Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

نور اسلامی سے منور سوازی لینڈ

ایک سچا مسلمان دنیا کے کسی بھی کونے میں مقیم ہو، کسی بھی طرح کے تہذیب وتمدن کے درمیان رہے، کسی مذہب ورسومات کے حصار میں رہے اپنی تہذیب، اپنے تمدن اور اپنے مذہب سے بیگانہ نہیں رہ سکتا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اس جگہ کی تہذیب وتمدن سے تھوڑا بہت ضرور متاثر ہوتا ہے، اس کے رنگ میں تھوڑا بہت ڈھلتا بھی ہے، لیکن اس کے اندر کا مسلمان کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہتا ہے۔ اس کے تشخص کی خوشبو برقرار رہتی ہے۔امریکہ میں رہائش پذیر ہو یا فرانس اور برطانیہ میں مسلمان ہر جگہ اپنی شناخت اور اپنی انفرادیت کو قائم رکھتا ہے۔ جدید لباس میں بھی وہ ایک مسلمان کے طور پر نظر آتا ہے۔ افریقہ کے جنگلوں میں قبائل کے درمیان رہے یا روس کے برفیلے مقامات پر ہر جگہ اس کا اسلامی تشخص کسی نہ کسی شکل میں ابھرتا ہی رہتا ہے۔ مسلمانوں کی تعداد جب بڑھ جاتی ہے تب وہ مسجد کی تعمیر اور مدرسہ کا قیام عمل میں لاتے ہیں۔ دنیاوی تعلیم کے علاوہ دینی تعلیم سے بھی اس کا رشتہ قائم رہتا ہے۔ دنیا کا کون سا ایسا ملک ہے، کون سا ایساخطہ ہے، جہاں اسلام کے قدم نہیں پہنچے۔ آج موذمبیق کی سرحد کے پاس ایک چھوٹا سا ملک سوازی لینڈ ہے۔ 10 لاکھ کی آبادی والے اس ملک میں مسلمانوں کی تعداد 10 فیصد ہے۔ یہ مسلمانوں کی ایمان کی حرارت ہے کہ آج سوازی لینڈ میں مذہب اسلام ملک کا تیسرا بڑا مذہب شمار کیا جانے لگا ہے۔ 9/11 کے بعد دنیا میں اسلام اور مسلمان جس طرح زیر عتاب ہیں، اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کے عمل وکردار پر طرح طرح کی انگشت نمائی کے باوجود اسلام کے قدم روز افزوں دنیا کے ہر خطے میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ تمام تر پریشانیوں اور وسائل کی کمی کے باوجود سوازی لینڈ کے اہل ایمان آج دنیا کے لیے ایک مثال بن چکے ہیں۔ مسجد یوسف کی منصوبہ بند تعمیر دنیا کے خطے میں تعمیر ہونے والی مسجدوں کے لیے ایک مثال بھی ہے۔ چھوٹی سی جگہ پر جس طرح سوازی لینڈ کے مسلمانوں نے اپنے تشخص اور مذہب کا پرچم بلند کرنے کے لیے جدوجہد کی ہے وہ تاریخ ساز ہے۔ یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ اسلام کی تبلیغ میں ہندوستان کے مسلمانوں نے جو اہم رول ادا کیا ہے وہ بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ گجرات کے مسلمانوں کی دینی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ گجرات کے مسلمان دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں، جہاں انہوں نے ایک جانب تجارت کے میدان کو فتح کرنے کی کوشش کی ہے تو دوسری جانب دین کے فروغ کے لیے بھی سرگرم عمل ہیں۔ سوازی لینڈ میں گجرات کے مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔ یہ ان کی دینی حمیت اور ایمانی جذبے کی روشن مثال ہے کہ وہاں پر مسجدوں اور مدرسوں کے قیام کو بھی انہوں نے اپنی زندگی کا ایک مقصد بنا لیا ہے۔ گرچہ وہاں کے مسلمان کثیر تعداد میں مقیم پروٹسٹنٹ عیسائیوں، 25فیصد کیتھولک اور 35فیصد یہودیوں کے ساتھ رہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود سوازی لینڈ میں اسلام کے پیروکاروں کے قدموں میں سرکاری بندشیں نہیں ہیں۔ نیا آئین مذہب کی آزادی کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔ حکومت بھی مذہب کی آزادی کا احترام کرتی ہے۔ زیرنظر مضمون سوازی لینڈ جیسے چھوٹے ملک میں اسلام کی سربلندی اور وہاں مسجد یوسف کی تعمیر کے سلسلے میں مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کا احاطہ کرتا ہے:

مساجد و مدارس وہ اسلامی مراکز ہیں جنہوں نے اسلام کے فروغ اور اس کے تشخص کے تحفظ میں اہم رول ادا کیا ہے۔ مساجد جہاں ایک جانب اللہ کی عبادت کی جگہ ہیں تو وہیں دوسری طرف انسانیت کی تبلیغ و ترسیل کے مراکز بھی ہیں۔ مساجد سے نکلنے والے افراد کے اندر ایمان کی جو تازگی ہوتی ہے اس کے تحت وہ معاشرے کے لیے بے حد مفید ثابت ہوتے ہیں۔ مساجد تعلیم وتربیت کے مراکز بھی ہیں۔ یہاں مسلمانوں کی اتحادواخوت کا ایسا منظر نامہ ملتا ہے جس کو دیکھ کر دوسری قوم کے افراد بھی متاثر ہو جاتے ہیں اور مشرف بہ اسلام ہوتے ہیں۔ پاکیزگی وطہارت کا نمونہ بن کر معاشرہ کو نئی روشنی فراہم کرتے ہیں۔ اسلام کے قدم ان علاقوں میں بھی جاچکے ہیں، جہاں کسی اور مذہب کے پیرو کاروں کے پہنچنے کا حوصلہ نہیں تھا۔ ساتھ ہی ساتھ مسلمان وہاں بھی پہنچے ہیں، جہاں دوسرے مذاہب کے لوگوں کی اکثریت رہی ہے، لیکن مسلمانوں کی طرز رہائش وعبادت کا رنگ دوسری قوموں کو اس درجہ پسند آیا کہ وہ بھی اسی رنگ میں ڈھلتے چلے گئے۔ سوازی لینڈ اس کی ایک بہترین مثال ہے۔

سوازی لینڈ تقریباً 10 لاکھ افراد کا مسکن ہے، لیکن یہاں کی تہذیب وتعلیم میں نئی حرارت پیدا کرنے میں مسلمانوں کا زبردست رول ہے۔ یہاں مجموعی آبادی کا 10 فیصد یعنی ایک لاکھ مسلمان رہتے ہیں۔ اسلامی تہذیب وتشخص کا ہی غلبہ ہے کہ آج سوازی لینڈ ایمان والوں کے لیے ایک نیا مرکز بنا ہوا ہے۔ اسلام اس ملک میں تیسرا بڑا مذہب شمار کیا جاتاہے۔ سوازی لینڈ میں اسلام شاید نو آبادیاتی دور سے ہے۔ سوازی لینڈ کا ایک بڑا خطہ جنوبی افریقہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ انگریزی حکومت کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔ ایشیا سے لے کر امریکہ تک فرنگیوں کا پرچم بلند تھا۔ اسی انگریزی دور اقتدار میں دوسرے ممالک سے نقل مکانی کرکے بے شمار مسلمان یہاں آکر مقیم ہوگئے۔ اس طرح مسلمان رفتہ رفتہ سوازی لینڈ کے شہری علاقوں میں شروع سے ہی قابض رہے۔

سوازی لینڈ کی ایڈمنسٹرٹیو راجدھانی Mbabane ہے، جہاں مقامی اور غیر ملکی مسلمانوں کی تعداد 1200 ہے۔ Mbabane میں قلیل تعداد کے باوجود مسلمانوں نے اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے بڑا حوصلہ دکھایا ہے۔ اسلامک سینٹر (Mic) کا قیام ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ یہاں پوری طرح سے مذہبی آزادی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہبی تعلیم کو اسکولوں کے نصاب میں بھی شامل کیا گیا ہے اور طلبا بھی اس میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اسلامک سینٹر کے ذریعہ پابندی سے طلبا کو اسلام کے بارے میں واقف کرانے کے لیے Ezulwini کی مسجد میں بھیجا جاتا ہے، جہاں وہ اسلام کی تعلیمات، پیغامات ودیگر نکات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ سوازی لینڈ کے گائوں Ezulwini میں سب سے پہلے مسجد تعمیر کی گئی۔ Ezulwini کی یہ تاریخی مسجد 1978 میں وجود میں آئی۔ Ezulwini کی یہ مسجد راجدھانی Mbabane سے 15کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اتنی دوری اور آمد ورفت کی بہتر سہولیات مہیا نہیں ہونے کی وجہ سے Mbabane کے مسلمانوں کو Ezulwni کی مسجد میں پابندی سے پنچگانہ نماز ادا کرنے میں دشواریاں پیش آتی رہی ہیں، جسے دیکھتے ہوئے 1982 میں ایک چھوٹی سی جگہ حاصل کی گئی جس میں کم از کم 25 نمازیوں کو نماز ادا کرنے میں آسانی ہو۔

یہ سوازی لینڈ کے مسلمانوں کا ہی ایمانی جذبہ تھاکہ عبادت الٰہی کے لیے ایک چھوٹی سی جگہ Malunge شہر میں دستیاب ہوگئی اور آج یہ مسجد کم از کم 60 افراد کی نماز کی ادائیگی کے لیے وافر جگہ فراہم کرسکتی ہے۔ خاص بات تو یہ ہے کہ یہاں مسجد کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے مدرسہ بھی قائم ہے، جہاں دینی تعلیم وتربیت دی جاتی ہے۔ جمعہ کی نماز کے لیے Mbabane کے مسلمانوں کو خود اپنی ہی گاڑی کے ذریعہ مسجد میں جانا پڑتا ہے، جن کے پاس اپنی گاڑی نہیں ہوتی ہے انہیں دشواریوں کا سامنا تو ضرور کرنا پڑتا ہے لیکن وہ تمام تر پریشانیوں کے باوجود مسجد پہنچ جاتے ہیں، یہاں کے مسلمانوں کو زیادہ پریشانی اس وقت درپیش ہوتی ہے جب وہ تراویح پڑھنا چاہتے ہیں، کیونکہ رمضان میں عبادت کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے، رات میں سرکاری گاڑیاں بھی نہیں چلتی ہیں، پھر بھی یہاں کے مسلمان رمضان وترایح کا اہتمام جس جذبے کے ساتھ کرتے ہیں وہ دیکھنے کے لائق ہے۔

Ezulwini کی مسجد 300 نمازیوں کے لیے نماز ادا کرنے کی جگہ ہے۔ اس کے علاوہ جمعہ کے دن 70 نمازیوں کے لیے مسجد کے باہر بھی نماز پڑھنے کی گنجائشیں ہیں۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور مذہبی ضروریات و دیگر پروگراموں کے لیے Mbabane میں ایک اور مسجد کا قیام وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہے۔ Mbabane اسلامک سینٹر (Mic) کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس وقت کی ضرورت اللہ کے فضل وکرم سے پایہ تکمیل کو پہنچنے کے قریب ہے۔ مسلمانوں کی عبادت ونماز کی ادائیگی کے لیے اسلامک سینٹر کے زیر نگرانی مسجد یوسف کی تعمیر ہو رہی ہے۔ مسجد یوسف کی تعمیر سوازی لینڈ کے مسلمانوں کے ایمان کو نئی حرارت دے گی۔ اس مسجد کی تعمیر کئی مرحلوں میں مکمل ہوگی۔ اس دوران نماز بھی شروع کی جا سکتی ہے۔ مغربی حصہ میں مسجد اور وسطی حصہ میں خواتین کے لیے جگہ نکالی گئی ہے۔ یہ مسجد دینی تعلیم کا ایک مرکز بھی ہوگی، لیکن سب سے پہلے مرحلے میں مسجد خاص کو تیار ہونا ہے۔ جس کے لیے مندرجہ ذیل منصوبہ بنایا گیا ہے۔

نچلے حصہ کا منصوبہ: مسجد میں داخلے کے لیے 2 دروازے ہیں، ایک مشرق کی طرف کھلتا ہے تو دوسرا مغرب کی طرف۔ مشرقی دروازہ خواتین کے لیے مخصوص ہے۔ اس دروازہ سے مستورات کی آمد ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ راستہ سے بچوں کو مدرسہ میں لے جانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مغربی دروازہ مردوں کے لیے ہے، جو روزانہ نماز کیلئے یہاں آئیں گے۔

اہم بات تو یہ ہے کہ خاص سڑک سے ڈھلان کی طرف گزرتے ہوئے مرد حضرات مسجد خاص کے مخصوص حصہ میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں پر ہی ان کی گاڑیاں بھی کھڑی ہوتی ہیں۔ معذور لوگوں کے لیے دوسرا نظم ہے۔ ڈھلان سے سیدھے مسجد کا استعمال معذور افراد کرتے ہیں۔ وضوخانہ، بیت الخلا وغیرہ پہلی منزل پر بنائے گئے ہیں۔ جبکہ معذور افراد کے لیے بیت الخلا، وضو خانہ دونوں منزلوں پر ہیں۔ مسجد کی پہلی منزل نماز پنچگانہ کے لیے استعمال کی جائے گی اور گرائونڈ فلور دیگر مذہبی امور کے لیے زیر استعمال ہوگی۔ یہ منزل کافی وسیع ہے جو مزید لوگوں کو جگہ فراہم کر سکتی ہے۔مردانہ دروازہ سے داخل ہو کر سیدھے بیت الخلاتک پہنچا جا سکتا ہے، جہاں پر جوتے نکالنے کے لیے اسٹول وغیرہ دستیاب ہے تاکہ نمازی سنت کے مطابق جوتا اتار کر مسجد میں جائیں۔ اسی نقطہ نظر سے منزل کو ایسا مناسب ڈھنگ سے بنایا گیا ہے جہاں گندگی نام کی کوئی شے نہیں ہے، جوتا پہننے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ لوگ آسانی سے وضو خانہ تک پہنچ سکیں گے اور پھر نماز کی ادائیگی کر سکیں گے۔ پہلی منزل جو نماز کے لیے مخصوص کی گئی ہے وہ جگہ تقریباً 350 نمازیوں کے لیے کافی ہے۔ وہاں سے لوگ ڈھلان کے ذریعہ سیدھے گرائونڈ فلور پر واقع مسجد کے اس حصہ میں جا سکتے ہیں جہاں 4 کلاس روم کو مسجد سے جوڑا گیا ہے۔ دینی تعلیم کے لیے یہ کلاس روم کچھ اس طرح بنائے گئے ہیں کہ نمازیوں کی تعداد بڑھنے پر اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے اور مزید 350 نمازی یہاں نماز کی ادائیگی کرسکتے ہیں۔ اس طرح اس مسجد میں ایک ساتھ 700نمازی بارگاہ الٰہی میں سربہ سجود ہو سکتے ہیں۔

خواتین کی عبادت کے لیے جگہ: نو تعمیر شدہ مسجد یوسف میں خواتین کے لیے ایک Lobby Space بھی رکھا گیا ہے۔ خواتین مسجد میں داخل ہونے کے لیے اس جگہ کا استعمال کر سکتی ہیں، یہاں زنانہ بیت الخلا بھی بنایا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ لباس بدلنے کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ اس مسجد میں زنانہ بیت الخلا 2 طرح سے بنائے گئے ہیں۔ ایک میں ملبوسات بدلنے کی سہولیات ہیں، جو سیاحوں اور مسافروں کے لباس کے پیش نظر تیار کیے گئے ہیں، جو سوازی لینڈ ہوتے ہوئے جنوبی افریقہ اور موذمبیق جاتے ہیں اور جو سیاح اور مسافر کی حیثیت سے موذمبیق سے سوازی لینڈ آتے ہیں ان میں خواتین سیاح کے لیے ایک الگ وضو خانہ ہے، جسے زنانہ بیت الخلا سے جوڑا گیا ہے۔

مسجد یوسف میں کمیونٹی ہال بھی بنایا گیا ہے، جو باورچی خانہ کے ساتھ پہلی منزل پر دستیاب ہے۔ مشرقی حصہ دینی جماعت کے افراد کے ٹھہرنے کے لیے مخصوص ہے۔ جنوب کی طرف مدرسہ قائم کیا گیا ہے جو گرائونڈ فلور پر ہے جہاں 4 کلاس روم بنائے گئے ہیں۔ یہاں گرائونڈ فلور پر بنائے گئے ان کلاس روم میں کلاسیز مردوخواتین کے لیے الگ الگ چلتی ہیں، لیکن کلاس روم کو وسعت دے کر گرائونڈ فلور سے ملا دیا جاتا ہے۔ مدرسہ کی تعطیل کے دوران یہ روم ایک کشادہ ہال میں تبدیل ہو جاتا ہے اور لوگوں کو بیت الخلا جانے میں سہولت بھی فراہم کرتا ہے۔

مسجد یوسف میں اب ایک الگ بلاک بنانے کی تیاریاں ہیں۔ اس کے لیے باضابطہ منصوبہ بنایا جا رہا ہے، جس میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے لیے سہولتیں ہوں گی۔ ساتھ ہی ساتھ مسافر خانہ اور امام و موذن کے لیے رہائش گاہیں بھی بنائی جائیں گی۔ مسجد یوسف تعمیری کمیٹی کے صدر عثمان منصور، نائب صدرخالد پٹیل، جنرل سکریٹری زبیر پٹیل اور خزانچی اسماعیل دوجی ہیں۔ کمیٹی کے سینئر ممبران الیاس بھاگو بھائی، ابراہیم کار بھاری، سراج جملہ، مولانا مبارک، اسماعیل بھیات، جنید ہنس روڈ، قمرالباری فاروقی اور شبیر بھاگو بھائی ہیں۔

سوازی لینڈ قدرت کی صناعی کا دلنشیں منظرنامہ ہے۔ سوازی لینڈ قدرتی حسن سے مالا مال ایک خوبصورت پہاڑی ملک ہے۔ یہ سیروسیاحت کا مقام ہے، قدرتی حسن اور دلنشیں مناظر کی وجہ سے سوازی لینڈ کے 1700 کلو میٹر کے دائرے میں افریقہ کے قدرتی مناظر کا امتزاج بھی یہاں نظر آتا ہے۔ صحرا کو چھوڑ کر یہ ملک قدرتی طور پر چار علاقوں میں تقسیم ہے۔ مغرب سے مشرق تک 400 سے 1800 یٹر سطح سمندر سے بلند ہے۔ پہاڑی اور جو میدانی علاقے ہیں وہ مشرق تک گئے ہیں، جہاں کا موسم گرم، ہلکا گرم اور خنکی مائیل رہتا ہے۔ جب کہ درمیانی میدانی علاقہ میں ہریالی، زرخیزی، پہاڑی گھاٹیاں، خوبصورتی کے بہترین مناظر پیش کرتی ہیں۔ یہاں کا موسم گرم ہے، نیچے میدانی علاقہ، جو ملک کا 40 فیصد حصہ ہے وہ خشک ہے۔ اس علاقہ کے بڑے حصہ میں گنے کی کاشت کی جاتی ہے۔ ایک طرح سے یہ تجارتی علاقہ ہے، اس علاقہ میں زیادہ تر افریقی پہاڑی رہتے ہیں اور یہاں جنگلی جانور بھی پائے جاتے ہیں۔ اس علاقہ میں پیڑ پودوں کی کثرت ہے، ساتھ ہی ساتھ طرح طرح کے خوبصورت پرندے بھی یہاں ملتے ہیں۔ Lumbombo پہاڑی کا کنارہ موذمبیق سے ملتا ہے، جو شمال میں مشرق تک ہے۔ سوازی لینڈ کا بقیہ علاقہ جنوبی افریقہ سے گھرا ہوا ہے۔

1903 میں Mbabane وجود میں آیا۔ یہ دور برطانوی سامراج کا تھا۔ برطانوی قوم نے Bremersdorp شہر کو ترجیح دی۔ آج کل اس شہر کو Manzini کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹرانسوال دور میں یہ شہر راجدھانی کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ U.S.Bureau of African Affairs country of Swazination کے مطابق سوازی لینڈ کے موجودہ عوام 16ویں صدی سے قبل جنوب میں ہجرت کر گئے تھے، جو اس وقت موذمبیق کہلاتا ہے۔ بعد میں یہ لوگ ایک طاقتور قوم کی شکل میں واپس لوٹے اور وہ لوگ 1800 میں انہوں نے شمال کی طرف قبضہ جمالیا اور اپنے استحکام کے لیے جدید سوازی لینڈ کے خطہ میں بھی داخل ہوئے۔ جنوبی افریقہ نے 1894 سے 1902 تک سوازی لینڈ پر حکومت کی۔ اس کے بعد انگریزوں کا دور آیا، انہوں نے 1902 تک اپنی حکمرانی کا پرچم بلند کیا۔ سوازی لینڈ میں آج پارلیمنٹ بھی ہے، لیکن اصل طاقت واختیارات وہاں کے راجہ کے ہاتھ میں ہیں، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس چھوٹے سے ملک میں دنیا کے دیگر خطے سے آئے مسلمانوں نے اپنی شناخت بنائی ہے۔ دینی تعلیم کے لیے مدارس قائم کیے ہیں۔ مسجد یوسف کی تعمیر جاری ہے، یہ ثابت کرتا ہے کہ مسلمان خواہ کہیں بھی رہیں اپنی تہذیب وتشخص سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ سوازی لینڈ کی نوتعمیر شدہ مسجد وہاں کے مسلمانوں کی ایمانی حمیت کی دلیل ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close