Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

ضوئے اسلامی سے منور دیار مغرب

ابتدائی دور ہی سے اسلام مغربی دنیا کے نشانے پر رہا ہے اور آج بھی معتوب زمانہ ہے۔ مغربی دانشور حضرات ہوں یا مغربی میڈیا ہر پلیٹ فارم پر مسلمانوں کی طرز معاشرت اور اسلام پر منفی تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ خاص کر مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ انداز فکر و مباحثہ آج کے دور کا آئینہ ہے۔ 9/11 کے بعد تو مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک طوفان اٹھ گیا تھا۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے اسلام اور مسلمانوں کی جو تصویریں پیش کیں اس سے مغربی تہذیب و معاشرہ میں دہشت اور نفرت پھیلنا لازمی تھا مگر وقت کا یہ بھی خوشگوار منظرنامہ ہے کہ بالا ٓخر اس مغربی پروپیگنڈہ کی قلعی رفتہ رفتہ کھلتی گئی۔ مسلمانوں کے منفی نظریات کو بنیاد بناکر جو پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا اس کی ہوا نکلتی گئی۔ خاص کر امریکہ کے تئیں مسلمانوں کے افکار و نظریات کو لے کر سروے کرایا گیا۔ اس سے مغرب کی فکر پر زبردست اثر پڑا۔ معروف زمانہ آرگنائزیشن گیلپ کے چیئر مین کے ذریعہ حاصل کردہ معلومات سے یہ آشکار ہوا کہ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے اہل مغرب کے جو نظریات ہیں وہ غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ امریکہ کے 9/11 کے ٹریڈ ٹاور پر حملہ کے تناظر میں 93 فیصد مسلمانوں نے اس شیطانی عمل کی زبردست مذمت کی تھی اور اسے ہم آہنگی و اخوت و بھائی چارہ کے خلاف قرار دیا تھا۔ اہم بات تو یہ ہے کہ 9/11 کے بعد امریکی مسلمانوں کے کردار و عمل کو لے کر جو نفرت کا طوفان اٹھا تھا اس کو شفاف بنانے میں امریکی مسلمانوں کا اسلام کا اصلی چہرہ پیش کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ خاص کر قرآن کی روشنی میں یہ بتانا بھی مقصود تھاکہ کسی معصوم کا قتل انسانیت کا قتل ہے۔ زیر نظر مضمون میں امریکی مسلمانوں کے تناظر میں اسی بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ مسلمان انسانیت کے حامی اور امن و آشتی کے مقلد رہے ہیں۔ اہل مغرب کو اسلام کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، آج امریکہ میں اسلام اور اس کے پیغامات پر ریسرچ چل رہی ہے۔ قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے مغربی ملکوں میں بہت سارے اسلامک سینٹر قائم ہو چکے ہیں اور یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ مغرب کی نئی نسل اللہ کے پیغامات کو سمجھنے کی سعی کر رہی ہے۔ قرآن اہل مغرب کے لئے ایک ایسا آٗینہ ثابت ہو رہا ہے، جو مغربی میڈیا کے اسلام کے تئیں پروپیگنڈوں کی نہ صرف ہوا نکال رہا ہے بلکہ اہل مغرب کا رخ اسلام کی طرف بھی موڑ چکا ہے۔ اسلام کی افادیت اور مسلمانوں کی فکر کی حقیقت اب رفتہ رفتہ مغرب خاص کر امریکیوں میں کھلتی جا رہی ہے۔ یہ آج کے مغرب کا روشن منظرنامہ ہے اور اسی کا اثر ہے کہ نیوزی لینڈ میں جس طرح مسجد میں دہشت گردانہ حملہ ہوا، اسے نہ صرف نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا نے یوم سیاہ قرار دیا بلکہ ساری دنیا نے مذمت کی۔ بہرحال اب نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے جس میں مغرب کے دانشور، مصنف اور مغربی حکومتیں بھی اسلام کے تئیں غلط فہمیوں کا پردہ چاک کر رہی ہیں:

جب کبھی بھی اسلام اور مسلمانوں کے طرز عمل اور ان کی ’نفسیات‘ کے تعلق سے ٹیلی ویژن یا ریڈیو پر مغربی ممالک کے مفکرین اور دانشوران با وثوق انداز میں پر زور طریقہ سے متعصبانہ خیالات کا اظہار یا بحث و مباحثہ کرتے دیکھے یا سنے جاتے ہیں تو ان سے مسلمانوں کی زبردست طریقہ سے مایوسی اور دل شکنی ہوتی ہے اور اسی تشویش سے مسلمانوں کے اذہان پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ مغربی ممالک میں اس طرح کا مسلمانوں کے تعلق سے نظریہ رکھنے والے افراد کی تعداد بھی کم نہیں ہے وہ صرف مسلمانوں کے بارے میں منفی نظریہ رکھتے ہیں۔ گیلپ (Gallup) کے چیئرمین اور سی ای او جم کلفٹن (Jim Clifton) بھی ان ہی لوگوں میں سے ایک رہے ہیں جن کا کہنا تھا کہ ”واشنگٹن میں ایک بھی شخص کو اس بات کا آئیڈیا نہیں ہے کہ یہاں کے 1.3 بلین مسلمان کیا سوچتے ہیں اور یہ کہ پوری دنیا کو بدلنے کے لئے کس طرح کی حکمت عملیاں وضع کرنے میں وہ مصروف رہتے ہیں“۔ چنانچہ اسی بات کی جانکاری حاصل کرنے کے لئے کہ مسلمان کیا سوچنے میں گیلپ نے ان کی خواہشات، نظریات اور تکالیف کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کے لئے 35 ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 50,000 مسلمانوں کا جامع تجزیہ کرنے کے تعلق سے 6 برسوں تک انٹرویو کی بنیاد پر 11 سال قبل مارچ میں ایک سروے کرایا تھا لیکن ان سے انہوں نے جو نتائج اخذ کئے تھے وہ مسلمانوں کی روشن خیالی کی ترجمانی کرتے تھے، جس میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ اسلام کے تعلق سے مغربی ممالک کے نظریات بالکل غلط ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کی بھی وضاحت کی گئی تھی کہ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی قدامت پرستی یا بنیاد پرستی (Radicalism) کی مذمت کرتی ہے اور وہ بھائی چارہ اور اخوت میں یقین رکھتے ہیں۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی زبردست تقریباً 93 فیصد اکثریت میں سے 1.3 ملین مسلمانوں نے 11ستمبر 2001 کو امریکہ کے ٹریڈ سینٹروں پر کئے جانے والے حملوں کی شدید مذمت کی تھی اور سروے میں شامل کئے گئے 50,000 مسلمانوں نے اپنے میل جول اور اخوت کے نظریہ کا اظہار کیا تھا۔ اس سروے سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا تھا کہ مسلمان مغربی ممالک کے آزادی کے نظریہ اور تکنیکی و اختراعی قوت کی ستائش بھی کرتے ہیں لیکن وہ زبردستی اپنے اوپر مغربیت تھوپنے کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ گیلپ نے اپنے سروے سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا تھا کہ دنیا کے 90 فیصد مسلمانوں کی اکثریتی آبادی امن پسند ہے اور وہ امن و آشتی کا ہی پیغام دیتے ہیں۔ گیلپ سینٹر کی ڈائریکٹر برائے مسلم اسٹڈیز اور ”who Speaks for Islam“ کتاب کی معاون مصنفہ ڈالیہ موگا دیہ (Dalia Mogadeh) نے کہا تھا کہ ”ایک بلین مسلمان ایسے ہیں جو اس طرح کے دکھائی دیتے ہیں لیکن ہمیں اکثریت کی باتوں پر توجہ نہ دیتے ہوئے یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ کیا سوچتے ہیں یا ان کا نظریہ کیا ہے؟“ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ”وسیع پیمانے پر فروغ پانے والا مذہبی رجحان کسی بھی طرح سے دہشت گردی کو فروغ دینے والا نہیں ہوتا ہے۔“

اعتدال پسند مسلمانوں نے 9/11 کو امریکہ میں ہونے والے حملوں کی مذمت کی تھی کیونکہ اس حملے میں بہت سے معصوم افراد اور دیگر شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ اس تعلق سے ڈالیہ نے مزید کہا تھاکہ ”دراصل ان میں سے کچھ مسلمانوں نے مذہبی جواز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ 9/11 کے حملے کے خلاف کیوں ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ آیت کریمہ کے مطابق کسی معصوم شخص کا قتل کرنا انسانیت کا قتل کرنے کے مترادف ہے۔“ اس سروے سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا تھا کہ بہت سے بنیاد پرست مسلمانوں نے اس حملے کا سبب مذہب سے نہیں بلکہ سیاست سے منسوب کیا تھا۔ اس سروے سے اس بات کا اندازہ بھی ہو گیا تھا کہ انتہا پسند لوگ نہ تو اعتدال پسند لوگوں سے زیادہ مذہبی ہیں اور نہ ہی غربت یا پناہ گزیں کیمپوں کی مایوس کن حالت کی پیداوار ہیں۔ واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے ایک پروفیسر جان ایسپوسیٹو (John Esposito) جوکہ ’Who Speaks for Islam‘ کتاب کے معاون مصنف بھی رہے تھے کا کہنا ہے کہ ”اہم دھارا (Main Stream) میں شامل مسلمانوں کے مقابلے بنیاد پرست زیادہ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور ان کی ملازمتیں بہت اچھی ہوتی ہیں لیکن وہ بہتر سے بہتر مستقبل کے آرزو مند ہوتے ہیں۔“

ایسپو سیٹو نے ایک مرتبہ کسی اخبار یا چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”یہاں پر سروے کرنے والے بہت سے ادارے ہیں لیکن گیلپ سروے کے میدان میں اگر ایک لیڈر کی حیثیت نہیں رکھتا ہے تو کوئی بھی شخص واضح طور پر یہ ضرور کہے گا کہ اس شعبہ میں گیلپ معیارات کے اعتبار سے شہرت کا حامل ادارہ ہے۔ ہم جب گیلپ کے ذریعہ کرائے گئے پوری دنیا کے سروے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں تو کوئی دوسرا ادارہ محض 35 فیصد مسلم ممالک پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا طرز عمل ہے کہ وہ شہری اور دیہی فرق، مرد و خواتین، نوجوانوں اور عمر رسیدہ افراد اور مختلف سماجی واقتصادی طبقات وغیرہ پر ہی اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں جوکہ بہت ہی سلسلے وار تواتر کے ساتھ طرز عمل کے تحت ہوتا ہے اور یہ ایک قسم کا خاکہ ہی ہوتا ہے۔اس میں صرف آپ ڈیٹا دیکھ سکتے ہیں۔ ان معیارات کے اداروں کے ذریعہ کم و بیش مسلم ممالک کے باشندوں کے بارے میں صرف جانکاری ملتی ہے۔“ انہوں نے مزید کہاکہ گیلپ کے ذریعہ کرائے گئے وسیع ترین سروے انفرادی نوعیت کا ہے کیونکہ ہم کچھ لوگوں کے بارے میں ہی بات نہیں کرتے ہیں بلکہ منظم طریقہ سے سلسلے وار جامع سروے کرتے ہیں۔ ہم نے 2001 سے 2007 تک ڈیٹا جمع کئے تھے۔ مسلم ممالک کے مختلف علاقوں کے لو گوں کی اس میں نمائندگی کی گئی تھی۔ یہ سروے محض مشرق وسطیٰ تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ اس میں جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور انڈونیشیا کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو یہ ایک نہایت نفیس ذریعہ ہے لوگوں کو اچھی طرح سے سمجھنے کا۔“

گیلپ نے اپنے مطالعاتی سروے کا آغاز 9/11 کے بعد اس وقت کیا تھا جب امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش نے اپنی تقریر میں یہ کہا تھا جس کا حوالہ کتاب میں بھی دیا گیا ہے کہ ”وہ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟”بش نے اس کی وجہ بھی بیان کی تھی کہ ”وہ (مسلمان) ہماری آزادی سے نفرت کرتے ہیں، وہ ہماری مذہبی آزادی، اظہار خیال کی آزادی، ووٹ دینے کی آزادی کے علاوہ ہمارے جمع ہونے اور ایک دوسرے سے سیاسی اختلاف رکھنے سے بھی نفرت کرتے ہیں۔“ لیکن یہ سروے عام مسلمانوں عالمی مباحثوں میں اپنی آواز اٹھانے کا موقع فراہم کرتا ہے جنہوں نے 9/11 میں یا اس کے بعد خود کو ایک دائرہ تک محدود کر لیا تھا۔ تاہم اس سروے سے اس بات کی وضاحت ہوگئی تھی کہ زیادہ تر مسلمان مغربی ممالک کے بہت سے معاملات کی ستائش کرتے ہیں وہ صرف اس بات کو پسند نہیں کرتے ہیں کہ مغربی تہذیب یا اس کے طور طریقے ان پر تھوپے جائیں۔ ایسپوزیٹو نے مزید کہا تھاکہ ”وہ خود داریت پسند ہیں اور وہ تشریح شدہ یا زبردستی نافذ شدہ جمہوریت نہیں چاہتے ہیں۔“ ایسپوزیٹو نے اس نکتہ کی تفصیل کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ”جب مسلمانوں سے یہ پو چھا جاتا ہے کہ کیا وہ کسی بات یا چیز کے بارے میں مغرب کی ستائش کرتے ہیں؟ اور اس کے برعکس جب امریکی باشندوں سے یہ پوچھا گیا کہ وہ مسلمانوں کے بارے میں ان کی کس بات پر ستائش کرتے ہیں تو واضح طور پر ان کے جواب مل گئے تھے۔ امریکی باشندوں کی اکثریت کا جواب یہ تھاکہ ”میں کچھ نہیں جانتا“ یا پھر یہ جواب تھا کہ ”مجھے نہیں معلوم“ لہذا تقریباً 56فیصد امریکی باشندوں کا یہی جواب تھا۔

حالانکہ ہم مسلمانوں سے بہت زیادہ آزردہ ہوئے تھے تاہم ہم نے ان سے بات چیت کی تھی اور ہم نے ان سے معلوم کیا تھا کہ وہ کس طرح سے ہماری ستائش کرتے ہیں، کس طرح سے وہ ہماری آزادی، ہماری اخلاقی اقدار، ہماری ٹکنالوجی اور کلی طور پر ہماری خصوصیات کی ستائش کرتے ہیں اور جب ان
سے یہ پوچھا گیاکہ مغرب کے تعلق سے ان کی کیا آزردگی اور تشویشات ہیں تو اس کے بارے میں ان کا موقف بالکل واضح اور شفاف تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اسلام کی بدنامی اور مسلمانوں کو ذلیل کئے جانے سے خفا اور آزردہ خاطر ہیں اور دہشت گردوں کے طور پر ان کی شبیہ پیش کی جا رہی ہے۔امریکی باشندوں اور حملے کے تعلق سے ان کی فکر مندی واضح طور پر ظاہر ہو رہی تھی لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہمارے (امریکی باشندوں) تعلق سے ان کا نظریہ کیا ہے۔ وہ ہم سے نفرت کرتے ہیں کہ ہم کون ہیں؟ ہمارے اقدار کیا ہیں، ہماری جمہوریت اور آزادی کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے تو انہوں نے اس بات پر خاموشی اختیار کر لی تھی اور خاموشی کا مطلب نیم رضامندی ہوتی ہے۔

اس سروے میں جو نہایت اہم بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ مغربی ممالک مسلم معاشرے سے اپنے رشتے اور تعلقات بہتر بنائیں۔ اس سے مسلم معاشرے میں تبدیلی رونما ہو جائے گی۔ علاوہ ازیں وہ مذہب اسلام کا بھی احترام کریں۔ اس سے اسلام اور مغرب کے درمیان جو کدورت ہے وہ بھی دور ہو جائے گی۔ مذکورہ بالا کتاب”Who Speaks for Islam“ کے مصنفین کا کہنا یہ بھی تھاکہ اسلام اور مغرب کے درمیان جو تنازع ہے وہ نا گزیر نہیں ہے۔ اس لئے فیصلہ کرنے والوں کو ان کی نہ صرف بات سننی چاہئے بلکہ نئی حکمت عملیوں پر بھی غور کرنا چاہئے تاکہ دونوں اطراف کی جانب سے دہشت گردوں کو کوئی جگہ نہ مل سکے۔ گیلپ نے اپنے سروے کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کا انکشاف کیا تھاکہ مسلمانوں کے تعلق سے مغربی دنیا کے جو نظریات ہیں وہ بالکل غلط ہیں اور پوری دنیا نے ہماری آواز کو سنا اور اس کا تجزیہ کیا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے تعلق سے ان کے نظریہ اور موقف میں تبدیلی رونما ہوئی ہے کیونکہ وہ مقدس قرآن کریم کے درس کے مطابق امن و آشتی میں یقین رکھتے ہیں لہذا دہشت گردی کا مذہب سے
کوئی تعلق نہیں ہے۔

اسی سال نیوزی لینڈ میں 15 مارچ بروز جمعہ آسٹریلوی نژاد 28 سالہ عیسائی نسل پرست برنٹین ٹارینٹ (Brenton Tarrant) نے النور مسجد (Christchurch Mosque) میں دھماکہ کر دیا تھا، جس میں 51 افراد ہلاک اور 49 زخمی ہوئے تھے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈین نے اس سانحہ کو ”نیوزی لینڈ کا سب سے بدترین یوم سیاہ“ قرار دیا تھا اور اسے قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے نہ صرف قومی پرچم کو نصف مستول پر رکھنے کا حکم صادر کر دیا تھا بلکہ انہوں نے مہلوکین کے ورثا سے تعزیت کرتے ہوئے ان کی معاشی معاونت بھی کی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے جمعہ کے دن مسجد کے اطراف میں سیکورٹی گارڈ تعینات کرنے کا حکم بھی دے دیا تھا۔ وزیر اعظم آرڈین کے اس اقدام کی نہ صرف پوری دنیا میں ستائش کی گئی تھی بلکہ اس سے مغربی ممالک کو بھی ایک مثبت پیغام پہنچ گیا تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ جنون میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس سانحہ کا ذکر کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ گیلپ نے اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ اس کی آواز پوری دنیا میں سنی گئی اور نیوزی لینڈ کا سانحہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ مذہب اسلام کے پیرو کار دہشت گرد نہیں ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مذہب کے مطابق بقائے باہم میں یقین رکھتے ہیں۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close