویں صدی تک کا دور دراصل فن تعمیر کا دور کہا جا سکتا ہے۔ اس دور میں پوری دنیا میں ایک طرح سے فن تعمیرات کے تعلق سے نئے نئے تجربے ہو رہے تھے۔ یہ دور ایک طرح سے مذہبی ترسیل و تبلیغ کا بھی دور تھا۔ خاص کر اسلام اور کرسچیئنٹی کا ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کا دور تھا۔ اسلام کے جانباز دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچنے کی سعی کر رہے تھے، کہیں تجارت کی غرض سے مسلمانوں کا سفر جاری تھا تو کہیں مسلم حکمراں وسعت سلطنت کی آڑ میں دنیا پر اسلام کا پرچم بلند کرنے کا عزم تھا۔ غرض یہ کہ مسلمان جہاں گئے وہاں انہوں نے مقامی کلچر میں شمولیت ضرور حاصل کی مگر اس کلچر میں اسلامی ثقافت و تہذیب کے خمیر سے ایک نیا امتزاج وجود میں آیا۔ اس اشتراک کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس ملک کی تہذیب و ثقافت کو اسلامی خمیر نے ایسا روشن کیاکہ جو آج بھی دنیا کے لئے مثال ہے۔ مغربی تہذیب و تمدن سے لے کر فن تعمیرات تک اسلامی فنکاروں نے غضب کے جلوے دکھائے۔ کلیساؤں کی طرز تعمیر، پگوڑاؤں کا آرکیٹکچر سے لے کر قدیم مندروں تک کے فن تعمیر کا گہرائی سے مطالعہ کرنے میں آرکیٹکچر کی جو نئی دنیا آباد ہوئی وہ اسلامی فن تعمیر کے نام سے آج بھی دنیا کی تعمیراتی تاریخ کے لئے مثال ہے۔ ہندوستان میں فن تعمیر کا بھی ایک زریں دور گزرا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب لکھنؤ، رام پور، دہلی، حیدرآباد کو وہی حیثیت حاصل تھی جو آج پیرس، نیو یارک اور لندن کو حاصل ہے۔ غیر ملکی سیاح ہندوستان آتے ہی اس لئے تھے کہ وہ یہاں کی شان و شوکت اور یہاں کی عمارتوں کو دیکھ سکیں۔ ہندوستان کی طرز تعمیر کی ثقافت کا اتنا شہرہ تھاکہ مغل آرٹ، مغل آرکیٹیکچر اسلامی تاریخ و تعمیر کا سب سے زریں باب بن گیا۔ تاج محل، جامع مسجد، قطب مینار ہی نہیں بلکہ ملک کے گوشے گوشے میں تعمیر مسلم حکمرانوں کی عمارتیں سیلانیوں کو محو حیرت کرتی رہی ہیں اور بیرونی سیاح بھی ان مقامات پر جاتے رہے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں ہندوستان کی ریاست احمدآباد کے راج پور علاقہ میں 1454 میں بنی ایک ایسی بے مثال مسجد سے عبارت ہے، جس کی ہلتی ہوئی میناریں سیاحوں کو ہی نہیں بلکہ آج کے ماہرین فن تعمیرات کو بھی ششدر کرتی ہیں کہ 600 سال قبل کا ہندوستان تعمیراتی میدان میں اتنی بلندی پر تھا، جس کی نظیر نہیں ملتی اور آج بھی دنیا یہ دیکھ کر حیران ہوتی ہے کہ کس طرح اتنی بڑی میناریں درختوں کی طرح ہوا میں جھولتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس مسجد کی میناریں جھوم جھوم کے دعائے حمد وثنا کر رہی ہیں۔ یہ مضمون جہاں جذبہ ایمانی کو تقویت دیتا ہے وہیں شعبہ تعمیرات سے منسلک افراد خاص طور پر آرکیٹیکچر کے طلبا کو بھی فکر کی نئی راہیں فراہم کر تا ہے:

پوری دنیا میں عجائبات، فن تعمیرات اور آثار قدیمہ کی بے شمار یاد گاریں اور عمارتیں موجود ہیں جن میں سے بہت سی عمارتوں کو نہ صرف Guinness Book of World Record میں شامل کیا جا چکا ہے بلکہ یو نیسکو (UNESCO) کی عالمی فہرست میں انہیں درج کرکے عالمی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی کم و بیش 38 عمارتیں ایسی ہیں جوکہ عالمی سطح پر معروف ہیں اور محکمہ آثار قدیمہ ان کی نگرانی اور تحفظ کرتا ہے۔ وسطی اٹلی کے شہر پیسا (Pisa) میں ایک جھکی ہوئی مینار (Leaning Tower) ہے جوکہ پوری دنیا کے سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ اسے دیکھ کر لوگ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ 183.27 فٹ اونچی 12ویں صدی کی جھکی ہوئی یہ مینار کس طرح سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس ٹاور کا جھکاؤ ہی اس کی ایک عجیب و غریب خصوصیت ہے۔ ہمارے ملک میں بھی ایک ایسی مسجد واقع ہے, جسے دیکھ کر لوگ انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں۔ دنیا کے مختلف مقامات کی سیاحت کرنے والے یا سیاحت سے وابستہ کتابوں کا مطالعہ کرنے والوں نے بھی اس طرح کی عجیب وغریب عمارت کے بارے میں شاید نہیں سنا ہوگا اور نہ ہی اسے دیکھنے کے بعد وہ اس کی خصوصیت سے متحرف ہونے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔

ہندوستان کی ریاست گجرات کے ایک شہر احمدآباد کے راج پور علاقہ میں ایک بے مثال خصوصیت کی حامل ایک مسجد واقع ہے۔ اس مسجد کو ہلتے ہوئے میناروں والی مسجد یا بی بی کی مسجد کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد طرز تعمیرات کا ایک نادر نمونہ ہے، جس کی تعمیر 1454 میں کی گئی تھی۔ تاریخی حوالہ جات کے مطابق سارنگ پور دروازہ سے ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر 4598.70 مربع میٹر رقبہ پر محیط اس عظیم مسجد کے میناروں کی تعمیر احمد شاہ دوئم نے کرائی تھی۔ بات صرف یہیں پوری نہیں ہو جاتی ہے بلکہ سارنگ پور دروازہ کے بالمقابل سدی بشیر مسجد کی میناریں نظر آتی ہیں، جن کے بارے میں آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا (ASI) کا کہنا ہے کہ ”اس مسجد کی ہلتی ہوئی میناریں نہایت قابل یقین ہیں۔“ اس شاندار مسجد کے سامنے محمد خواجہ کی دکان ہے۔ اس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ”مجھے اپنی پوری زندگی میں اس بات پر تعجب رہا ہے کہ کس طرح سے اتنی بڑی میناریں ہوا میں درختوں کی مانند جھومتی ہیں۔“

سدی بشیر مسجد کی جب ایک مینار کو اندر کی جانب سے طاقت کے ساتھ دھکیلا جاتا ہے تو دوسری جانب کی مینار اسی طرح سے ہلتی ہے۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر سلطان احمد شاہ کے ایک غلام سدی بشیر نے 1461 میں کرائی تھی۔ اسی مسجد کے تعلق سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ مسجد گجرات کے ایک دیگر سلطان محمد بیگادا کے دربار کے ایک امیر ملک سارنگ نے تعمیر کرائی تھی۔ اسی مسجد کی دو میناریں ہیں اور وہ دونوں تین منزلہ ہیں جس میں نقش و نگاری کی بالکونیاں ہیں اور یہ میناریں تقریباً 21.34 میٹر اونچی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک بھی مینار کو ہلانے سے چند لمحات کے بعد دوسری مینار ہلنے لگتی ہے۔ مینار کی بنیادی سطح سے یہ لرزہ دونوں میناروں کے درمیان ایک ہوا دار سرنگ کے توسط سے اوپر تک کئی گنا ہو جاتا ہے لیکن تعجب کی بات تو یہ ہے کہ دونوں میناروں کے درمیان جو راہ داری ہے اس میں کسی طرح سے لرزہ نہیں ہوتا ہے۔ ان دونوں میناروں کے ہلنے کا سبب آج تک بھی کسی کو معلوم نہیں ہے اور اس مسجد کی میناریں اس طرح سے تعمیر کرائے جانے کی وجہ یہ معلوم ہوئی ہے کہ انہیں کسی بھی طرح سے زلزلہ کے دوران خطرہ لاحق نہ ہو۔ ان میناروں کی ہلنے کی مظہریت کا مشاہدہ پہلی مرتبہ سنسکرت کے ایک انگریز اسکالر نے 19ویں صدی میں کیا تھا۔ بی بی مسجد میں بھی بالکل اسی طرح کی ہلتی ہوئی میناروں کا ایک جوڑا سدی بشیر مسجد میں بھی ہے لیکن برطانوی ارباب اقتدار جن کی ہندوستان میں حکمرانی تھی انہوں نے اس راز کی جانکاری حاصل کرنے کے لئے ان میں سے ایک مینار کو منہدم کرا دیا تھا تاکہ وہ ان کی طرز تعمیر اور ان کے ہلنے کے راز سے واقف ہو جائیں لیکن اس کے بعد وہ مینار تعمیر نہیں کرائی جا سکی تھی۔ یہ مسجدیں ہلتی ہوئی میناروں کے ہونے کی وجہ سے مو جو دہ دور کی بے مثال شاہکار ہیں جن کی بنیاد ریتیلے مگر لچک دار پتھروں پر رکھی گئی تھی۔

احمد آباد شہر کا نام سلطان احمد شاہ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ 1411 میں انہوں نے نہ صرف اسے آباد کیا تھا بلکہ شاندار عمارتیں خصوصی طور پر مسجدیں تعمیر کرا کے اس شہر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیئے تھے۔ ان میں سے کچھ مسجدیں قابل ذکر ہیں:

جامع مسجد:
یہ مسجد احمد شاہی انداز کی ہندی۔عربی طرز تعمیر کی ایک نہایت ہی شاندار مثال ہے۔ مؤرخین نے اس مسجد کو ”مشرق کی ایک خوبصورت ترین“ مسجد قرار دیا ہے اور جہاں تک انگریز مفکر سرجان مارشل کے قول کا تعلق ہے تو انہوں نے دنیا میں اس مسجد کو خوبصورت ترین اور نہایت شاندار مذہبی عمارت قرار دیا ہے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطابق اس مسجد کی تعمیر مکمل ہونے میں 13 سال لگ گئے تھے، جسے 1423 میں احمد شاہ نے پہلے ریتیلے پتھروں سے تعمیر کرایا تھا۔ مسلم علاقہ میں یہ سب سے بڑی مسجد ہے جو کہ منفرد احمد آبادی طرز کے نقش ونگار سے آراستہ ہے۔ اس مسجد کا صحن سفید ماربل سے تیار کیا گیا تھا اور اس کے درمیانی حصہ میں 220X95 فٹ رقبہ میں ایک حوض بنایا گیا تھا۔ اس مسجد کے سامنے والے توسیع شدہ حصہ سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ باہر نکلے ہوئے نہایت شاندار نقش ونگاری کے دائروں والے ستونوں کے نزدیک ایک بہت بڑی محراب دار راہ داری کا اہتمام کیا گیا تھا، جسے نیچے سے اوپر تک آرائشی فنکاری سے آراستہ کیا گیا ہے اور اس کے دونوں طرف نوکدار محرابیں تعمیر کرائی گئی تھیں۔

اس مسجد میں کل 260 ستون ہیں جوکہ پندرہ گنبدوں کو سہارا دیتے ہیں۔ یہاں پر پانچ قطاروں میں سے ہر ایک قطار میں تین گنبد ہیں جنہیں با قاعدہ طور پر منظم کیا گیا ہے۔ اس مسجد کے درمیانی گنبدوں، جن کی اندرونی آرائش زبردست طریقہ سے کی گئی ہے انہیں 210 پتلے ستون سے سپورٹ دی گئی ہے تاکہ نماز ادا کرنے کی جگہ کو مکمل طور پر چو کور رکھا جا سکے۔ اس بات کا خصوصی طور پر دھیان رکھا گیا تھاکہ جمعہ کی نماز کے دوران نمازیوں کو ان چوکور ستون سے رکوع کرنے میں کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔ اس مسجد کے گنبد اور اس کی جالیوں کو نہایت نفیس انداز میں اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا تھاکہ باہر کی روشنی اندر آسکے اور نماز کے بڑے ہال میں سورج کی راست طور پر چکا چوندھ کرنے والی روشنی کے بغیر اجالا رہے اس مسجد کا ایک خصوصی پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں پر ملوک خانہ یا رائل گیلری بھی ہے جوکہ ستونوں پر مبنی ایک پلیٹ فارم پر واقع ہے جسے نیچے سے لے کر چھت تک خوبصورت پتھریلی فنکاری سے آراستہ کیا گیا ہے۔

سدی سعید مسجد:
پتھروں میں کنندہ نفیس جالیوں کی وجہ سے یہ مسجد نہایت معروف ہے۔ احمد شاہی سلطانوں کے دور اقتدار کے دوران 15 ویں صدی کی ایک بڑی دیوار کو منہدم کرا کے ابی سینا نژاد ایک جنرل نے اس مسجد کی تعمیر کرائی تھی۔ جب اس مسجد کو سڑک کے کنارے سے دیکھا جاتا ہے تو اس کی شاندار آرائشی بھول بھلیاں نظر آتی ہیں لیکن جب کوئی اس کے نزدیک جاتا ہے تو اسے مشاہدہ ہوتا ہے کہ درحقیقت وہ 10 شاندار پتھروں سے کی گئی نقش نگاری ہے، جنہیں جالیاں کہا جاتا ہے۔ وہ اتنی سبک اور پیچیدہ ہیں کہ ان میں سے زیادہ بہترین دو میں پام درخت کے پتوں کی خصوصی شبیہہ نظر آتی ہے۔ اسی کے نزدیک محراب ہے جہاں پر نماز ادا کی جاتی ہے۔ اس مسجد کا منبر احمدآباد کی اپنی انفرادیت کے سبب نہایت دلکش اور اہمیت کا حامل ہے۔ مختلف دھاتوں جیسے لکڑی، گلاب لکڑی، چاندی اور کانسہ سے تیار کردہ ان کی نقل ثانی (Replica) اور سووینئر (Souvenirs) عام طور پر دستیاب ہو جاتے ہیں اور جب کوئی اہم شخصیت احمدآباد کے دورہ پر آتی ہے تو چاندی کی نقل ثانی بطور تحفہ انہیں پیش کی جاتی ہے۔

پتھر میں نقش و نگاری کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور نفاست کے ساتھ اس میں کھدائی کرنا مزید مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ جب چھینی سے اس پر کھدائی کی جاتی ہے تو اکثر وہ ٹوٹ جاتا ہے جو کہ ناز ونزاکت سے تیار کئے گئے کسی بھی فن پارہ کے نقصان سے کسی بھی حالت میں کم نہیں ہوتا ہے۔ جب سورج غروب ہوتا ہے تو اس کی سنہری روشنی اس پر پڑنے سے اس کی خوبصورتی قابل دید ہوتی ہے۔ نیو یارک اورکینسنگٹن (Kensington) کے عجائب گھروں میں لکڑی سے تیار کئے ہوئے اس کے نقل ثانی (Replica) رکھے ہوئے ہیں ان میں سے سب سے چھوٹا کمل کے پھول کی شکل کا وینٹیلیٹر برطانوی عجائب گھر میں نمائش کرنے کے لئے لے جایا گیا تھا۔

رانی روپ متی مسجد:
ملکہ روپ متی کے نام سے اس مسجد کو منسوب کیا گیا تھا جوکہ دھار کی شہزادی تھیں اور انہوں نے سلطان احمد آباد سے شادی کر لی تھی۔ یہ مسجد بھی طرز تعمیر کے اعتبار سے 15ویں صدی کے احمدآباد میں اپنی نو عیت کے لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں بھی ہندی۔عربی طرز تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر 1430عیسوی سے 1440عیسوی کے درمیان کرائی گئی تھی۔ اس کی مرکزی محراب، تین شاندار گنبد، پتلی میناریں نقش ونگار سے آراستہ گلیارے اور ایک عظیم الشان محراب اس مسجد کی خصوصیات میں شامل ہیں۔ اس مسجد کا گنبد اس طرح سے تعمیر کرایا گیا کہ سورج کی تپش سے بچتے ہوئے چاروں طرف روشنی رہے۔ نہایت احتیاط کے ساتھ ایک تناسب کے اعتبار سے اس مسجد میں ایک محافظ خانہ بھی ہے، جس کی سامنے والی تین محرابوں اور میناروں کی نہایت شاندار طریقہ سے تزئین کاری کی گئی ہے۔سید عثمان کے مقبرے کے تعلق یہ کہا جاتا ہے کہ 1460 کی دہائی میں کناروں والی میناریں تعمیر کرانے کے طرز کا آغاز ہوا تھا اور 16ویں صدی میں حسن چشتی مسجد تعمیر کرائی گئی تھی، جس میں نہایت نفیس طریقہ سے جالی دار کام کرایا گیا تھا جوکہ ہندوستان میں مثالی نوعیت کا ایک بیش بہا کارنامہ ہے۔

ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کے دور اقتدار میں عظمت و حشمت کی حامل ایسی ایسی مسجدیں اور عمارتیں تعمیر کرائی گئی تھیں جوکہ نہ صرف اپنے طرز تعمیر کے اعتبار سے مثالی ہیں بلکہ اس دور کے ماہر معماروں نے اپنی غیر معمولی صلاحیت کا مظاہرہ کرکے پوری دنیا میں انہیں اپنے فن سے شاہکار بنا دیئے۔ چنانچہ حیدر آباد کی ان مسجدوں کا شمار بھی اسی زمرہ میں ہوتا ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close