Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

اسلاف کی یادگاروں میں پھونکی نئی جان

مسجدیں اسلامی تہذیب و تاریخ کا امین رہی ہیں۔ مسجدوں کے گوشہ گوشہ سے اسلام کی خدمت، عبادت وریاضت کی خوشبوئیں پھوٹتی ہیں. مسجدیں کبھی ہماری قیادت بھی کرتی رہی ہیں۔ یہاں سے اٹھنے والی آواز دنیا میں بازگشت بن کر اسلام کی شناخت بنتی رہی ہیں۔گو کہ اب مسجدیں محض عبادت و ریاضت کا مسکن ہی بن چکی ہیں، منبر خاموش ہو چکے ہیں۔ منبر سے اٹھنے والی آواز نئے دور کی فضا نے چپ کر دیا ہے، جس کا نقصان ملت کو اٹھانا پڑ رہا ہے، لیکن اب مسجدوں کی تاریخ و تہذیب کو برقرار رکھنے کا سلسلہ بھی دراز ہوا ہے۔ تاریخی مسجدوں کی از سر نو بحالی کے اقدامات بھی ہو رہے ہیں۔ مملکت سعودی عرب میں حالیہ دنوں میں قومی وراثتوں کو تحفظ دینے کا ایک انتہائی خوش گوار عمل شروع ہو اہے، جس سے اسلامی تاریخ و تہذیب و تشخص کے مزید روشن ہونے کے امکانات روشن ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب کی وزارت برائے اسلامی امور کی نگرانی میں تاریخی مسجدوں کی از سر نو تزئین و تحفظ کے عمل سے نئے امکانات پیدا ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب کے 15 شہروں میں واقع 62 تاریخی مساجد کی از سر نو تعمیرو تزئین و باز آباد کاری کا کام گرچہ دس سال قبل ہی ہو چکا تھا، لیکن اب اس میں مزید تیزی آئی ہے۔ آج ہم سعودی عرب میں مساجد کے تحفظ اور ان کی بحالی، تاریخی خصوصیات کو واپس لانے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں، اس کا ذکر کریں گے۔ ال امام سعود بن عبدالعزیز مسجد کا بھی ذکر کریں گے، جو اپنی ایک تاریخی اہمیت کی بے مثال وراثت ہے۔ 1800 میں تعمیر کرائی گئی یہ مسجد 210برسوں تک تعلیم و تربیت کا روشن مینارہ رہی تھی۔ اب اس کی اصل ہیئت بحال کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ابو بکر صدیق، عمر بن خطام مسجد مدینہ منورہ، تیمیہ مسجد، ال حسن الغاط میں واقع ال اوشازا مسجد کی اصل ہیئت کا کام بھی مملکت کے عظیم مقاصد میں شامل ہے۔ آثار قدیمہ کی تاریخی مساجد فرزندان اسلام کے لئے ایک اہم حیثیت رکھتی ہیں۔ یہاں کے گوشہ گوشہ میں اسلامی عظمت اور اسلامی تاریخ کی یادیں پنہاں ہیں۔ اب انہی یادوں، انہی عظمت کو تحفظ دینے کی کوشیشیں بھی اپنی منزل پا رہی ہیں۔ زیر نظر مضمون اسلاف کی عظمتوں کو نئی رفعت دینے کی سعودی حکومت کی کوششوں کا منظر نامہ ہے۔

شہری وراثت کے تحفظ کے لئے قومی تعاون کی اس لئے ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ان سے ہی تاریخی ساخت، ہیئت اور معاشرہ کی شناخت ہوتی ہے۔مملکت سعودی عرب میں حالیہ دنوں میں ترقیاتی کام نہایت تیزی کے ساتھ کرائے جانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، جن کے تحت زندگی کے ہر شعبہ میں سعودی شہروں کی نہ صرف وسیع پیمانہ پر توسیع کی جا رہی ہے، بلکہ کشادہ دلی کے ساتھ مسلسل اس براعظم میں جدید طرز تعمیر کو بھی اختیار کیاجا رہا ہے، جس کا خوش آئند نتیجہ یہ برآمد ہو اہے کہ روایتی شہری وراثتیں جدید اور دلکش انداز میں نظر آنے لگی ہیں۔ قومی وراثتوں کا تحفظ کرنے کے واسطے ہی فوری طور پر اس طرح کی تمثیلی تبدیلیاں کرنے کے لئے یہ اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن تعمیرات کے اعتبار سے یہ تبدیلیاں ایسی ٹھوس بنیادوں پر کی جا رہی ہیں تاکہ ماضی سے ان کا رابطہ منقطع نہ ہو جائے اور ساتھ ہی ساتھ ان میں جدیدیت کی بھی جھلک نظر آئے۔ چنانچہ اسی بات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بنیادی خصوصیات کے ساتھ جدید طرز تعمیرات میں امتزاجی روش اختیار کی جا رہی ہے۔

وزارت برائے اسلامی امور کی نگرانی میں التراث فائونڈیشن ایک پروگرام نافذ کر رہا ہے، جو کہ تاریخی مسجدوں کو بحال کرے گا۔ اس پروگرام کے خصوصی مقاصد کے تحت ان مسجدوں کا تحفظ کرنا ہے جو کہ مقامی خصوصیات اور تاریخی اہمیت کی حامل ہیں لیکن وہ خستہ حال ہو گئی ہیں چنانچہ ان پر توجہ دینا نہایت ضروری ہو گیا ہے۔ اس پروگرام کے دائرہ کار میں چنیدہ مسجدوں کی شناخت کے علاوہ ان کی شہری خصوصیات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کی بحالی کے تعلق سے ایک دستاویزی پلان تیار کرنا بھی شامل کیا گیاہے اور ترجیحات کے مطابق ہی ان مساجد کی بحالی کے لئے تعمیراتی کام انجام دیا جائے گا۔ جن خستہ حال مسجدوں کی شناخت کی گئی ہے، ان کی باز آبادکاری یا تعمیر نو پر کتنی رقم خرچ ہوگی اس کے بارے میں عمومی بجٹ پر غور کیا گیا ہے۔ ابھی حال ہی میں عسیر ریجن کے تباب (Tabab) گاؤں میں واقع ال امام سعود بن عبد العزیز مسجد میں مرمت کا کام کرایاگیا تھا۔

ایسا سمجھا جاتا ہے کہ اس صوبہ میں قدیم ترین مسجدوں میں سے نہ صرف یہ ایک مسجد ہے بلکہ اس ریجن میں یہ تاریخی اہمیت کی حامل ایک بے مثال وراثت ہے۔ یہ مسجد امام سعود بن عبد العزیز بن محمد کے حکم سے 1800 میں تعمیر کرائی گئی تھی جو کہ اس پورے ریجن میں تقریباً 210 برسوں تک تعلیم تربیت کا روشن مینارہ رہی تھی۔ ڈائرکٹر جنرل آف التراث فائونڈیشن ڈاکٹر ظاہربن عبد الرحمن عثمان نے بتایا تھا کہ ’’خادم حرمین و شریفین شاہ عبد اللہ نے اس پروجیکٹ کے لئے فنڈ عطا کیا تھا۔ اس بے مثال وراثت کی طرز تعمیر اور اس میں استعمال کئے جانے والے سامان کی مطالعہ جاتی ڈاکو مینٹری بنانابھی اس پروجیکٹ میں شامل کی گئی ہے تاکہ اس عمارت کی اصل ہیئت بحال کرنے یا مسدود حصوں کی مرمت کرنے کے لئے مطلوبہ سامان کی دستیابی یقینی بنائی جا سکے۔‘‘

التراث فائونڈیشن کے ذریعہ مسجدوں کو بحال کرنے کا عمل جو کہ گزشتہ تین برسوں سے جاری ہے، اس نے جدید طرز تعمیر اختیار کرنے کے علاوہ روایتی طرز تعمیر کے بہت سے طریقہ استعمال کئے تھے۔ ڈاکٹر عثمان نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایس سی ٹی اے (SCTA) کے صدر شہزادہ سلطان بن سلمان کی ہدایت پر مسجدیں بحال کرنے کے کام کا آغاز اس وقت ہو اتھا، جب انہوں نے صدیوں قدیم ثقافتی علامت والی منفرد طرز تعمیر کی خستہ حال مسجدوں کا معائنہ کیاتھا۔ اس پروجیکٹ کو نہ صرف پبلک اور پرائیوٹ سیکٹروں سے تعاون مل رہا ہے، بلکہ انفرادی طور پر بھی لوگ اپنا تعاون دے رہے ہیں۔اس پروگرام کے مقاصد کے تحت مملکت کے مختلف علاقوں میں واقع شہری وراثت اور آثار قدیمہ کے دستاویزات کے توسط سے تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ مسجدوں کو بحال کرنا ہے۔ مندرجہ ذیل مساجد کو بحال کرنے کا کام بھی شروع کر دیا گیا ہے، جن میں ابو بکر صدیق، عمر بن خطاب مدینہ منورہ کی ال مصلیٰ، حواثا، تیمیہ، مشرقی صوبہ میں واقع ال حسن اور الغاط میں واقع ال اوشازا (Al-Oshaza) مساجدشامل ہیں۔

وزارت برائے اسلامی امور واوقاف نے اس پروجیکٹ سے متعلق کا م التراث فائونڈیشن کو سونپ دیئے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت تمام کاموں کی نوعیت مختلف مرحلوں میں تقسیم کر دی گئی ہے۔ پہلے مرحلہ میں وزارت برائے اسلامی امور وا وقاف نے پوری مملکت میں واقع ان منتخب شدہ وراثتی مسجدوں کے بارے میں التراث فائونڈیشن اور اس کی ذیلی برانچوں کو تفصیلات دے دی ہیں، جن کو خطرہ لاحق ہے۔ علاوہ ازیں التراث نے ایسی بہت سی مسجدوں کے لئے سفارش کی ہے، جن میں شہری وراثت کی خصوصیات پائی جاتی ہیں تاکہ وزارت کی آئندہ میٹنگ میں ان پر غور و خوض کیا جا سکے۔ اس موضوع پر غور کرتے ہوئے وزارت نے کہا کہ مقررہ وقت کے اندر التراث فائونڈیشن کو دوسرے مرحلہ میں ان مساجد کے بارے میں مطلع کر دیا جائے گا، جن کی اس نے نشان دہی کی ہے۔ یہ کام ماہرین کی ایک ایسی ٹیم کے ذریعہ کرایا جائے گا، جس نے الگ الگ مقامات پر واقع مسجدوں کے بارے میں جانکاریاں دی تھیں۔ سب سے پہلے یہ ٹیم نہایت باریکی کے ساتھ مسجدوں کے تعمیراتی اور ڈھانچہ جاتی پہلوئوں کی تشریح کرتی ہے، جو کہ تصویروں اور دستاویزات پر مبنی ہوتی ہے۔ مملکت سعودی عرب کی تمام تر اہمیت کی حامل مسجدوں کا سروے کرایا جا چکا ہے، جن کی اس پروگرام کے تحت تصاویر لی جا چکی ہیں اور ان کے دستاویزات بھی تیار کئے جا چکے ہیں۔

اس پروگرام کے تحت تیسرے مرحلہ میں ڈیٹا بیس تیار کیا جاتا ہے جس میں متعلقہ مقام کی تمام جانکاریاں، سروے رپورٹس اور تصویرات ہوتی ہیں اور متعلقہ جگہ کی سروے رپورٹ کی عمومی جانکاریاں یا دیگر جانکاریوں کو نہایت احتیاط کے ساتھ وقتاًفوقتاً اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ یہ ڈیٹابیس اس پروگرام اور اس کے ٹھوس معیار کو حقیقی بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے اور اس کے چوتھے مرحلہ میں مسجدوں کو بحال کرنے کا اصل کام شروع کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد سب سے آخر میں حتمی رپورٹ داخل کر دی جاتی ہے۔

سعودی عرب کے 15شہروں میں واقع آثار قدیمہ کی فہرست میں درج مساجد میں سے 62 مسجدوں میں التراث نے 2008 میں بحالی یا باز آباد کاری کا کام شروع کر دیا تھا۔ فن تعمیرات کے ماہرین و کارکنان کی جس ٹیم کو وراثتی پروجیکٹوں میں کام کرنے کا تجربہ ہوتا ہے، اس کو ہی اس طرح کا منصوبہ سپرد کیا جاتا ہے۔ مسجدوں کی اصل تخلیقیت برقرار رکھنے کے پیش نظر تعمیراتی سامان جیسے لکڑی، ریتیلا پتھر، لال پتھر اور بالو ریت وغیرہ اسی جگہ پر منتخب کئے جاتے ہیں، جس جگہ پر متعلقہ مسجد واقع ہوتی ہے۔ ایک مقامی باشندہ شہرانی کا کہنا ہے کہ مسجدوں کو بحال کرنے کا بنیادی مقصد صرف انہیں محفوظ رکھنے تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ انہیں اس علاقہ کے باشندوں کے ذریعہ پنج وقتہ نماز اداد کرنے کے قابل بنانا ہوتا ہے، بحال کی گئی مساجد میں وضو خانہ کے علاوہ ٹائلٹ تعمیر کرائے گئے ہیں اور بجلی کی فراہمی بھی یقینی بنائی گئی ہے۔ واضح رہے کہ آثار قدیمہ کی جن 62مسجدوں کو شارٹ لسٹڈ کیاگیا ہے، ان کا جائزہ لینے میں 4سال لگ گئے تھے۔

سعودی کمیشن برائے سیاحت و قدیم باقیات (ایس سی ٹی اے) نے ایک سینٹر قائم کرنے کے معاہدہ پر امسال مئی میں دستخط کئے تھے، جس کا کام مئی سے تعمیر شدہ عمارتوں کو بحال کرنے کے لئے جدید طریقہ سے ریسرچ کرناتھا۔ اس کے علاوہ ایس سی ٹی اے کو اعلی کمیشن اور التراث کے ساتھ مل کر الریاض کنگ سعود یونیورسٹی کے ترقیاتی کام انجام دینے ہوں گے۔ یہ سینٹر دیرییا (Diraiya) علاقہ میں قائم کیا جائے گا۔ اسلامی ممالک میں واقع شہری وراثت کے تعلق سے منعقد ہونے والی اولین بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر ہی اس معاہدہ پر دستخط ہوئے تھے۔ شہری وراثت اور آثار قدیمہ کی دیکھ بھال، بحالی اور تعمیراتی کاموں میں ان سے ماخوذ سامان اور مٹی کو استعمال کرنے کے لئے یہ سینٹر ترغیب دے گا۔ ایس سی ٹی اے کے چیئر مین شہزادہ سلطان بن سلمان نے اس معاہدہ پر دستخط کرنے کے دوران کہاتھا کہ ’’مملکت میں یہ ایک مثالی پروجیکٹ ہے، جو کہ شہری وراثت اور آثار قدیمہ کی عمارتوں کی دیکھ بھال اور باز آباد کاری میں اہم رول ادا کرے گا۔‘‘

انہوں نے بتایاتھا کہ مملکت کے ریگستانوں میں ملنے والی قدرتی مٹی کا نسبتاً کم استعمال کیاگیا تھا حالانکہ لوگوں میں عام طور پر یہ نظریہ ذہن نشین ہو گیا تھا کہ مٹی سے تعمیر کی گئی عمارتیں بہت جلد منہدم ہو جاتی ہیں تاہم جرمنی کے اعداد وشمار سے اس بات کا انکشاف ہو گیا ہے کہ مٹی سے تعمیر شدہ ایک ملین سے زائد اسٹرکچر ز سیکڑوں برسوں تک قائم و دائم رہے ہیں۔ چنانچہ شہزادہ سلطان نے اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ سیمنٹ سے تعمیر کرائی گئی عمارتوں کے مقابلے مٹی سے تعمیر کرائی گئی عمارتیں زیادہ طویل مدت تک برقرار رہتی ہیں۔ شہزادہ سلطان بن سلمان نے شہری وراثت اور آثار قدیمہ کے تعلق سے ایک قومی ایوارڈ دیئے جانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اس ایوارڈ کا مقصد روایتی شہری آثار قدیمہ کے تعلق سے بیداری پیدا کرناہے، تاکہ مستقبل میں ترقیاتی کام کرائے جانے کو یقینی بنایاجا سکے ۔لہذا ’’پرنس سلطان بن سلمان ایوارڈ فار اربن ہیری ٹیج‘‘ کا ہیڈ کوارٹر قائم کرنے کے لئے مملکت کے شہر ریاض کو منتخب کیا گیا تھا۔ یہ ایوارڈ اس میدان میں نمایاں کارکردگی انجام دینے کے اعتراف میں مختلف شعبہ جات میں سرگرم کسی ایک شخص یا دیگر شخصیات کو دیا جائے گا:

1۔ شہری ورثہ پروجیکٹ :
یہ ایوارڈ ان پروجیکٹوں کو دیا جائے گا، جو کہ شہری وراثت یا آثار قدیمہ کی حقیقی سمجھ کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ پروجیکٹ تعمیرات، پلاننگ، دلکش منظر یا اندرونی ڈیزائننگ سے وابستہ ہو سکتے ہیں۔ یہ ایوارڈ کسی بھی ایک آرکیٹیکٹ، پلانر یا ڈیولپر کو بھی دیا جا سکتا ہے۔

2۔ شہری آثار قدیمہ کا تحفظ :
اس یوارڈ سے ایسے پروجیکٹوں کا نوازا جا ئے گا جو کہ شہری قدیم باقیات یا اسٹرکچروں کی احیا پر اس طرح سے اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ ان کے قیام کو ازسرنو یقینی بنا دیا جائے۔ ان کی بحالی نہ صرف منفرد نوعیت کی ہونی چاہیے، بلکہ اس پروجیکٹ میں عجیب و غریب شہری، معاشی، سماجی یا ثقافتی نظریہ سے وسعت بھی ہونی چاہیے۔ یہ ایوارڈ کسی بھی ڈیولپر، پلانر، ڈیزائنر، آرکیٹکٹ یا ماسٹربلڈر کو بھی دیا جا سکتاہے، جس نے اس شعبہ میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہوں۔

3۔ شہری آثار قدیمہ سے متعلق ریسرچ :
یہ یوارڈ آثار قدیمہ کے ان ریسرچ اسکالروں کو عطا کیا جائے گا جو کہ روایتی عمارتوں میں استعمال ہونے والے سامان پر تحقیق کرتے ہیں اور اس بات کا پتہ لگاتے ہیں کہ ان میں کس قسم کا سامان استعمال کیا گیا تھا۔ یہ ایوارڈ ریسرچ اسکالروں کے علاوہ فن تعمیرات کے طلبا اور ان کمپنیوں کو بھی عطا کیا جا سکتا ہے جوکہ نہایت انہماک کے ساتھ تحقیقی عوامل میں مصروف رہتے ہیں۔

4۔ لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ :
مملکت کی جانب سے یہ ایک اعزازی ایوارڈ ہے جو کہ پوری دنیا میں ان شخصیات اور اداروں کو عطا کیا جاتا ہے جو کہ شہری وراثت اور آثار قدیمہ کے میدان میں اپنی اعلیٰ ترین اور منفرد خدمات انجام دیتے ہیں۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close